نوافل سے متعلق عمومی مسائل
ولی اللہ مجید قاسمی
وہ اوقات جن میں نفل نماز ممنوع ہے:
جس طرح صحت انسانی کی بقا اور دوا ، علاج کے لئے محدود مقدار میں اور پابندی وقت کے ساتھ غذا یا دوا کا استعمال ضروری ہے اسی طرح سے روحانی صحت اور بقاء کے لئے حکیم و خبیر کے متعین کردہ اوقات کی پابندی لازمی ہے۔
نماز ایک طرح سے پروردگار کے دربار میں حاضری کا نام ہے ، جس طرح سے انسانی دربار میں حاضری کا ایک وقت ہے اسی طرح سے شہنشاہ مطلق کے دربار میں بھی حاضر ہونے کے لئے متعین وقت ہے اور اس کے علاوہ اوقات میں وہاں جانا ممنوع ہے اور وہ ممنوع اوقات یہ ہیں۔
1۔سورج نکلنے ڈوبنے اور زوال کے وقت:
حدیث میں ان وقتوں میں نماز سے منع کیاگیا ہے؛کیونکہ ان وقتوں میں مشرک سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ نیز شیطان وہاں آموجود ہوتا ہے تاکہ سورج کے پوجنے والوں کی عبادت میں وہ بھی شامل ہوجائے۔
امام ابو یوسف کا خیال ہے کہ جمعہ کے دن زوال کے وقت نماز مکروہ نہیں.
ایک حدیث سے اس نقطہ نظر کی تائید ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
ان النبی ﷺ نھی عن الصلوٰۃ فی نصف النھار الایوم الجمعۃ .
نبی کریم ﷺنے زوال کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ جمعہ کا دن ہو. (رواہ الشافعی فی مسندہ . و ذکر البیہقی لہ شواھد ضعیفۃ اذا ضمت قوی. (ردالمحتار 273/1)
علامہ ابن ہمام کا بھی یہی رجحان ہے ۔ صاحب’’ حلیہ‘‘ کی یہی رائے ہے اور صاحب حاوی کا خیال ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے، لیکن علامہ بابرتی کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں فنی نقص ہے(انقطاع ہے) اس لئے اس کو دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں۔ (العنایۃ علی ھامش الفتح 204/1)اسی رائے کو عام طور سے محققین نے اختیار کیا ہے۔
2. فجر اور عصر کی نماز کے بعد:
ممانعت سے متعلق حدیثوں کے لئے دیکھئے: مسند احمد ، صحیح بخاری،صحیح مسلم وغیرہ ۔(نیل الاوطار 87/3)
عصر کے بعد رسول اللہ ﷺ سے جو سنت پڑھنا منقول ہے وہ آپ کے ساتھ خاص ہے. حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں :
ان رسول اللہ ﷺ کان یصلی بعدالعصر و ینھا عنھا.
رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد نماز پڑھتے تھے اور دوسروں کو اس سے روکتے تھے۔(رواہ ابوداؤد وسکت عنہ 182/1 و صححہ السیوطی والعزیزی ۔ اعلاء السنن 111/7) باب قضاء السنن)
عصر کے بعد یہ دو رکعت درحقیقت ظہر کے بعد کی دو رکعت کی قضا تھی کہ ایک مرتبہ مشغولیت کی و جہ سے وقت پر نہ پڑھ سکے تو عصر کے بعد قضا پڑھی۔(دیکھئے صحیح مسلم 277/1 کتاب فضائل القرآن باب الاوقات …نھی عن الصلوۃ فیھا)
اور آپﷺ کا معمول مبارک تھا کہ جب کوئی عمل شروع کردیتے تو اسے ہمیشہ کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ ان دو رکعتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب کوئی نماز شروع کردیتے تو اسے باقی رکھتے ۔(وکان اذاصلی صلوۃاثبتھا .حوالہ سابق )
ان وقتوں میں ہر قسم کی نفل نماز مکروہ تحریمی ہے ۔اور ہرجگہ کا یہی حکم ہے گرچہ وہ حرم مکہ ہی کیوں نہ ہو۔ امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے البتہ امام شافعی کے یہاں حرم مکہ میں ان وقتوں میں نماز درست ہے اس لئے کہ حدیث میں ہے :
یا بنی عبدمناف لاتمنعواأحداً طاف بھذا البیت وصلی أیۃ ساعۃٍ شاء من لیل اونھار
بنی عبدمناف ! کسی کو اس گھر کے طواف سے اور دن و رات میں کسی وقت بھی نماز پڑھنے سے نہ روکو۔(رواہ الخمسہ و آخرون وصححہ الترمذی والحاکم وغیرھماو فی اسنادہ مقال ۔ دیکھئے: آثار السنن 191)
مگر ظاہر ہے کہ اس حدیث کا مقصد’’ حرم مکہ‘‘ کے متولی اور نگراں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانا ہے کہ کسی وقت بھی حرم کو بند نہ رکھیں بلکہ ہمیشہ اسے کھولے رہیں۔ یہ مراد نہیں ہے کہ’’ حرم مکہ‘‘ میں مکروہ وقتوں میں بھی نماز درست ہے۔ آنحضور ﷺ نے دونوں جانب توازن برقرار رکھنے کے لئے ایسا حکم دیا کہ ایک طرف تو نمازیوں سے عمومی طور پر یہ کہہ دیا کہ کچھ مخصوص اوقات میں نماز مکروہ ہے اور دوسری طرف ذمہ داروں سے یہ کہا گیا کہ وہ ہر وقت حرم کو کھلا رکھیں تاکہ کسی کو دشواری نہ ہو۔ بعض احادیث اورصحابہ کرام کے عمل سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً حضرت عمر کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے صبح کی نماز کے بعد طواف کی مگر طواف کی دو رکعتیں حرم میں نہیں پڑھی بلکہ ذی طوی نامی ایک جگہ پر جاکر پڑھی۔(رواہ البخاری تعلیقا 220/1 کتاب المناسک ‘و رواہ الطحاوی موصولا 396/1 ووصلہ لالمالک والبیہقی أیضا۔ معارف السنن 125/2)
اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد اگر تم طواف کرنا چاہو تو کرلو مگر نماز کو موخر کردو یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے یا نکل آئے ۔(رواہ ابن ابی شیبہ وقال الحافظ اسنادہ حسن ۔ دیکھئے : فتح الباری 392/3 و معارف السنن 125/2)
طلوع فجر کے بعد دو رکعت سنت فجر کے سوا کوئی اور نفل پڑھنا ممنوع ہے۔ حدیث میں ہے :
لاصلوۃ بعد الصبح الارکعتین۔
طلوع صبح صادق کی بعد دو رکعت سنت فجر کے علاوہ کوئی اور (نفل) نماز نہیں ہے
(رواہ احمد وابوداؤد. نیل الاوطار 90/3)
3۔فرض نماز شروع ہوجانے کے وقت:
اس لئے کہ حدیث میں ہے:
اذا قیمت الصلاۃ فلا صلوۃ الا المکتوبۃ.
جب فرض نماز کے لئے اقامت کہہ دی جائے تو فرض کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں ہے۔
( رواہ مسلم واصحاب السنن۔ جمع الفوائد 92/1)
4۔ جب امام خطبہ کے لئے نکل پڑے:
آنحضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب کوئی مسلمان غسل کرکے جمعہ کے دن مسجد میں آتا ہے اور کسی کو کوئی تکلیف نہیں دیتا ہے اور اگر امام ابھی خطبہ کے لئے نہیں آیا ہے تو جتنی رکعت کی اللہ توفیق دے وہ نفل پڑھتا ہے اور اگر امام خطبہ کے لئے آچکا ہے تو وہ بیٹھ جاتا ہے اور خاموشی سے کان لگاکر خطبہ سنتا ہے یہاں تک کہ امام خطبہ مکمل کرلیتا ہے تو اگر اس کے تمام گناہ اس جمعہ میں معاف نہیں ہوتے، تو آئندہ جمعہ کفارہ ہوجائے گا۔ (رواہ احمد و رجالہ رجال الصحیح خلا شیخ احمد وھو ثقہ مجمع الزوائد 171/2)
اس حدیث پر علامہ منذری نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کی سند میں حضرت عطا کا سماع حضرت نبیشہ سے ثابت نہیں۔ ( الترغیب 487/1)
نیز آپ ﷺ نے فرمایا :
اذا دخل احدکم المسجد والامام علی المنبر فلا صلاۃ ولا کلام حتی یفرغ الامام ۔
جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو اور امام منبر پر ہوتو اس وقت نہ تو نماز ہے اور نہ گفتگو ۔(مجمع الزوائد 184/2)
اس حدیث کی سند گرچہ ضعیف ہے لیکن چونکہ صحابہ کرام کی اکثریت اور خلفائے راشدین کا یہی مسلک ہے۔ اور یہ اصول ہے کہ ضعیف حدیث پر اگر عام طور سے لوگوں کا عمل ہوتو وہ قابل استدلال بن جاتی ہے۔ اس لئے اس حدیث کو دلیل میں پیش کرنا درست ہے۔(معارف السنن 367/4 نیز 385/4 )
امام ابو حنیفہ اور مالکؓ کے نزدیک خطبہ جمعہ کے وقت کسی بھی طرح کی نماز درست نہیں۔خلفاء راشدین اور اکثر صحابہ کرام کا بھی یہی خیال ہے، نیز تابعین میں بھی بکثرت لوگ اسی کے قائل ہیں اور امام شافعی واحمد کے نزدیک خطبہ جمعہ کے وقت تحیۃ المسجد پڑھنا جائز اور مستحب ہے۔(معارف السنن 367/4) اس لئے کہ حدیث میں ہے :
بینما النبی یخطب یوم الجمعۃ اذ جاء رجل فقال النبی ﷺ أصلیت قال لا قال : قم فارکع رکعتین۔
اس دوران کہ نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے ایک آدمی آیا ، رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا کیا تم نماز پڑھ چکے ہو؟ اس نے کہا نہیں. ارشاد ہوا : اٹھو اور دورکعت پڑھو۔(رواہ الجماعۃ واللفظ للترمذی وقال حسن صحیح۔)
اور ایک دوسری روایت میں ہے :
اذا جاء احدکم یوم الجمعۃ و الامام یخطب فلیرکع رکعتین
جب تم میں کا کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہوتو بھی دورکعت پڑھ لے۔(رواہ احمد مسلم ‘ ابوداؤد ‘ وفی روایۃ ‘ وقد خرج الامام فلیصل رکعتین ‘ متفق علیہ۔ نیل الاوطار 256/3)
جو حضرات اس کے قائل نہیں ہیں انہوں نے ان احادیث کی متعدد توجہیں ذکر کی ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں۔
1۔ یہ حکم صرف انہیں صحابی کے ساتھ خاص ہے‘ وہ انتہائی بوسیدہ کپڑا پہنے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے‘آنحضور ﷺ نے ان کی اس مفلوک الحالی کو دیکھ کر مناسب سمجھا کہ انہیں کھڑا کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیں تاکہ لوگ ان کی حالت کو دیکھ سکیں اور ان کی کچھ مدد کریں‘ چنانچہ جتنی دیر وہ نماز پڑھتے رہے آپ خطبہ سے رکے رہے اور خطبہ میں پر زور الفاظ میں صدقہ کی ترغیب دی ۔
اور بعض احادیث میں اس کی صراحت ہے کہ جس وقت یہ آئے اس وقت آپ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے:
جاء سلیک غطفانی و رسول اللہ ﷺ قاعد علی المنبر۔ (مسلم 287/1)
واضح رہے کہ آنحضور ﷺ ہمیشہ کھڑے ہوکر خطبہ دیا کرتے تھے۔ (کان النبی یخطب قائما .بخاری 125/1)
اور اس کی بھی صراحت ہے کہ جتنی دیر وہ نماز پڑھتے رہے آنحضور ﷺ خطبہ سے رکے رہے۔( امسک عن الخطبۃ حتی فرغ من رکعتیۃ .رواہ الدارقطنی باسناد رجالہ ثقات . معارف السنن 369/4 و مصنف ابن ابی شیبہ 110/2)
لھذا بعض روایتوں میں جو یہ مذکور ہے کہ آنحضور ﷺ خطبہ شروع کرچکے تھے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ؐ خطبہ بس شروع کرنے ہی والے تھے۔ (معارف السنن 371/1)
2۔ اس واقعہ کے خاص ہونے کی دلیل وہ بہت سے واقعات ہیں جن میں لوگ خطبہ کے وقت مسجد میں آئے مگر آنحضور نے انہیں تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔مثلاً استسقاء کے سلسلہ میں ایک حدیث گذر چکی ہے کہ ایک صاحب قحط سالی کی شکایت لے کر آئے اور اس وقت آنحضور ﷺ خطبہ میں مصروف تھے پر آپ ؐ نے نماز کے لئے نہیں کہا۔(بخاری وغیرہ)
نیز ایک شخص جمعہ کے دن لوگوں کے گردنوں کو پھلانگتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : بیٹھ جا تو لوگوں کو تکلیف پہونچا چکا ہے. (اجلس فقد آذیت رواہ النسائی 207/1 وابوداؤد 159/1. معارف السنن 349/4)
یہاں بھی آپ نے نماز کے لئے حکم نہیں دیا۔ اس کے علاوہ اور بھی واقعات ایسے ہوئے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے کہیں بھی نماز کے لئے نہیں فرمایا۔
3۔ رہ گئی دوسری روایت تو اس میں’’والامام یخطب سے مراد ہے کہ امام خطبہ کا ارادہ کرچکا ہوتو اس وقت ان رکعتوں کے پڑھنے کی گنجائش ہے۔ یا یہ مقصد ہو کہ وہ خطبہ دینے کے قریب (’’ یکادیخطب ‘‘ . معارف السنن 377/4)
5 ۔یہ احادیث قرآنی آیت اذا قریٔ القرآن فاستعموا لہ وانصتوا: کے معارض ہے. یہ آیت گو نماز میں قرآن پڑھنے سے متعلق ہے۔ مگر اس کے عموم میں خطبہ بھی شامل ہے۔ بلکہ شافعیہ تو اس کو خطبہ کے ساتھ ہی مخصوص مانتے ہیں اور جب قرآن و حدیث میں تعارض ہوتو آیت قرآنی کوترجیح دی جاتی ہے۔
5۔ یہ روایت ان احادیث کے بھی خلاف ہے جن میں خطبہ کے وقت کسی کو گفتگو سے روکنے کے لئے ’’ چپ رہ کہنے سے بھی منع کیاگیا ہے، حالانکہ گفتگو سے روکنا معروف کا حکم دینا ہے اور "امر بالمعروف” فرض ہے اور تحیۃ المسجد تو صرف مستحب ہے تو وہ بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے کہ اس سے خطبہ سننے میں خلل واقع ہوگا۔
