بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(40)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242
40-احتجاج کے لئے چکا جام کرنا اور دھرنا دینا:
احتجاج کے طور پر سڑکوں پر نکلنا ،مارچ کرنا اور دھرنا دینا جائز ہے ۔حضرت ابوھریرہ کہتے ہیں :
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْكُو جَارَهُ، فَقَالَ : ” اذْهَبْ فَاصْبِرْ ". فَأَتَاهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَقَالَ : ” اذْهَبْ فَاطْرَحْ مَتَاعَكَ فِي الطَّرِيقِ ". فَطَرَحَ مَتَاعَهُ فِي الطَّرِيقِ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ فَيُخْبِرُهُمْ خَبَرَهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَلْعَنُونَهُ : فَعَلَ اللَّهُ بِهِ وَفَعَلَ وَفَعَلَ. فَجَاءَ إِلَيْهِ جَارُهُ فَقَالَ لَهُ : ارْجِعْ، لَا تَرَى مِنِّي شَيْئًا تَكْرَهُهُ.
’’رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر آیا ، آپؐ نے فرمایا : صبر کرو۔وہ دو تین مرتبہ شکایت لے کے آیا تو آپ صلّی علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اپنا سامان راستہ میں ڈال دو ، اس نے ایسا ہی کیا ، لوگ وہاں سے گزرتے اور یہ منظر دیکھ کر اس سے صورت حال دریافت کرتے جسے سن کر لوگ اس کے پڑوسی پر لعن طعن کرتے ، اور کہتے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا ایسا کرے۔
وہ پڑوسی اس کے پاس آیا اور کہا اپنا سامان اندر کرلو ،مجھ سے دوبارہ ایسی حرکت نہیں ہوگی۔(ابوداؤد:5153)
اور ایک روایت میں ہے کہ وہ پڑوسی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ لوگ مجھے تکلیف پہنچا رہے ہیں ، اللہ کے رسولؐ نے پوچھا کیا کر رہے ہیں ؟ کہنے لگا کہ مجھ پر لعنت بھیج رہے ہیں ، آپؐ نے فرمایا کہ لوگوں سے پہلے تو اللہ نے تم پر لعنت کی ہے ، اس نے کہا کہ میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ، اتنے میں شکایت کرنے والے بھی آگئے ، آپؐ نے کہا اپنا سامان اٹھا لو ، مقصد پورا ہوگیا ‘‘۔(مجمع الزوائد:170/8)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا، اس کے لیے سڑک پر نکلنا اور دوسرے لوگوں کا اس سے یک جہتی کا اظہار اور ظلم کی مذمت کرنا اور ظلم سے باز آنے اور اس کی تلافی کرنے تک سڑک پر دھرنا دینا اور رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا جائز ہے۔
البتہ اس کے جواز کے لئے ضروری ہے کہ عام راستوں اور گزرگاہوں کو اس طرح سے بند نہ کیا جائے جس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہو۔(1)حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الطُّرُقَاتِ ". فَقَالُوا : مَا لَنَا بُدٌّ، إِنَّمَا هِيَ مَجَالِسُنَا، نَتَحَدَّثُ فِيهَا. قَالَ : ” فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجَالِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهَا ". قَالُوا : وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ ؟ قَالَ : ” غَضُّ الْبَصَرِ، وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْكَرِ ".
راستے پر بیٹھنے سے بچو ،لوگوں نے عرض کیا: ہمارے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ۔وہی تو ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہے ،جہاں ہم بات چیت کرتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر وہاں بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو ۔صحابہ کرام نے عرض کیا : راستے کا حق کیا ہے ؟فرمایا:نگاہ جھکائے رکھنا ،تکلیف دہ چیزوں سے باز رہنا،سلام کا جواب اور اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ۔( صحيح بخاري: 2465)
اور حضرت معاذ بن أنس جہنی کہتے ہیں:
غَزَوْتُ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ كَذَا وَكَذَا، فَضَيَّقَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، وَقَطَعُوا الطَّرِيقَ، فَبَعَثَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا يُنَادِي فِي النَّاسِ : ” أَنَّ مَنْ ضَيَّقَ مَنْزِلًا أَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَلَا جِهَادَ لَهُ ".
اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ میں فلاں فلاں غزوے میں شریک رہا لوگوں نے ایک مرتبہ (ضرورت سے زیادہ جگہ گھیر کر)پڑاؤ کی جگہوں کو تنگ اور راستے کو بند کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو بھیجا کہ وہ لوگوں میں اعلان کردےکہ جو پڑاؤ کی جگہوں کو تنگ یا راستے کو بند کرے تو اس کے لیے کوئی جہاد نہیں ہے۔(ابوداؤد: 2629مسند احمد:15648)
1-نیز احتجاج و مظاہرہ کا راستہ اسی وقت اپنایا جائے جب کہ گفت و شنید اور دوسرے ذرائع سے انصاف اور حق تک رسائی نہ ہوسکے۔
2-احتجاج میں شامل ہونے کے لیے کسی کو مجبور نہ کیا جائے لہذا اگر تمام لوگ اپنی خوشی سے دکانیں بند کر دیں اور اپنی گاڑیاں نہ چلائیں تو ایسا کرنا جائز ہے لیکن زبردستی دکان بند کرانا اور گاڑی چلانے والوں کو پریشان کرنا جائز نہیں ہے اس میں بھی اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ ایمبولنس اور تعلیمی ادارے کی گاڑیوں اور دوسری ایمرجنسی خدمات کو اس سے مستثنی رکھا جائے اسی طرح سے دوا جیسی ضروریات زندگی کی دکانیں کھلی رکھی جائیں.
3-نجی یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سے سختی سے بچا جائے لہذا سرکاری گاڑیوں یا عمارتوں میں آگ لگانا اور توڑ پھوڑ کر نا حرام ہے.
4-پولیس اور دوسرے سرکاری ملازمین یا کسی کے ساتھ گالم گلوچ اور پریشان یا ان پر پتھراؤ کرنے یا کسی کی کردارکشی سے اجتناب کیا جائے.
5-احتجاج کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں امن اور شانتی کو برقرار رکھیں اور کسی بھی طور پر اسے قتل و غارتگری اور تشدد میں تبدیل نہ ہونے دیں۔اور ہنگامہ آرائی،افرا تفری اور جلاؤ گھیراؤ سے بچا جائے ۔
6-احتجاج کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا جائے جس میں قانون کی خلاف ورزی نہ ہو.
حاصل یہ ہےاپنے جائز حقوق و مطالبات کو پورا کرنے اور ملی مفادات ،اسلامی شعائر اور عبادات کے دفاع کے لئے احتجاج اور دھرنا ناگزیر ہوجائے تو پھر اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اس طرح کے مظاہرے واجب اور ضروری ہوجاتے ہیں اور غیرت اسلامی کا تقاضا ہوتا ہے کہ عزت و آبرو اور جان مال اور اسلامی شعائر کی حفاظت و حمایت میں احتجاج ناگزیر ہوجائے تو ضرور اسے اپنایا جائے تاکہ کل قیامت کے دن ہم کہہ سکیں کہ اے پروردگار !تیرے دین کے دفاع میں ہم سے جو کچھ ہوسکا وہ سب ہم نے کیا ۔
اور یہ کہ احتجاج کے لیے شریعت میں کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے لہذا ہر وہ طریقہ جو منکرات و مفاسد سے خالی ہو بوقت ضرورت اسے اختیار کرنے کی گنجائش ہے.
(1)قوله: ” فضيق الناس ” قيل: التضييق هنا بسبب أخذ منزل لا حاجة له إليه أو فوق حاجته، وقطع الطريق تضييقها علي المارة. ” فلا جهاد له ” أي لا كمال ثواب الجهاد؛ لإضراره الناس.الكاشف عن حقائق السنن المعروف بشرح المشکاة للطیبی (8/ 2689)
وقيدوا بقولهم "ولم يواجه الطريق”؛ لأن الصلاة في الطريق أي في طريق العامة مكروهة، وعلله في المحيط بما يفيد أنها كراهة تحريم بقوله: لأن فيه منع الناس عن المرور، والطريق حق الناس أعد للمرور فیه، فلایجوز شغله بما لیس له حق الشغل.البحر الرائق (2/ 20):