تعاونی بیمہ:
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
باہمی تعاون ، خیرخواہی ، ہمدردی اور بھائی چارگی اسلام کے خمیر میں شامل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وتعاونوا علی البر و التقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان، واتقوا اللہ ان اللہ شدید العقاب ۔(سورۃالمائدہ/2)
نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں کسی کے ساتھ تعاون مت کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
اس آیت میں "بر”(نیکی)میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیاگیاہے، اس لفظ کے مفہوم میں وہ تمام اچھائیاں اور نیکیاں شامل ہیں جو اللہ سے نزدیکی کا ذریعہ ہیں۔ خواہ ان کا تعلق عقیدہ و ایمان سے ہو یا اخلاق و حقوق سے یا عبادت و بندگی سے۔(دیکھئے سورۃ البقرہ/177)
نیز ارشاد ربانی ہے:
انما المؤمنون اخوۃ(سورۃ الحجرات/10)
مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
الدین النصیحۃ، قلنا لمن؟ قال للّٰہ ولکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین وعامتھم۔(صحیح مسلم مع المنھاج، کتاب الایمان/130 ط بیت الافکار الدولیۃ)
دین خیرخواہی کا نام ہے، صحابہ کرام نے دریافت کیا کس کے ساتھ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلم حکمراں اور عام مسلمانوں کے ساتھ۔
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً وشبک بین أصابعہ(صحیح بخاری، کتاب المظالم /484، ط دارالسلام ریاض)
ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے ، جس کی اینٹ آپس میں ایک دوسرے سے بندھی ہوتی ہے ، آپ ﷺ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے میں پیوست کردیا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:
المسلم أخو المسلم لایظلمہ ولا یسلمہ ومن کان فی حاجۃ أخیہ کان اللہ فی حاجتہ ومن فرّج عن مسلم کربۃ فرّج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ۔ (حوالہ مذکور)
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتاہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتاہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے، جوکوئی اپنے بھائی کی ضرورت میں لگا ہو اللہ اس کی ضرورت پوری کردیتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کو رنج و الم سے نجات دلاتا ہے اللہ قیامت کے دن کے رنج و الم سے اسے نجات دیں گے ۔
لوگوں کی حاجت روائی اور ضرورت مندوں کی ضرورت کی تکمیل کے لیے صدقہ اور زکات کا نظام قائم کیاگیا اور اسے اسلام کا ایک رکن قرار دیاگیا۔ ناداروں اور بے کسوں پر خرچ کرنے کا ایک مسلمان کو پابند بنایاگیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وایما أھل عرصۃ أصبح فیھم امرء جائع فقد برئت منہ ذمۃ اللہ(مسنداحمدبن حنبل 33/2)
جس آبادی میں رات بھر کوئی شخص بھوکا رہ جائے تو وہ اللہ کی ذمہ داری سے بری ہے۔
لہٰذا تعاون، ہمدردی اور امداد باہمی پر مشتمل بیمہ اسلام کا مطلوب اور مقصود ہے۔ بیمہ کرانے کی خواہش میں تین چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں؛سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی گذارنا،خطرات کو تقسیم کرنا اور پیش آنے والے حادثات سے نمٹنے کی کوشش کرنا۔ ان میں سے کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو اسلام کے کسی عقیدہ کے خلاف ہو، دنیامیں امن و شانتی کے ساتھ رہنے کی خواہش ایک فطری چیز ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے خوف سے مامون معاشرہ کو اپنے احسانات میں سے شمار کیاہے(’’وآمنھم من خوف‘‘ ) اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے وقت جو دعا کی تھی اس میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ ’’اے رب اس شہر کو سکون و اطمینان کا گہوارہ بنادے، (رب اجعل ھذا البلدآمنا‘‘)
خطرات کو تقسیم کرلینا اور پیش آمدہ مصیبت سے مل جل کر نجات پانے کی کوشش کرنا بھی ایک قابل تعریف عمل ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے اشعری قبیلہ کے اس
طرزعمل کی تعریف کی ہے کہ جب کبھی ان میں سے کچھ لوگوں کے یہاں کھانے پینے کی چیزیں ختم ہونے لگتیں تو سب لوگ اپنے اپنے پاس موجود غلے کو لاکر ایک جگہ جمع کردیتے اور پھر ہر ایک کو برابر برابر تقسیم کرکے دے دیتے۔(صحیح بخاری کتاب الشرکۃ)
مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پیش بندی بھی غیرشرعی نہیں ہے ، حضرت یوسف علیہ السلام کا طرز عمل خود قرآن میں بیان کیاگیاہے کہ انھوں نے سات سالہ آنے والی قحط سالی سے بچنے کے لیے شادابی کے زمانے کے غلے کو محفوظ رکھا۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
ان تدع ورثتک أغنیاء خیر من ان تدعھم عالۃ یتکففون الناس فی أیدیھم۔(صحیح بخاری کتاب الوصایا)
اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جاؤ یہ اس سے بہترہے کہ انھیں نادار چھوڑکر مرو اور یہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔
تعاونی بیمہ کی موجودہ شکل:
بعض خلیجی ممالک میں تعاونی بیمہ کی جو شکل رائج ہے اس کا طریقہ کار یہ ہوتاہے کہ کچھ افراد مل کرکے ایک شیئر کمپنی قائم کرتے ہیں اور جمع شدہ رقم کی سرمایہ کاری کرتے ہیں ،پھر دوسرے لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ بیمہ کے مقصد سے ایک متعین رقم قسط وار یا ایک مشت جمع کریں۔ اس شرط کے ساتھ کہ جس مقصد کے لیے انھوں نے بیمہ کرایا ہے اس میں اگر ان کو کچھ نقصان ہوجائے تو اس کی تلافی کردی جائے گی۔
بیمہ کی یہ رقم بطور’’تبرع‘‘جمع ہوتی ہے اور ناقابل واپسی ہوتی ہے اور کمپنی بطور وکیل اجرت لے کر یا اس کے بغیر بیمہ سے متعلق کاموں کو انجام دیتی ہے اور بیمہ کرانے والوں کی طرف سے جمع شدہ رقم کو بطور مضارب تجارت میں لگا دیتی ہے ۔
اس طرح سے کمپنی میں دو طرح کے اکاؤنٹ ہوتے ہیں۔ ایک کمپنی کے مالک اور شیئر ہولڈروں کے اور دوسرا تعاونی بیمہ کے شرکاء کے ۔ یہ دونوں حساب بالکل الگ الگ رکھے جاتے ہیں۔ اس میں کمپنی کو دو طرح سے فائدے حاصل ہوتے ہیں:
(1)شرکت کے سرمایہ سے حاصل شدہ نفع
(2)بیمہ کے سرمایہ سے حاصل شدہ نفع کا ایک حصہ۔
کمپنی کے ذاتی سرمایہ سے بیمہ کرانے والوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتاہے، البتہ اگر بیمہ فنڈ میں کسی وجہ سے رقم کم پڑجائے تو کمپنی اسے ’’قرض حسن‘‘ دیتی ہے ، کمپنی کا ذاتی خرچہ خود کمپنی برداشت کرتی ہے ۔ بیمہ فنڈ میں جمع شدہ اصل سرمایہ سے تجارت وغیرہ کے ذریعہ حاصل شدہ رقم کا ایک حصہ کمپنی لے لیتی ہے ، یہ حصہ پہلے سے متعین ہوتاہے اور بقیہ حصہ بیمہ فنڈ میں جمع ہوجاتاہے، جمع شدہ رقم اور اس کے نفع سے بیمہ کرانے والوں میں سے کسی کو حادثہ پیش آجانے کی صورت میں مدد کی جاتی ہے اور اس کے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے اور بیمہ پالیسی کی متعین مدت ختم ہوجانے کے بعد اصل اور نفع دونوں کو بیمہ کرانے والوں کے درمیان تقسیم کردیا جاتا ہے۔
تعاونی اور تجارتی بیمہ میں جوہری فرق:
1- تجارتی بیمہ میں کمپنی ایک فریق ہوتی ہے اور کمپنی کے نام سے تمام معاملات طے کیے جاتے ہیں اور بیمہ کے نام پر جمع شدہ پوری رقم کمپنی کی ملکیت ہوتی ہے اور اس کے بدلے میں وہ بیمہ کرانے والے کو پہنچنے والے تمام نقصانات کی تلافی کی ذمہ داری لیتی ہے۔
اس کے برخلاف تعاونی بیمہ میں کمپنی بیمہ کرانے والوں کی وکیل ہوتی ہے ، نہ تو وہ اپنے نام سے معاملہ طے کرتی ہے اور نہ وہ جمع شدہ رقم کا کلی یا جزوی طور پر مالک ہوتی ہے اور نہ ہی وہ بیمہ کرانے والے کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کی ذمہ داری لیتی ہے، اگر بیمہ فنڈ میں اس کی گنجائش ہے تو دیتی ہے ورنہ بیمہ کرانے والوں کو مزید رقم جمع کرنے کے لیے کہتی ہے یا پھر اپنی طرف سے قرض حسن دیتی ہے۔
2- تعاونی بیمہ میں کمپنی ، بیمہ دینے والی نہیں ہوتی ہے بلکہ بیمہ فنڈ کے شرکاء آپس میں ایک دوسرے کے لیے بیمہ دینے اور لینے والے ہوتے ہیں اور کمپنی ان کی طرف سے بطور وکیل رقم کو جمع کرتی ہے اور بیمہ سے متعلق کام انجام دیتی ہے۔جبکہ تجارتی بیمہ میں کمپنی خود بیمہ دیتی ہے اور ایک فریق ہوتی ہے اور رقم جمع کرنے والے دوسرے فریق اور بیمہ لینے والے ہوتے ہیں۔
3- تعاونی بیمہ میں کل تین طرح کے معاملات طے پاتے ہیں:
(1)کمپنی اور بیمہ کرانے والوں کے درمیان وکالت کا معاملہ۔
(2)جمع شدہ رقم کو بطور مضارب تجارت وغیرہ میں لگانے کا معاملہ۔
(3)بیمہ کرانے والوں کے درمیان باہم ہبہ بالعوض یا’’نھد‘‘کا معاملہ(کھانے وغیرہ کی چیزو ں کو آپس میں ملاکر تمام شرکاء کے درمیان برابر تقسیم کردینے کو ’’نھد‘‘ کہاجاتاہے)
اس کے بالمقابل تجارتی بیمہ میں صرف ایک معاملہ ہوتاہے جو بیمہ کمپنی اور بیمہ ہولڈر کے درمیان طے پاتاہے۔
4- تجارتی بیمہ میں کمپنی جمع شدہ رقم کی مالک ہوتی ہے اور بیمہ ہولڈر کو اس رقم اور اس کے نفع و نقصان سے کوئی سروکار نہیں ہوتاہے۔
اس کے برخلاف تعاونی بیمہ میں کمپنی اس رقم کی مالک نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ بیمہ فنڈ یا شرکاء کی ملکیت ہوتی ہے اور کمپنی کو حق مضاربت دینے کے بعد تمام منافع بیمہ فنڈ میں جمع ہوجاتے ہیں۔
5- تجارتی بیمہ کا مقصد اپنے لیے نفع کمانا ہوتاہے، اس کے لیے وہ ایسے طریقے اختیار کرتی ہے جس میں فائدہ کا موقع زیادہ ہو اور نقصان کم سے کم ہو اور اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو مختلف حیلوں اور بہانوں سے رقم دینے سے فرار اختیار کرنے کی کوشش
کرتی ہے۔جبکہ تعاونی بیمہ کا مقصد تعاون اور امداد باہمی ہے۔
6- تعاونی بیمہ کرانے والے کی کوشش ہوتی ہے کہ حادثہ پیش نہ آئے کیونکہ اس صورت میں اس کے نقصان کی تلافی تو ہوجائے گی لیکن جمع شدہ رقم اور اس سے ملنے والے نفع سے وہ محروم ہوجائے گا یا اس میں کمی واقع ہوجائے گی۔
اس کے بالمقابل تجارتی بیمہ میں بیمہ ہولڈر کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے کیونکہ اسے جمع شدہ رقم اور اس کے نفع سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ کچھ لوگ تو زیادہ مال حاصل کرنے کے مقصد سے جان بوجھ کر خود کو یا اپنی دکان وغیرہ کو حادثات کے حوالے کردیتے ہیں۔
7- تعاونی بیمہ میں کمپنی اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ وہ اپنی تمام سرگرمیوں میں اسلامی احکامات کا لحاظ رکھے گی، جبکہ تجارتی بیمہ میں اس طرح کی کوئی بندش نہیں ہوتی ہے۔
تعاونی بیمہ کے اس طریقے پر کچھ اعتراضات وارد ہوتے ہیں، اس لیے ’’تبرع‘‘ کے بجائے بہتر شکل وقف کی ہے جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ شیئر ہولڈر یا کمپنی کے چلانے والے اموال غیر منقولہ یا نقود کو شرعی بنیادوں پر وقف کریں اور پھر بیمہ کرانے کے لیے لوگوں کو ممبر بنائیں، ہر ممبر ایک مخصوص مقدار میں وقف فنڈ کو عطیہ دینے کا پابند ہوگا، یہ عطیہ وقف نہیں ہوگا بلکہ وقف کے منافع میں شمار ہوگا جیساکہ مسجد کی عمارت وقف ہوتی ہے اور اس کے لیے جو عطیہ وصول ہوتے ہیں وہ اس کے منافع ہوتے ہیں اور مسجد کے مصالح پرخرچ کیے جاتے ہیں، یہ عطیات چونکہ شرکاء کی ملکیت سے خارج ہوتے ہیں اس لیے نہ ان پر زکات واجب ہوتی ہے اور نہ وراثت کے احکام جاری ہوتے ہیں۔
اس وقف فنڈ کا ممبر حادثہ پیش آجانے کی صورت میں اس بنیاد پر تلافی کا دعویٰ کرے گا کہ وہ اس وقف فنڈ کے مقاصد کے مطابق اس کا مستحق ہے، اگر کمپنی یا وقف فنڈ کا متولی اس نقصان کی تلافی سے انکار کردے تو وہ عدالت سے اس بنیاد پر رجوع کرسکتا ہے کہ وقف فنڈ کا اصل مالک اللہ ہے اور اس کے متولی اس کو اس کے مقاصد کے مطابق چلانے کے ذمہ دار ہیں لیکن وہ اس میں کوتاہی کررہے ہیں۔لہٰذا عدالت ان سے بازپرس کرے۔
وقف فنڈ کے منافع کاسالانہ حساب کیا جائے اور اصل وقف رقم سے جو زائد ہوگی وہ ممبران میں تقسیم کردی جائے گی۔
کمپنی چلانے والے یا وقف فنڈ کے متولیان جمع شدہ رقم سے سرمایہ کاری کریں گے اور بطور مضارب یا اجیر اپنا متعین حصہ یا اجرت لیں گے، اسی طرح سے بیمہ سے متعلق کاموں کو انجام دینے کے لیے وہ حق تولیت یا وکالت کے طور پر وقف فنڈ سے اپنی اجرت وصول کریں گے۔(دیکھئے جواہرالفقہ188/2، اسلام اور جدید معاشی مسائل331/6، فتاویٰ عثمانی314/3)