سلسله(7)

وصیت اور وراثت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

8-طبی آلات کے ذریعے نو مولود کی زندگی کا ثبوت:

تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ ترکہ میں حمل کا بھی حصہ ہوگا بشرطیکہ مورث کے موت کے وقت عورت حاملہ ہو گرچہ حمل نطفہ کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو  نیز وہ زندہ پیدا ہو۔
زندہ پیدا ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ پیدائش کے بعد روئے چلائے اور عام طور پر بچے پیدائش کے بعد روتے ہیں اس لیے حدیث میں کہا گیا ہے:
اذا استهل المولود ورث.
جب بچہ آواز نکالے تو وہ وارث ہوگا۔
( سنن ابو داوود: 2920سنن ابن ماجه:1508)
اور جامع ترمذی میں ہے:
الطفل لا يصلى عليه ولا يرث ولا يورث حتى يستهل۔
بچے پر نہ تو نماز پڑھی جائے گی اور نہ وہ وارث ہوگا اور نہ کسی کو وارث بنائے گا یہاں تک کہ وہ آواز نکالے۔
(جامع الترمذي:1032)
لیکن اگر کوئی بچہ آواز نہ نکالے تو دیکھا جائے گا کہ ولادت کے وقت زندگی کی دوسری واضح علامتیں موجود ہیں یا نہیں ؟اگر دوسری علامتیں موجود ہیں تو اسے زندہ سمجھا جائے گا مثلا جمائی لینا، حرکت کرنا سانس لینا ،آنکھ کھولنا اور بند کرنا اور ہاتھ پیر چلانا وغیرہ ، جمہور اسی کے قائل ہیں (1)
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ایک حدیث میں ہے :
استهلال الصبي العطاس.
بچے کا چھینکنا آواز نکالنا ہے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا کہ حدیث کی سند ضعیف ہے۔( تحفۃ الاحوذی، حدیث:1032)۔
اور امام زہری کہتے ہیں:
ارى العطاس استهلالا.
میرا خیال ہے کہ چھینکنا بھی آواز نکالنا ہے.
(عون المعبود، حدیث:2920)
اسی طرح سے طبی آلات کے ذریعے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ وہ زندہ پیدا ہوا یا نہیں ؟۔
واضح رہے کہ طبی آلات کے ذریعے پیدائش سے پہلے زندہ ہونے کے بارے میں معلوم ہو جائے لیکن مردہ پیدا ہو تو اس کا اعتبار نہیں ہے کیونکہ حکم کا مدار زندہ پیدا ہونے پر ہے نہ کہ پیٹ میں زندہ ہونے پر اس لئے کہ وفات کے بعد ایک مدت تک پیٹ میں اس کی موجودگی بلکہ اس کی حرکت خود اس کے زندہ ہونے کی علامت ہے لیکن شریعت نے اس کا اعتبار نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ جب وہ زندہ پیدا ہو تو وارث ہوگا۔

(1) اراد العلم بحياته بصياح او نفس او حركة او عطاس (تحفة الاحوذي. حديث :1032)
قال في شرح السنة… فان خرج حيا ثم مات يورث منه سواء استهل او لم يستهل بعد ان وجدت فيه امارة الحياة من عطاس او تنفس او حركة دالة على الحياة. (عون المعبود حديث:2920)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے