الکوہل کا استعمال:
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
الکوہل ایک کیمیائی مادہ ہے جو مختلف پھلوں اور اناج کے نشاستہ یا شکر سے بنایا جاتاہے، اس کی بہت ساری قسمیں ہیں، جن میں صرف ایک قسم ایتھائیل نشہ آور ہے۔ نشہ آور جامد چیزیں جیسے بھانگ ، افیون ، حشیش وغیرہ تمام فقہاء کے یہاں پاک ہیں۔
نشہ آور مشروب اور سیال کو امام مالک، شافعی، احمدبن حنبل ، محمدبن حسن اور بعض دوسرے فقہاء ناپاک قرار دیتے ہیں (دیکھئے فتح العلی 362/2، ،التہذیب 187/1۔المغنی 514/12 )
اس کے برخلاف امام مالک کے استاذ ربیعہ، مشہور محدث اور فقیہ لیث بن سعد، امام شافعی کے مایہ ناز شاگرد علامہ مزنی اور امام داؤد ظاہری اسے پاک قرار دیتے ہیں، علامہ صنعانی، شوکانی اور قنوجی وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں۔( الجامع لاحکام القرآن 288/6۔المجموع 564/2۔ الموسوعۃ الفقہیہ 27/5)
امام ابوحنیفہ و ابویوسف کے نزدیک انگور، کشمش اور کھجور کی شراب ناپاک اور اس کے علاوہ دیگر چیزوں کی شراب پاک ہے ، انگوری شراب نجاست غلیظہ ہے اور کشمش وغیرہ کی شراب نجاست خفیفہ ہے۔(رد المحتار 28/10)
شراب کی پاکی کے دلائل:
1- ہرچیز میں اصل طہارت ہے ، شریعت کا اصول یہ ہے کہ ہر چیز کو پاک سمجھا
جائے گا مگر یہ کہ واضح اور صحیح دلیل سے کسی چیز کا ناپاک ہونا معلوم ہوجائے۔ کتاب و سنت میں شراب کی ناپاکی کے سلسلہ میں کوئی واضح حکم موجود نہیں ہے ، اس لیے اصول اور ضابطے کے مطابق اسے پاک ہی سمجھاجائے گا۔(دیکھئے الروضۃ الندیہ 40/1)
2-کسی حرام چیز کے لیے ناپاک ہونا ضروری نہیں ہے ، چنانچہ حشیش حرام ہے لیکن پاک ہے ، اسی طرح سے نشہ آور جامد چیزوں کا کھانا اور جان لیوا زہر کا پینا حرام ہے لیکن یہ چیزیں ناپاک نہیں ہیں، البتہ نجاست کے لیے حرام ہونا ضروری ہے ، لہٰذا ہرنجس حرام ہے لیکن ہر حرام نجس ہو ، ایسا نہیں۔(سبل السلام 36/1 )
3- قرآن حکیم میں ’’خمر‘‘ کو ’’رجس‘‘ کہاگیا ہے اور رجس گندی اور گھناؤنی چیز کو کہاجاتا ہے،اور گندی چیز کے لیے ناپاک ہونا ضروری نہیں ہے ، چنانچہ علامہ نووی لکھتے ہیں:
لایظھر من الآیۃ دلالۃ ظاہرۃ لان الرجس عند اھل اللغۃ القذارۃ ولا یلزم من ذالک النجاسۃ وکذالک الامر بالاجتناب لایلزم منہ النجاسۃ۔ (المجموع 564/2)
آیت سے بظاہر ناپاک ہونے کی وضاحت نہیں ہوتی ہے، اس لیے کہ اہل لغت کے نزدیک ’’رجس‘‘ گندگی کو کہا جاتا ہے، جس کا ناپاک ہونا ضروری نہیں ہے ، اسی طرح سے اجتناب کے حکم سے بھی ناپاک ہونا نہیں معلوم ہوتاہے۔
ناپاکی کے دلائل:
شراب کو ناپاک قرار دینے والوں کی سب سے اہم دلیل قرآن حکیم کی یہ آیت ہے:
انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔(سورۃ المائدہ:90)
شراب ، جوا، بت اور پانسہ یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، اس لیے ان سے بچو۔
اس آیت میں خمر کو ’’رجس‘‘ کہا گیاہے اور یہ لغت کے اعتبار سے نجاست کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتاہے ۔(مصباح المنیر 83۔227 لساب العرب 94/5-95)
اور قرآن و حدیث میں متعدد مواقع پر اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے، چنانچہ اسی بنیاد پر ’’خنزیر‘‘ کو نجس قرار دیاگیاہے اور جولوگ شراب کی پاکی کے قائل ہیں وہ بھی خنزیر کے سلسلہ میں اسی لفظ کو نجاست کے مفہوم میں مراد لیتے ہیں(الروضۃ الندیہ 39/1، نیل المرام 484/2)
اسی طرح سے حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس طہارت حاصل کرنے کے لیے پتھر کے ساتھ مینگنی لائی گئی تو آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا "ھی رجس” یہ ناپاک ہے۔(سنن ابن ماجہ 114/1 )
البتہ مذکورہ آیت میں خمر کے ساتھ جوا ، پانسہ اور بت کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیاگیاہے، حالانکہ یہ چیزیں ناپاک نہیں ہیں.
