بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

سلسله(10)

ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

 

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242

 

10-فوٹو گرافی کی تصویر

 

ایسی تصویریں جو غیر مجسم اور غیر سایہ دار ہوں یعنی کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر بنائی گئی ہوں لیکن وہ اللہ کی صفت تخلیق کے ساتھ ہمسری کے مقصد سے نہ بنائی جائیں اور نہ اس سے عقیدت اور تقدیس و تعظیم کے جذبات وابستہ ہوں تو ان کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ جاندار کی تصویر بہر صورت ممنوع ہے خواہ مجسم اور سایہ دار ہو یا غیر سایہ دار، کپڑے یا کاغذ وغیرہ پر بنائی جائے یا دیوار اور مکان پر، بےحیثیت اور بے وقعت ہو یا قابل احترام اور باعظمت۔

حنفیہ شافعیہ اور ایک روایت کے مطابق حنابلہ اسی کے قائل ہیں بلکہ امام نووی نے اس پر اجماع کا دعوی کیا ہے اور اس کے برخلاف نقطہ نظر کو باطل قرار دیا ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اسے باطل کہنا محل نظر ہے اور ایسا کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ اس کے قائل قاسم بن محمد ہیں جو مدینہ کے نمایاں فقہاء میں سے ایک اور اپنے زمانے کے افضل ترین لوگوں میں سے تھے اور خود انہوں نے حضرت عائشہ سے ممانعت کی حدیث نقل کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی تاویل کیا کرتے تھے۔ (فتح الباری ٤٧٥/١٠ حدیث ٥٩٥٤)

نیز کہتے ہیں اجماع کا دعوی بھی قابل گرفت ہے کیونکہ حنابلہ اس کے قائل ہیں کہ ایسی تصویر جائز ہے جو کپڑے پر ہو اور اسے پردہ کے طور پر لٹکایا جائے گا اور اگر اس سے دیوار ڈھانک دی جائے تو ممنوع ہے۔ (فتح الباری ٤٧٥/١٠)۔

اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں:

ایک عجیب بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے راوی قاسم بن محمد ہیں اور قاسم بن محمد خود اس بات کے قائل ہیں کہ بے سایہ تصویر جائز ہے اور حنفیہ کے اصول پر یہ مسئلہ قابل غور ہے کہ جہاں راوی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتوی دے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یا تو یہ حدیث مؤل ہے یا منسوخ ہے اور مالکیہ بھی یہاں یہی نقطہ اٹھاتے ہیں کہ خود قاسم بن محمد بے سایہ تصویر کے جواز کے قائل ہیں۔۔۔۔(تقریر ترمذی 643/5)

ذکر کیا جاچکاہے کہ مشہور تابعی اور حضرت عائشہ کے بھتیجے اور ان کے پروردہ اور ان کے علوم کے امین اور مدینے کے سات مشہور فقہاء میں سے ایک حضرت قاسم بن محمد کے یہاں غیر مجسم یعنی کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر بنائی گئی تصویر ممانعت کے دائرے میں نہیں آتی ہے۔امام مالک سے اس سلسلے میں جائز اور ناجائز دونوں طرح کی رائیں منقول ہیں اور ان کے مشہور شاگرد علامہ ابن القاسم اسے جائز سمجھتے ہیں فقہائے مالکیہ میں سے علامہ دردیر ، علامہ ابی، علامہ ابو عبداللہ مواق اور محمد علیش جیسے جلیل القدر محققین بھی اسے جائز سمجھتے ہیں البتہ مالکیہ کی اکثریت اسے ناجائز کہتی ہے ۔( حاشیہ فتاوی عثمانی 362/4) حنابلہ کے یہاں بھی کپڑے وغیرہ پر بنی ہوئی تصویر کے بارے میں دو طرح کے اقوال ملتے ہیں ابن قدامہ حنبلی اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے حنابلہ کا مذہب یہ بیان کیا ہے کہ ان کے یہاں اس طرح کی تصویر حرام نہیں ہے اور علامہ مرداوی اور ابن عقیل کے بیان کے مطابق امام احمد کے نزدیک دیوار پر بنی ہوئی تصویر حرام نہیں ہے ۔( حاشیہ فتاوی عثمانی 362/4)

حاصل یہ ہے کہ کاغذ وغیرہ پر بنی تصویر کی حرمت ایک اجتہادی اور اختلافی مسئلہ ہےاور بہت سے ائمہ مجتہدین اسے جائز سمجھتے ہیں۔

پہلے ہاتھ کے ذریعے تصویر بنائی جاتی تھی اور اب مشین کے ذریعے بننے لگی ہے، جب یہ مشین آئی تو پھر علماء کے درمیان اختلاف ہوا۔ علماء کی اکثریت خصوصا ہندو پاک کے بیشتر علماء اسے ممنوع تصویر میں داخل مانتے ہیں اس کے بر خلاف مصر کے مفتی محمد مخلوف اور شیخ الازہر محمد الخضر حسین اور مشہور سعودی عالم بن عثیمین اسے جائز سمجھتے ہیں بلکہ مصر کے مفتی علامہ محمد بخیت نے اس کے جواز پر ایک کتاب لکھی ہے. (حاشیہ فتاوی عثمانی 364/4)

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ان کے بارے میں کہتے ہیں:

البتہ مصر کے ایک مفتی علامہ شیخ محمد بخیت رحمت اللہ علیہ گزرے ہیں جو عرصہ دراز تک مصر کے مفتی رہے جو بڑے اور متقی عالم تھے محض ہوا پرست نہیں تھے۔(تقریر ترمذی 644/5)

نیز وہ بیان کرتے ہیں:

البتہ اس اختلاف سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ اس کا جواز اور عدم جواز دو وجہ سے مجتہد فیہ معاملہ بن گیا ایک یہ کہ اس بارے میں امام مالک کا اختلاف ہے دوسرے یہ کہ کیمرے کی تصویر کے بارے میں علامہ بخیت رحمت اللہ علیہ کا فتوی موجود ہے ، اگرچہ ہمارے نزدیک وہ فتوی درست نہیں ہے لیکن بہرحال ایک جدید شے کے بارے میں ایک متورع عالم کا قول موجود ہے اس لئے معاملہ مجتہد فیہ بن گیا ۔(تقریر ترمذی 645/5)

جو لوگ جواز کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ فوٹوگرافی کی تصویر میں مشابہت کی علت نہیں پائی جاتی ہے بلکہ اس میں بعینہ اس شکل کو نقل کر دینا ہے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے،تو یہ اللہ کی بناوٹ کی کاپی کرنے والا ہے مشابہت کرنے والا نہیں مثلا اگر کوئی شخص کسی کی تحریر کی نقل اتارے تو دوسری تحریر پہلی تحریر سے الگ اور اس کے مشابہ ہوگی لیکن اس تحریر کا فوٹو لے لیا جائے تو وہ بعینہ پہلی تحریر ہوگی۔

نیز فوٹوگرافی بالکل آئینے میں نظر آنے والی تصویر کی طرح ہے، فرق صرف یہ ہے کہ فوٹوگرافی میں عکس کو محفوظ کر لیا جاتا ہے اور آئینے میں ایسا نہیں ہوتا ہے اور یہ حقیقت میں تصویر کشی نہیں بلکہ موجودہ تصویر کو باقی رکھنا اور زائل ہونے سے بچانا ہے۔

علاوہ ازیں ہاتھ سے تصویر بنانے والا درحقیقت یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے اپنی مہارت کی بنیاد پر اللہ کی بناوٹ کی نقل اتار کر رکھ دی ہے اور اسی بنیاد پر وعید بیان کی گئی اس کے برخلاف فوٹوگرافی میں خارج میں موجود اللہ کی بناوٹ کے عکس کو مشین کے ذریعے محفوظ کر دیا جاتا ہے اس میں صورت گری کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

جو لوگ فوٹوگرافی کی تصویر کو بھی ناجائز کہتے ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:

1-فوٹو گرافی کی تصویر کو بھی لغت میں تصویر ہی کہا جاتا ہے اس لئے کہ تصویر کے معنی شکل کے ہیں اور یہ ہر طرح کی شکل کو شامل ہے جس میں فوٹو گرافی کی تصویر بھی داخل ہے۔

نیز شرعی اعتبار سے فوٹو گرافی کی تصویر بھی ممنوع تصویر میں داخل ہے کیونکہ تصویر کی ممانعت سے متعلق احادیث بالکل عام ہیں اور اس سے صرف اسی تصویر کو علاحدہ مانا جائے گا جس کے بارے میں شرعی دلیل موجود ہو اور اس کے علاوہ حدیث اپنی عمومیت پر باقی رہے گی اور ہر طرح کی تصویر اس میں داخل ہوگی۔

شریعت میں عرف اور عام بول چال کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے اور عرف عام میں فوٹوگرافی کی تصویر کو بھی تصویر ہی کہا جاتا ہے نہ کہ عکس ۔

2-احادیث میں ان لوگوں کے لیے شدید وعید بیان کی گئی ہے جو جاندار کی تصویر بنا کر اللہ کی صفت تخلیق کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور یہ علت فوٹو گرافی کی تصویر میں بھی موجود ہے بلکہ اس میں ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر سے بھی زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے کہ یہ بالکل ہو بہو نقالی ہوتی ہے۔اور تصویر کی حرمت کی اصل وجہ کسی جاندار کی کاپی کرنا جس پر اصل کا گمان ہونے لگے۔

اور تصویر درحقیقت کسی چیز کے پائیدار نقش کا نام ہے لہذا اگر کسی جاندار کی تصویر پائدار ہے تو وہ ممنوع تصویر کے حکم میں ہے اور اگر پائیدار نہیں ہے تو آئینے کے عکس اور سائے کی طرح ہے اور تصویر نہیں ہے۔ اور فوٹوگرافی میں تصویر کی حقیقت موجود ہے۔ اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی شخص کو آئینے کے سامنے کھڑا کر کے رنگ و روغن کے ذریعے آئینے پر اس کی تصویر بنادی جائے اس میں بھی صورت گری کا فعل نہیں پایا جاتا ہے لیکن کوئی بھی اسے جائز نہیں کہہ سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے