سنت جمعہ:
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
ہر چیز کی طرح نیکیوں کے بھی کچھ مخصوص موسم ہیں جن میں نیکیاں بڑھتی اور پروان چڑھتی ہیں،پھلتی اور پھولتی ہیں۔ سرسبز و شاداب اور پر بہار ہوجاتی ہیں۔ اس نورانی ماحول میں ایک خاص کیفیت ہوتی ہے جس سے نیکیوں اور عبادتوں کا ثواب چند دوچند ہوجاتا ہے، انہیں میں سے ایک جمعہ کا دن ہے، جسے حدیث میں سب سے اچھا اور بہتر دن کہاگیا ہے۔ (3) اس دن صبح سویرے مسجد پہونچنے اور عبادت و نوافل میں مشغول رہنے کی بڑی فضیلت اور بڑی تاکید کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے :
من غسل واغتسل وغدی وابتکر ودنا من الامام ولم یلغ کان لہ بکل خطوۃ عمل سنۃ صیامھا وقیامھا ۔
جو کوئی جمعہ کے دن غسل کرکے مسجد میں آئے اور امام سے قریب بیٹھے، کوئی لغو کام اور گفتگو نہ کرے تو اس کے ہر قدم چلنے کے بدلے میں ایک سال کے روزہ اور نماز کا ثواب ملے گا۔(ترمذی 111/1، نسائی205/1 واللفظ لہ)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
من اغتسل ثم اتی الجمعۃ فصلی ما قدر لہ ثم انصت حتی فرغ الامام من خطبتہ ثم یصلی معہ غفر لہ ما بینہ و بین الجمعۃ الاخری وفضل ثلثۃ ایام ۔
جو کوئی جمعہ کے دن غسل کرکے مسجد میں آئے اور جتنی سنت و نفل اس کے مقدر میں ہو پڑھے، پھر خاموش اور دھیان سے خطبہ سنتا رہے۔ اور امام کے پیچھے فرض اداکرے، تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ کے درمیان اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ (رواہ الامام مسلم (بلوغ المرام 102)
نیز ایک حدیث میں ہے :
فیھا ساعۃ لایوافقھا عبدمسلم وھوقائم یصلی لایسال شئیا إلاأعطاہ۔ (رواہ البخاری ومسلم ۔ریاض الصالحین/383)
جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر ٹھیک اسی گھڑی میں کوئی مسلمان بندہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے اور اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرتے ہیں۔
جعمہ سے پہلے کی سنتیں:
احادیث کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جمعہ سے پہلے کثرت سے نوافل کا اہتمام پسندیدہ اور بہتر ہے۔ کم از کم چار رکعت توضرور پڑھ لیناچاہئے کہ وہ سنت موکدہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھاکرتے تھے ۔(4) اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کو چار رکعت پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے .(5) واضح رہے کہ عبداللہ بن مسعود سفر و حضر میں آنحضورﷺ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ آپؐ کے یہاں ان کی آمد و رفت اس قدر کثرت سے رہا کرتی تھی کہ لوگ انہیں خاندان نبوت کا ایک فرد خیال کرتے تھے۔ عبداللہ بن مسعودؓ کی اس حیثیت کے ساتھ یہ بھی پیش نظر رہے کہ اس طرح کی بات ذہن سے سوچ کر اور قیاس کرکے نہیں کہی جاسکتی ہیں، یقینی طور پر اس سلسلہ میں آپ کے سامنے نبی ﷺ کا ارشاد و عمل ہے، اس لئے لوگوں کو چار رکعت کی ادائیگی کا حکم دے رہے ہیں۔ (اعلاء السنن 7/7)
جمعہ کے بعد کی سنتیں:
حدیث میں ہے کہ جب تم جمعہ پڑھ لو تو اس کے بعد چار رکعت پڑھو (6) لیکن عملی طور سے آنحضور سے دورکعت پڑھنا ثابت ہے۔(انہ کان یصلی بعد الجمعۃ رکعتین .مسلم 288/1)
ان مختلف احادیث کی وجہ سے علماء کے درمیان بھی اختلاف ہے کہ جمعہ کے بعد دورکعت سنت ہے یا چار رکعت یا چھ رکعت؟ بعض حضرات نے اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد و عمل دونوں کو جمع کردیا اور اس بات کے قائل ہوئے کہ جمعہ بعد چھ رکعت سنت ہے۔ صحابہ ؓ میں حضرت علیؓ ،ابوموسیٰ اشعریٰ ؓ کا عمل اس کے مطابق تھا۔ (معارف السنن 412/4)
امام ابویوسف اور امام محمد اسی خیال کے حامی ہیں۔ (معارف السنن 411/4) امام ابوحنیفہؓ کے نزدیک چار رکعت سنت ہے؛کیوں کہ آنحضور ﷺ کا دو رکعت پڑھنا بطور عذر اور بہ ضرورت تھا۔ (7) اور امام شافعی کے یہاں صرف دو رکعت سنت موکدہ ہے۔(8)
بعض حنفی فقہاء کا خیال ہے کہ اختلاف سے بچنے کیلئے بہتر ہے کہ جمعہ کے بعد چھ رکعت پڑھی جائے چار بطور سنت موکدہ اور دو غیر موکدہ ۔پہلے چار رکعت پڑھے اور پھر دورکعت ، (9) لیکن علامہ کشمیری کا رجحان ہے کہ پہلے دو رکعت پھر چار رکعت پڑھنا اچھا ہے۔ کیوں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت علی کا یہی عمل تھا۔ (العرف الشذی 116/1 ۔معارف السنن 412/4 ۔رواہ الطحاوی بسند صحیح 14/7، اعلا السنن 14/7)
یہ چار رکعت ایک سلام سے پڑھی جائے گی دو سلام سے پڑھنے میں سنت ادا نہیں ہوگی۔ البتہ اگر کوئی عذر ہو تو پھر گنجائش ہے۔ (مراقی الفلاح 259، ردالمحتار 454/1، اعلاء السنن 6/7)