میڈیکل انشورنس کی حقیقت:

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کسی بیمار کی دوا علاج کے لئے میڈیکل انشورنس کرایا جاتا ہے تاکہ اس کے ذریعے علاج میں اس کا تعاون ہو لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے کہ میڈیکل انشورنس ایک محدود مدت کے لئے تندرست اور صحت مند شخص کا ہوتا ہے بلکہ انشورنس سے پہلے چیک اپ کے ذریعے اطمینان کرلیا جاتا ہے کہ وہ کسی مرض کا حامل نہیں ہے اور آئندہ بھی متعین کردہ بیماری میں مبتلا ہونے کے چانسز کم سے کم ہیں۔
پھر ایسے شخص سے کہا جاتا ہے کہ وہ قسط وارایک متعین رقم جمع کرے اور محدود مدت میں وہ متعین بیماری کا شکار ہوجائے گا تو انشورنس کمپنی اس کے علاج کا خرچ ادا کریگی اور اگر بیمار نہیں ہوا تو اس کی جمع کردہ رقم کمپنی کی ہوجائے گی۔
ظاہر ہے کہ یہ اسکیم سود اور قمار دونوں پر مشتمل ہے ۔سود اس طور پر ہے کہ اگر وہ بیمار پڑگیا تو کمپنی اس کی طرف سے جمع کردہ رقم سے زیادہ ادا کریگی ۔اور قمار اس طور پر ہے کہ اگر وہ بیمار پڑ گیا تو علاج کی مد میں زیادہ رقم حاصل کرلیگا اور بصورت دیگر اس کی معمولی رقم ڈوب جائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ سود اس وقت ہوگا جب کہ روپیہ کا تبادلہ روپیہ سے کمی بیشی کے ساتھ ہو ۔اور میڈیکل انشورنس میں روپیہ کا تبادلہ علاج کے ذریعے ہوتا ہے اس لئے اس میں سود نہیں ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کمپنی خود علاج نہیں کرتی ہے بلکہ وہ اس کی طرف سے متعین کردہ ہسپتال میں علاج کرانے پر اس کی طرف سےاس کا خرچ ادا کرتی ہے اور ہسپتال مریض کی طرف سے وکیل بن کر علاج کی رقم پر قبضہ کرتا ہے اور وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ ہے۔ اس طرح سے روپیہ کا تبادلہ روپیہ سے کمی بیشی کے ساتھ ہورہا ہے۔
نیز بیمہ کمپنی کی طرف سے جو کتابچہ جاری کیا گیا ہے اس میں علاج کے خرچ کے معاہدے کا ذکر ہے، علاج فراہم کرنے کا نہیں۔اس کے الفاظ یہ ہیں:
"صحت کا بیمہ آپ اور ایک بیمہ کمپنی کے بیچ ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ آپ منصوبے میں اندراج کرواتے ہیں، اور جب آپ بیمار پڑتے یا زخمی ہوتے ہیں تو کمپنی آپ کے طبی اخراجات کا حصہ ادا کرنے سے اتفاق کرتی ہے”۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ چونکہ ہسپتال کو انشورنس کمپنی نے علاج کا مکلف بنایا ہے اس لئے ہسپتال مریض کا نہیں بلکہ کمپنی کا اجیر اور وکیل ہے لیکن اس تاویل کے اعتبار سے پھر گاڑی کا انشورنس بھی جائز ہونا چاہئے حالانکہ کوئی اس کے جواز کا قائل نہیں ۔
اور اگر اس تاویل کے ذریعے اسے سود نہ کہا جائے تو قمار بہر حال موجود ہے کہ ایک شخص اپنی کچھ رقم اس لئے داؤ پر لگاتا ہے کہ اگر بیمار پڑگیا تو اس سے زیادہ رقم کا علاج کروالیگا اور بیمار نہ ہونے کی صورت میں اس کی کچھ رقم ڈوب جائے گی جسے برداشت کرنا آسان ہے۔

ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور ،مئو،یوپی

Related Post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے