بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(1)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

1-نیا سال منانا:

دنیاوی زندگی اس لیے عطا کی گئی ہے تاکہ آخرت کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی کے لیے تیاری کی جائے اور اچھا سے اچھا کام کیا جائے ارشاد ربانی ہے:
الَّذِیۡ  خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ  اَیُّکُمۡ  اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ  الۡغَفُوۡرُ ۙ۔
جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے، اور وہی ہے جو مکمل اقتدار کا مالک، بہت بخشنے والا ہے۔ (سورہ الملک: 2)
اگر ہماری عمر کا ایک سال اللہ کی عبادت و اطاعت میں گزرا ہے تواس پر شکر ادا کرنا اور مزید کی توفیق طلب کرنی چاہیے۔اور اگر عمر گرانمایہ نافرمانی اور سرکشی میں گزری ہے تو استغفار اور توبہ اور ائندہ کے لیے اچھے عمل کرنے کا عزم اور عہد کرنا چاہیے۔
اور زندگی کا ایک قیمتی سال کھیل تماشہ میں گزارنے پر چشن منانا اللہ کی غضب کو دعوت دینا ہے کہ یہ افسوس و ندامت کا موقع ہے نہ کہ جشن منانے کا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوتا جتنا کہ ایسے دن کے سورج کے غروب ہونے پر ہوتا ہوں جس میں میرا ایک دن کم ہو گیا ہو اور میرے عمل میں کوئی اضافہ نہ ہوا ہو۔(قيمة الزمن عند العلماء/27) اور حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اے انسان تو دنوں کا مجموعہ ہے اور جب ایک دن ختم ہو گیا تو سمجھ لے کہ تیرا ایک حصہ ختم ہو گیا .(حوالہ مذکور)
دنیا کی جتنی قومیں اور مذاہب ہیں ان کے تہوار کا ایک خاص پس منظر اور کوئی تاریخی واقع ہوا کرتا ہے اور مسلمانوں کی خصوصیات یہ ہے کہ ان کی عید خود ان کے نیک عمل سے وابستہ ہے چنانچہ عید فطر رمضان جیسی اہم عبادت اور عید قرباں حج جیسی عظیم الشان عبادت کی توفیق پر ادا کی جاتی ہے۔
جنوری کی پہلی تاریخ کو نیا سال منانا نصرانیوں کا طریقہ ہے جس کا تعلق بعض اوہام و خرافات سے ہے اس لیے مسلمانوں کو ان کی روش سے احتراز کرنا اور غیر قوموں کی تہذیب و ثقافت کی نقالی سے پرہیز کرنا چاہیے کہ یہ نقالی درحقیقت ان سے مرعبوبیت کی علامت ہے اس لیے رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من تشبه بقوم فهو منهم.
جو کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو اس کا شمار انھیں میں ہوگا ۔(سنن ابو داؤد:4031)
نیز حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلَاثَةٌ : مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لِيُهَرِيقَ دَمَهُ ".
اللہ کی نگاہ میں تین لوگ شدید مبغوض ہیں: حرم میں حق سے روگردانی کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کے طور طریقے تلاش کرنے والا اور ناحق کسی کے خون کوبہانے کی خواہش رکھنے والا۔(صحيح بخاري :6882)
اور شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں:
فلا فرق بين مشاركتهم في العيد وبين مشاركتهم في سائر المناهج.
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ان کے تہوار میں شریک ہے یا ان کے دوسرے طور طریقوں میں ۔
( اقتضاء صراط المستقيم528/1)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے