(نماز کسوف)سورج گرہن:

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

کسوف اورخسوف‘چاند اور سورج دونوں کے گہن کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن فقہی کتابوں میں عام طورپر سورج گرہن کے لئے کسوف اور چاند گرہن کے لئے خسوف استعمال ہوتا ہے. (الفقہ الاسلامی دادلتہ 395/2)
سورج یا چاند گرہن طبعی اسباب کے تحت ہوتا ہے۔اس کا ایک مخصوص نظام ہے چنانچہ سالوں پہلے بتایا جاسکتا ہے کہ فلاں وقت گرہن لگے گا لیکن طبعی اسباب کے ماتحت ہونے کے باوجود بھی یہ اپنے حد سے بڑھکر عذاب ثابت ہوسکتاہے چنانچہ پچھلی امتوں پر جتنے بھی عذاب آئے وہ طبعی اسباب ہی کے تحت ظاہر ہوئے اور اپنی حد سے آگے بڑھ کر عذاب کی شکل اختیار کرگئے۔ مثلاً قوم نوح پر بارش اور قوم عاد پر آندھی وغیرہ… خاص طور سے سائنسی تحقیق کے مطابق کسوف و خسوف کے لمحات انتہائی نازک ہوتے ہیں؛ کیونکہ کسوف کے وقت چاند، سورج اور زمین کے درمیان حائل ہوتا ہے اور سورج اور زمین دونوں اپنی کشش ثقل سے اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں، ان لمحات میں خدانخواستہ اگر کسی ایک جانب کی کشش غالب آجائے تو سارا نظام عالم درہم برہم ہوجائے گا۔(دیکھئے: درس ترمذی 342/2 ،معارف السنن 31/5)اس لئے ایسے موقع پر استغفار و دعا کرنا اور اللہ کی جانب متوجہ ہونا اس کے حضور سجدہ ریز ہوجانا ہی ایک مومن کی شان ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں صرف ایک مرتبہ سورج گہن لگا۔(معارف السنن 5/5) جبکہ آپ کے شیرخوار صاحب زادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا،عربوں کا اعتقاد تھا کہ بڑے آدمیوں کی موت پر یا غیر معمولی حادثہ پیش آنے پر سورج گرہن لگتا ہے۔گویا سورج ماتم میں سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے ۔حضرت ابراہیم کی موت کے وقت سورج گرہن لگنے کی وجہ سے اس خیال کی ایک طرح سے تائید ہوگئی اور بے ساختہ لوگوں کی زبان پر آگیا ہے کہ’’ ابراہیم کی موت کی وجہ سے گہن لگا ہے” ۔(کسفت الشمس لموت ابراہیم .صحیح بخاری142/1) رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر نہایت ہی خشیت اور فکر مندی کے ساتھ دورکعت نمازٖ پڑھائی، نماز کے بعد خطبہ دیا جس میں آپ نے موثر اور پرزور انداز میں اس غلط اعتقاد کی تردید فرمائی، آپ نے فرمایا: سورج اور چاند گہن اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ ( کہ یہ چمکتا ہوا سورج جو اپنی ضیاء پاش کرنوں سے ایک عالم کو منور کررہاتھا پل بھر میں اپنی تمام تر رعنائی کھو بیٹھا)کسی کی موت اور زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اللہ اس طرح سے اپنے بندوں کو خوف دلانا چاہتا ہے، اس لئے تمہارے ساتھ جب بھی یہ معاملہ پیش آئے تو جلدی سے ذکر،دعا اور استغفار میں لگ جاؤ(صحیح بخاری و مسلم۔مشکوۃ 130/1)ایک دوسری روایت میں ہے :
جب تم گہن دیکھو تو اللہ سے دعا کرو ، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ وخیرات کرو ۔ اے امت محمدؐ! جنتی ناگواری کسی کو اپنے غلام یا باندی کی بدکاری سے ہوتی ہے اس سے زیادہ ناگواری اللہ کو اپنے بندہ اور بندی کی بدکاری سے ہوتی ہے۔ اے امت محمدؐ! اللہ کی قسم جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
نماز کسوف سنت موکدہ ہے، بعض احناف وجوب کے بھی قائل ہیں ۔(عمدۃ القاری 61/5)

وقت:

نماز کسوف کا وقت گہن شروع ہونے سے ختم ہونے تک ہے، نماز شروع ہونے سے پہلے ہی گہن ختم ہوجائے تو پھر نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ نماز کے بعد بھی گہن برقرار رہے تو ختم ہونے تک دعا واستغفار میں مشغول رہنا چاہئے۔ (تاتارخانیہ 118/2 ردالمحتار 622/1)
اوقات مکروہ میں نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ بلکہ دعا اور استغفار میں مصروف رہیں گے۔(ھندیہ153/1) حضرت قتاوہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ عصر کے بعد سورج گہن لگا اس وقت ہم مکہ میں تھے۔ لوگ دعا میں مشغول ہوگئے۔ میں نے اس سلسلہ میں حضرت عطا سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگے یہی سوال میں نے امام زہری سے کیا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ صحابہ کرام اس وقت دعا وغیرہ کیا کرتے تھے۔ (المغنی 142/2)
گہن کے وقت کسی فرض نماز کا وقت ہوجائے تو پہلے فرض نماز پڑھی جائے گی اس کے بعد گہن باقی رہے تو نماز کسوف پڑھی جائے گی۔(حوالہ سابق)
عیدین کی نماز کے وقت گہن لگ جائے تو جس نماز کے فوت ہوجانے کی کا اندیشہ ہو اسے پہلے پڑھیں گے۔(الاتحاف 721/3 ، ردالمحتار 611/1)

پڑھنے کا طریقہ:

دیگر نمازوں کی طرح یہ نماز بھی پڑھی جائے گی،امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے۔ امام مالک شافعی احمد کے نزدیک ہر رکعت میں دو رکوع ہے۔ پہلے قیام ،قرات،پھر رکوع،دوبارہ پھر قیام ،قرات اور رکوع۔ مگر ان حضرات کے نزدیک بھی ایک ہی رکوع پر اکتفا کرلینا جائز ہے۔ پہلا رکوع اور قیام فرض ہے۔ دوسرا مندوب اور مستحب۔ (الفقہ علی مذاہب الأربعۃ 364/1) ان حضرات کے پیش نظر وہ روایتیں ہیں جن میں صراحت ہے کہ آنحضور ﷺ نے نماز کسوف میں دو رکوع کیا۔اس طرح کی روایتیں حضرت عائشہ‘ حضرت اسماء‘ حضرت عبداللہ بن عباس ‘حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص اور حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہیں اور حدیث کی مشہور کتابوں مثلا صحیح بخاری، مسلم ،نسائی وغیرہ میں موجود ہیں۔ بعض روایتوں میں پانچ رکوع تک کا بھی تذکرہ ہے۔ مگر وہ محدثین کے اصول پر پوری نہیں اترتیں۔ علامہ کشمیری لکھتے ہیں:
والحق ان الروایات التی اعلھا الائمۃ معلولۃ ( العرف الشذی 124/1۔ والارجح عندی ان النبی رکع رکوعین والباقی اوھام۔ فیض الباری 381/2)
حنفیہ ان روایتوں کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ یہ آپ ﷺ کی خصوصیت ہے۔(بدائع 281/1) واقعہ بھی یہی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے خطبہ کے میں اس نماز کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
فاذا رایتموھا فصلوا کاحدث صلاۃ صلیتموھا من المکتوبۃ ۔ (اخرجہ ابوداؤدوالحا کم ۔ و النسائی ‘ ورجالہ رجالہ الصحیح۔عون المعبود 52/4)
جب سورج گہن لگے تو اس فرض نماز کی طرح جسے تم ابھی پڑھ کر آئے ہو نماز ادا کرو۔
اس حدیث میں’’ احدث صلوۃ ‘‘ سے مراد نماز فجر ہے ؛کیونکہ نماز کسوف آپ ﷺ نے چاشت کے وقت پڑھی تھی (بخاری 143/1۔ باب التعوذ من عذاب القبرفی الکسوف۔ السنن الکبری 322/3)
خطبہ میں صراحتاً امت کو یہ تعلیم دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آنحضور ؐ لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ میری اس نماز میں کچھ نئی باتیں دیکھنے کو ملیں گی مگر وہ تمہارے لئے قابل تقلید نہیں۔ وہ میری خصوصیت ہے کہ میرے سامنے سے غیب کے پردہ اٹھادئے گئے تھے۔ جنت و جہنم میری نگاہوں کے سامنے تھی۔ اس لئے میں کبھی آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے ہٹتا ۔( بخاری 144/1) اور کبھی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگتا.( مسلم 299/1 . معارف السنن 25/5-3) اور خشوع و خضوع کی خاطر رکوع کی طرح جھک جاتا … یہ سب چیزیں غیبی مشاہدہ کی وجہ سے پیش آئیں، اس وجہ سے تمہارے لئے یہ قابل تقلید نہیں، تم تو دیگر نمازوں ہی کی طرح پڑھنا۔

قرأت:

اس نماز میں خلاف عادت آنحضور ﷺ نے بڑی طویل قرات کی حالانکہ جماعت سے نماز میں آپ ﷺ طویل قرات سے منع کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرا اندازہ ہے کہ آپ ﷺ نے پہلی رکعت میں سورہ بقرہ اور دوسری میں سورہ آل عمران پڑھی۔ یہاں تک کہ بعض صحابہ غش کھاکر گر پڑے، ان کے سروں پر پانی ڈالا گیا تو افاقہ ہوا۔ (الستہ ۔جمع الفوائد 107/1)
رسول اللہ ﷺ کے اس طرز عمل کے مطابق اس نماز میں طویل قرات مسنون ہے۔تاہم مختصر قرات میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ اس لئے کے مقصود گرہن ختم ہونے تک نماز اور دعا وغیرہ میں مشغول رہنا ہے۔نماز ہلکی پڑھ کر دیر تک استغفار و دعا میں مشغول رہ کر یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔(کبیری 426)
حدیث میں قرءت ،آہستہ اور آواز سے دونوں کا تذکرہ ملتا ہے۔اسی بنیاد پر قرأت آہستہ اور بآواز پڑھنے کے سلسلہ میں ائمہ کرام کے درمیان اختلاف ہے ، امام ابوحنیفہ، مالک،شافعیؒ آہستہ اور بے آواز پڑھنے کے قائل ہیں۔امام احمدبن حنبل، ابویوسف اور محمد کےنزدیک آواز سے پڑھنا مسنون ہے۔ امام ابوحنیفہ سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے۔(معارف السنن 29/5)
اور عملی طورپر امام ابوحنیفہ و شافعی دونوں کے ماننے والوں نے اسی کو اختیار کرلیا ہے اس لئے اب عام طور سے بلند آواز ہی سے قرأت کی جاتی ہے۔(تقریر ترمذی/19 مولانا محمود حسن)

خطبہ :

نماز کے بعد خطبہ دینا مسنون ہے(الاتحاف 716/3 ‘ اعلاء لسنن 143/1) خطبہ میں گرہن کی حقیقت بیان کی جائے۔ صدقہ وخیرات پرلوگوں کواُبھارا جائے۔استغفار اور رجوع الی اللہ کی ترغیب دی جائے … یہ خطبہ جمعہ کی طرح دو نہیں بلکہ صرف ایک ہوگا۔(اعلاء السنن 143/8)
جمعہ کے وقت گہن لگا ہوا اور فرض سے پہلے ہی کسوف کی نماز پڑھی جاچکی ہے تو اب جمعہ کے خطبہ کے ضمن میں ان چیزوں کا تذکرہ کردیا جائے، علٰحدہ سے کسوف کے لئے خطبہ کی ضرورت نہیں ،لیکن اگر جمعہ کی فرض نماز پہلے پڑھی گئی ہوتو اب دوبارہ علٰحدہ سے اس کے لئے خطبہ دیا جائے۔عیدین میں دونوں صورتوں میں صرف عیدین ہی کے خطبہ پراکتفا کیا جائے۔ (الاتحاف 721/3)

متفرق مسائل:

یہ نماز عیدین کی طرح بغیر اذان اور اقامت کے ادا کی جائے، البتہ اطلاع کے لئے ’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ یا اس جیسے دوسرے الفاظ میں اعلان کردینا مسنون ہے۔(صحیح بخاری 142/1 مراقی الفلاح 356)
اس نماز کو میدان یا جنگل میں پڑھنے کے بجائے مسجد میں پڑھا سنت ہے۔(صحیح بخاری 144/1)
اورعورتوں کوبلا جماعت اپنے اپنے گھروں میں پڑھنا چاہئیے۔(ردالمحتار 623/1)
کسوف میں قبلہ رو ہوکر یا لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر دونوں طرح سے دعا مانگنا درست ہے۔ لیکن کھڑے ہوکر دعا مانگنے کی صورت میں لوگوں کی طرف متوجہ ہونا اور بیٹھ کر مانگنے کی صورت میں قبلہ روہونا بہتر ہے۔(ردالمحتار 622/1 ،ھندیہ 153/1)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے