آسان منطق
مفتی ولی اللّٰہ مجید قاسمی
تعریف:منطق وہ علم ہے جو غور و فکر میں غلطی سے بچائے .
موضوع: ایسی معلومات جن کے استعمال سے نامعلوم چیز کا علم ہو.
غرض و غایت: فکری غلطیوں سے محفوظ رہنا.
علم کی تعریف اور اس کی قسمیں
ذہن میں کسی چیز کی صورت کے نقش ہو جانے کو علم کہتے ہیں ذہن ایک آئینہ کی طرح ہے جس طرح سے آئینے میں چیزوں کی صورت آجاتی ہے اسی طرح سے ذہن میں بھی صورتیں نقش ہو جاتی ہیں لیکن آئینے میں صرف وہی چیزیں آتی ہیں جو دکھائی دیتی ہیں اور ذہن میں ہر طرح کی صورت آجاتی ہے خواہ وہ دکھائی دینے والی چیز ہو یا محسوس کی جانے والی یا سمجھنے والی چیز ہو چنانچہ زید کی آواز سن کر کے ذہن میں اس کی ایک شکل آگئی ہے اس لیے کسی دوسرے کی آواز سن کر کہتے ہیں کہ یہ زید نہیں ہے اسی طرح سے کسی چیز کو سونگھ کر یا چکھ کر اس کی صورت ذہن میں آجاتی ہے یا سمجھنے والی چیز کو سمجھنے کی وجہ سے ذہن اس کی ایک شکل بنا لیتا ہے اور جب کوئی دوسری چیز اس کے سامنے آتی ہے تو وہ انکار کر دیتا ہے کہ یہ وہ چیز نہیں ہے اسی کا نام ”علم“ ہے.
علم کی دو قسمیں ہیں (۱)تصور (۲)تصدیق
تصور : و ہ علم ہے جس سے خبر اور یقین حاصل نہ ہو جیسے گرمی ، سردی وغیرہ کا علم.
تصدیق : وہ علم ہے جس سے خبر اور یقین حاصل ہو جائے جیسے اس بات کا علم کہ چائے گرم ہے، موسم ٹھنڈا ہے، زمین گول ہے ،غرضیکہ ذہن میں کسی بات کے طے ہو جانے کا نام یقین ہے اسی ذہنی بات کو لکھ دیجئے یا بول دیجئے تو وہ جملہ خبریہ ہے اور کلام ہے. تصور اور تصدیق میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں بدیہی اور نظری
(۱)تصور بدیہی : ایسی چیز کا علم جس کی تعریف بتانے کی ضرورت نہ ہو جیسے گرمی سردی وغیرہ کا علم.
(۲)تصور نظری : ایسی چیز کا علم جس کی تعریف بتانے کی ضرورت ہو جیسے اسم، فعل، حرف،جنات اور فرشتہ وغیرہ کا علم.
(۳) تصدیق بدیہی : ایسی خبر و یقین جس کے لیے دلیل بتانے کی ضرورت نہ ہو جیسے اس بات کا علم کہ دو چار کا آدھا ہے ، آگ گرم ہے.
(۴)تصدیق نظری : وہ خبر و یقین جس کے لیے دلیل بتانے کی ضرورت ہو جیسے زمین گول ہے، سورج زمین سے بڑا ہے، چاند آفتاب سے روشنی حاصل کرتا ہے.
نظر و فکر کی تعریف
معلوم چیزوں کے ذریعے نامعلوم کو حاصل کرنے کا نام نظروفکر ہے.
معرِّف اور قول شارح
معلوم تصورات کے ذریعے نامعلوم تصور کا علم حاصل ہو جائے تو اسے معرف اور قول شارح کہتے ہیں جیسے اگر کسی کو ”ثرید“ کے متعلق معلوم نہیں ہے تو اسے بتایا جائے کہ گوشت کے شوربے میں روٹی کے ٹکڑے بھگو دیے جائیں تو اسے ثرید کہتے ہیں.
دلیل وحجت
وہ معلوم تصدیقات جس سے نامعلوم تصدیق کا علم حاصل ہو جائے دلیل وحجت ہے جیسے کسی نے دریافت کیا کہ سود لینا گناہ کیوں ہے؟ جواب میں کہا جائے کہ سود لینے کو اللّٰہ تعالی نے قرآن میں برا کہا ہے اور جس کام کو اللّٰہ تعالی برا بتلائے وہ گناہ ہے اس لیے سود لینا گناہ ہے.
کلی اور جزی
جو چیز ذہن میں آجائے اسے معنی اور مفہوم بھی کہتے ہیں مفہوم کی دو قسمیں ہیں کلی اور جزئی.
کلی وہ مفہوم ہے جو کئی چیزوں پر صادق آسکے جیسے انسان وغیرہ کا خیال۔
جزئی وہ مفہوم ہے جو کسی متعین چیز پر صادق آئے جیسے تاج محل اور دہلی وغیرہ کا علم.
کلی کی تقسیم
کل کی دو قسمیں ہیں : ذاتی اور عرضی
ذاتی وہ کلی ہے جو اپنے افراد کی حقیقت اور بناوٹ میں شامل ہو جیسے آدمی ہونا زید و عمر کی حقیقت میں داخل ہے۔
عرضی وہ کلی ہے جو اپنے افراد کی حقیقت اور بناوٹ میں داخل نہ ہو مگر اس میں پائی جاتی ہو جیسے محمود نیک آدمی ہے اس مثال میں ‘‘آدمیت’’محمود کے لیے کل ذاتی اور ‘‘نیکی’’کلی عرضی ہے.
کلی ذاتی کی قسمیں:
کل ذاتی کی تین قسمیں ہیں جنس ،نوع ، فصل :
جنس اور نوع :کلی ذاتی کے افراد کلی بھی ہو سکتے ہیں اور جزئی بھی جیسے انسان ایک کلی ہے اور اس کے افراد خالد،رشید،عمر جزئی ہیں۔ پھل ایک کلی ہے اور اس کے افراد آم،امرود سیب کلی ہیں، پس جو کلی ذاتی بہت سے جزئیات پر صادق آئے جن کی حقیقت ایک ہوتی ہے تو وہ نوع ہے اور جو کلی ذاتی بہت سے کلیات کے لیے بولی جائےجن کی حقیقت الگ الگ ہو تو وہ جنس ہے جیسے حیوان ، پھل، ترکاری وغیرہ.
فصل: جنس میں بہت سی کلیات شامل ہوتی ہیں اور ان سب کی حقیقت الگ الگ ہوتی ہے اور ان مختلف کلیات میں جو چیز وجہ امتیاز ہو وہ فصل کہلاتی ہے جیسے حیوان میں انسان، گائے ،درندے سب شامل ہیں لیکن حیوان کے ساتھ” ناطق ” کا اضافہ اسے انسان کے ساتھ خاص کر دیتا ہے لہذا فصل کی تعریف یہ ہوگی کہ جو کسی ذات کا جزو خاص ہو اور اس کے ذریعے وہ ذات جنس کے دیگر افراد سے ممتاز ہو جائے.
جنس اور فصل کی تقسیم
جنس اور فصل میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں :قریب وبعید
جنس قریب : وہ جنس جو بلاواسطہ اپنے افراد کا جزو ہو یعنی اس کے اور ماہیت کے درمیان کوئی اور جنس نہ ہو جیسے انسان کے لیے حیوان.
جنس بعید : وہ جنس ہے جو بالواسطہ اپنے افراد کا جزو ہو جیسے انسان کے لیے جسم نامی جسم بعید ہے کہ درمیان میں حیوان کا واسطہ ہے اسی طرح سے کبوتر کے لیے چڑیا جنس قریب ہے اور حیوان جنس بعید ہے.
فصل قریب :وہ فصل ہے جو کسی حقیقت کو جنس قریب میں شامل دیگر حقیقتوں سے ممتاز کر دے جیسے انسان کے لیے ‘‘ناطق’’فصل قریب ہے.
فصل بعید : وہ فصل ہے جو کسی حقیقت کو جنس بعید میں شریک دیگر حقیقتوں سے جدا کر دے جیسے انسان کے لیے "حساس” فصل بعید ہے اس لیے کہ وہ اسے جسم نامی میں شامل افراد سے الگ کر دیتا ہے.
کلی عرضی کے اقسام :
کلی عرضی کی دو قسمیں ہیں خاصہ وعرض عام
خاصہ وہ کلی عرضی ہے جو ایک حقیقت کے افراد کے ساتھ خاص ہو جیسے ضاحک اورعالم انسان کے افراد زید ،عمر کے ساتھ خاص ہیں.
عرض عام : وہ کل عرضی ہے جو مختلف حقیقت کے افراد کے لیے استعمال ہو جیسے کھانا، پینا ،چلنا، پھرنا۔ حاصل یہ ہے کہ جو کلی عرضی بہت سی جزئیات میں مشترک طور پر پائی جاتی ہو وہ خاصہ ہے اور جو بہت سی کلیات میں مشترک طور پر پائی جاتی ہو وہ عرض عام ہے.
دو کلیوں کے درمیان نسبت
جس طرح سے دو آدمیوں کے درمیان دوستی، دشمنی، رشتہ داری، بھائی چارگی کا تعلق ہوتا ہے اسی طرح سے دو کلیوں میں بھی آپس میں ربط اور تعلق ہوتا ہے اور ایک کلی کا دوسری کلی کے ساتھ چار نسبتوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے وہ چار نسبتیں یہ ہیں: تساوی ،تباین، عموم و خصوص مطلق اور عموم و خصوص من وجہ.
تساوی :یہ ہے کہ دو کلیوں میں سے ہر کلی دوسری کلی کے ہر ہر فرد پر صادق آئے جیسے انسان اور ناطق کہ ہر ناطق انسان ہے اور ہر انسان ناطق ہے ،اسی طرح مومن اور جنتی کہ ہر مومن جنتی ہے اور ہر جنتی مومن ہے.
تباین: یہ ہے کہ دو کلیوں میں سے کوئی بھی دوسری کلی کے کسی فرد پر صادق نہ آئے جیسے رات اور دن ۔
عموم و خصوص مطلق: ایک کلی دوسرے کلی کے ہر فرد پر صادق آئے مگر دوسری کلی پہلی کلی کے ہر فرد پر صادق نہ ہو بلکہ بعض پر صادق آئے ،پہلی کلی کو عام مطلق اور دوسرے کلی کو خاص مطلق کہا جاتا ہے جیسے حیوان اور انسان کہ حیوان انسان کے تمام افراد پر صادق آتا ہے اور انسان حیوان کے تمام افراد پر صادق نہیں آتا اور جیسے پھل اور سیب، مٹھائی اور لڈو، نبی اوررسول.
عموم و خصوص من وجہ: ایسی دو کلیاں جن میں سے ہر ایک دوسرے کے بعض افراد پر صادق آئے اور بعض پر صادق نہ آئے جیسے عالم اور ذہین کہ بعض ذہین عالم ہوتے ہیں اور بعض عالم ذہین ہوتے ہیں نہ تو سب عالم ذہن ہوتے ہیں اور نہ سب ذہین عالم ہوتے ہیں ۔
معرِّف کی قسمیں
معرف اور قول شارح (جس کا بیان آچکا ہے) کی چار قسمیں ہیں :حد تام ،حد ناقص ،رسم تام، رسم ناقص ۔
معلومات کے ذریعے کسی نامعلوم چیز کی حقیقت کا پتہ لگا لینا ‘حد’ ہے اور عوارض کا پتہ لگا لینا ‘رسم’ہے ۔
حدتام : وہ تعریف ہے جو جنس قریب اور فصل قریب کے ذریعے کی جائے جیسے انسان کے لیے حیوان ناطق.
حد ناقص : وہ تعریف ہے جو جنس بعید اور فصل قریب یا صرف فصل قریب کے ذریعے کی جائے جیسے انسان کے لیے جسم ناطق یا صرف ناطق.
رسم تام : وہ تعریف ہے جو جنس قریب اور خاصہ کے ذریعے کی جائے جیسے حیوان ضاحک، انسان کے لیے رسم تام ہے.
رسم ناقص: وہ تعریف ہے جو جن سے بعید اور خاصہ کے ذریعہ یا صرف خاصہ کے ذریعہ کی جائے جیسے جسم ضاحک یا صرف ضاحک.
دلالت اور وضع کا بیان
منطق ایک ذہنی فن ہے اس کا تعلق معنی سے ہے اس لیے الفاظ سے متعلق بحث کی ضرورت نہیں لیکن الفاظ معنی کے ترجمان ہوتے ہیں ان کے بغیر معنی تک رسائی مشکل ہے اس لیے منطق میں الفاظ سے بھی بحث کی جاتی ہے.
دلالت: دو چیزوں کے درمیان ایسا تعلق ہو کہ ایک کے جاننے کی وجہ سے دوسری چیز کا علم ہو جائے ‘دلالت’ کہلاتا ہے پہلی چیز کو جس کے ذریعے علم ہوا ہے ”دالّ“ اور دوسری چیز کو جسے جانا گیا ہے‘مدلول’ کہتے ہیں جیسے دھواں دیکھ کر آگ کا پتہ لگا لینا.
اگر دو چیزوں کے درمیان یہ تعلق کسی کے مقرر کرنے کی وجہ سے ہوا ہے تو اسی کو ”وضع“ کہا جاتا ہے جیسے سگنل (Signal)دیکھ کر گاڑی کے آنے یا نہ آنے کا علم۔ اس میں جس چیز سے علم حاصل ہو اسے ”موضوع“ اور جس چیز کا علم حاصل ہو اسے ”موضوع لہ“ اور مقرر کرنے اور بنانے کے اس عمل کو ”وضع“ کہا جاتا ہے.
دلالت کی دو قسمیں ہیں لفظیہ اور غیر لفظیہ
دلالت لفظیہ : دلالت کرنے والا اگر لفظ ہو تو اسے دلالت لفظیہ کہتے ہیں جیسے لفظ زید کی دلالت اس کی ذات پر۔
دلالت غیر لفظیہ: اگر دال لفظ نہ ہو تو اسے دلالت غیر لفظی کہتے ہیں جیسے مسجد کے ذریعہ مسلم آبادی کا علم ، دھوئیں کی دلالت آگ کے وجود پر.
دلالت لفظیہ اور غیر لفظیہ ہر کی تین تین قسمیں ہیں :وضعیہ ،طبعیہ ،عقلیہ ۔
دلالت لفظیہ وضعیہ: ایسی دلالت کو کہتے ہیں جس میں دال لفظ ہو اور وہ لفظ کسی معنی کے لیے بنایا گیا ہو جیسے مسجد، کتاب، محمود وغیرہ.
دلالت لفظیہ طبعیہ :ایسی دلالت جس میں دال لفظ ہو اور دلالت طبیعت کے تقاضے کی وجہ سے ہو اس بارے میں دلالت کرنے کے لیے وہ لفظ بنایا نہ گیا ہو بلکہ خود بخود بن گیا ہو جیسے آہ آہ کی دلالت تکلیف پر.
دلالت لفظیہ عقلیہ : جس میں دال لفظ ہو اور دلالت محض عقل کے ذریعے سے ہو جیسے کسی کی گفتگو سے اس کے گنوار یا مہذب ہونے کا پتہ لگا لینا.
دلالت غیر لفظیہ وضعیہ: وہ دلالت ہے جس میں دال لفظ نہ ہو اور دلالت وضع کی وجہ سے ہو جیسے مینار کی دلالت مسجد کے وجودپر، گھنٹے کی دلالت سبق کا وقت ہونے پر، یا جیسے سنگ میل کی دلالت کلو میٹر پر۔
دلالت غیر لفظیہ طبعیہ: وہ دلالت ہے جس میں دال لفظ نہ ہو اور دلالت طبیعت کے تقاضے کی وجہ سے ہو جیسے آنسو کی دلالت غم پر .
دلالت غیر لفظیہ عقلیہ: وہ دلالت ہے جس میں دال لفظ نہ ہو اور دلالت محض عقل کے ذریعے ہو جیسے دھوئیں کی دلالت آگ پر، مسجد کی دلالت مسلم آبادی پر .
دلالت لفظیہ وضعیہ کی تین قسمیں ہیں مطابقی، تضمنی، التزامی۔
دلالت مطابقی :لفظ بول کر اس کے معنی کی پوری ذات مراد لینا دلالت مطابقی ہے جیسے کتاب گم ہوگئی، سائیکل خرید لی میں کتاب اور سائیکل کی پوری ذات مراد ہے.
دلالت تضمنی: لفظ بول کر اس کے معنی کی ذات کا کوئی جزء مراد لینا دلالت تضمنی ہے جیسے سائیکل پنچر ہو گئی یعنی ٹیوب۔
دلالت التزامی: لفظ بول کر ذات کا لزوم (خارجی لازمی معنی )مراد لینا جیسے نوکر گدھا ہے یعنی بیوقوف.
*تصدیقات*
*1ــ قضیہ* وہ مرکب تام ہےجس کے کہنے والے کو سچا یا جھوٹا کہہ سکیں جیسے اذان ہو گئی ہے، خالد سچا ہے۔ قضیہ کی دو قسمیں ہیں حملیہ، شرطیہ
*حملیہ* ایسا قضیہ ہے جو دو مفرد سے مل کر بنے اور اس میں ایک چیز کے لیے دوسری چیز کے ثابت ہونے یا نہ ہونے کو ظاہر کیا گیا ہو اگر ثبوت کا حکم ہو تو اسے ‘‘حملیہ موجبہ’’ کہتے ہیں اور اگر نفی کا حکم ہو تو اسے “حملیہ سالبہ” کہتے ہیں۔ قضیہ حملیہ کے پہلے جزء کو موضوع اور دوسرے جزء کو محمول کہتے ہیں اور موضوع کے ساتھ محمول کے تعلق کو "نسبت” کہتے ہیں اور نسبت پر دلالت کرنے والا لفظ “رابطہ” کہلاتا ہےجیسے زید کھڑا ہے، عمر موجود نہیں ہے۔ اس مثال میں “ہے” اور “نہیں ہے” رابطہ ہے۔
*موضوع کے حال کے اعتبار سے قضیہ حملیہ کی چار قسمیں ہیں شخصیہ، طبعیہ، مہملہ، محصورہ.
*1ــ قضیہ شخصیہ* ایسا قضیہ جس کا موضوع جزئی ہو شخصیہ کہلاتا ہے جیسے مسعود گیا، دہلی آگیا.
*2ــ قضیۃ طبعیہ* جس کا موضوع کلی ہو اور حکم کلی کی حقیقت اور طبیعت پر ہو افراد پر نہ ہو جیسے لومڑی چالاک ہوتی ہے، گدھا بیوقوف جانور ہے، انسان نوع ہے.
*3ــ قضیہ مہملہ* جس کا موضوع کلی ہو اور حکم کلی کے افراد پر ہو لیکن افراد کی تعداد نہ بتائی گئی ہو جیسے روپئے کھوگئے، سامان نہیں ملا.
*4ــ قضیہ محصورہ* جس کا موضوع کلی ہو اور حکم کلی کے افراد پر ہو اور ان کی تعداد بھی بیان کر دی جائے جیسے سب مہمان آگئے، بعض طلبہ غیر حاضر ہیں وغیرہ.
قضیہ محصورہ کی چار قسمیں ہیں موجبہ کلیہ،موجبہ جزئیہ، سالبہ کلیہ، سالبہ جزئیہ۔
*1ــ موجبہ کلیہ* جس میں محمول کو موضوع کے تمام افراد کے لیے ثابت کیا جائے جیسے ہر انسان جاندار ہے۔
*2ــ موجبہ جزئیہ* محمول کو موضوع کے بعض افراد کے لیے ثابت کیا جائے جیسے بعض طلبہ محنتی ہیں ۔
*3ــ سالبہ کلیہ* موضوع کے ہر فرد سے محمول کی نفی کی گئی ہو جیسے کوئی کافر جنتی نہیں ہے ۔
*4ــ سالبہ جزئیہ* موضوع کے بعض افراد سے محمول کی نفی کی گئی ہو جیسے چند طلبہ نہیں آئے۔
*شرطیہ اور اس کی قسمیں*
قضیہ شرطیہ وہ قضیہ ہے جودو قضیوں سے مل کر بنے اس کے پہلے حصے کو“ مقدم” اور دوسرے حصے کو“ تالی” کہتے ہیں جیسے :من يحفظ الدرس ینجح، جو سویا وہ کھویا، الانسان شقي او سعيد۔
شرطیہ کے دو قسمیں ہیں متصلہ ،منفصلہ.
*1ــ شرطیہ متصلہ* ایسا قضیہ ہے جس میں ایک قضیہ کے مان لینے پر دوسرے کے ثبوت یا نفی کا حکم ہو اگر ثبوت کا حکم ہو تو متصلہ موجبہ اور نفی کا حکم ہو تو متصلہ سالبہ ہے،دوسرے لفظوں میں ایک قضیہ کا دارومدار دوسرے قضیہ پر ہو جیسے“من صمت نجا”۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ جو کافر ہو وہ عند اللہ مقبول ہو .
*2ــ شرطیہ منفصلہ* ایسا قضیہ ہے جس کے دونوں قضیوں میں علیحدگی کے ثبوت یا نفی کا حکم لگایا گیا ہو۔
شرطیہ منفصلہ کی تین قسمیں ہیں: حقیقیہ ، مانعۃ الجمع، مانعۃ الخلو.
*1ــ حقیقیہ* ایسا قضیہ ہے جس میں نہ تو دونوں جمع ہو سکتے ہوں اور نہ ہی دونوں علیحدہ ہو سکتے ہوں بلکہ ایک ہو تو دوسرا نہ ہو دوسرا ہو تو پہلا نہ ہو لیکن ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ دونوں نہ ہوں جیسے یہ عدد طاق ہے یا جفت ہے.
*2ــ مانعۃ الجمع* ایسا قضیہ ہے جس میں دونوں جمع نہیں ہو سکتے ہیں البتہ دونوں علیحدہ ہو سکتے ہوں جیسے یہ آم ہے یا امرود ، یہ مندر ہے یا مسجد.
*3ــ مانعۃ الخلو* ایسا قضیہ ہے جس میں دونوں قضیے جمع تو ہو سکتے ہوں مگر علیحدہ نہیں ہو سکتے جیسے یہ پھل نہ آم ہے نہ امرود ہے بلکہ جامن ہے اس میں دونوں قضیے جمع ہو گئے.
*تناقض*
تناقض : دو قضیوں کا ایسا اختلاف کہ ایک کو صحیح مان لیں تو دوسرا غلط ہو جائے اور اگر ایک کو جھوٹا مان لیں تو دوسرے کو ضرور سچا ماننا پڑے گا جیسے ہر مومن جنتی ہے ، بعض مومن جنتی نہیں ہیں ۔دو قضیوں میں تناقض پائے جانے کے لیے دو شرطیں ہیں ایک یہ کہ ان دونوں قضیوں میں آٹھ چیزوں میں اتحاد ہو
درتناقض ہشت وحدت شرط داں
وحدت موضوع ومحمول ومکاں
وحدت شرط و اضافت جزوکل
قوت و فعل است در آخر زماں
موضوع ایک ہو: زید کھڑا ہے ،زید کھڑا نہیں ہے۔
محمول ایک ہو: زید پڑھ رہا ہے زید نہیں پڑھ رہا ہے۔
وحدت مکاں : زید گھر میں ہے ۔ زید گھر میں نہیں ہے، زید مسجد میں بیٹھا ہے زید گھر میں نہیں بیٹھا ہے۔
وحدت زماں: زید نائم فی الیل، زید لیس بنائم فی النہار.
وحدت شرط :اگر اللہ کی نافرمانی کرو گے تو وہ ناراض ہوگا اور اگر اطاعت کرو گے تو ناراض نہیں ہوگا ۔(اختلاف شرط کی وجہ سے تناقض نہیں ہے )
وحدت جز و کل: جیسے حبشی کالا ہے یعنی اس کا جسم اور حبشی کالا نہیں ہے یعنی اس کا دانت ۔(اختلاف جزو کل کی وجہ سے تناقض نہیں ہے )
وحدت اضافت : جیسے عبداللہ بن مسعود ،عبداللہ بن عمر۔زید باپ ہے یعنی عمر کا زید باپ نہیں ہے یعنی بکر کا۔
قوت و فعل: پہلوان ہار نہیں سکتا ہے پہلوان ہار گیا۔(اختلاف قوت و فعل کی وجہ سے تناقض نہیں ہے )
دوسری شرط یہ ہے کہ دونوں قضیوں میں ایجاب اور سلب کا اختلاف ہوجیسے یہ کتاب آسان ہے ، یہ کتاب آسان نہیں ہے ۔ اور اگر قضیہ محصورہ ہو تو کلیت اور جزئیت کا فرق ہوجیسے تمام بھلائیاں اللہ کی طرف سے ہیں اور بعض بھلائیاں اللہ کی طرف سے نہیں ہیں۔
*عکس مستوی*
کسی قضیے کو اس طرح سے الٹ دینا کہ پہلے جز کی جگہ دوسرا جز آجائےاور دوسرے جز کی جگہ پہلا جز آجائے مگر صدق اور کیف میں فرق نہ ہو یعنی عکس سے پہلے اگر قضیہ سچا ہے تو عکس کے بعد بھی سچا ہو اور کیف کا مطلب یہ ہے کہ عکس سے پہلے موجبہ ہو تو عکس کے بعد بھی موجبہ رہے اور اگر سالبہ ہو تو عکس کے بعد بھی سالبہ برقرار رہے جیسے کسی نے کہا طالب علم چور ہو گئے ہیں ،دوسرے نے بات الٹ کر اس طرح سے کہی چور طالب علم ہو گئے ہیں ہر انسان جاندار ہے بعض جاندار انسان ہیں.
عکس مستوی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سالبہ کلیہ کا عکس سالبہ کلیہ ہو جیسے کوئی انسان پتھر نہیں کا عکس ہوگا کوئی پتھر انسان نہیں۔ اور سالبہ جزئیہ کا عکس معتبر نہیں کیونکہ اس کا صحیح ہونا ضروری نہیں ہے جیسے بعض جاندار انسان نہیں ہے کا عکس ہوگا بعض انسان جاندار نہیں ہے اور یہ غلط ہے.
اور موجبہ کلیہ اور موجبہ جزئیہ دونوں کا عکس موجبہ جزیہ ہوگا جیسے ہر انسان جاندار ہے اور بعض انسان جاندار ہیں کاعکس بعض جاندار انسان ہیں.
*عکس نقیض*
دونوں قضیوں میں سے ہر ایک کی نقیض نکال کر الٹ دینے کو عکس نقیض کہا جاتا ہے بشرطیکہ کیف اور صدق باقی رہے جیسے ہر لائق آدمی کی قدر کی جاتی ہے کا عکس نقیض ہے ہر بے قدر نالائق ہے
عکس نقیض میں موجبہ کلیہ کا عکس موجبہ کلیہ آتا ہے اور موجبہ جزئیہ کا عکس نقیض نہیں آتا ہے اور سالبہ کلیہ اور سالبہ جزئیہ کا عکس سالبہ جزیہ ہوگا.
حجت کے اقسام*
دلیل اور حجت کی تین قسمیں ہیں استقراء، تمثیل ، قیاس.
