بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(34)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

34-ربن کاٹ کر کسی کام کا آغاز:

کسی کام کے آغاز کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ باوضو ہو کر دو رکعت نماز استخارہ پڑھے اور دعائے استخارہ کے بعد اللہ کی حمد و ثنا بیان کر کے اس کام کو شروع کردے، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا ؛ كَالسُّورَةِ مِنَ الْقُرْآنِ : ” إِذَا هَمَّ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَقُولُ…
نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی سورہ کی طرح ہمیں تمام امور میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے، آپ فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے پھر یہ  دعا کرے۔۔۔( بخاري: 6382)
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” كُلُّ أَمْرٍ ذِي بَالٍ لَا يُبْدَأُ فِيهِ بِالْحَمْدِ أَقْطَعُ ".
کسی اہم معاملے کو اللہ کے حمد سے شروع نہ کیا گیا تو وہ ناکام ہے ۔(ابن ماجة 1894)
اور ایک روایت میں ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع نہ کیا گیا تو وہ ناکام ہے ۔(الاذکار للنووی: 149)
بعض روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب پھل پک جاتا تو صحابہ کرام  سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آتے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہاتھ میں لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ ہمارے پھل میں برکت نازل فرما۔۔۔۔اور پھر سب سے چھوٹے بچے کو بلا کر اسے وہ پھل دے دیتے (صحیح مسلم:1373)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دکان وغیرہ کے افتتاح کے موقع پر کسی نیک شخص سے دعا کرا لینا چاہئے ۔
اور دکان مکان یا کھیل وغیرہ کے آغاز کے موقع پر کسی کو بلا کر ربن کاٹنا ایک غیر اسلامی تہذیب اور ایک لایعنی اور بے فائدہ کام  اور محض غیر مسلموں کی اندھی نقالی کا نتیجہ ہے جس سے احتیاط کرنا چاہیے(1)

(1)وقال العلامۃ المناوي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: وقال بعضہم: قد یقع التشبہ في أمور قلبیۃ من الاعتقادات وإرادات وأمور خارجیۃٍ من أقوال وأفعال، قد تکون عبادات وقد تکون عادات في نحو: طعام ولباس ومسکن ونکاح واجتماع وافتراق وسفر وإقامۃ ورکوب وغیرہا، وبین الظاہر والباطن ارتباط ومناسبۃ۔ وقد بعث اللّٰہ المصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالحکمۃ التي ہي سنۃ، وہي الشرعۃ والمنہاج الذي شرعہ لہ، فکان مما شرعہ لہ من الأقوال والأفعال ما یباین سبیل المغضوب علیہم والضالین، فأمر بمخالفتہم في الہدی الظاہر في ہٰذا الحدیث۔ وإن لم یظہر فیہ مفسدۃ لأمور: منہا أن المشارکۃ في الہدی تؤثر تناسبات وتشاکلاً بین المتشابہین، تعود إلی موافقۃ ما في الأخلاق والأعمال، وہٰذا أمر محسوس … الخ۔ (فیض القدیر11/ 5743– رقم: 8593).

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے