عید ین کی راتوں میں نوافل :
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
عید کے معنی خوشی کے ہیں‘ لیکن اسلام میں خوشی عیش پرستی اور رنگ رلیوں میں مصروف ہوجانے کا نام نہیں، بلکہ خوشی کا دن بھی روحانیت کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہے کہ بندہ ان اوقات میں اللہ کی نوازشوں اور کرم واحسان کے احساس سے سرشار اور بے خود ہوکر اس کے سامنے جھک جاتا ہے، اس کی ہر ادا سے تشکر اور بندگی کے جذبات نمایاں ہوتے ہیں۔
ایسی پرمسرت گھڑیوں میں جو کوئی اپنے رب کو یاد کرتا ہے، اپنے دل کو اس کی یاد میں مشغول رکھتا ہے تو اس وقت جبکہ قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے دل مردہ ہوجائیں گے۔ اسے ایک طرح سے اطمینان اور سکون کی کیفیت میسر ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
من احیی لیلۃ الفطر ولیلۃ الاضحیٰ لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب ۔( فیہ عمرو بن ہارون البلغی والغالب علیہ الضعف واثنی علیہ ابن مھدی وغیرہ لکن ضعفہ جماعۃ کثیرۃ وقال البخاری مقارب الحدیث )
جو کوئی عیدالفطر اور عیدالاضحی کی راتوں میں عبادت کرے تو جس دن کہ دلوں پر موت طاری ہوجائے گی اس کا دل مردہ نہیں ہوگا۔( دیکھئے: اعلاء السنن 35/7)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
من قام لیلۃ العید محتسبا لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب .
جو شخص عید کی شب میں ثواب کی نیت سے نماز پڑھے تو جس دن دل مردہ ہوجائیں اس کا دل زندہ رہے گا۔(رواہ ابن ماجہ۔ ورواتہ ثقات الاان بقیۃ مدلس وقد عنعنہ۔ ( اعلاء السنن 37/7)
یہ دونوں حدیثیں گرچہ ضعیف ہیں لیکن فضائل میں ضعیف حدیثوں کا بھی اعتبار کرلیا جاتا ہے، امام نووی لکھتے ہیں:
یجوز عنداھل الحدیث التساھل فی الاسانید الضعیفۃ وروایتہ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ فی غیر صفات اللہ والاحکام .
محدثین کے یہاں ضعیف سندوں میں نرمی برتنا اور موضوع کے سوا ضعیف حدیثوں کو روایت کرنا اور ان کا ضعف بیان کئے بغیر اس پرعمل کرنا جائز ہے البتہ اللہ کی صفات اور احکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا درست نہیں ۔(تدریب الراوی 196)
اس لئے ان راتوں میں جاگنا اور نوافل وغیرہ پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔(مراقی الفلاح 218) افسوس کہ اس قدر فضیلت اور اہمیت کی رات کو لوگ کھیل کود، سیروتفریح میں گنوادیتے ہیں۔خود ان کا گھر تو عبادت کے نور سے تاریک رہتا ہے لیکن بازار کی رونق میں اضافہ ہوتا ہے۔