واضح رہے کہ علامہ ابن حزم کے نزدیک آیت میں مذکور تمام چیزیں ناپاک ہیں اور ان کے ساتھ نماز باطل ہوجائے گی۔ (المحلی 199/1)
اور جب یہ ناپاک نہیں ہیں تو شراب کو بھی ناپاک نہیں ہونا چاہیے ، اس لیے کہ ہر ایک کے لیے یہ لفظ استعمال کیاگیا ہے ، اس سلسلے میں بعض مفسرین نے لکھاہے کہ ’’رجس‘‘ صرف ’’الخمر‘‘ کی خبر ہے اور بقیہ کی خبر محذوف ہے۔ ( عنایۃ القاضی 540/3، احمدبن محمدالخفاجی ) لیکن یہ ایک کمزور تاویل ہے، صحیح یہی ہے کہ رجس تمام چیزوں کی خبر ہے اور چونکہ یہ مصدر ہے اس لیے اسے متعدد چیزوں کی خبر بناسکتے ہیں جیسے کہ ایک آیت میں کہاگیاہے کہ ’’انما المشرکون نجس‘‘(مشرک گندے ہیں) اس آیت میں ’’المشرکون‘‘ جمع ہے اور ’’نجس‘‘ واحد ہے لیکن مصدر ہے اس لیے واحد کو جمع کی خبر بنانا درست ہے۔(روح المعانی 16/7)
لہٰذا اگر چہ ’’رجس‘‘ نجاست کے مفہوم میں آتا ہے لیکن مذکورہ آیت میں وہ اس مفہوم میں استعمال نہیں ہوا ہے ، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ یہ سب اللہ کی ناراضگی کا ذریعہ اور شیطانی کام ہیں۔(ای سخط من عمل الشیطان”) اسی طرح سے سعید بن جبیر نے اس کی تفسیر ’’اثم‘‘(گناہ) اور زید بن اسلم نے ’’شر‘‘ کے لفظ سے کی ہے۔(مختصر تفسیر ابن کثیر 545/1)
2- جمہور کی دوسری دلیل یہ حدیث ہے:
عن ابی ثعلبۃ قال قلت یا رسول اللہ انا بارض قوم من اھل الکتاب افناکل فی آنیتھم قال ان وجدتم غیرھا فلا تاکلوا فیھا وان لم تجدوا فاغسلوھا وکلوا فیھا (متفق علیہ) ولاحمد وابی داؤد ان ارضنا ارض اھل الکتاب وانھم یاکلون لحم الخنزیر ویشربون الخمر فکیف نصنع بانیتھم وقدورھم قال ان لم تجدوا غیرھا فارحضوھا بالماء واطبخوا فیھا واشربوا وللترمذی سئل رسول اللہ ﷺ عن قدور المجوس قال انقوھا غلاء واطبخوا فیھا (منتقی الاخبار مع نیل الاوطار 71/1 )
حضرت ثعلبہ نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیاکہ ہم لوگ اہل کتاب کے درمیان رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا سکتے ہیں؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اگر دوسرا برتن موجود ہو تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ اور اگر دوسرا موجود نہ ہو تو اسے دھل کر اس میں کھاؤ۔ امام احمد اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ انھوں نے کہاکہ ہمار ے یہاں زیادہ تر اہل کتاب آباد ہیں اور وہ لوگ خنزیر کھاتے اور شراب پیتے ہیں تو کیا ہم ان کے برتن اور دیگچی کو استعمال کرسکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایاکہ اس کے علاوہ دوسرا برتن نہ ہو تو اسے پہلے پانی سے دھولو پھر اس میں کھانا پکاؤ اور پانی پیو۔ اور امام ترمذی نے نقل کیا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مجوس (پارسی) کے برتن کے متعلق سوال کیا گیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ اسے دھوکر اچھی طرح صاف کرلو پھر اس میں پکاؤ۔
صحابہ کرامؓ کو اہل کتاب کے برتنوں کے استعمال میں پس و پیش تھا کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ لوگ انھیں برتنوں میں خنزیر کا گوشت پکاتے ہیں اور شراب پیتے ہیں اور ان کی نگاہ میں دونوں ہی نجس تھے اور اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے اس خیال پر کوئی نکیر نہیں فرمائی بلکہ تائید کی اور برتن کو دھلنے کے بعد استعمال کرنے کو کہا۔(اعلاء السنن 398/1)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس روایت میں شراب کی نجاست کے سلسلہ میں کوئی صراحت نہیں ہے کیونکہ اگر وہ نجس ہوتا تو دوسری ناپاک چیزوں کی طرح دھلنے کے بعد پاک ہوجاتا، حالانکہ حدیث میں یہ شرط ہے کہ دوسرا برتن دستیاب نہ ہو تو ان کے برتنوں کو دھوکر استعمال کرو، اس شرط سے معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کی وجہ نجاست نہیں ہے بلکہ شراب اور خنزیر سے جو طبعی کراہت ہونی چاہیے وہ ایسے برتنوں کے استعمال کی اجازت نہیں دیتی مگر یہ کہ مجبوری ہو تو پھر ان کے دھونے پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے بلکہ دوبارہ دھوکر استعمال کرناچاہیے۔( نیل الاوطار 59/1)
3- شراب کی ناپاکی کے لیے علامہ ظفر احمد عثمانی نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ
پاک چیزوں کا بیچنا اجماعی طور پر صحیح ہے ، حالانکہ شراب بیچنا بہ اتفاق غلط ہے ، اگر یہ پاک ہوتی تو اس کا بیچنا حرام نہ ہوتا، لہٰذا شراب بیچنے کی حرمت کے باوجود اس کی پاکی کا قائل ہونا ’’خرق اجماع‘‘ ہے۔ (اعلاء السنن 400/1) لیکن اس دلیل سے بھی اتفاق مشکل ہے کیونکہ شراب بیچنے سے صراحتاً احادیث میں منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ شراب پینے میں تعاون ہے اور معصیت کے سلسلہ میں تعاون بھی معصیت ہے ، اللہ کے رسول ﷺ کاارشاد ہے:
ان الذی حرم شربھا حرم بیعھا(صحیح مسلم:595)
جس ذات نے اس کے پینے کو حرام قرار دیا ہے اس نے اس کے بیچنے کو بھی حرام کہاہے ۔
اورایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا:
ان اللہ ورسولہ حرم بیع الخمر والخنزیر والمیتۃ والاصنام(حوالہ مذکور )
اللہ عزوجل اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کے بیچنے کو حرام قرار دیاہے۔
دوسرے یہ کہ حشیش اور بھانگ جیسے جامد مسکرات کی پاکی پر بھی تمام فقہاء کا اتفاق ہے ، لیکن اس کا بیچنا حرام ہے ، حالانکہ اس دلیل کے اعتبار سے اسے بھی ناپاک ہوناچاہیے۔
4- علامہ عثمانی نے ایک دلیل یہ بھی ذکر کی ہے کہ کسی چیز کے بیچنے کی حرمت یا تو اس کی شرافت اور کرامت کی وجہ سے ہوتی ہے جیسے آزاد انسان یا اس میں مال بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے یا عمومی طور پر اس سے تمام لوگوں کو فائدہ حاصل کرنے کا حق ہو جیسے کنویں وغیرہ کا پانی یا بیچنا حرام ہے ناپاکی کی وجہ سے جیسے پیشاب اور نجاست۔ شراب کے اندر شرافت اور عزت کا پہلو نہیں ہے اور یہ بھی نہیں کہ اس میں مال بننے کی صلاحیت نہ ہو کیونکہ خود قرآن میں ہے کہ اس میں کچھ فائدے ہیں اور اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اسلامی حکومت کے غیرمسلم شہریوں کے لیے مال ہے ، اس لیے اسلامی حکومت میں بھی ان کے لیے آپس میں شراب کی خریدوفروخت درست ہے ، اور اگر یہ اپنے میں سے کسی آزاد کو بیچنا چاہیں تو اس کی اجازت نہ ہوگی جس سے معلوم ہوتاہے کہ آزاد انسان مال نہیں ہے اور شراب مال ہے ، لہٰذا اب حرمت کی ایک ہی وجہ رہ جاتی ہے اور وہ ہے نجاست ۔(اعلاء السنن 400/1)