6۔نہ پڑھنے میں احتیاط ہے کیونکہ تحیۃ المسجد کسی کے یہاں بھی واجب نہیں، اس لئے نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں، اس کے برخلاف پڑھنے میں گناہ کا اندیشہ ہے کہ حدیث میں اس وقت نماز و کلام سے منع کیاگیا ہے۔( معارف السنن 380/4‘ عمدۃ القاری 232/6)
واضح رہے کہ خطبہ جمعہ ہی کے حکم میں عیدین‘ استسقاء‘ کسوف‘ حج‘ نکاح اور ختم قرآن کا خطبہ بھی ہے(دیکھئے: ردالمحتار 277/1)
7۔ عیدین کی نماز سے پہلے گھر یا عیدگاہ میں اور نماز کے بعد عیدگاہ میں نفل نماز مکروہ ہے۔ نماز کے بعد گھر آکر نفل پڑھنا آنحضور ﷺ سے ثابت ہے، حضرت ابوسعید خدریؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید سے پہلے نماز نہیں پڑھا کرتے تھے ‘البتہ گھر لوٹ کو دورکعت پڑھتے تھے۔(رواہ ابن ماجہ وقال السندی : فی الز وائد ھذا اسناد جید حسن ۔ابن ماجہ مع حاشیہ السندی390/1۔وقال الحاکم ھذہ سنۃ عزیزۃ باسناد صحیح ولم یخرجاہ۔مستدرک 437 وعلی ھامشہ : فی التلخیص قال : صحیح)
8 ۔ عرفہ میں جہاں ظہر کے وقت عصر کی نماز بھی پڑھی جاتی ہے، ان دونوں نمازوں کے درمیان اور ایسے ہی ان کے بعد سنت اور نفل نہیں پڑھی جائے گی۔
9۔ مزدلفہ میں جہاں مغرب کی نماز عشاء کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ان دونوں نمازوں کے درمیان نقل و سنت نماز ممنوع ہے‘ ان دونوں نمازوں کے بعد سنت پڑھنے کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے،بعض حضرات کا خیال ہے کہ بعد میں سنت مغرب و عشاء اور وتر پڑھی جائے گی۔ دوسرے کچھ لوگوں کی رائے اس کے خلاف ہے کہ بعد میں بھی پڑھنا درست نہیں ہے.(ردالمحتار 279/1 صحیح بخاری مع الفتح 667/3 ‘ و عمدۃ القاری 12/10)
10۔ بھوک لگی ہوئی ہو اور کھانا حاضر ہوتو اس وقت بھی نماز مکروہ ہے‘ حدیث میں ہے کہ جب کھانا آجائے اور نماز کھڑی ہوگئی ہوتو پہلے کھانا کھالو (اذا حضرالعشاء واقیمت الصلوۃ فابدوا بالعشاء .جامع ترمذی 81/1 قال حدیث حسن صحیح)
امام اعظم ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میری پوری نماز کھانا بن جائے اس سے تو بہتر اور پسندیدہ ہے کہ میرا کھانا نماز بن جائے۔(لان یکون اکلی کلہ صلوۃ احب الی من ان تکون صلاتی کلھا ( العرف الشذی 386/1) مطلب یہ ہے کہ نماز میں کھانے کی طرف جی لگا رہے اور بار بار کھانے کا خیال آئے اس سے تو بہتر ہے کہ آدمی کھانا کھائے اور کھانے کے دوران یہ خیال رہے کہ میرے ذمہ نماز باقی ہے اس لئے جلدی سے فارغ ہوجاؤں۔
11- قضاء حاجت کی ضرورت محسوس ہوتو اس وقت بھی نماز مکروہ ہے ۔ عبداللہ بن ارقم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نماز شروع ہوجانے پربھی تمہیں ضرورت محسوس ہوتو پہلے اس سے فارغ ہوجاؤ .(جامع ترمذی 36/1 حسن صحیح ۔ ابواب الطہارۃ)
12- وقت اس قدر کم ہے کہ سنت پڑھنے میں فرض نماز کے وقت کے ختم ہوجانے کا اندیشہ ہوتو نفل نماز مکروہ ہے.(ردالمحتار 279/1)
________________*****______________