*1ــ استقراء* کے لغوی معنی تلاش اور جستجو کرنے کے ہیں اور اصطلاح میں کسی کلی کی بہت سی جزئیات میں کوئی خاص بات دیکھ کر کلی کے تمام افراد و جزئیات پر اس خاصیت کا حکم لگا دینا استقراء کہلاتا ہے ۔ استقراء کی دو قسمیں ہیں تام اور ناقص .
*تام* وہ استقراء ہے جس میں تمام جزئیات کو سامنے رکھ کر حکم لگایا گیا ہو جیسے لفظ یاتو موضوع ہوگا یا پھر مہمل ، کلمہ یاتو اسم ہوگا یا فعل ہوگا یا حرف.
*ناقص* وہ استقراء ہے جس میں اکثر جزئیات کو دیکھ کر حکم لگایا گیا ہو جیسے كل حيوان يحرك فكه الأسفل عند المضغ.
استقراء تام قطعی ہوتا ہے اور یقین کا فائدہ دیتا ہے اور استقراء ناقص سے گمان غالب حاصل ہوتا ہے.
تمثیل
ایک جزئی کے حکم کو کسی دوسری جزئی میں مشترک علت کی وجہ سے ثابت کرنا تمثیل ہے جیسے شراب حرام ہے اور اس کی علت سکر (نشہ پیدا کرنا) ہے یہی علت بھنگ میں بھی موجود ہے اس مشترک علت کی وجہ سے بھنگ کے حرام ہونے کا حکم لگانا "تمثیل” ہے تمثیل میں چار چیزیں ہوتی ہیں:
*1ــ اصل(مقیس علیہ* ) وہ جزئی جس کا حکم کسی علت کی وجہ سے دوسری جزئی میں لگایا گیا ہوجیسے مثال مذکور میں شراب۔
*2ــ فرع (مقیس)* وہ جزئی جس میں اصل کا حکم لگایا گیا ہوجیسے بھنگ۔
*3ــ علت* وہ مشترک چیز جس کی بنیاد پر اصل کا حکم فرع پر لگایا گیا ہو جیسےسکر(نشہ پیدا کرنا)۔
*4ــ حکم* جس کو جزئی میں جاری کیا گیا ہوجیسے حرام ہونا۔
*قیاس*
ایسی دلیل کو کہتے ہیں جو دو یا چند ایسے قضیوں سے مرکب ہوکہ ان کے مان لینے سے تیسرا قضیہ بھی ماننا پڑے۔اس تیسرے قضیے کو قیاس کا نتیجہ کہتے ہیں جیسے ہر انسان جاندار ہے اور ہر جاندار جسم والا ہے ان دونوں کے مان لینے کے بعد تیسرا قضیہ ہر انسان جسم والا ہے ماننا ضروری ہے۔نتیجہ کے موضوع کو اصغر اور نتیجہ کے محمول کو اکبر کہتے ہیں جیسے مثال مذکور میں انسان اصغر ہے اور جسم والا اکبر ہے۔
اور قیاس جن قضیوں سے مرکب ہو ان میں سے ہر قضیے کو مقدمہ کہتے ہیں اور جس مقدمہ میں اصغر ہوتا ہے اسے صغریٰ اور جس میں اکبر ہوتا ہے اسے کبری کہتے ہیں اور جو لفظ صغری اور کبری کے درمیان مکرر ہوتا ہے وہ‘‘حد اوسط’’ کہلاتا ہے جیسے ہر انسان جاندار ہے اور ہر جاندار جسم والا ہے لہذا ہر انسان جسم والا ہے اس میں پہلے دونوں قضیے مقدمے ہیں تیسرا قضیہ نتیجہ ہے اور نتیجے کا اصغر یعنی انسان پہلے قضیہ میں ہے اس لیے وہ صغری ہے اور نتیجہ کا اکبر’ جسم والا ‘دوسرے قضیہ میں ہے اس لیے وہ کبری اور دونوں قضیوں میں "جاندار” کا تکرار ہے اس لیے وہ حد اوسط ہے اور حد اوسط کو حذف کر دینے سے نتیجہ نکل آتا ہے۔