ظاہرہے کہ یہ دلیل بھی اس سے پہلے کی دلیل کی طرح ہے ، جس میں اس بات کو نظر انداز کردیا گیا ہے کہ کبھی کسی چیز کی فروختگی حرام ہوتی ہے معصیت میں تعاون کی وجہ سے جیسے دھات وغیرہ کے بت ، یقینی طور پر اپنے اندر مالیت رکھتے ہیں اور جمہور کے نقطۂ نظر کے مطابق اس میں ظاہری ناپاکی نہیں ہے حالانکہ قرآن میں بت کے لیے بھی ’’رجس‘‘ کا لفظ آیاہے "فاجتنبوا الرجس من الاوثان”.(الحج/930) اس کے باوجود اس کی خرید و فروخت حرام ہے جیساکہ گذشتہ حدیث میں اس کی صراحت ہے ، اسی طرح سے نشہ آور جامدچیزیں بہ اتفاق پاک ہیں لیکن ان کی فروختگی حرام ہے۔
قطع نظر اس سے کہ دونوں رایوں میں سے کونسی رائے راجح ہے ، اتنی بات ضرور ثابت ہے کہ ناپاک کہنے والوں کی دلیل گرچہ اپنے موضوع پر صریح نہیں ہے لیکن اس سے غیر متعلق اور بالکل بے وزن بھی نہیں ہے اور پاک کہنے والوں کے اعتبار سے بھی ’الکوہل‘ سے متعلق مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ہے، کیونکہ وہ بھی اس کے قائل نہیں ہیں کہ شراب کو اپنے پاس رکھاجائے، اس کی تجارت کی جائے، دوا میں ملاکر اسے پیا جائے، اس سے خوشبو کا آمیزہ تیار کر بدن اور کپڑے پر چھڑکاجائے یا کسی بھی طرح سے اس کا استعمال کیاجائے۔
البتہ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ اور ابویوسف کا جو نقطہ نظر ہے اس سے کچھ حل نکل آتاہے ، ان کی رائے کی تفصیل یہ ہے :
’’خمر‘‘ لغت کے اعتبار سے انگور کی کچی شراب کا نام ہے ، جب اس میں جوش اور تیزی آجائے۔ابن منظور لکھتے ہیں:
لان حقیقۃ الخمر انما ھی العنب دون سائر الاشیاء۔ (لسان العرب 339/5)
لفظ کی حقیقت کے اعتبار سے خمر انگور کی شراب کو کہتے ہیں نہ کہ دوسری چیزوں کی شراب کو ۔
انگور کی پکائی ہوئی شراب، کشمش اور کھجور کی شراب بھی اسی حکم میں شامل ہے ، کیونکہ حدیث میں ہے :
الخمر من ھاتین الشجرتین الکرمۃ والنخلۃ۔(صحیح مسلم مع تکملہ فتح الملہم 513/9) خمر انگور اور کھجور کی شراب کا نام ہے۔
انگور اور کھجور کی شراب کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے گرچہ اس سے نشہ نہ ہو، اور ان کی شراب ناپاک ہے اور خریدو فروخت نادرست ہے، ان کے علاوہ نشہ آور سیال چیزیں اسی وقت حرام ہیں جب وہ نشہ کے بقدر پی جائیں ان کی خریدو فروخت درست ہے اور یہ پاک ہیں۔
اور علامہ محمد تقی عثمانی کی تحقیق یہ ہے کہ اس وقت عام طور پر جو الکوہل دستیاب ہیں وہ کھجور اور انگور سے کشید نہیں کیے جاتے، اس لیے دوا اور علاج کے مقصد سے ان کی خریدوفروخت جائز اور بغرض علاج ان کا استعمال درست ہے(تکملہ فتح الملہم 515/7، 419/9) اور عطریات میں جو الکوہل استعمال ہواہے فنی ماہرین کی تحقیق و اطلاع کے مطابق وہ نشہ آور نہیں ہے اس لیے یہ ناپاک نہیں ہے۔(نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے /183)