اسلام کا نظریہ طب و علاج:

علم انسان کا ایک خصوصی وصف ہے، یہی وہ صفت ہے جس سے انسان دیگر مخلوقات سے ممتاز ہوتاہے، اس کی یہی وہ خوبی ہے جس کے سامنے فرشتے سجدہ ریز ہوگئے، معلم انسانیت اور آخری پیغمبر ﷺ پر سب سے پہلے نازل ہونے والی وحی میں ’’پڑھنے‘‘ کا تذکرہ ہے ، جس سے علم کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ متعدد موقعوں پر طلب علم کی جس طرح حوصلہ افزائی کی گئی ہے ،کسی آسمانی صحیفہ میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے اور حدیث میں تو ’’طلب علم‘‘ کو ایک اسلامی فریضہ قرار دیا گیا ہے:’’طلب العلم فریضۃ‘‘(ابن ماجہ)
علم خواہ کوئی بھی ہو اس کی اہمیت اپنی جگہ پر مسلم ہے اور اسلام اپنے پیروکاروں پر اس سلسلہ میں کوئی قدغن اور پابندی عائد نہیں کرتاہے، تاہم تمام علوم میں ’’دینی‘‘ اور ’’طبی‘‘ علم کا جو مرتبہ و مقام ہے اس سے ہرشخص واقف اور آشنا ہے ، بلکہ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ علم تو صرف دو ہی ہیں؛دینی اور طبی علم۔(العلم علمان علم الفقہ للأدیان وعلم الطب للأبدان.مفتاح السعادۃ 267/1)
یہ  امام شافعی کا قول ہے ، بعض لوگوں نے اس کی نسبت حضرت علی ؓ کی طرف بھی کی ہے۔
قرآن نازل ہوا’’قلبی امراض‘‘ کے شفا کے لیے، تاہم اس میں جسمانی بیماری اور اس کے علاج کا بھی تذکرہ ہے ، علامہ ابن قیم نے اس سلسلہ میں بڑی تفصیلی بحث کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ طب کے بنیادی اصول تین ہیں:صحت کی حفاظت، نقصان دہ چیزوں سے احتراز اور فاسد مادہ کا اخراج۔ حفاظت صحت کی غرض سے مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی کہ بھوک کی حالت میں سفر صحت کے لیے نقصان دہ ہے ، سرمیں کوئی تکلیف ہو تو حالت احرام میں بھی سر منڈوانے کی گنجائش پیدا کی گئی تاکہ اس کی وجہ سے فاسد اور خراب مادہ نکل سکے جو سر میں تکلیف کا باعث ہے، نقصان دہ چیزوں سے احتراز کے پیش نظر مریض کے لیے پانی کی جگہ تیمم کی طرف رہنمائی کی گئی تاکہ ان نقصانات سے بچا جاسکے جو پانی کی وجہ سے پہنچ سکتے ہیں۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو طب کی بنیادی اور اصولی باتوں کی طرف رہنمائی کردی ہے ۔(زادالمعاد7/4-6  )
حدیث نبوی میں اس سلسلہ میں اتنا مواد ہے کہ اس پر بڑی اور ضخیم کتابیں لکھی گئیں ہیں اور تقریباً حدیث کی ہر کتاب میں ’’طب‘‘ سے متعلق ایک باب موجود ہے اور آپ ﷺ کے اس ارشاد نے کہ اللہ نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے۔(ماانزل اللہ من داء الا انزل لہ شفاء *بخاری و مسلم)میڈیکل سائنس کی ترقی میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے، یہ حدیث ایک ڈاکٹر کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ اس میدان میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہے اور مایوسی و ناامیدی کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دے۔ یہ حدیث مریض اور ڈاکٹر دونوں کو ذہنی طور سے تیار کرتی ہے کہ ہر مرض کا علاج ہے ،کوئی مرض لاعلاج نہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کے اس ارشاد نے مسلم ڈاکٹرکے لیے نت نئی تحقیقات کی راہیں کھول دی ہے ، مسلم ڈاکٹروں  نے اس سلسلہ میں جو نمایاں ترقی کی وہ محتاج اظہار نہیں، ابن سینا کی مشہور زمانہ کتاب ’’القانون‘‘ کی آج بھی جو اہمیت اور حیثیت ہے اس سے ہر دانا و بینا آگاہ ہے ، یورپ کی تحقیقات میں بنیادی کردار اداکرنے والی یہی کتاب ہے اور انصاف پسند محققین کو اس کا اعتراف بھی ہے.

علاج توکل کے خلاف نہیں:

    اسلام نے یہ تصور دیا کہ انسان کا وجود اور اس کی زندگی ’’امانت خداوندی‘‘ ہے ، اس کی حفاظت میں کسی قسم کی کوتاہی ’’خیانت‘‘ ہے، اسلام کا یہ نقطہ نظر ہے کہ ایک قوی مومن اللہ کی نظرمیں ایک کمزور مومن کی بہ نسبت بہتر اور پسندیدہ ہے(صحیح مسلم کتاب القدر)، یہ حدیث مسلمان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنی صحت کی طرف سے غافل نہ ہو، اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث میں علاج کی تلقین کی گئی ہے ، آپؐ نے فرمایا: اللہ کے بندو! علاج کرو؛کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کاعلاج پیدا کیا ہے.(جاء ت الاعراب فقالوا یا رسول الہ : نتداوی؟ فقال نعم یا عباد اللہ تداووافان اللہ لم یضع داء الا وضع لہ شفاء غیر داء واحد قالوا : ما ھو ؟ قال الھرم مسند احمد 287/4، ترمذی /حسن صحیح)
ایک مرتبہ آنحضور ﷺ کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور فرمایا: جاؤ فلاں ڈاکٹر کو بلا لاؤ، کسی کہنے والے نے تعجب سے دریافت کیا: اللہ کے رسولؐ: آپؐ ایسا کہہ رہے ہیں؟ ارشادہوا:ہاں۔ اس لیے کہ اللہ نے جو بھی بیماری نازل کی ہے اس کے لیے علاج بھی نازل فرمایاہے۔(عن ھلال بن یساف قال دخل رسول اللہ ﷺ علی مریض یعودہ فقال ارسلوا الی طبیب ، فقال قائل وانت تقول ذالک یارسول اللہ؟ قال نعم: ان اللہ عزل وجل لم ینزل داء الا انزلہ لہ دواء زادالمعاد133/4)
حدیث میں اس نقطہ نظر اور خیال کی بھی پرزور تردید کی گئی ہے کہ ’’دواعلاج توکل کے خلاف ہے‘‘، حضرت ابوخزامہ راوی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیاکہ یارسول اللہ! دعا، دوا اور احتیاط کے سلسلہ میں آپ ؐ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ اللہ کی تقدیر کو لوٹا سکتی ہے ؟ ارشاد ہوا یہ بھی اللہ کی تقدیر ہی سے ہے۔(قال قلت یا رسول اللہ: ارأیت رقی نسترقیھا ودواء نتداوی بہ  وتقاۃ نتقیھا ھل ترد من قدر اللہ شیئا؟ فقال ھی من قدر اللہ ، اخرجہ احمد 421/1 )  علامہ ابن قیم اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’صحیح حدیثوں میں دوا، علاج کا حکم ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں، جیساکہ بھوک، پیاس کو مٹانے اور سردی و گرمی سے بچنے کی تدبیر توکل کے منافی نہیں، بلکہ ’’حقیقت توحید‘‘یہی ہے کہ بندہ ان اسباب کو اختیار کرے جن کے برتنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ان اسباب کے ترک سے توکل کی حقیقت مجروح ہوگی بلکہ حکمت خداوندی کی توہین بھی ہوگی، اس سے ان لوگوں کی بات بھی کمزور ثابت ہوجاتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ’’اسباب کو اختیار نہ کرنا توکل کی اعلیٰ قسم ہے‘‘ اس لیے کہ توکل کی حقیقت دینی اور دنیاوی معاملات میں اللہ پر اعتمادہے اور یہ اعتماد اسباب کو اختیار کرکے ہی ہوگا، ورنہ شریعت اور حکمت دونوں کو معطل کرنا لازم آئے گا، لہٰذاکوئی بندہ اپنی عاجزی کو توکل اور توکل کو عاجزی نہ سمجھ بیٹھے۔
اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو یہ کہہ کر دوا کا انکار کرتے ہیں کہ اگر تقدیر میں شفا ہے تو دوا لاحاصل اور اگر شفا نہیں تو علاج بے کار ہے ، نیز مرض، اللہ کی تقدیر سے ہے اور تقدیر لوٹائی نہیں جاسکتی ہے۔یہ تو بعینہٖ وہی سوال ہے جو کچھ دیہاتیوں نے آپ ﷺ سے کیا تھا، رہے افاضل صحابہؓ تو وہ اللہ کی حکمت اور اس کی صفات سے آشنا تھے، وہ اس طرح کا سوال نہیں کرسکتے، آنحضور ﷺ نے ان دیہاتیوں کو جواب بھی ایسا دیا کہ آگے سوال کی گنجائش باقی نہیں رہی ، آپؐ نے فرمایاکہ دوا ، دعا اور احتیاط بھی اللہ کی تقدیر سے ہے ، کوئی چیز بھی اس کی تقدیر سے باہر نہیں، بلکہ تقدیر کو تقدیر ہی کے ذریعہ دفع کرنا ہے اوریہ دفع کرنا بھی تقدیر ہے ، لہٰذا کسی بھی طرح تقدیر سے فرار کا راستہ نہیں اور یہ علاج و معالجہ بھوک اور پیاس مٹانے اور سردی و گرمی سے بچاؤ کی تدبیر کی طرح ہے (زادالمعاد16/4-15)
رہی وہ حدیث جس میں کہا گیا ہے’’میری امت کے ستر ہزار لوگ بے حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نہ تو بدفالی لیتے ہیں اور نہ زخم کو داغتے ہیں اور نہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں، بلکہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں(متفق علیہ)
تو اس سے مراد علاج و معالجہ کا وہ طریقہ ہے جس سے فائدہ نہ تو یقینی ہو اور نہ گمان غالب بلکہ وہم پر مبنی ہو ، چنانچہ ہندیہ میں ہے کہ مرض کو ختم کرنے کے اسباب تین طرح کے ہیں۔وہ اسباب جن سے فائدہ یقینی ہو۔دوسرے وہ اسباب جن سے مرض کے زائل ہونے کا ظن غالب ہو۔تیسرے وہ اسباب جن سے مرض کا زائل ہونا موہوم ہو جیسے جھاڑ پھونک اور گرم لوہے سے داغنا۔ ابتدا کی دونوں قسموں کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے ، البتہ تیسری قسم کو اختیار کرنا توکل کے خلاف ہے ۔ (الھندیہ 355/5)
یا اس سے مراد علاج کے ممنوع اور ناپسندیدہ طریقے ہیں کہ بسا اوقات جب بیماری طویل ہوجاتی ہے تو انسان علاج کے جائز طریقوں پر اکتفا نہ کرکے ، غلط اور ناپسندیدہ طریقوں کا سہارا لیتا ہے اور اللہ پر اس کا اعتماد کمزور ہونے لگتاہے۔

واقف کار سے علاج:

    دینی اور دنیاوی تمام کاموں میں ’’ماہر تر‘‘ کی طرف رجوع کرناچاہیے، قرآن و حدیث میں اسی کی ہدایت کی گئی ہے ، زندگی اور صحت کی حفاظت مقاصد شریعت میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور ’’حفاظت دین‘‘ کے بعد دوسرا درجہ ’’حفظ نفس‘‘ ہی کا ہے ، اس لیے اس معاملہ میں بہت حساس ہونے کی ضرورت ہے اور دوا وعلاج کے لیے کسی ماہر ڈاکٹر ہی سے رجوع کرنا چاہیے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ کسی صحابی کو زخم آگیا اور خون پوری طرح سے نہیں بہا اور بند ہوگیا، انھوں نے ڈاکٹروں کو بلایا ، دو ڈاکٹر حاضر ہوئے، اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا :تم میں زیادہ ماہر کون ہے؟ (عن زید بن اسلم ان رجلا فی زمان رسول اللہ ﷺ أصابہ جرح فاتقن الجرح الدم وان الرجل دعا رجلین من بنی انمار فنظراالیہ فزعما ان رسول اللہ ﷺ قال لھما ایکما اطب؟ فقال اوفی الطب خیر؟ یا رسول اللہ! فقال: انزل الدواء الذی انزل الداء المؤطا328/4بشرح الزرقانی وھو مرسل)
غیر ماہر ڈاکٹر کی حدیث میں حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور آپ ﷺ نے فرمایاکہ اگر ایسا شخص علاج کرتا ہے اور اس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچ جاتاہے تو وہ شخص ذمہ دار ہوگا۔(من تطبب ولم یعلم منہ الطب قبل ذالک فھو ضامن ، ابوداؤد)
ایک ماہر فن ڈاکٹر کسے کہا جائے گا؟ اس کی کیا کیا خوبیاں ہیں؟ اس سلسلہ میں علامہ ابن قیم کا بیان ہے کہ واقف کار ڈاکٹر کو ان اوصاف کاحامل ہوناچاہیے:
1-مرض کی نوعیت کے جانچنے کی صلاحیت کہ بیماری کس قسم کی ہے اور مرض کا سبب کیاہے؟ اس بیماری کے پیدا ہونے کی وجہ کیاہے؟
2-مریض کے بدن میں مرض سے مقابلہ کی صلاحیت اور قوت کا علم اور جسم کا طبعی مزاج اور مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر طبعی مزاج سے واقفیت۔
3-دوا کی قوت اور بیمار کے جسمانی قوت سے موازنہ اور دوا کے ری ایکشن اور اس کے توڑ کی صلاحیت۔
4-مریض کی عمر، عادت اور مرض کے وقت کے موسم کی رعایت، نیز اس بات کا علم کہ مریض جہاں کا رہنے والا ہے وہاں کی آب و ہوا کیسی ہے؟
5-ایسے طور سے مرض زائل کرنے کی کوشش کرے کہ اس دوا کی وجہ سے کسی دوسرے شدید مرض میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو۔
6-مریض کے دل کی کیفیت اور اس کی بیماریوں سے مکمل طور پر واقفیت کہ جسم کے علاج میں دل بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور جسم کی خرابی سے دل متاثر ہوا کرتا ہے۔
7-مریض کی خیرخواہی اور اس کے ساتھ شفقت و نرمی اور دلداری کا برتاؤ کرنا۔
8-طبعی، الٰہی(روحانی)نفسیاتی علاج میں سے ہر ایک کو ملحوظ رکھے، اس لیے کہ ماہر ڈاکٹر نفسیاتی علاج کے ذریعہ سے وہاں تک پہنچ سکتاہے جہاں دوا کی پہنچ نہیں ۔
9-سہل سے سہل تر علاج کی کوشش کرے، دوا اسی وقت دے جبکہ غذا سے علاج ممکن نہ رہے، ایسے ہی اگر مفرد دوا سے کام چل جائے تو مرکب دوا نہ دے۔
اگر کوئی شخص ان ذمہ دار یوں کے نباہنے کا اہل نہیں ہے تو وہ ڈاکٹر شمار کیے جانے کے لائق نہیں۔(علامہ ابن قیم نے بیس شرطوں کا تذکرہ کیاہے، اختصار کے پیش نظران میں سے چند کو چھوڑدیا گیا ہے اور ترتیب میں بھی کچھ تبدیلی کی گئی ہے‌۔) (زادالمعاد143/4-144) )
واقعہ ہے کہ ابن قیم نے ایک ڈاکٹر کی جن خصوصیات کا تذکرہ کیاہے میڈیکل سائنس کی  ترقی نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیاہے، آج بھی میڈیکل سائنس میں بنیادی طور پر تین باتیں زیر بحث آتی ہیں:
(الف) مرض کی علامت اور سبب کی تشخیص.
(ب)دوا اور اس کے مثبت و منفی اثرات
(ج)مریض کے جسم میں دوا کے قبول کرنے کی صلاحیت۔
یہ وہ باتیں ہیں جن کا تذکرہ خود علامہ ابن قیم نے کیاہے اور ان کے سوا پیش کردہ شرائط کی بھی میڈیکل سائنس میں رعایت کی جاتی ہے ۔

ناواقف ڈاکٹر:

    جس ڈاکٹرکے اندر مذکورہ صلاحیت نہ ہو اسے فقہی اصطلاح میں ’’طبیب جاہل‘‘ کہا جاتا ہے اور عوام کو تکلیف، مشقت، پریشانی، فریب اور دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے اسلامی قانون ایسے افراد پر پابندی لگاتا ہے، چنانچہ درمختار میں ہے کہ تین قسم کے افراد پر پابندی عائد کی جائے گی؛آوارہ فکر مفتی،طبیب جاہل اور وہ مفلس جو کرایہ کی سواری مہیا کرنے کی ذمہ داری لے  ۔
علامہ ابن عابدین اس کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ یہ تینوں شخص دین، بدن اور مال کو فاسد اور خراب کرنے والے ہیں، اس لیے ان پر پابندی لگائی گئی، کیونکہ عمومی نقصان کے مقابلہ میں انفراد ی نقصان کو گوارا کرلیا جاتا ہے، گویا یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قبیل سے ہے۔(درمختارمع الرد 146/6)
وہ ڈاکٹر جو ان خصوصیات کا حامل ہے مگر اس کے پاس کسی میڈیکل کالج کی سرٹیفکیٹ نہیں ہے تو اس کا شمار ’’طبیب جاہل‘‘میں نہیں ہوگا، اس لیے کہ اصل مقصود مہارت و حذاقت ہے نہ کہ سرٹیفکیٹ کا حصول، تاہم چونکہ سرٹیفکیٹ اور طبی تصدیق نامہ آج کے دور میں حذاقت و مہارت کی پہچان بن چکاہے اور اس کے بغیرکسی کی مہارت کا اندازہ لگانا مشکل ہوتاہے، اس لیے اس کا حصول بھی ضروری ہے۔

ناواقفیت کے باجود علاج:

    ناواقف اور نا اہل ڈاکٹر نے کسی کا علاج کیا اور مریض اس کی جہالت سے نا آشنا ہے تو اس علاج کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان کا یہ شخص ذمہ دار ہوگا، چنانچہ حدیث نبوی ہے :جس ڈاکٹر نے کسی قوم کا علاج کیا حالانکہ وہ پہلے سے اس فن میں مشہور نہیں تھا اور اس کے نتیجہ میں کوئی نقصان ہوجائے تو وہ ضامن ہوگا۔(ایما طبیب تطبب علی قوم لا یعرف لہ قبل ذلک فاعنت فھو ضامن (ابوداؤد630/2))
علامہ ابن قیم اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:اگرمریض نے اسے ڈاکٹر سمجھ کر علاج کی اجازت دی ہے تو اس علاج سے پہنچنے والے نقصان کا ذمہ دار ڈاکٹر ہوگا، یہی حکم اس وقت بھی ہے جب اس کے لیے کوئی دوا تجویز کرے کہ وہ اسے استعمال کرے اور مریض نے اس خیال سے کہ یہ شخص واقف ہونے اور اس فن میں مہارت کی وجہ سے رہنمائی کررہاہے یہاں تک کہ وہ اس دوا کی وجہ سے ہلاک ہوجائے تو طبیب اس کا ضامن ہوگا، حدیث اس سلسلہ میں ظاہر اور بالکل صریح ہے۔(زادالمعاد140/4)
لیکن چونکہ اس میں ایک گونہ مریض کی رضا اور اجازت بھی شامل ہے اس لیے ہلاکت کی وجہ سے اس سے قصاص نہیں لیاجائے گا بلکہ خوں بہا واجب ہے اور اس رقم کی ادائیگی میں اس کے خاندان والے یا شریک کار لوگ (عاقلہ) بھی شامل ہوںگے، علامہ خطابی کا بیان ہے:
’’جب ڈاکٹر زیادتی کربیٹھے اور اس کی وجہ سے مریض ہلاک ہوجائے تو وہ ضامن ہوگا، میں نہیں جانتا کہ اس مسئلہ میں کوئی اختلاف ہے اور جو شخص ایسے علم یا عمل کو اختیار کیے ہوئے ہے جس سے وہ واقف نہیں تو ایسا شخص زیادتی کرنے والا ہے ، لہٰذا اگر اس کے فعل سے کوئی ہلاک ہوجائے یا کوئی عضو تلف ہوجائے تو وہ خوں بہا کا ضامن ہوگا اور اس سے قصاص ساقط ہے ، کیونکہ یہ علاج مریض کی اجازت سے خالی نہیں اور نا اہل ڈاکٹر کے جرم کا تاوان اکثر فقہاء کے نزدیک اس کے متعلقین (عاقلہ) پر ہے۔‘‘(حوالہ سابق 139/4)
حنفیہ کا بھی یہی مذہب ہے کیونکہ ان کے یہاں جو شخص قتل کا بالواسطہ ذریعہ بنا ہو (متسبب) تو خوں بہا اس کے متعلقین پر واجب ہوتا ہے۔(ہدایہ مع فتح القدیر 299/10)ناواقف ڈاکٹر پر صرف تاوان کا واجب ہونا مریض کے حق کی وجہ سے ہے ، لیکن اگر قاضی مناسب سمجھے تو اس کی تنبیہ اور سرزش و فہمائش بھی کرسکتاہے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو اور کوئی اس طرح کے علاج پر اقدام نہ کرے۔ علامہ ابن رشد فرماتے ہیں؛
’’اور اگر وہ اس کا اہل نہ ہو تو اس کی پٹائی کی جائے اور قید میں ڈال دیاجائے اور اس پر تاوان واجب ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تاوان صرف اسی کے مال سے لیاجائے گا اور کہا گیا ہے کہ اس کے متعلقین بھی اس میں شریک ہوں گے۔‘‘(بدایۃ المجتہد233/2)
اگر مریض ڈاکٹر کی جہالت سے واقف ہے اور اس کے باوجود علاج کی اجازت دے دیتاہے تو ڈاکٹر نقصان کا ذمہ دار نہ ہوگا۔(وان علم المجنی علیہ انہ جاہل واذن لہ فی طبہ لم یضمن زاد المعاد 140/1)

علاج کی وجہ سے نقصان:

    اپنے فن میں مہارت اور قانونی طور سے علاج کی اجازت کے ساتھ ایک ڈاکٹر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ علاج میں ہر ممکن تدبیر کو ملحوظ رکھے، مریض کی مکمل دیکھ ریکھ ، جانچ اور اس میں ڈاکٹری آلات سے مدد لینا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، ڈاکٹری اصول کا لحاظ کرتے ہوئے اور کسی کو تاہی ولاپرواہی کے بغیر اس علاج سے کوئی نقصان پہنچ جائے تو وہ ماخوذ نہیں ہوگا، اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے، علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:
’’ماہر ڈاکٹر جس نے علاج میں فن کا حق ادا کردیا اور اس نے کوئی لاپرواہی نہیں کی تو اس کے اس فعل کی وجہ سے جس میں شریعت اور مریض کی اجازت شامل ہے کوئی عضو تلف ہوجائے یا جان چلی گئی یا کوئی صلاحیت زائل ہوگئی تو اس پر ضمان بہ اتفاق واجب نہیں ہے۔‘‘(حوالہ سابق 139/1)
لیکن اگر اس نے اس سلسلہ میں کسی کوتاہی اور بے احتیاطی سے کام لیا ہے تو وہ اپنے فعل کا ذمہ دار ہوگا اور اس پر تاوان واجب ہے، علامہ ابن قدامہ حنبلیؓ نے اس سے متعلق بڑی عمدہ بحث کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اجازت کے بعد تاوان واجب نہ ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں، وہ اپنے فن میں ماہر ، واقف کار اور صاحب بصیرت ہو ۔ دوسرے کوئی بے احتیاطی نہ کرے۔ اگر وہ اپنے فن میں مہارت کے باوجود کوتاہی کرجائے مثلاً ختنہ کرنے میں ’’حشفہ‘‘یا اس کے بعض حصہ کو کاٹ دے یا ایسے آلات سے آپریشن کیا کہ اس کی وجہ سے تکلیف بڑھ گئی یا ایسے وقت میں آپریشن کیا کہ اس وقت آپریشن مناسب نہ تھا ان تمام صورتوں میں وہ ضامن ہوگا، امام شافعی اور اصحاب رائے کا بھی یہی مذہب ہے اور میں نہیں جانتا کہ اس مسئلہ میں کوئی اختلاف ہے۔(المغنی 313/5کتاب الاجارۃ)

بے اجازت علاج:

    ذمہ داری اور تاوان سے بری ہونے کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ ڈاکٹر مریض کی اجازت سے علاج کرے،اگر وہ اجازت دینے کی پوزیشن میں نہ ہو مثلاً پاگل،بے ہوش یا نابالغ ہے تو اس کے سرپرستوں سے اجازت لینا واجب ہے ، اس اجازت میں کسی بھی طرح کا ذہنی اور نفسیاتی دباؤ نہ ہو، اگر اس نے ایسا نہیں کیا اور بے اجازت علاج کرنے لگا اور اس علاج سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوا تو ڈاکٹر ذمہ دار ہوگا، گو وہ علاج اس کی نظرمیں ضروری ہی کیوں نہ ہو۔ مشہور محقق اور بالغ نظر فقیہہ علامہ ابن نجیم مصری حنفی لکھتے ہیں:
’’دونوں روایتوں کے مجموعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تاوان واجب نہ ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں ، حد سے آگے نہ بڑھنا اور اجازت کا ہونا، اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں شرطیں نہیں پائی گئیں تو تاوان واجب ہے ۔‘‘ (البحرالرائق 29/8)
اس سلسلے میں بھی تقریباً تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔(دیکھئے کتاب الام للامام الشافعی 176/6)، امام احمد کے متبعین کا بھی یہی خیال ہے۔( وان ختن صبیا بغیر اذن ولیہ فسرت جنایتہ ضمن لانہ قطع غیر ماذون۔ المغنی 313/5،)، لیکن علامہ ابن قیم حنبلی کو اس سے اختلاف ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر کا احسان ہے اور احسان کرنے والے پر کوئی الزام نہیں، لہٰذا اس کی طرف سے علاج میں کوئی لاپرواہی نہ ہوئی ہو تو اسے ضامن قرار دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔(زاد المعاد 141/4)
تاوان کے واجب ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف اس صورت میں ہے جب کہ مریض اجازت دینے کی پوزیشن میں ہو یا اس کے سرپرست موجود ہوں، اگر وہ اجازت دینے کا اہل نہیں مثلاً بے ہوش ہو اور جائے حادثہ پر اس کے متعلقین اور رشتہ دار موجود نہ ہوں اور نہ ہی ان سے ربط قائم کیا جاسکتا ہو تو اس صورت میں اگر آپریشن یا علاج ضروری ہوکہ اس کے بغیر مریض کی زندگی یا جسم کے کسی حصہ کو خطرہ لاحق ہے، علاج کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو اس وقت بے اجازت علاج درست ہے اور ناکامی کی صورت میں وہ ذمہ دار نہ ہوگا، کیونکہ ہر انسان کا فریضہ ہے کہ وہ دوسرے کو نقصان اور ہلاکت سے بچانے کی بھرپور کوشش کرے، یہ اس کی ذمہ داری ہے اور اس کے واجبات میں شامل ہے، ایک انسانی جان کی کس قدر وقعت ہے اور اس سلسلہ میں وہ کس درجہ ماخوذ ہوگا؟ اس کا اندازہ اس مسئلہ سے لگایاجاسکتاہے کہ علامہ ابن قدامہ حنبلی نے لکھاہے:
’’اگرکوئی اس حالت میں پہنچ گیاکہ دوسرے کا کھانا اور پانی لیے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتاہے اور دوسرے سے اس نے مانگا لیکن دوسرے شخص نے اس کھانے سے اس وقت بے نیاز ہونے کے باوجود انکار کردیا اور اس کی وجہ سے یہ شخص مرگیا تو دوسرا جس سے کھانا مانگا تھا ضامن ہوگا ، نیز وہ فرماتے ہیں کہ کسی کو ہلاک ہوتے ہوئے دیکھ کر قدرت کے باوجود بچانے کی کوشش نہیں کی تو وہ گنہ گار ہوگا بلکہ بعض فقہاء کے یہاں ایک فرض سے غفلت کی بناپر تاوان بھی واجب ہے۔‘‘(المغنی238/8)
گویا ڈاکٹر اس حالت میں شریعت کی طرف سے اجازت یافتہ ہوتا ہے نیزدلالتہً سرپرستوں کی طرف سے بھی اجازت ہوتی ہے کہ اگر وہ موقع پر موجود ہوتے تو ضرور اجازت دے دیتے۔

مریض کا عیب ظاہر کرنا:

    غیبت حرام اور گناہ کبیرہ ہے، قرآن میں بہ صراحت اس سے منع کیا گیا ہے اور اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے، کسی کے راز کو ظاہر کرنا بھی ایک طرح سے غیبت ہی ہے ، کیونکہ غیبت کی تعریف ہے کہ کسی کا تذکرہ اس انداز سے کرنا جسے وہ ناپسند کرتاہے (ان تذکر اخاک بما یکرہ . الحدیث)
ایک ڈاکٹر کی ذمہ داری اس سلسلہ میں اور بڑھ جاتی ہے ، کیونکہ لوگ اس سلسلہ میں اس پر اعتماد کرتے ہیں نیز وہ اپنے مریض کا رازدار ہوتا ہے ، اس کے راز کو ظاہر کرنا امانت داری کے خلاف ہے، آپ ﷺ نے فرمایاکہ ’’مجلس کی باتیں امانت ہوتی ہیں، نیز آپ نے فرمایا:
اذاحدث الرجل بالحدیث ثم التفت فھی امانۃ ۔
جب کوئی کسی سے کوئی بات کرے پھر ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ کوئی سن تو نہیں رہا ہے تو وہ امانت ہے۔(مشکاۃ/438)
علامہ ابن الحاج مالکی لکھتے ہیں:
’’طبیب کو مریض کے اسرار کا امین ہونا چاہیے، مریض نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کو کسی پر ظاہر نہ کرے کیونکہ مریض نے اس کی اجازت نہیں دی ہے،  اگر اجازت دے دے تو بھی طبیب کو چاہیے کہ وہ کسی سے اس کے عیوب اور امراض کو ظاہر نہ کرے۔‘‘(المدخل 135/4)
اور حلف نامہ ’’بقراط ‘‘میں ہے:
’’علاج کے دوران یا اس کے باہر میں مریض کی زندگی میں ایسی کوئی چیز دیکھوں گا جسے کسی صورت ظاہر نہیں کرنا چاہیے تو میں اس کا تذکرہ شرمناک تصور کروں گا۔‘‘( جدید حیاتی مسائل اور اسلام تالیف ابوالفضل محسن ابراہیم)
نیز کویت میں طب اسلامی پر بین قومی کانفرنس کے موقع پر ایک مسلم ڈاکٹرکے لیے جو حلف نامہ تجویز کیاگیا اس میں ایک دفعہ یہ بھی ہے:
’’میں لوگوں کے وقار کو ملحوظ رکھوں گا ، ان کی نجی باتوں پر پردہ ڈالوں گا اور ان کے رازوں کی حفاظت کروں گا…اے اللہ تو اس حلف کے تئیں گواہ رہنا۔‘‘(حوالہ مذکور)
لیکن کبھی اس سے اہم تر مقصد کے لیے راز کو ظاہر کردینا ہی واجب اور ضروری ہوجاتا ہے، ہمیں اس سلسلہ میں احادیث میں متعدد واقعات ملتے ہیں۔
(الف)    ایک صحابی آپ ؐ کے پاس آئے اور کہا میں ایک انصاری عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ، رسول مقبول ﷺ نے فرمایا: ایک نظر اس لڑکی کو دیکھ لو کیونکہ انصارکی آنکھوں میں کچھ عیب ہے۔(مشکاۃ268/2)
(ب)    فاطمہ بنت قیس فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا کہ معاویہ اور ابوجہم نے مجھے نکاح کا پیغام دیا ہے، آپ کی کیارائے ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ ابوجہم تو ہمیشہ اپنے کندھے پر لاٹھی رکھے رہتے ہیں  اور معاویہ محتاج ہیں۔(حوالہ سابق 288/2)
(ج)    آپؐ نے ارشاد فرمایاکہ مجالس کی باتیں امانت ہیں ، سوائے تین مجلسوں کے
یعنی قتل ناحق، زناکاری اور لوٹ مار سے متعلق مجلسیں۔
مذکورہ بالا واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عظیم تر مقصد کے پیش نظر غیبت کو انگیز کیا جاسکتا ہے، فقہاء و محدثین نے ان احادیث کو سامنے رکھ کر اصول بنایا کہ کسی صحیح مقصد کے حصول کے لیے غیبت اور راز کو ظاہر کرناجائز اور درست ہے۔جیسے:
٭    ظالم کے ظلم کا تذکرہ تاکہ انصاف مل سکے۔
٭    منکرات اور برائیوں کو روکنے کی غرض سے۔
٭    مشورہ کے وقت اصل حقیقت کو ظاہر کرنا۔
٭    کسی مسلمان کو دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے۔
٭    فتویٰ دریافت کرنے کے مقصد سے۔
٭    ذمہ داروں اور سرپرستوں کو ان کے ماتحتوں کے حالات سے باخبر کرنا تاکہ ان کی تنبیہ کرسکیں۔(احیاء علوم الدین مع الاتحاف 332/9، فتح الباری 578/10، رد المحتار 409/6)
جدید میڈیکل قانون میں بھی اس اصول کی رعایت ہے، چنانچہ بیوچیمپ اور چائلڈریس کہتے ہیں کہ ڈاکٹر رازداری  کو صرف اسی حالت میں توڑ سکتاہے جبکہ اس کا توڑنا اس کے برخلاف اہم ترین ذمہ داری کی انجام دہی کے لیے ضروری ہو۔(جدیدحیاتی مسائل /33)

شادی کا مسئلہ:

    مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے راز ظاہر کرنے کی اجازت ہے ، اس لیے کسی عورت یا مرد میں ایسا کوئی عیب ہے کہ دوسرا فریق باخبر ہونے کی صورت میں اس عقد پر راضی نہیں ہوسکتاہے تو ڈاکٹر یا ہر اس شخص کے لیے جو اس عیب سے واقف ہے جائز ہے کہ وہ صاحب معاملہ کو اس سے آگاہ کردے، گو صاحب معاملہ نے اس سے اس سلسلہ میں مشورہ طلب نہ کیا ہو۔چنانچہ علامہ شامی کا بیان ہے:
’’کسی نے خریدار کو دیکھاکہ وہ بیچنے والے کو کھوٹے سکے ادا کر رہا ہے تو وہ بیچنے والے سے کہہ دے کہ اس سے بچو۔‘‘(رد المحتار 409/6)
اگرصاحب معاملہ نے اس سے مشورہ کیا ہے تو اس وقت اصل حقیقت سے آگاہ کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب اور ضروری ہے اور بصورت دیگر وہ گنہ گار ہوگا، کیونکہ صحیح مشہورہ دینا واجب ہے، امام نووی شافعی لکھتے ہیں:
’’اور مشورہ دینے والے پر واجب ہے کہ اس کی حالت کو چھپائے نہیں، بلکہ جس کے متعلق مشورہ کر رہا ہو، اس کی برائیوں کو خیرخواہی کے جذبہ کے ساتھ واضح کردے ۔‘‘ (ریاض الصالحین /581)
یہی حکم جاسوس اور جرائم پیشہ افراد کا بھی ہے کہ اگر کوئی ان سے واقف ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کے متعلقہ محکمہ کو اطلاع کردے تاکہ اس کے ضرر سے محفوظ رہا جاسکے، نیز متعدی امراض (جیسے ایڈز)کے حامل لوگوں کی بھی رازداری نہیں کرنی چاہیے بلکہ تمام لوگوں کو اس سے آگاہ کر دینا چاہئےے تاکہ یہ مرض دوسروں کو لاحق نہ ہو۔

ڈرائیور کی بینائی متاثر ہو یا وہ شرابی ہو:

    اصول یہ ہے کہ اجتماعی ضرر اور نقصان کے مقابلہ میں انفرادی ضرر کو گوارا کرلیاجاتا ہے۔( یتحمل الضرر الخاص لدفع ضررالعام‘‘.الاشباہ والنظائر لابن نجیم /87)، اس اصول کی روشنی میں ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان ہے کہ اگر ڈرائیور کی بینائی کمزور ہے یا وہ نشہ کا عادی ہے تو ڈاکٹرکی ذمہ داری اور فریضہ ہے کہ متعلقہ محکمہ کو اس کی اطلاع کردے گرچہ اس کی وجہ سے ڈرائیور کی ملازمت خطرہ میں پڑجائے اور وہ معاشی پریشانیوں سے دوچار ہوجائے، کیونکہ اس کی خاموشی اور رازداری اس سے بڑے خطرہ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

مجرم کی بابت اطلاع:

شہادت (گواہی)ایک امانت ہے ، جس طرح امانت کی واپسی ضروری اور اس میں خیانت بدترین گناہ ہے، اسی طرح سے گواہی دینا لازم اور اس کو چھپانا معصیت ہے، رب کائنات کا ارشاد ہے:
ولاتکتموا الشھادۃ ومن یکتمھا فانہ آثم قلبہ(سورہ بقرہ :283)
اور گواہی مت چھپاؤ ، جو کوئی گواہی چھپاتاہے تو اس کا دل گنہہ گار ہے۔
نیزفرمان باری ہے:
واقیموا الشھادۃ للہ (سورہ طلاق/2)
اللہ کے لیے گواہی قائم کرو۔
غرضیکہ گواہی ایک مذہبی اور دینی فریضہ ہے ، اس سے پہلو تہی سخت ناپسندیدہ ہے ۔ لہٰذا ڈاکٹر کسی مریض کے جرم سے آگاہ ہے اور اسی جرم کی بنا پر دوسرا بے قصور شخص ماخوذہے ، مقدمہ زیر سماعت ہے اور پورا اندیشہ ہے کہ دوسرا شخص مجرم قرار دے دیاجائے اور اصل مجرم بری ہوجائے تو ایسی صورت میں ڈاکٹر(یاکوئی بھی جو اس جرم سے واقف ہے)کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصل مجرم کے متعلق عدالت میں گواہی دے تاکہ بے گناہ رہا ہوسکے۔

ناجائز بچے کے متعلق اطلاع:

’’فحشاء‘‘ مثلاً زنا اور چوری وغیرہ کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظریہ ہے کہ ممکن حد تک اس کی اشاعت نہ ہو اگر کوئی مسلمان شامت اعمال سے اس میں مبتلا ہوجائے تو جاننے والے کے لیے بہتر ہے کہ اسے چھپالے، اپنے تک محدود رکھے، عدالت تک اسے نہ لے جائے، حضرت ماعز اسلمی کے واقعہ میں اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ہزال سے __جنھوں نے حضرت ماعز کو ترغیب دی تھی کہ آپؐ کے پاس جاکر اعتراف گناہ کرلیں__ فرمایا:
’’لوسترتہ بثوبک لکان خیرا لک‘‘
اگر تم اسے اپنے کپڑے سے چھپا لیتے تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہوتا (ابوداؤد۔مشکاۃ311/2)
نیز آپ ؐ نے ارشادفرمایا:
’’من ستر مسلما سترہ اللہ فی الدنیا والآخرۃ‘‘
جس نے کسی مسلمان کی ستر پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی ستر پوشی کریں گے۔(بخاری و مسلم)
اس طرح کی روایتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان معاملات میں شریعت کا نقطہ نظر اخفاء، پوشیدگی اور رازداری کا ہے تاکہ مبتلا شخص معاشرہ میں بدنام نہ ہو، اس کی حیثیت عرفی برقرار رہے، اسی طرح ممکن ہے کہ اللہ اسے توبہ کی توفیق دے دے اور دوبارہ ایسی جرأت نہ کرسکے، اس لیے اگر کوئی عورت اپنے ناجائز بچے کو کسی شاہراہ وغیرہ پر زندہ چھوڑدے تاکہ سماج میں بدنامی سے بچ سکے اور کوئی شخص اس سے واقف ہے تو اس کے لیے بہترہے کہ اخفاء سے کام لے ،تاہم اگر مصلحت اس میں ہوکہ متعلقہ محکمہ کو اس سے باخبر کر دیاجائے تاکہ اس طرح کے حادثات کی روک تھام ہوسکے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔

حرام اور ناپاک سے علاج:

    اسلام میں حرام اور ناپاک چیزوں سے علاج کی ممانعت ہے ، چنانچہ پیغمبر اسلام کا فرمان ہے: حرام سے علاج مت کرو.(ولا تداووا بالحرام.(رواہ ابوداؤد .نیل الاوطار204/8)
لیکن یہ حکم عمومی حالت میں ہے ، بوقت ضرورت حرام اور ناپاک سے علاج کی اجازت ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے قبیلہ عرینہ کے لوگوں کو علاج کے لیے اونٹ کا پیشاب پینے کے لیے کہا۔(بخاری و مسلم۔ زادالمعاد 204/8)
اس کے لیے شرعی اضطرار کی بھی شرط نہیں یعنی یہ اجازت صرف اس وقت نہیں جب کہ کوئی جاں بہ لب ہوجائے، حرام دوا کے بغیر زندگی کی امید باقی نہ رہے بلکہ تکلیف شدید کے وقت بھی حرام کے استعمال کی گنجائش ہے، چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ صحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن العوام خارش میں مبتلا ہوگئے تو اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں ریشمی کپڑا پہننے کی اجازت مرحمت فرمائی (رخص رسول اللہ ﷺ لعبد الرحمن بن عوف و الزبیر بن عوام فی لبس الحریر لحکۃ کانت بھما ۔بخاری ومسلم ۔زادالمعاد 76/4)حالانکہ ریشم مردوں کے لیے ممنوع ہے۔(ابوداؤد)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ عرفجہ نامی ایک صحابی کی ناک کسی جنگ کے موقع پر کٹ گئی تو انھوں نے اس کی جگہ چاندی کی ناک لگالی مگر اس میں بدبو پیدا ہوجاتی تھی تو اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں سونے کی ناک لگانے کا حکم دیا۔(ابوداؤد و الترمذی و حسنہ)
اس سلسلہ کی روایتوں پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو چیزیں بذات خود حرام ہیں(حرام بعینہٖ)وہ ضرورت شدیدہ ہی کے وقت جائز ہوں گی اور جو چیزیں کسی عارضی اور سد ذریعہ کے طور پر حرام ہیں وہ معمولی ضرورت اور مصلحت کے وقت بھی جائز ہوجاتی ہیں۔چنانچہ آپؐ نے محض ظاہری عیب کو دور کرنے کے لیے حضرت عرفجہ کو سونے کی ناک لگانے کی اجازت مرحمت فرمائی، اس سلسلہ میں اصول بیان کرتے ہوئے علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:
’’وتحریم الحریر انما کان سدا للذریعۃ…وھذہ قاعدۃ ما حرم لسد الذرائع فانہ یباح عند الحاجۃ والمصلحۃ الراجحۃ۔(زادالمعاد78/4)
رہی وہ روایت جس میں کہ ہے اللہ نے حرام کردہ چیز میں شفا نہیں رکھی ہے۔(عن ام سلمۃ قالت اشتکت لی بنت فنبذت لھا فی الکوز فدخل النبی ﷺ وھو یغلی فقال ماھٰذا فاخبرتہ فقال ان اللہ لم یجعل شفاء کم فیما حرم علیکم اخرجہ ابویعلی وصححہ ابن حبان فتح الباری 98/10ورواہ البخاری تعلیقاً وموقوفا عن ابن مسعود فی السکر ان اللہ لم یجعل شفاء کم فیما حرم) نیز یہ کہ شراب کو بطور دوا استعمال کرنے کے سلسلہ میں آپؐ نے فرمایاکہ ’’وہ مرض ہے دوا نہیں(سئل عن الخمر یجعل فی الدواء فقال انھا داء ولیس بدواء رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔زاد المعاد 155/4)
اس سلسلہ میں ابن حزم اندلسی کا خیال ہے کہ کوئی چیز جب تک حرام باقی رہے ، اس وقت تک اس میں کوئی  شفا نہیں ہے، لیکن بہ ضرورت جب حلال ہوجائے تو پھر اس میں شفا پیدا ہوجاتی ہے۔
امام طحاوی حنفی کا رجحان ہے کہ حرام چیزوں کو بطور دواء استعمال کرنے کی ممانعت صرف شراب کے ساتھ خاص ہے اور اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ عرب شراب میں بذات خود شفا کا عقیدہ رکھتے تھے، نیز اس میں تعظیم اور تقدیس کا پہلو بھی تھا ، لہٰذا شراب کے علاوہ دیگر حرام اشیاء سے بوقت ضرورت دوا کی اجازت ہے۔
ممتاز محدث اور شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی کی بھی یہی رائے ہے (دیکھئے معارف السنن 277/1) ، علامہ کشمیری فرماتے ہیں کہ حدیث اپنے عموم پر محمول ہے نشہ آور اشیاء کے ساتھ خاص نہیں ہے ، البتہ یہ حکم عام اور اختیاری حالت میں ہے ۔لہٰذا اضطراری حالت میں جبکہ اس کا کوئی بدل موجود نہ ہو ، تمام حرام چیزوں سے علاج کی اجازت ہے علامہ کشمیری ایک بڑا اچھوتا نکتہ بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں شفا کا لفظ استعمال کیا گیا
ہے اور یہ لفظ بابرکت چیزوں کے لیے استعمال ہوا ہے اور بے برکت اور ناجائز چیزوں میں گر کوئی فائدہ ہو تو اس کے لیے منفعت کا لفظ بولا جاتا ہے، جیساکہ قرآن میں شراب اور جوئے کے متعلق کہاگیاہے و فیھما اثم کبیر و منافع للناس ، لہٰذا حرام چیزوں میں بھی منفعت ہوسکتی ہے ، لیکن شریعت کی زبان میں اس کے لیے شفا کا لفظ استعمال نہیں کیاجائے گا۔(دیکھئے معارف السنن  278/1)
فقہاء مذاہب کا بھی تقریباً اس پر اتفاق ہے کہ بہ ضرورت حرام کو بطور دواء استعمال کرنے کی اجازت ہے ، چنانچہ فقہ حنفی میں صراحت ہے کہ اگر حرام سے شفا ہونے کا غالب گمان ہو اور اس کا کوئی بدل موجود نہ ہو تو پھر استعمال کی اجازت ہے ۔(وقیل یرخص اذا علم فیہ الشفاء ولم یعلم دواء آخر…وعلیہ الفتوی.درمختار مع الرد 210/1)
اور ابن العربی مالکی کا بیان ہے کہ بہ ضرورت شراب سے انتفاع جائز ہے کیونکہ دوا کا استعمال نہ کرنا کبھی موت کا سبب بن سکتاہے، حالانکہ حالت اضطراری میں حرام چیز کی حرمت ختم ہوجاتی ہے۔(احکام القرآن لابن العربی 56/1) یہی رائے امام قرطبی مالکی کی بھی ہے .(تفسیر قرطبی231/2)۔ شافعیہ کے یہاں خالص شراب بطور دوا حرام ہے ، لیکن مخلوط ہو تو بہ ضرورت علاج کی گنجائش ہے ، بشرطیکہ اس کے سوا پاک دوا موجود نہ ہو۔ یہی حکم شراب کے علاوہ دیگر نجس چیزوں کا بھی ہے کہ اگر مخلوط ہوں تو بطور علاج درست ہے۔(الفقہ علی المذاہب  8/2)
البتہ یہ ذہن نشین رہے کہ یہ حکم بدرجہ مجبوری ہے ، اس لیے بوقت ضرورت ناپسندیدگی کے ساتھ ہی اسے گوارا کرناچاہیے اور ساتھ ہی مسلم ڈاکٹروں کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ حرام دواؤں کا متبادل دریافت کریں ۔ نیز ماہر اور خدا ترس ڈاکٹرکے مشورے کے بعد ہی ایسی دواؤں کا استعمال کرناچاہیے ۔

زہر سے علاج:

    زہر حرام ہے ، لیکن حرمت کی وجہ یہ ہے کہ انسانی جان اس سے ہلاک اور ضائع ہوجاتی ہے ، لہٰذا اگر زہر خورانی سے مقصود علاج ہو، کسی انسانی جان کو بچانا ہو تو اب اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں۔ علامہ شوکانی رقم طراز ہیں:
’’ماوردی اور دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ زہر کی چند قسمیں ہیں؛کچھ وہ ہیں جن کی زیادہ اور کم مقدار ہلاک کردیتی ہے، ایسے زہر کا استعمال دوا وغیرہ کے لیے درست نہیں ، اس لیے قرآن میں ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو(’’ولاتلقوا ایدیکم الی التھلکۃ‘‘)بعض وہ ہیں کہ ان کی زیادہ مقدار قاتل ہے مگر کم مقدار نہیں، ایسے زہر کا دوا وغیرہ کے لیے زیادہ مقدار میں استعمال حرام ہے ، کم مقدار میں بغرض علاج جائز ہے۔ کچھ وہ ہیں کہ اکثر قاتل ثابت ہوتے ہیں اور کبھی نہیں بھی اور کبھی ہوسکتے ہیں تو اگر یہ بطور علاج استعمال کیاجائے تو جائز  ہے ، ورنہ نہیں۔‘‘(نیل الاوطار204/8)
البتہ اگر وہ زہر کسی ناپاک چیز سے بنایا گیا ہو تو اب اس کا استعمال بدرجہ مجبوری ہی جائز ہوگا ،ورنہ نہیں۔(یحرم شرب التریاق لنجاستہ الا اذا لم یقم غیرم فقامہ۔ التیسیر شرح الجامع الصغیر للمناوی 327/2)

خون چڑھانا:

    خون حرام ہے ، قرآن میں بصراحت اس کی حرمت کو بیان کیاگیاہے(حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر)، ساتھ ہی وہ جسم انسانی کا ایک حصہ بھی ہے اور جسم انسانی کے کسی حصہ سے فائدہ اٹھانا بھی ناجائز ہے، غرضیکہ خون کے چڑھانے میں حرمت کی دو وجہیں جمع ہوگئیں:حرام اور
ناپاک ہونا۔ انسان کا جز ہونا مگر یہ ایسا جز ہے کہ بطور علاج بدن سے نکالنے کی اجازت ہے ، حدیثوں میں پچنا کے ذریعہ خون نکالنے کی اجازت بلکہ بطور علاج ترغیب دی گئی ہے۔(خیر ما تداویتم بہ الحجامۃ (متفق علیہ) زاد المعاد 53/4)اور خود آپ ﷺ سے پچنا لگانا ثابت ہے۔(ان النبی ﷺ احتجم واعطی الحجام اجرہ ۔متفق علیہ) حوالہ سابق)
اس کی وجہ یہ ہے کہ خون نکالنے کی وجہ سے بالکل ختم نہیں ہوجاتاہے بلکہ دوبارہ پھر نیاخون بن جاتاہے، گویا کہ خون بالکل دودھ کی طرح ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ خون ناپاک اور دودھ پاک۔ لہٰذا جس طرح بچے کی ضرورت کے پیش نظر دودھ سے استفادہ کی اجازت ہے اور بغرض علاج بڑوں کے لئے بھی اس کا استعمال جائز ہے۔ (لا باس بان یسعط الرجل بلبن المرء ۃ ویشربہ للدواء ۔ہندیہ 355/5) )، اسی طرح سے اگر خون چڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے تو ایک انسان کے خون کو دوسرے کے جسم میں داخل کیاجاسکتاہے۔
رہا خون کا حرام اور ناپاک ہونا تو اس سلسلہ میں ہمیں صریح فقہی عبارتیں ملتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج کے مقصد سے خون کا استعمال جائز ہے ۔ چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’بیمار کے لئے علاج کے مقصد سے خون اور پیشاب پینے اور مردار کھانے کی گنجائش ہے ، جبکہ مسلم ڈاکٹر اسے خبر دے کہ اسی میں شفاء ہے اور کوئی دوسری جائز دوا اس کی جگہ موجود نہ ہو، اگر ڈاکٹر کہے کہ اس سے جلد صحت ہوجائے گی تو اس میں دو رائیں ہیں:کچھ لوگوں نے جائز اور کچھ نے ناجائز کہاہے۔‘‘(حوالہ سابق)
فقہائے کرام نے ان جیسے مسائل میں ڈاکٹرکے مسلمان ہونے کی شرط لگائی
ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان حرام و حلال سے واقف ہوتا ہے، حرام دوا تجویز کرتے ہوئے وہ اس کے جواز کی تمام شرطوں کو ملحوظ رکھے گا، اس کے برخلاف اگر ڈاکٹر غیرمسلم ہو  تو وہ اس کی رعایت نہیں کرسکتاہے، بلکہ بسااوقات محض سہولت اور جلد شفایابی کے لئے بھی حرام دوا تجویز کرسکتاہے۔ لہٰذا ڈاکٹر غیرمسلم ہو تو محض اس کے کہنے پر اعتماد نہیں کرلیناچاہئے بلکہ اپنے طور پر اطمینان کرلینا بھی ضروری ہے کہ آیا واقعی خون چڑھانے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ دوسرے تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کرلینا چاہئے، اگر  خود کسی فیصلہ پر پہنچ نہ سکے اور نہ کسی اور ذریعہ سے ، تو ایسی صورت میں غیرمسلم ڈاکٹر پر بھی اعتماد کیاجاسکتاہے۔

غیرمسلم کا خون:

    خون چڑھانے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کسی مسلمان ہی کا خون ہو بلکہ غیر مسلم کے خون سے بھی استفادہ کیاجاسکتاہے ، گرچہ اس سے احتیاط بہتر ہے۔دودھ پلانے والی عورت کے متعلق علامہ سرخسی حنفی کا بیان ہے:
’’اس میں کوئی برائی نہیں کہ کوئی مسلمان، کافرہ یا ایسی عورت جسے زنا سے بچہ پیدا ہوا ہو دودھ پلانے کے لئے اجرت پر رکھے، اس لئے کہ کفر کی خباثت اس کے اعتقاد میں ہے ،دود ھ میں نہیں، انبیاء علیھم السلام اور رسولوں میں سے بعض ایسے ہیں جنھوں نے کافرہ عورتوں کا دودھ پیاہے، ایسے ہی فاجرہ کی بدکاری کا اثراس کے دودھ میں نہیں ہوتاہے۔‘‘(المبسوط 127/15)
ایک انسان کا خون دوسرے میں منتقل کرنے کی وجہ سے کوئی ’’خونی رشتہ‘‘متعلق نہیں ہوگا۔

خون کا بیچنا:

    خون جسم انسانی کا ایک حصہ ہے اور انسان سر کے بال سے پیر کے ناخن تک قابل احترام ہے۔ اسے سامان خریدوفروخت بنانا انسانیت کی توہین اور اس کے احترام کے خلاف ہے، اس لئے بہ ضرورت خون کے جائز ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ خون دینے ولا بغیر کسی دباؤ کے اپنی خوشی سے کسی معاوضہ کے بغیر دے ، لیکن اگر مفت کوئی دینے کے لئے تیار نہیں تو بہ ضرورت خریدنا تو جائز ہے ، مگربیچنا کسی حال میں درست نہیں اور بیچنے والا سخت گنہہ گار ہوگا۔ اس لئے کہ قرآن نے خون کو حرام قرار دیاہے اور جو چیز حرام ہے ، اس کا فروخت کرنا بھی ناجائز ہے۔ حدیث نبوی ہے:
’’اللہ یہود پر لعنت کرے کہ اللہ نے ان پر چربی کو حرام کیا تو انھوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت سے فائدہ اٹھایا اور بلا شبہ اللہ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کرتاہے تو اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانا بھی حرام کرتاہے۔‘‘(رواہ احمدوابوداؤد۔نیل الاوطار 142/5)
اور ناگزیر ضرورت کے لئے کسی چیز کے جائز ہونے سے اس کا فروخت کرناجائز نہ ہوگا، چنانچہ فقہاء لکھتے ہیں کہ بہ ضرورت خنزیر کے بال کو استعمال کیاجاسکتاہے، لیکن بے قیمت حاصل کرنے کی کوشش ہونی چاہئے، اگر مفت نہ ملے تو اس وقت خریدنا تو جائز ہے لیکن بیچنا اور اس کی قیمت لینا جائز نہیں۔ فقہ و فتاویٰ کی مستند اور معتبرکتاب ’’درمختار‘‘ میں ہے:
’’اگربلاضرورت حاصل نہ ہوسکے تو ضرورت کی وجہ سے خریدنا جائز ہے لیکن بیچنا مکروہ ہے ، لہٰذا اس کی قیمت پاکیزہ نہ ہوگی۔‘‘(درمختار مع الرد113/4)

بلڈ بینک:

    دنیا حوادث کی آماجگاہ ہے ، حادثات پیش آتے ہی رہتے ہیں، بسا اوقات جنگ یا عمومی حادثہ کی وجہ سے خون کی کثیر مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اور بر وقت خون کی کثیر مقدار کا فراہم ہونا مشکل اور مل بھی جائے تو خون کے گروپ کا ملنا دشوار ، گویا کہ بلڈ بینک کا قیام ایک ناگزیر طبی ضرورت بن گئی ہے کہ وہاں مختلف گروپ کے خون محفوظ رکھے جائیں اور موقع پڑنے پر انھیں استعمال کیاجائے ۔ لہٰذا اس غرض سے بے قیمت اور نہ ملنے پر خرید کر خون کو جمع کرنا جائز اور درست ہے۔

اعضاء کی پیوندکاری:

    کسی ناکارہ اور ضائع شدہ عضو کی جگہ دوسری کوئی چیز لگانے کو ’’اعضاء کی پیوندکاری‘‘ سے تعبیرکرتے ہیں، اس کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔ پچھلے زمانے میں بھی اس طرح کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں خود حدیث کی کتابوں میں ایک صحابی کے متعلق سونے کی ناک لگانے کا تذکرہ ملتاہے۔ میڈیکل سائنس نے اس راہ میں مزید ترقی کی اور نت نئے انکشافات کئے جو یقینی طور پر انسانیت کی ایک بہت بڑی خدمت ہے ، لیکن بحیثیت مسلمان ہمارے سامنے یہ سوال آتاہے کہ شرعی اعتبار سے یہ عمل درست ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیونکر؟ اور نہیں تو کیوں؟ اس وقت پیوندکاری کی چار صورتیں رائج ہیں۔
1-    دھات یا پلاسٹک کا استعمال جیسے پلاسٹک کا دانت یا ناک وغیرہ ، اس کے جائز ہونے پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے ، خود حدیث میں اس کے جواز کی صراحت ہے ، حضرت عرفجہ راوی ہیں کہ ان کی ناک ایک جنگ کے موقع پر کٹ گئی تو انھوں نے چاندی کی ناک لگوالی مگر اس میں بدبو پیدا ہوجایا کرتی تھی ، اس لئے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرکے انھوں نے سونے کی ناک بنوالی(جامع ترمذی) نیز بعض صحابہ کرام سے دانت میں سونے کا تارلگانا منقول ہے۔(نصب الرایہ)
2-    انسان کے سوا دیگر جاندار کے اعضاء سے استفادہ کرنا مثلاً بندر ، بن مانس وغیرہ کے جسم کے کسی حصہ کو انسانی جسم میں منتقل کرنا، اس مسئلہ میں قدرے تفصیل ہے کہ اگرجانور حلال ہو اور شرعی طریقے پر ذبح کرکے ’’عضو‘‘ کو حاصل کیاگیا ہو تو پھر اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں، اس لئے کہ تمام جانور انسان کی خدمت اور آرام و آسانی ہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، جب بطور خوراک عام حالت میں انھیں استعمال کرنے کی اجازت ہے تو بغرض علاج ان کے جسم کے کسی عضو سے فائدہ اٹھانا بدرجہ اولیٰ جائز ہے ، حلال جانور کو زندہ باقی رکھ کر اس کے جسم کے کسی حصہ کو نکال لینا اور اسے استعمال کرنا جائز نہیں اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ زندہ جانور سے جو حصہ کاٹ کر علاحدہ کرلیاجائے وہ مردار ہے ۔(ترمذی)
مردہ حیوان کی خشک ہڈی اور بال سے استفادہ بغیر کسی تفصیل کے جائز ہے ، صرف خنزیر کا اس سے استثناء ہے کہ وہ سراپا نجس اور ناپاک ہے ۔ ہندیہ میں ہے:
’’امام محمد نے کہاکہ دوا کے طور پر ہڈی کا استعمال جائز ہے جبکہ بکری ، گائے، اونٹ یا گھوڑے یا دیگر جانوروں کی ہڈی ہو ، سوا خنزیر اور آدمی کے ، کیونکہ ان دونوں کے ہڈی سے علاج مکروہ ہے ، (یہ حکم اس وقت ہے جبکہ جانور کو شرعی طریقہ پر ذبح کیا ہو) اگر وہ مردار ہو تو خشک ہڈی سے علاج درست ہے اور تر سے نہیں اور کتے کی ہڈی بھی دوا کے لئے جائز ہے۔‘‘(ہندیہ 354/5)
لیکن یہ تمام تفصیلات عام حالات میں ہیں، اضطرار یا مشقت شدیدہ کے وقت جبکہ اس کے سوا کوئی متبادل نہ ہو مردار اور خنزیر کے جسم کے کسی حصہ سے پیوند کاری جائز اور درست ہے ، اس لئے کہ فقہی اصول ہے کہ ضرورت حرام کو بھی جائز کردیتی ہے۔( الضرورات تبیح المخطورات)
3-    انسانی جسم کے کسی حصہ کو خود اسی کے جسم میں پیوندکاری کرنا جیسے منھ پر آئے ہوئے زخم کو بھرنے کے لئے ران کا گوشت لگانا ،یہ صورت امام ابویوسف کے نزدیک جائز ہے ، اس لئے کہ اس میں جسم انسانی کی کوئی توہین نہیں. (ولا اھانۃ فی استعمال جزء منہ) امام ابوحنیفہ و محمد کے نزدیک اس کی اجازت نہیں اس لئے کہ جسم سے علاحدہ کئے ہوئے حصہ کو دفن کرنا واجب ہے تو اسے دوبارہ اس جسم میں لگانا اس کے خلاف کرنا ہے.( فاذاانفصل استحق الدفن والاعادۃ صرف لہ عن جھۃ الاستحقاق)(بدائع 132/5)
اس مسئلہ میں عام طور سے لوگوں نے امام ابویوسف کے رائے کو ترجیح دی ہے اور یہی صحیح ہے ، لیکن تراش و خراش کی اجازت اسی وقت ہوگی جبکہ کوئی دوسری تدبیر کار گرنہ ہو اور ضرورت کے لئے ہو، زینت کے لئے نہیں۔
4-    ایک زندہ یا مردہ انسان کے کسی عضو کو دوسرے انسان میں لگانا ۔ یہ صورت اسلامی نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے ، ناجائز ہونے کی بنیادی طور پر دو وجہیں ہیں:انسان اپنے جسم کا مالک و مختار نہیں  بلکہ ’’جسم‘‘ اللہ کی طرف سے ایک ’’امانت‘‘ ہے ، جس میں ایک حد تک تصرف کا اختیار تو ہے مگر اس میں غیر امانت دارانہ تصرف کرنے اور دوسروں کو دینے کا مجاز نہیں ، یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامی میں خودکشی ایک عظیم جرم ہے اور جسم میں کسی قسم کے مالکانہ تصرف اور تبدیلی کو ’’تغییر خلق اللہ‘‘(اللہ کی ساخت و بناوٹ کو بدلنا )سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کو سخت مذموم اور شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے۔
تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی بھوک کی وجہ سے جاں بلب ہو، موت
و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو اور کوئی اس سے کہے کہ میرے جسم سے کاٹ کر کھالو تو ایسی حالت میں بھی نہ تو اس شخص کو اجازت دینا جائز ہے اور نہ ہی دوسرے کے لئے کھاکر جان بچانا جائز ہے۔(دیکھئے فتاوی الخانیہ404/3، رد المحتار 215/5بلغۃ السالک 483/1، المجموع 45/9 کشاف القناع 198/6، المحلی 137/8)
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کوئی شخص اپنے جسم کا مالک نہیں ہے ، وہ اس کے پاس ایک امانت ہے، جس سے صرف فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے۔
اس مسئلہ کے ناجائز ہونے کی دوسری وجہ انسان کی عزت و تکریم ہے ، اللہ نے انسان کو مکرم و محترم بنایاہے، (ولقد کرمنا بنی آدم) جسم انسانی کی تراش خراش اور چیر پھاڑ اس کی تکریم کے خلاف ہے، یہ درست ہے کہ شریعت نے احترام انسانیت کا کوئی بے لچک اصول مقرر نہیں کیاہے ، بلکہ مبہم رکھا ہے اور اس قسم کے مسائل میں عرف اور حالات ہی کو فیصل مانا جاتا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اہل علم کی نظروں سے پوشیدہ نہیں کہ اس سلسلہ میں اسی زمانے کا عرف معتبر ہوگا جس وقت قرآن نازل ہورہا تھا، بعد کے کسی عرف و عادت سے قرآن کے کسی مبہم لفظ کی تشریح نہیں کی جاسکتی ہے، اس لئے کہ اگر حرام و حلال جیسے مسائل میں ہر زمانہ کے عرف کو معیار بنایاجائے تو پھر شریعت کی دیوار کو برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔
رہی بات ضرور ت کی کہ اس حالت میں قابل احترام چیزوں کی اہانت گوارا کی جاسکتی ہے ، لہٰذا اضطراری حالت میں تکریم انسانیت کا پہلو نظر انداز کیاجاسکتاہے، تویہ بھی صحیح ہے، لیکن جیساکہ بارہا آچکا ہے کہ اصل بنیادی وجہ مالک و مختار نہ ہونا ہے، احترام انسانیت ایک ضمنی وجہ ہے ، اس پر مسئلہ کا دارومدار نہیں اور فقہاء کی تصریحات گذرچکی ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کے مقصد سے بھی اعضا ء انسانی سے استفادہ درست نہیں۔
اس مسئلہ میں جو حکم ایک زندہ انسان کا ہے وہی مردہ کا بھی ہے ، اس لئے کہ اپنے جسم کا مالک نہ ہونے اور احترام انسانیت میں دونوں یکساں ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
’’مردہ انسان کی ہڈی کو توڑنا زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
’’مومن کو اس کے مرنے کے بعد اذیت پہنچانا اس کی زندگی میں اذیت پہنچانے کی طرح ہے۔‘‘
زندگی میں ایک گونہ تصرف کا حق بھی ہے ، مرنے کے بعد تو یہ حق بھی ختم ہوجاتاہے، لہٰذا اگر کوئی اس طرح کی کوئی وصیت کر جاتا ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی ورثاء کے لئے اس کی وصیت پر عمل کرنا جائز ہے ، بلکہ موت کے بعد صحیح حالت میں دفن کرنا ان کی ذمہ داری اور ایک اسلامی فریضہ ہے اور اس میں کسی قسم کی تراش خراش، خرد برد’’مثلہ‘‘ہے، جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے ۔(ونھی عن المثلۃ.بخاری 602/2، رشیدیہ دہلی)
کسی انسان کے عضو کی چھانٹ کاٹ کو مثلہ کہاجاتاہے۔( انما المثلۃ قطع عضو ونحوہ . حاشیہ ابوداؤد 244/1)
علامہ ابن عابدین شامی حنفی نے لکھا ہے اور خوب لکھاہے کہ :
’’ذمی(وہ کافر جو دارالاسلام میں سکونت پذیر ہو) کی ہڈی بھی قابل احترام ہے ، لہٰذا اگر وہ کسی قبرمیں پائی جائے تو اسے توڑا نہ جائے، کیونکہ یہ ’’مثلہ‘‘کی قبیل سے ہے ، لہٰذاجس طرح اس کو زندگی میں اذیت پہنچانا حرام ہے ، اسی طرح موت کے بعد ٹوٹنے سے اس کی حفاظت واجب ہے ۔(رد المحتار 246/2)
بعض حالات میں مردہ کے جسم کو چیرنے کی جو اجازت بعض فقہی کتابوں میں مذکور ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ایک دوسرے کا حق متعلق ہوچکا ہے ، اس حق کی رعایت میں  احترام انسانیت کے پہلو کو نظر انداز کردیا گیا ہے، مگر انسانی جسم کے کسی حصہ کو کاٹ کر دوسرے میں لگانے میں ایسی کوئی وجہ موجود نہیں ہے ، لہٰذا ان جیسے مسائل کواعضاء کی پیوندکاری کے لئے نظیر بنانا درست نہیں۔

پوسٹ مارٹم:

    کسی کی موت مشتبہ حالت میں ہوگئی ہو تو پوسٹ مارٹم کے ذریعہ یہ پتہ لگانا جائز ہے کہ موت کا حقیقی سبب کیا ہے؟ اس کی موت خودکشی کی وجہ سے ہوئی ہے یا کسی نے گلا گھونٹ دیا ہے؟  موت کی وجہ زہر خورانی ہے یا طبعی؟ کیونکہ اس طرح قاتل کی تلاش میں مدد ملتی ہے اور کوئی بے قصور انسان ماخوذ نہیں ہوتا ہے، اس لئے کہ بسااوقات شبہ کی بنیاد پر کسی کو پکڑ لیا جاتا ہے پھر پوسٹ مارٹم کے ذریعہ معلوم ہوتاہے کہ موت کی وجہ طبعی ہے۔ چونکہ اس صورت میں میت سے ایک دوسرے کا حق متعلق ہوچکا ہے کہ اگر ایسا نہ کیاجائے تو خطرہ ہے کہ ایک بے قصور شخص پکڑا جائے ، نیز قاتل کی تلاش بھی شرعاً مطلوب ہے ، اس لئے اہانت انسانی کو انگیز کیا جاسکتا ہے۔
اچانک کوئی وبائی مرض پھیل جائے اور بکثرت موت واقع ہونے لگے مگر اس موت کے اسباب معلوم نہ ہوں تو اس مقصد سے پوسٹ مارٹم کرنا بھی جائز ہے تاکہ اس کے سبب کو معلوم کرکے احتیاطی تدبیر اپنائی جاسکے اور مرض پر قابو پایا جاسکے، کیونکہ فقہی اصول ہے کہ عمومی مصالح کی بناپر انفرادی نقصان کو گوارا کیاجاتا ہے اور اس مقصد سے اہانت انسانیت کے پہلو کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے، دبستان فقہ حنبلی کے ترجمان علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں کہ اگرکوئی انسان کنویں میں گرکر مرجائے اور پانی کی ضرورت ہو تو لوہے کے کانٹے سے اسے نکالنا جائز ہے ، گرچہ لاش پھٹ جائے ، اس کی وجہ سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس لئے کہ زندہ کی حرمت اور اس کے نفس کی حفاظت، میت کو مثلہ ہونے سے بچانے کے مقابلہ میں بڑھ کر ہے ، کیونکہ پوری دنیا کا ختم ہوجانا اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے کمتر ہے، نیز کوئی مسلمان دوسرے کے مال کو نگل لے(اور اسی حالت میں انتقال کرجائے) تو زندہ کے مال کی حفاظت کے مقصد سے اس کے پیٹ کو چاک کردیا جائے گا تو جان کی حفاظت مال کی حفاظت سے زیادہ اہم ہے۔‘‘(المغنی مع الشرح الکبیر 407/2)

انسانی نعش پر میڈیکل ریسرچ:

    انسانی عضو کی بناوٹ اور ہڈیوں کے جوڑ، مختلف حصوں کے درمیان باہمی ربط و ضبط اور تناسب جاننے کے مقصد سے انسانی نعش کو چیرنا پھاڑنا درست نہیں، کیونکہ اولاً تو ان چیزوں کا جاننا میڈیکل تعلیم کے لئے ضروری اور ناگزیر نہیں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، دوسرے اس مقصد کے حصول کے لئے اور بھی بہت سی تدبیریں موجود ہیں ، ان ذرائع کے ہوتے ہوئے اہانت انسانی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

جانوروں پر میڈیکل ریسرچ:

    دواؤں کے اثرات کو جاننے اور ان کے فوائد کا پتہ لگانے کے لئے نیز عضو انسانی کی تشریح کے مقصد سے جانوروں پر مختلف قسم کے تجربات کئے جاتے ہیں اس طرح کے تجربات اور ریسرچ جائز اور درست ہیں، اس لئے کہ ان تجربات کا مقصد بے جا ایذا رسانی نہیں بلکہ انسانی منفعت اور فائدہ اس سے وابستہ ہے اور اسلام کا یہ نقطہ نظرہے کہ تمام جانور نوع بنی آدم کی منفعت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، رب کائنات کا ارشادہے:
والانعام خلقھا لکم فیھا دفء ومنافع و منھاتاکلون ۔(النحل:16)
’’اور اللہ نے تمہارے لئے جانوروں کو پیداکیا، جن کے بال سے گرمی کا سامان بہم ہے اور اس کے سوا بھی بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے کچھ کو تم کھاتے ہو۔‘‘
انسانی منفعت کے پیش نظر جانوروں پر سوار ہونا اور ان کے گوشت سے استفادہ کرنا جب جائز ٹھہرا ، گرچہ اس میں ایک طرح سے ان کو اذیت ہوتی ہے تو دواؤں کے اثرات کو جاننے کے لئے ان پر تجربات کرنا بھی درست ہے۔

آپریشن:

    انسان کے تحفظ اور بقا کے مقصد سے بغرض علاج آپریشن جائز اور درست ہے کہ اس طورسے پورے جسم کی حفاظت اور شدید مشقت سے نجات ملتی ہے ، اس مسئلہ کے جواز سے متعلق قدیم فقہی کتابوں میں بھی صراحت ملتی ہے ، چنانچہ ہندیہ میں ’’سراجیہ‘‘ کے حوالے سے ہے کہ جسم کا کوئی حصہ سڑ جائے تو اسے کاٹ کر نکال دینے میں کوئی حرج نہیں، نیز ’’ملتقط‘‘نامی کتاب میں ہے کہ پیٹ میں سے کسی چیز کو نکالنے کے لئے اس کو پھاڑنے میں کوئی قباحت نہیں ۔(لا بأس بقطع العضو ان وقعت فیہ الاکلۃ لئلا تسری …ولا باس بقطع الید من الاکلۃ وشق البطن لما فیہ ۔ہندیہ 360/5))
گرچہ اس آپریشن میں موت کا امکان ہی کیوں نہ ہو، لیکن گر موت یقینی ہو تو اس صورت میں آپریشن درست نہیں ۔ ہندیہ ہی میں ہے:
’’شدید اور پرخطر زخموں میں اور مثانہ میں ہونے والی پتھریوں میں اور اس کے مثل میں ، گر کہا جائے کہ موت و حیات دونوں کا
امکان ہے یا یہ کہ موت کا امکان نہیں تو اس وقت علاج کیاجائے اور اگر کہا جائے کہ موت یقینی ہے تو پھر علاج نہ کیاجائے۔‘‘(ہندیہ 360/5)

متعدی امراض:

    بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کے بارے میں قدیم زمانے سے یہ تصور چلا آرہا ہے کہ ان میں منتقل ہونے کی صلاحیت ہے ، یہ چھوا چھوت کی بیماری ہے ، مریض کے ساتھ میل جول سے تندرست انسان بھی اس مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے، فن طب میں بھی بعض بیماریوں کو متعدی خیال کیاجاتا ہے، لیکن کیا اسلام بھی اس نظریہ سے متفق ہے؟ احادیث سے اس کا جواب ’’ہاں‘‘میں ملتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’کوڑھی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘(بخاری 850/2)
نیز ارشادہے:
’’جس کے اونٹ بیمار ہوں وہ ان کو پانی پلانے کے لئے اس گھاٹ پر ہرگز نہ لے جائے جہاں تندرست اونٹ پانی پیتے ہیں۔‘‘(حوالہ سابق 859/2)
جن احادیث سے اس کے برخلاف معلوم ہوتاہے اس کی توجیہ کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ مرض میں خود منتقل ہونے کی صلاحیت ہے۔ خاصیت طبعی لازمی ہے کہ ضرور متعدی ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشاد وعمل سے اس عقیدہ کی تردید فرمائی کہ مرض کے اندر ذاتی طور پر متعدی ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ (حوالہ سابق و مسلم 230/2)اور عملی طور پر اس بد اعتقادی کو ختم کرنے کے لئے ایک جذامی کے ساتھ کھانا تناول فرمایا اور ارشاد ہوا: اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کرو۔اور کھاؤ ( مرض و شفا اسی کے قبضۂ قدر ت میں ہے) (ترمذی 4/2)، لیکن اسباب کے درجہ میں اللہ نے بعض بیماریوں میں متعدی ہونے کی صلاحیت رکھ دی ہے ، اس لئے آپ ﷺ نے فرمایاکہ جذامی سے اس طرح دور رہو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ دونوں طرح کی حدیثوں میں موافقت پیدا کرنے کے لئے اکثر علماء نے اسی توجیہ کو اختیار کیاہے۔(فتح الباری 161/10، نووی علی مسلم 230/2) تاہم بعض لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ امراض متعدی نہیں ہوتے ہیں اور جن حدیثوں سے متعدی ہونا معلوم ہوتا ہے وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو کمزور دل اور کمزور ایمان رکھتے ہیں کہ جن بیماریوں کو وہ متعدی سمجھتے ہیں ان میں مبتلا شخص سے میل جول نہ رکھیں کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ اتفاقی طور سے انھیں بھی یہ مرض لگ جائے تو ان کا اعتقاد خراب ہوگا کہ اس مرض کے اندر متعدی ہونے کی صلاحیت ہے اور اس طرح سے ان کا ایک وہم اعتقاد کا درجہ اختیار کرسکتاہے۔(فتح الباری 161/10)
یہاں اس بحث کی ضرورت نہیں کہ دلیل کے اعتبار سے ترجیح کس کو ہے ؟ کیونکہ یہ مسئلہ اب نظری نہیں بلکہ مشاہداتی ہے ، عقل و دل کی نگاہوں سے نہیں بلکہ سر کی آنکھوں سے ’’ایڈز‘‘ وغیرہ کے جراثیم منتقل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس لئے اب اس سے انکار، مشاہدہ اور تجربہ کا انکار ہے اور مان لینے میں نہ تو روح شریعت مجروح ہوتی ہے اور نہ حدیث کا انکار لازم آتاہے۔

مریض کی ذمہ داری:

    جو شخص کسی متعدی مرض مثلاً ایڈز وغیرہ میں مبتلا ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیماری اور اس کی نوعیت کے بارے میں گھر والوں اور دوسرے متعلقین کو آگاہ کردے ، ایساکرنا واجب اور ضروری ہے۔ ایسے امراض کو چھپانا اور پردہ پوشی کرنا گناہ ہے ، کیونکہ اس کے نتیجہ میں دوسروں کو ضرر اور نقصان پہنچ سکتاہے اور اگر پہلے سے اطلاع ہوگی تو احتیاطی تدبیروں کو اپنا کر اس ضرر سے بچا جاسکتا ہے۔

متعلقین کا فریضہ:

    بیمار شخص محبت ، شفقت، نرمی اور مہربانی کا حقدار ہوتاہے، اسلام میں مریض کی تیمارداری اور دیکھ ریکھ کی بڑی فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے ، لیکن ساتھ ہی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعض بیماریوں سے لوگوں کو طبعی کراہت ہوتی ہے اور کثرت اختلاط کی وجہ سے مرض کے متعدی ہوجانے کا اندیشہ ہوتاہے، اس لئے ایسے امراض کے حامل لوگوں کو عوامی مجلسوں میں جانے سے احتیاط کرناچاہئے کہ اس میں مریض اور دیگر لوگوں کے لئے عافیت ہے ، اسی میں دونوں کے لئے سہولت اور ذہنی سکون کا سامان ہے ، کیونکہ اگر ان مجلسوں میں جائیں گے تو لوگ ان سے دور بھاگنے کی کوشش کریں گے ، جس سے ان کے اندر احساس بیچارگی پیدا ہوگی ، اسی مقصد کے تحت حضرت عمرؓ کے متعلق منقول ہے کہ انھوں نے کوڑھ کے مریضوں کو عوامی اختلاط سے روک دیاتھا۔
دوسری طرف اہل خانہ کافریضہ ہے کہ انھیں بے یارومددگار تنہا نہ چھوڑ دیں بلکہ احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی تیمار داری اور نگرانی کریں، ان کے اندر جینے کا حوصلہ پیدا کریں، ان کے سامنے ایسی کوئی بات نہ کی جائے جس سے ان کا دل ٹوٹ جائے ، وہ اپنے کو بے بس، لاچار اور ایک بوجھ محسوس کریں۔

مرض منتقل کرنا :

    بعض بیماریوں کو منتقل مان لینے کے بعد ہمارے لئے یہ فیصلہ کرنا آسان ہے کہ مرض کو منتقل کرنے کے مقصد سے کوئی تدبیر اختیار کرنا گویا ’’زہر‘‘پلانا ہے اور زہر خورانی کے سلسلہ میں یہ تفصیل بیان کی گئی ہے :
کسی ناسمجھ بچے یا پاگل کو زہر آمیز کھانا کھلا دیا گیا اور کھلانے والے کے علم میں ہے کہ یہ قاتل زہر ہے اور کھانے والا اس سے ہلاک ہوجائے تو جمہور فقہاء کے نزدیک قصاص ہے۔کسی بالغ اور عاقل انسان کو زہر آمیز کھانے پر مجبور کیا گیا اور مجبور شخص کو معلوم نہیں کہ کھانے میں زہر ہے تو ہلاکت کی صورت میں مجبور کرنے والے سے قصاص لیاجائے گا، اگرمجبور شخص کو زہر کے متعلق علم ہے تو پھر قصاص نہیں (بلکہ خوں بہا ہے کیونکہ ایک گونہ اس کے اختیار کودخل ہے)۔ کسی کے حلق میں زہر ڈال دیا تو قصاص ہے ، اگرچہ وہ بالغ ہو، کیونکہ اس میں اس کے اختیار کو کوئی دخل نہیں۔
عقلمند اور بالغ شخص کے سامنے زہر آمیز کھانا پیش کیا گیا اور وہ جاننے کے باوجود کہ کھانے میں زہر ہے اسے کھالے تو نہ قصاص ہے اور نہ خوں بہا۔ اس لئے کہ وہ خود ہی قاتل ہے ، اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے ، لیکن اگر اسے معلوم نہیں ہے تو اس صورت میں قصاص واجب ہونے کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ، امام شافعیؒ کے نزدیک خوں بہا واجب ہے ، مالکیہ اور حنابلہ کی رائے کے مطابق قصاص ہے ۔ ایک قول شوافع کا بھی اسی کے موافق ہے ۔ حنفیہ کے یہاں زہر خورانی سے ہلاکت کی وجہ سے نہ قصاص ہے اور نہ خوں بہا بلکہ قید وغیرہ کے ذریعہ سرزنش کی جائے گی، لیکن کسی کے حلق میں زہر ڈال دیا یا اسے زہر کھانے پر مجبور کیا تو قاتل کے متعلقین (عاقلہ) پر دیت واجب ہے۔(یہ تفصیل الموسوعۃ الفقھیہ 257/25-58سے ماخوذ ہے۔)
فقہ حنفی کی کتابوں میں زہر کے سلسلہ میں یہی بیان کیا گیا ہے جو موسوعہ کے مرتبین نے لکھاہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ کھانے والا اس سے واقف ہو اور واقفیت کے باوجود کھالے یا میزبان کے علم میں نہیں کہ کھانے میں زہر ہے ، کیونکہ فقہ حنفی کا اصول ہے کہ اگرکوئی کسی کی موت کا سبب ہو تو اس پر دیت واجب ہے (اما القتل بسبب…اذا تلف فیہ الآدمی الدیۃ علی العاقلۃ۔ فتح القدیر214/10))، چنانچہ کوئی راستہ میں کنواں کھود دے،پتھر رکھ دے ، پانی کا چھڑکاؤ کردے اور اس سے کوئی ہلاک ہوجائے تو خوں بہا واجب ہے ۔ زہر خورانی میں بھی کھلانے والا موت کا سبب بن رہا ہے۔ لہٰذا اس اصول کے اعتبار سے اس پردیت واجب ہوگی۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص بہ قصد و ارادہ متعدی مرض کو منتقل کرتا ہے تو   ائمہ ثلاثہ کے یہاں ہلاکت کی صورت میں قصاص ہے اور فقہ حنفی کے اصول کے مطابق دیت ہے، لیکن یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اسے مرض کی نوعیت معلوم ہو کہ اس میں منتقل ہونے کی صلاحیت ہے اور اگر مرض کی نوعیت ہی سے واقف نہیں تو پھر اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

طاعون زدہ علاقے میں آمد و رفت:

    طاعون اور دیگر وبائی امراض کے سلسلہ میں اللہ کے رسول ﷺ کی یہ حدیث ہمارے لئے مشعل راہ ہے :
’’جب کسی جگہ کے متعلق سنو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم جس جگہ ہو وہیں طاعون پھوٹ پڑے تو وہاں سے فرار مت اختیارکرو۔‘‘(بخاری 152/2)
طاعون زدہ علاقوں میں جانے کی ممانعت کیوں ہے؟ اس سلسلہ میں علامہ ابن قیمؒ   کہتے ہیں :
’’جن علاقوں میں بیماری پھیلی ہوئی ہے وہاں جانا اپنے آپ کو اس بلا کے سامنے پیش کرناہے جہاں موت منھ کھولے کھڑی ہے۔ اس آمادہ جاں ستانی علاقہ میں جانا خود اپنے خلاف موت کی مد د کرنا ہے، وہاں داخل ہونا خودکشی کے مترادف ہے اور عقل و خرد کے اعتبار سے نادرست اور شرع و ذہانت کے خلاف ہے۔‘‘(الطب النبوی /34 باختصار)
طاعون زدہ علاقے سے بھاگنے سے کیوں روکا گیا؟ حالانکہ وہاں رہنااپنے آپ کو ہلاکت کے لئے پیش کرنا ہے ، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:
’’ اس کی دو وجہ ہوسکتی ہے: پہلی وجہ یہ ہے کہ انسان کا تعلق ان مشکلات میں پھنسے ہوئے لوگوں کے ساتھ رہ کر اللہ سے مضبوط ہوتاہے، وہ اللہ پر بھروسہ کرتاہے اور اس کے فیصلہ پر راضی رہتاہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو وبا سے بچنا چاہتا ہے وہ اپنے بدن سے فاسد رطوبات نکالنے کی کوشش کرے اور اس کے لئے سکون و آرام کی ضرورت ہے ، وہاں سے بھاگنا اور دور دراز مقام کا سفرکرنا سنگین قسم کی حرکات کا متقاضی ہے جو مذکورہ اصول کی روشنی میں سخت نقصان دہ ہوگا۔‘‘(حوالہ سابق)
امام غزالی نے فرار سے ممانعت کی جو وجہ بیان کی ہے ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان کی نگاہوں نے مستقبل کے اکتشافات کو دیکھ لیا ہو، وہ کہتے ہیں:
’’ہوا جسم کے ظاہری حصہ سے لگتے ہی نقصان نہیں پہنچاتی ہے ، بلکہ اس وقت ضرر رساں ہوتی ہے جبکہ سانس کے ذریعہ بار بار جسم کے اندر پہنچے، اگر ہوا میں عفونت ہے اور وہ بار بار سانس کے ذریعہ دل ، پھیپھڑا اور آنت کے اندرونی حصہ تک پہنچ کر اثرانداز ہوجائے تو پھر بھی اس کا اثر نمایاں نہیں ہوگا، مگر یہ کہ وہ اندرونی حصہ میں دیرتک اثر انداز  رہے، لہٰذا کسی شہر سے نکلنا اکثر اس اثر سے خالی نہیں ہوگا جو کہ اس کے اندرونی حصہ میں جڑ پکڑ چکا ہے۔‘‘(احیاء علوم الدین 291/4کتاب التوحید والتوکل بیان الرد علی ترک التداوی)
حاصل یہ ہے کہ بسا اوقات ایک شخص وبائی جراثیم کا حامل ہوتاہے مگر اس پر مرض کے آثار ظاہر نہیں ہوتے اور اس سے دوسروں تک منتقل ہوجاتے ہیں، اس صورتِ حال میں اکثر تندرست اور صحیح لوگوں کو بھی اس مقام سے فرار کی اجازت دی جائے تو وہ مرض پھیلاتے رہیں گے اور ہرجگہ سراسیمگی اور خوف و ہراس کی فضا بن جائے گی۔
علاوہ ازیں ، ممانعت کی وجہ خود حدیث کے الفاظ میں موجود ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’طاعون سے بھاگنا اور میدانِ جنگ سے پشت پھیرنا برابر ہے۔‘‘(الفار من الطاعون کالفار من الزحف(رواہ احمدوابن خزیمۃ فتح الباری 231/10))
کیونکہ اس کی وجہ سے وہاں باقی رہ جانے والوں کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے ، قوتِ مدافعت جواب دے جاتی ہے ، زندہ رہنے کی رہی سہی امید ختم ہوجاتی ہے اور وہ دشمن جاں کا لقمہ تر ثابت ہوتا ہے، حقیقت ہے کہ یہ حدیث آپ ﷺ کی رسالت و نبوت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے کہ چودہ سو سالہ طویل ریسرچ اور تحقیق کا نتیجہ اس کے سوا نہیں جو اللہ کے رسول ﷺ نے بیان فرمایا تھا۔ حدیث کے الفاظ اور لب و لہجہ سے معلوم ہوتاہے کہ اس پر عمل کرنا واجب اور ضروری ہے۔ اسی کے قائل اکثرعلماء ہیں۔(عون المعبود369/8، فتح الباری 231/10)
لہٰذا حکومت کی طرف سے آمد و رفت پر کوئی پابندی لگائی جاتی ہے تو وہ شرعی حکم کا نفاذ ہے ، اس کی تعمیل واجب اور ضروری ہے، البتہ بہ ضرورت آمد و رفت کی اجازت ہوگی مثلاً کچھ لوگ اپنی ضروریات کی وجہ سے باہر گئے ہوں اور ان کے اہل و عیال کو ان کی ضرورت ہے تو آنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ بہتر اور پسندیدہ ہے۔
ایسے ہی ڈاکٹروں اور ریلیف کے لوگوں کا طاعون زدہ علاقے میں جانا بھی لائق اجر اور قابل ثواب ہے۔ چنانچہ امام غزالی لکھتے ہیں:
’’طاعون زدہ شہر میں جانے سے روکا نہیں جائے گا کیونکہ مسلمان جس تکلیف میں مبتلا ہیں اس سے نجات دلانے کے لئے ایک موہوم ضرر کے خطرہ کو گوارا کرلیاجائے گا۔‘‘(احیاء العلوم مع الاتحاف 280/12)
ایسے ہی جولوگ یہاں کے باشندے نہ ہوں ، کسی کام کی وجہ سے عارضی طور پر آنا ہوا ہو اور اب وہ ضرورت باقی نہ رہی اور دوسری جگہ ان کی ضرورت ہے، یا اسی شہر کے لوگ کسی مقصد اور ضرورت سے باہر جانا چاہتے ہوں تو ان کے لئے یہاں سے نکلنا جائز ہے ، بشرطیکہ وہ اپنا طبی معائنہ کرالیں۔ چنانچہ امام نووی لکھتے ہیں:
’’تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ فرار کے سوا کسی کا م یا مقصد سے نکلنا جائز ہے اور اس کی دلیل صریح احادیث ہیں۔‘‘(شرح نووی علی مسلم 229/2)
اس کی تائید حضرت عمر کے اس طرزعمل سے بھی ہوتی ہے کہ انھوں نے خط لکھ کر طاعون زدہ علاقے سے حضرت ابوعبیدہ کو بلا بھیجا تھا گو انھوں نے آنے سے انکارکردیا، حضرت عمر کا بلانا کس مقصد سے تھا؟ اس کی بہت سی وجہیں بیان کی گئی ہیں جن میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھیں حضرت ابوعبیدہ سے کوئی ضروری کام تھا۔(فتح الباری 232/10)

متعدی امراض کی وجہ سے فسخ نکاح:

    امراض و عیوب کی وجہ سے عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں فقہاء کی رائیں مختلف ہیں۔ امام ابوحنیفہ و ابویوسف کی رائے ہے کہ مرد کے مقطوع الذکر اور نامرد ہونے کی وجہ سے عورت کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہے ، ان دو کے علاوہ کسی اور مرض و عیب کی وجہ سے مطالبۂ فسخ کا حق نہیں۔ امام محمد اور ائمہ ثلثہ کے یہاں جنون، برص اور جذام کی وجہ سے بھی عورت کو یہ حق حاصل ہوگا. (الفقہ الاسلامی وادلتہ516/7-17)
امام محمد کے مسلک کی تفصیل یہ ہے ۔
1-    یہ امراض نکاح سے پہلے ہی سے موجود ہوں لیکن عورت اس سے باخبر نہ ہو، بے خبری میں دھوکہ دے کر نکاح کیاگیا ۔ نیز نکاح کے بعد عورت نے زبان و عمل سے رضامندی کا اظہار نہ کیا ہو۔
2-    نکاح کے بعد یہ مرض پیدا ہوا ہو۔
3-    خود عورت اس مرض میں مبتلا نہ ہو۔
ان تمام شرطوں کے ساتھ عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے اور مطالبہ کا یہ حق صرف مذکورہ امراض کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر وہ مرض جو جنسی تسکین میں حارج بنے اور قابل نفرت و کراہت ہو وہ فسخ نکاح کاباعث ہے۔ زیلعی لکھتے ہیں:
’’امام محمد کہتے ہیں کہ عورت نکاح کو ختم کرسکتی ہے جبکہ شوہر میں کوئی ایسا فحش عیب ہو کہ اس کی وجہ سے ساتھ میں رہا نہ جاسکتا ہو، اس لئے کہ عورت کے لئے اس عیب کی وجہ سے اپنا حق وصول کرنا دشوار ہوجائے گا۔ لہٰذا یہ عیب بھی شرمگاہ کٹے ہوئے اور نامردی کی طرح ہے۔‘‘(تبیین الحقائق 25/3)
چونکہ امام محمد کی رائے شریعت کے مزاج و مذاق اور روح و مقاصد سے زیادہ ہم آہنگ اور قریب تر ہے اس لئے بعد کے فقہاء نے امام محمدہی کی رائے کو اختیار کیاہے۔ ہندیہ میں ہے:
’’اگر جنون حادث ہو تو نامردی کی طرح ایک سال کی مہلت دی جائے گی (کہ اس دوران اپنا علاج کرسکے) اور اگر مستقل پاگل ہو تو وہ شرم گاہ کٹے ہوئے کی طرح ہے اور اس کو ہم اختیار کرتے ہیں۔‘‘(الہندیہ526/1)
لہٰذا اگرکوئی شخص شادی کے بعد ایڈز کے مرض میں گرفتار ہوجائے یا ایڈز کے مریض نے اپنا مرض چھپا کر کسی عورت سے نکاح کرلیا اور عورت نے باخبر اور مطلع ہوجانے کے بعد صراحتاً رضامندی کا اظہار نہ کیا ہو ، نیز وہ خود اس مرض میں مبتلا نہ ہو تو اسے فسخ نکاح کے مطالبہ کا حق حاصل ہے۔

اسقاط حمل:

    اسقاط حمل کی دو صورتیں ہیں:
1-نفخ روح کے بعد۔
2-نفخ روح سے قبل۔
1- جدید طبی ذرائع اور حدیث کے مطابق بارآوری کے ایک سو بیس دن بعد جنین میں زندگی کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں ۔ ارشاد نبوی ہے:
’’تم میں سے ہر ایک رحم مادر میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں برقرار رہتاہے، پھر اتنی ہی مدت ’’علقہ‘‘رہتاہے، پھر وہ ’’مضغہ‘‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے، چالیسویں دن فرشتہ بھیجا جاتاہے جو اس میں روح پھونکتا ہے۔ ‘‘(مسلم شریف 2…332)
نفح روح کے بعد بہ اتفاق فقہاء اسقاط حرام اور ناجائز ہے ۔ احمد علیش مالکی کے الفاظ میں:
’’جان پڑجانے کے بعد اسقاط کی کوشش بالاجماع حرام ہے اور یہ کسی زندہ وجود کو قتل کرنے کے ہم معنی ہے۔‘‘(فتح العلی 399/1)
ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ اسقاط حمل اور بچوں کو زندہ دفن کردینے میں باہم کوئی
فرق نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اسقاط حمل اجماعی طور پر حرام ہے اور یہ زندہ درگور کرنا ہے ، جس کے سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے:اور جب کہ زندہ دفن کی گئی بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ انھیں کس جرم میں قتل کیاگیا۔‘‘(فتاوی ابن تیمیہ 317/4)
اور یہ حقیقت ہے کیونکہ وہ جنین جس میں زندگی کے آثار پیدا ہوچکے ہوں اس میں اور ایک زندہ انسان میں اس کے سوا فرق نہیں کہ ’’ایک پردہ رحم میں لپٹا ہوا ہے اور دوسرا اس دنیائے آب و گل میں آچکا ہے‘‘، لہٰذا روح پڑ جانے کے بعد اسقاط کی کوئی بھی کوشش اسلام کے خلاف ہے ، گو وہ بچہ ناقص الخلقت اور متعدی امراض کا حامل ہی کیوں نہ ہو، اس لئے کہ اگر اس طرح سے اسقاط کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہے تو مفلوج افراد اور بوڑھوں کی زندگی کو ختم نہ کرنے کی کیا وجہ باقی رہ جائے گی ؟ آخروہ بھی تو سماج اور متعلقین کے لئے بار ہوتے ہیں، اس سلسلہ میں ’’المجمع الفقہی الاسلامی جدہ‘‘نے بہ اتفاق جوقرار داد پاس کی ہے وہ یہ ہے:
’’اور اگر حمل پر ایک سو بیس دن گذرچکے ہوں تو پھر اسقاط جائز نہیں، گرچہ ڈاکٹر کی جانچ سے یہ معلوم ہوجائے کہ بچہ مسخ شدہ ہے۔‘‘(قرارات المجمع الفقہی الاسلامی 1408ھ -1410)
2-نفخ روح سے پہلے بھی اسقاط ناجائز ہے گو ابھی ابتدائی مرحلہ ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ درر الأحکام میں ہے:
’’جنین جس کے بعض اعضا ظاہر ہوچکے ہوں ، مکمل جنین کے حکم میں ہے ۔‘‘(درر الاحکام 109/2)
اور علامہ شامی رقم طراز ہیں:
’’یہ بات پوشیدہ نہیں ہے ، اگر خلقت مکمل ہوچکی ہو اور عورت کے کسی فعل کی وجہ سے بچہ مرجائے تو وہ عورت قتل کی طرح گنہ گار ہوگی۔‘‘(رد المحتار 519/5)
یہی وجہ ہے کہ فقہاء ابتداء خلقت سے پہلے بھی حمل ساقط کرانے میں وہی ضمان واجب قرار دیتے ہیں جو ایک مکمل جنین کو ساقط کرادینے کی صورت میں واجب ہوتاہے۔ سرخسی لکھتے ہیں:
’’جب تک کہ منی رحم میں پڑنے کے بعد خراب نہ ہو اس کے اندر حیات کی صلاحیت ہے ، لہٰذا اس کو تلف کرنے میں زندہ کی طرح ضمان واجب قرار دیاجائے گا، جیساکہ حالت احرام میں کوئی شکار کے انڈے کو توڑدے تو اس پر وہی ضمان ہے جو کسی شکار کی وجہ سے ہوتاہے۔‘‘(المبسوط 87/26)
تاہم یہ جنایت اس درجہ کی نہیں ہے جو ایک زندہ جنین کے بارے میں ہے،لہٰذا ضرورت و حاجت کے وقت اور حالت عذر میں اس کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ علامہ شامی لکھتے ہیں:
’’اگر عورت نفح روح سے پہلے حمل کو ساقط کرانا چاہے تو کیا اس کے لئے جائز ہے یا نہیں؟اس سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ فقیہ ابوموسی کی رائے کے مطابق مکروہ ہے ، وہ کہا کرتے تھے کہ منی رحم میں پڑنے کے بعد آخرکار ایک زندہ وجود بنے گی ، لہٰذا اس پر زندگی کے احکام جاری ہوںگے جیساکہ حرم کے شکار کے انڈے کے بارے میں مسئلہ ہے ۔ ابن حبان نے کہاہے کہ اس رائے کے مطابق جن لوگوں سے جواز منقول ہے وہ حالت عذر پر محمول ہے یا یہ کہ عورت کو اس کی وجہ سے قتل کا گناہ نہیں ہوگا۔‘‘(رد المحتار 380/2)
لہٰذا اگر جنین ناقص الخلقت ہو یا متعدی امراض کا حامل ہو تو آثار زندگی پیداہونے سے پہلے اسقاط کی اجازت ہوگی کیونکہ فقہاء اس سے کم تر عذرکی بناپر اسقاط کی اجازت دیتے ہیں۔
’’حمل پر ایک سو بیس دن گذرنے سے پہلے اگر اسپیشلسٹ ، قابل اعتماد ڈاکٹر فنی آلات کی مدد سے ثابت کردیں کہ جنین ایسے مرض میں مبتلا ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور خطرناک خلقی نقص سے دوچار ہے ، اگر وہ زندہ پیدا ہوجائے تو اس کی زندگی ناگفتہ بہ ہوگی اور گھر والوں کے لئے باعث الم ہوگا تو اس وقت والدین کی خواہش پر اس کا اسقاط کیاجاسکتا ہے۔‘‘(قرارات المجمع الفقہی الاسلامی 1408ھ-1410ھ)

تعلیم کا مسئلہ:

    چونکہ ایڈز کا مرض چھونے یا ساتھ اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے سے منتقل نہیں ہوتا ہے، اس لئے ایڈز کے مریضوں کو مدارس اور اسکولوں میں داخلہ سے محروم نہیں کیاجائے گا، شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک جذامی کے ساتھ کھانا تناول فرمایا تھا،کیونکہ جذام کے اثرات ان کے اندر بہت کم تھے جو عام طور سے متعدی نہیں ہوتے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
’’اس کا بھی احتمال ہے کہ جس جذامی کے ساتھ آنحضور ﷺ نے کھانا کھایا تھا اس میں یہ مرض بہت کم تھا اور اس جیسا عام طور پر متعدی نہیں  ہوتاہے۔‘‘(فتح الباری 198/10)
رہا یہ اندیشہ کہ ’’مریض بچہ کو چوٹ لگ جائے بچوں کی آپسی لڑائی میں اس جسم سے خون نکل کر دوسرے بچوں کو لگ جائے یا باہم جنسی تعلق قائم کرلیں‘‘تو اس خدشہ کی وجہ سے تعلیم جیسی نعمت سے ان کو محروم نہیں کیاجاسکتا ہے ؛کیونکہ ایسا بہت کم ہوتاہے جس کا اعتبار نہیں۔ نیز احتیاطی تدبیروں کے ذریعہ سے روک تھام بھی کی جاسکتی ہے۔

مرض وفات کے احکام:

    وہ انسان جو اپنے مال و جائداد میں بلاشرکت غیرے تصرف کا مالک ہوا کرتا ہے جب اپنی عمر کی آخری منزل پر پہنچتاہے تو اس کے تصرفات پر یک گونہ پابندی لگادی جاتی ہے تاکہ ورثاء کوممکنہ نقصان سے بچایاجاسکے، فقہی اصطلاح میں اس منزل کو ’’مرض الموت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔مجلہ احکام عدلیہ میں مرض الموت کی یہ تعریف کی گئی ہے:
’’جس مرض کی وجہ سے انسان اپنے روز مرہ کے کام انجام نہ دے سکے اور مریض ہونے کے بعد سال گذرنے سے پہلے ہی انتقال کرجائے تو وہ مرض موت ہے ۔ بشرطیکہ مرض میں زیادتی یا کوئی تبدیلی نہ ہو۔ اگر مرض بڑھتا رہے تو جس تاریخ سے مرض شدید ہوا ہے یا اس میں تبدیلی ہوئی ہے اسی دن سے مرض موت کا اعتبار کیاجائے گا ۔ اگرچہ وہ سال بھر سے زیادہ رہے۔‘‘(الفقہ الاسلامی وادلتہ 450/5)
فقیہ ابواللیث کی رائے ہے کہ روزمرہ کے کاموں سے عاجز ہونا یا صاحب فراش ہونا مرض کے ’’مرض الموت‘‘ہونے کے لئے ضروری نہیں بلکہ ہر وہ مرض جس سے عام طور سے لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں، زندہ باقی نہیں رہتے’’مرض الموت‘‘ شمار ہوگا۔ علامہ شامی کہتے ہیں کہ مناسب ہے کہ اس قول پر ’’اعتماد‘‘کیاجائے (دیکھئے رد المحتار384/4 ’ط‘ ایچ ایم سعید کمپنی پاکستان)
علمائے مالکیہ کی بھی یہی رائے ہے ۔ ’’القوانین الفقہیہ‘‘میں ہے:
’’مریض دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ مریض جو عام طور پر اس مرض سے ہلاک نہیں ہوتے جیسے سفید داغ اور کوڑھ کا مریض۔ ان پر کوئی پابندی نہیں ۔ دوسرے وہ مریض جن کی موت کا اندیشہ ہو جیسے شدید بخار، دق اور نمونیا وغیرہ۔‘‘(الفقہ الاسلامی وادلتہ 450/5)
غرض یہ کہ وہ امراض جو لاعلاج ہوں اور اکثر ان کی وجہ سے موت واقع ہوجاتی ہو ان کے لئے ’’مرض الموت‘‘ کا حکم ہوگا۔ بشرطیکہ اس مرض کی وجہ سے ایک سال کے اندر اندر ہی انتقال ہوجائے۔ اگرکسی اضافہ و زیادتی کے مرض جوں کا توں سال بھر برقرار رہا تو اس پر ’’مرض الموت‘‘کاحکم نافذ نہیں ہوگا اور اس کے تمام تصرفات درست سمجھے جائیں گے۔ ہندیہ میں ہے:
’’ہمارے اصحاب نے طوالت کی تحدید ایک سال سے کی ہے ،لہٰذا اگر کسی مرض میں سال بھر مبتلا رہے توسال گذرنے کے بعد اس کے تصرف کا وہی حکم ہے جو صحتمند لوگوں کا ہے ۔‘‘(الہندیہ 463/1)
لہٰذا ایڈز نیز طاعون و کینسر جیسے مہلک امراض میں مبتلا شخص پر ’’مرض الموت‘‘ کے احکام جاری ہوں گے ، اگرسال کے اندر ہی انتقال ہوجائے، ورنہ ان کے تصرفات درست سمجھے جائیں گے۔
یہاں اس بات کی وضاحت مناسب ہے کہ ’’مرض وفات‘‘ کی وجہ سے صرف انہی تصرفات پر پابندی لگائی جائے گی جو تبرعات کے قبیل سے ہیں۔مثلاً ہبہ، صدقہ، وصیت، وقف وغیرہ۔ نیز یہ تصرفات ایک تہائی مال سے زائد میں نافذ نہ ہوں گے۔ رہا ایک تہائی مال تو اس میں اس کے تمام مذکورہ تصرفات درست ہوں گے۔
وہ ’’تصرفات‘‘جو ضروریات زندگی میں شامل ہیں اس پر کوئی پابندی نہ ہوگی، یہاں تک کہ اگر وہ شادی کی ضرورت محسوس کرتاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ البتہ اگر وہ بیوی کو طلاق اس مقصد سے دیتا ہے کہ وہ وراثت سے محروم ہوجائے تو درست نہیں اور
بیوی وراثت کی حقدار ہوگی ۔ بشرطیکہ عورت اس طلاق پر راضی نہ ہو اور شوہر نے اپنی مرضی سے بلا اکراہ طلاق دیا ہو اور عدت کے دوران شوہر کی وفات ہوجائے۔(دیکھئے رد المحتار 386/3)

میڈیکل جانچ پر کمیشن:

    کسی معاملہ کے جائز ہونے کے لئے باہمی رضامندی اور خوش دلی ضروری ہے، رضامندی کے بغیر کسی پر کوئی معاملہ تھوپنا شریعت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ اور ممنوع ہے، گرچہ وہ مجبوری کی وجہ سے بظاہر اسے قبول کرلے، یہی وجہ ہے کہ خرید و فروخت کے ساتھ شرط لگانے کی ممانعت کی گئی ہے(دیکھئے بلوغ المرام:144)اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
’’سنو خوش دلی کے بغیر کسی انسان کا مال حلال نہیں ہے۔‘‘(مشکاۃالمصابیح 889/2)
ریفر کرنے اور جانچ کرانے پر کمیشن لینا، رشوت کے حکم میں ہے اور خوش دلی کے بغیر مجبوری سے فائدہ اٹھا کر دوسرے کے مال کو ہڑپ لینا ہے اور مریض کو مال تجارت بناکر بیچنا ہے، جوکسی بھی حال میں جائز نہیں ہے۔
اگرکسی ڈاکٹر کو مرض سمجھ میں نہ آئے تو اس کا ’’فرض‘‘ہے کہ وہ کسی اچھے اور قابل اعتماد ڈاکٹر کو ریفر کردے۔ اگر واقعی جانچ کی ضرورت ہو تو جانچ کرائے، یہ ایک ڈاکٹرکے لئے دینی، اخلاقی اور قانونی فریضہ ہے، مریض کوئی قابل فروخت مال نہیں ہے جس پر کمیشن لیاجائے۔اسی طرح سے محض کمیشن حاصل کرنے کے لئے ریفر کرنا اور کسی خاص جگہ سے جانچ کرانے اور کسی مخصوص دوکان سے دوا خریدنے کا پابند بنانا بھی مریض کے ساتھ دھوکہ اور ناجائز ہے۔
ڈاکٹر کا پیشہ ایک پاکیزہ اور باعزت پیشہ ہے ، اس کا اصل مقصد خدمت خلق ہے ، لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس پیشہ سے امانت و دیانت ختم ہوتی جارہی ہے اور خدمت کی جگہ تجارتی ذہنیت لے رہی ہے، ڈاکٹروں کو اس پہلو پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے