جہیز یا وراثت:
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
نسل انسانی کی افزائش و بقا، فطری و طبعی تقاضوں کی تکمیل، عصمت و عزت کی حفاظت اور دل و دماغ کے سکون اور راحت کے لیے نکاح ایک ضرورت بلکہ اسلام کی نگاہ میں ایک عبادت ہے، اس ضرورت و عبادت کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ اسے آسان سے آسان تر بنایاجائے، اس میں کسی طرح کی دقت اور دشواری نہ ہو۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
ان اعظم النکاح برکۃ ایسرہ مؤنۃ(مشکاۃ المصابیح 930/2)
سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو۔
مرد کی فطرت اور بالادستی کا لحاظ رکھتے ہوئے نکاح کے خرچ کا اسی کے ذمے دار بنایاگیا ہے اور عورت اور اس کے سرپرست کو ہر طرح کے خرچ سے سبکدوش رکھا گیا ہے، چنانچہ مرد کے لیے مہر کو لازم قرار دیا گیا ہے اور اس کے لیے ولیمہ کو سنت کہا گیاہے، ایسے ہی بیوی کی کفالت اور نفقہ کا اسے ذمہ دار گردانا گیا ہے اور مالی خرچ کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے اسے عورت پر بالادستی دی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض وبما انفقوا اموالھم(سورۃ النساء:34)
مرد عورتوں پر حاکم ہیں ، اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔
اور حدیث میں ایسے ہی شخص کے لیے نکاح کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جو بیوی کے اخراجات کو برداشت کرسکے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
یامعشر الشباب من استطاع منکم الباءۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج.
(صحیح بخاری 758/2، صحیح مسلم 449/1)
نوجوانو! تم میں سے جونکاح کا خرچ اٹھاسکتاہے وہ نکاح کرلے کیونکہ اس کی وجہ سے نگاہ جھک جاتی ہے اور شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔
ملا علی قاری نے ’’من استطاع منکم الباء ۃ ‘‘ کی تشریح میں لکھاہے کہ ای مؤنۃ الباءۃ من المھر والنفقۃ یعنی مہر اور نفقہ کا خرچ دینے کی استطاعت رکھتاہو(مرقاۃالمفاتیح402/3)
نکاح کے لیے عورت کے گھروالوں پر مالی بوجھ لادنا اور ان سے جہیز کا مطالبہ کرنا نہ صرف اسلامی تعلیم کے خلاف ہے بلکہ فطرت سے بغاوت اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے اور اس طرح سے جو مال حاصل کیاجاتا ہے وہ باطل اور ناجائز ہے۔
اسلام میں اس طرح کے رسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اسلام سے پہلے عربوں میں ہزار برائیاں تھیں لیکن اس دریوزہ گری کا کوئی تصور تک نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب و سنت میں بلکہ فقہی کتابوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتاہے اور اس کے برخلاف صراحتاً مردوں کو نکاح کے لیے مال خرچ کرنے کا حکم دیاگیاہے۔ ارشاد ربانی ہے:
واحل لکم ما وراء ذلکم ان تبتغوا بأموالکم۔(سورۃ النساء/24)
ان عورتوں کے سوا دوسری عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں یعنی یہ کہ تم اپنے مال کے ذریعہ انھیں حاصل کرو۔
لہٰذا عورت یا اس کے سرپرست پر مال خرچ کرنے کی ذمہ داری ڈالنا صراحتاً اس آیت کی خلاف ورزی ہے ۔ چاہے مال خرچ کرنے کی وجہ رسم و رواج اور سماج کا خوف ہو یا لڑکے کی طرف سے مطالبہ دونوں کا حکم یکساں ہے۔
مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گھر بسانے کے لیے ضروری چیزوں کا انتظام کرے، چنانچہ فقہی کتابوں میں اس طرح کے مسائل ملتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نسبتی باپ کے پاس کچھ رقم اس لیے بھیج دیتاہے کہ وہ اس سے دلہن کے لیے سامان عروسی کا نظم کرے اور عورت کے لیے ضروری چیزیں خرید کر اس کے ہمراہ بھیج دے مگر وہ کسی وجہ سے اسے نہ بھیج سکا تو شوہر کو اپنی رقم کی واپسی کامطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔(رد المحتار310/4) بلکہ انتہا یہ ہوگئی کہ کچھ لوگ اپنے ہونے والے داماد سے مہر کی رقم کے علاوہ اپنے لیے رقم کا مطالبہ کرنے لگے چونکہ یہ ایک غیر شرعی مطالبہ تھا اس لیے اس دور کے فقہاء نے پرزور انداز میں اس ’’رسم بد‘‘ کی تردید کی اور کہاکہ یہ ’’رشوت‘‘ کے حکم میں ہے اور ’’سحت ‘‘ ہے۔(البحرالرائق200/3، رد المحتار 272/5)
عورت کے سرپرست کی طرف سے اس طرح کے مطالبے کو ایک حد تک معقول کہاجاسکتاہے کیونکہ وہ اپنے لخت جگر کو جسے خون سے سینچ کر پروان چڑھایا ہے غیر کے حوالے کررہاہے، اس لیے وہ حق پرورش کے طور پر اپنے لیے کچھ رقم کا مطالبہ کرے تو ایک حد تک بات سمجھ میں آنے والی ہے لیکن عورت کے سرپرست کے بجائے مرد کی طرف سے اس طرح کا مطالبہ، شاید ہی دنیامیں اس سے زیادہ غیر معقول کوئی بات ہو، اس کے ’’رشوت‘‘ اور ’’سحت‘‘ ہونے میں کیا شبہ ہے۔
’’رشوت‘‘ ایک عام فہم لفظ ہے اور اس سے متعلق یہ روایت بھی بہت مشہور ہے کہ
لعن اللہ الراشی والمرتشی۔(رواہ ابوداؤد وابن ماجہ ، مشکاۃ1108/2وقال الالبانی صحیح)
اللہ نے رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت کی ہے۔
البتہ’’سحت‘‘ کا لفظ غیر معروف ہے، اس لیے اس کی وضاحت کی ضرورت ہے ، مشہور فقیہ علامہ ابن عابدین شامی نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
حرام اور خبیث کمائی کو ’’سحت‘‘ کہتے ہیں جسے لیتے ہوئے شریف انسان عار محسوس کرے۔(رد المحتار 272/5)
اور’’سحت‘‘ کے سلسلے میں یہ سخت وعیدآئی ہے:
لایدخل الجنۃ لحم نبت من السحت وکل لحم نبت من السحت فالنار اولی بہ(رواہ احمدوالدارمی ، مشکاۃ 845/2)
جس جسم کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا اور ایسے جسم کے لیے جہنم کی آگ زیادہ بہترہے۔
لہٰذا جہیز کو تحفہ کا نام دیاجائے یا کچھ اور کہا جائے، بہرصورت وہ رشوت کے حکم میں ہے اور اس کا واپس کرنا ضروری ہے ، چنانچہ فقہ کی کتابوں میں اسی سے ملتا جلتا ایک مسئلہ ملتاہے کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دی اور عورت دوبارہ اس کے نکاح میں آنا چاہتی ہے ، اور شوہر کہتا ہے کہ میں تم سے اسی شرط پر نکاح کروں گا کہ میرے ذمہ جو مہر باقی ہے وہ مجھے ’’ہبہ‘‘ کردو، عورت نے نکاح کے لیے سابق مہر کو ’’ہبہ‘‘ کردیا۔ فقہاء کرام کہتے ہیں کہ یہ ’’ہبہ‘‘ باطل ہے اور اس کی وجہ یہ لکھی گئی ہے:
"عورت نے شوہر سے نکاح کے لیے مال کو عوض قرار دیا ہے حالانکہ نکاح میں عورت پر کوئی عوض نہیں ہے”۔(فتاویٰ قاضی خان 378/1، فتاویٰ ہندیہ 317/1)
واقعہ ہے کہ مروجہ جہیز کے لیے کتاب و سنت اور فقہ کی کتابوں میں کوئی بنیاد موجود نہیں ہے بلکہ یہ قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے اور رشوت کے حکم میں ہے ۔ اسے لینا حرام اور نادرست ہے اور لینے کے بعد واپس کرنا ضروری ہے کیونکہ لینے والا ، اس کا مالک نہیں بن سکتاہے۔(رد المحتار304/4)
رہا یہ کہ بعض روایتوں میں حضرت فاطمہ کو جہیز دینے کا تذکرہ ہے جیساکہ امام نسائی نے حضرت علیؓ کے حوالے سے نقل کیاہے:
جھز رسول اللہ ﷺ فاطمۃ فی خمیل وقربۃ و وسادۃ حشوھا اذخر(سنن نسائی 92/2)
اللہ کے رسول ﷺ نے فاطمہ کو ایک چادر، پانی بھرنے کے لیے مشک اور ایک تکیہ بطور جہیز دیا تھا جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔
لیکن اس سے مروجہ جہیز کے جائز ہونے پر استدلال کرنا غلط ہے، کیونکہ حضرت علی بچپن ہی سے آنحضور ﷺ کی کفالت میں رہے، رسول اللہ ﷺ کے گھر میں آپ کی پرورش اور تربیت ہوئی اور نکاح کے وقت تک آپ ﷺ کے ساتھ رہے۔ چنانچہ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے :
وہ ہمیشہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ رہے…یہاں تک کہ فاطمہ سے ان کا نکاح ہوگیا۔(الاستیعاب38/1)
نیز حضرت علیؓ کو ان کے باپ ابوطالب کے کفر کی وجہ سے وراثت میں سے بھی کوئی حصہ نہیں مل سکا تھا۔(موطأ امام مالک /300)بے سروسامانی کی حالت یہ تھی کہ نکاح کے بعد آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایاکہ مہر کی رقم میں سے کچھ فاطمہ کے حوالے کردو تو انھوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے ماعندی شیء۔(سنن ابی داؤد، 304/1)
اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے جوکچھ دیا وہ بطور سرپرست گھر بسانے کا انتظام تھا، دوسرے یہ کہ بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مذکورہ سامان کا نظم حضرت علی کی زرہ بیچ کر کیاتھا۔(زرقانی شرح مواہب اللدنیہ403/3، الطبقات لابن سعد19/8)
یہ کوئی مروجہ جہیز نہیں تھا کیونکہ عربوں میں نہ تو اسلام سے پہلے اس طرح کا کوئی رواج تھا اور نہ طلوع اسلام کے بعد اس کے علاوہ کوئی مثال ملتی ہے اور نہ آج وہ اس سے ہم آشنا ہیں، نیز آپ ﷺ کی متعدد صاحب زادیاں تھیں لیکن کسی اور کے نکاح کے موقع پر کچھ دینے کا تذکرہ نہیں ملتا، رہا حضرت زینب کو ہار دینے کا واقعہ تو وہ ان کی والدہ حضرت خدیجہ نے اسلامی شریعت کے نزول سے پہلے دیا تھا اس لیے اسے بھی دلیل بنانا صحیح نہیں ہے۔(سیرت ابن ہشام651/1)
اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا حکم ہے :
فاتقوا اللہ واعدلوا بین اولادکم.(صحیح بخاری 353/1)
اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل سے کام لیا کرو۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی صحابی نے اپنے ایک لڑکے کو کچھ تحفہ دیا اور اس پر آنحضرت ﷺ کو گواہ بنانا چاہا ، آپ نے پوچھا کہ دوسرے لڑکوں کو بھی یہ تحفہ دیا ہے انھوں نے کہاکہ نہیں، آپ ﷺ نے فرمایاکہ مجھے ظلم پر گواہ نہ بناؤ۔(حوالہ مذکور 341/1)
حضرت فاطمہ اور زینب کے واقعہ کو جہیز کے خانے میں رکھاجائے تو رسول اللہ ﷺ کی طرف ظلم اور ناانصافی کی نسبت کرنی ہوگی ، حالانکہ آپؐ کی ذات سے یہ ناممکن اور محال ہے ، اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہوگا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ کو جو کچھ دیا وہ حضرت علی ؓکے سرپرست ہونے کی وجہ سے یا انھیں کی زرہ بیچ کردیا۔
جہیز ایک ایسی لعنت ہے جس کی تباہ کاری بتانے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ ہر شخص اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرسکتاہے اور کررہاہے اور ہر روز
اس پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھا اور سنا جاتا ہے، یہاں تک کہ بھارتی حکومت نے بھی اسے جرم قرار دے رکھاہے لیکن ان سب کے باوجود یہ وبا جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جارہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ برائی ایک دوسری خرابی سے وابستہ ہے اور وہ ہے عورتوں کو وراثت سے محروم رکھنا، ایک باپ اپنی بیٹی کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر جہیز دینے کے لیے آمادہ ہے لیکن جب وراثت کی بات آتی ہے تو وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتاہے، اپنی جائداد کو دس بیٹوں میں تقسیم کردینا گوارا کرلیتاہے لیکن ایک بیٹی کے لیے اس میں سے کچھ نہیں ہے ، حالانکہ وراثت میں جس طرح سے مردوں کا حصہ ہے اسی طرح سے عورتوں کا بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان والاقربون مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا(سورۃ النساء: 7 )
ماں باپ اور رشتہ داروں نے جوکچھ چھوڑا ہے اس میں مردو ں کا حصہ ہے اور ماں باپ اور رشتہ داروں نے جو کچھ چھوڑا ہے اس میں عورتوں کا بھی حصہ ہے ، چاہے کم ہو یا زیادہ، ایک متعین حصہ ہر ایک کے لیے ہے۔
اور ہر ایک کے متعین حصے کو بیان کرنے کے بعد کہاگیاہے:
تلک حدود اللہ ومن یطع اللہ ورسولہ یدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا وذالک الفوزالعظیم ومن یعص اللہ ورسولہ ویتعد حدودہ یدخلہ نارا خالدا فیھا ولہ عذاب مھین(حوالہ مذکور13-14
یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی بات مانے گا تو اللہ انھیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے حدود کو پار کرے گا تو اسے اللہ آگ میں داخل کریں گے جس میں ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت آمیز عذاب ہے۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے قانون وراثت سے لوگوں کو آگاہ کیاجائے اور عورتوں میں شعور پیدا کیاجائے کہ وہ اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑی ہوں کیونکہ جہیز کو وراثت کا بدلہ سمجھا جاتاہے، ہندؤں کے یہاں عورتوں کا کوئی حصہ نہیں ہے ، اس لیے وہ شادی کے موقع پر جہیز کے نام پر کچھ دے کر سبک دوش ہوجاتے ہیں، لہٰذا ایک ایسے معاشرہ میں جہاں عورتوں کے مطالبہ وراثت کو بغاوت سمجھا جاتا ہو، وہاں سے جہیز کی برائی ہرگز نہیں مٹ سکتی جب تک کہ قانون وراثت کو نافذ نہ کیاجائے اور جب تک حقداروں کی حق تلفی ہوتی رہے گی ، اللہ کی متعین کردہ حدوں کو توڑا جاتا رہے گا جہیز اور تلک کی شکل میں ذلت آمیز عذاب مسلط رہے گا۔
شائع شدہ:حیات نو ۔جامعہ الفلاح ۔اعظم گڑھ اپریل 2013