بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(4)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
عہد نبوی کے بعض پسندیدہ کھیل
عبادت و اطاعت کی ادائیگی اور ظلم و سرکشی کے خاتمے میں جسمانی توانائی اور طاقت معاون ہوتی ہے ۔ اس لئے شریعت کی نگاہ میں ہر وہ کھیل پسندیدہ اور مستحب ہے جس سے جسمانی طاقت اور قوت مدافعت میں اضافہ ہو ۔بلکہ علامہ زرکشی کہتے ہیں کہ جہاد کے وسائل و ذرائع میں مقابلہ بازی کو فرض کفایہ ہونا چاہئے کیونکہ واجب تک پہونچنے کا ذریعہ بھی واجب ہوتا ہے ۔ (دیکھئے الموسوعہ124/24)
اس مقصد کے حصول کے لئے عہد نبوی میں درج ذیل کھیل رائج تھے ۔
4- تیراندازی :
زمانہ نے کتنی کروٹیں بدلیں، دیگر چیزوں کے ساتھ جنگی سازوسامان میں بھی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ، تیرو تلوار کی جگہ اب ٹینک اور توپ نے لے لی۔ مگر ان سب ترقیوں کے باوجود تیر اندازی کی آج بھی ایک اہمیت اور قدر و قیمت ہے ، مگر مسلمانوں نے اس عظیم قومی ورثہ کی طرف سے جو بے توجہی و بے التفاتی برتی ہے وہ ناقابل بیان اور ناقابل اظہار ہے ، کاش ان کے پیش نظر اللہ کے رسول ﷺ کا یہ پیغام ہوتا:
واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی(مسلم 142/2، کتاب الامارۃ، ترمذی 139/2 کتاب التفسیر)
اور جتنی طاقت تم حاصل کرسکتے ہو ان کے ذریعے مقابلے کی تیاری کرو۔سنو ! قوت تو صرف تیراندازی ہے۔سنو! قوت تو صرف تیراندازی ہے۔سنو ! قوت تو صرف تیراندازی ہے۔
کاش وہ تیر اندازی کی اس فضیلت کو سامنے رکھتے :
ما تشھد الملائکۃ من لھوکم الا الرھان والنضال.(رواہ السیوطی فی الجامع الصغیر ورمز لہ بالحسن 436/5)
تمہارے کسی بھی کھیل میں فرشتے حاضر نہیں ہوتے ہیں سوا تیر اندازی اور گھوڑ دوڑ کے مقابلے کے۔
اور حضرت سعد بن وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عليكُم بالرَّميِ؛ فإنَّه خَيرُ -أو مِن خَيرِ- لَهوِكُم، عليكُم بالرَّميِ؛ فإنَّه خَيرُ لَعِبكُم۔
أخرجه البزار:1146 والطبراني في المعجم الأوسط2049 .و المنذري فی الترغيب والترهيب248/2 .إسناده جيد قوي.
تیر اندازی کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ یہ تمہارے لئے بہترین کھیل اور تفریح ہے ۔
اور حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ
نبی کریم ﷺ قبیلہ اسلم کے پاس سے گزرے، وہ لوگ تیر اندازی میں مقابلہ کر رہے تھے ۔آپ ﷺ نے فرمایا: اسماعیل کی اولاد! تیر چلاؤ ؛کیونکہ تمہارے باپ حضرت اسماعیل تیر انداز تھے اور میں فلاں جماعت کے ساتھ ہوں ،یہ دیکھ کر دوسری جماعت نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیئے ۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا:تم لوگ تیر کیوں نہیں چلا رہے ہو؟ انھوں نے عرض کیا :جس جماعت میں آپ موجود ہوں ہم اس پر تیر کیسے چلا سکتے ہیں ؟آپ ﷺ نے فرمایا:چلو تیر چلاؤ ،اب میں تم سب کے ساتھ ہوں ۔
(مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ يَنْتَضِلُونَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ ؛ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا، وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ ". قَالَ : فَأَمْسَكَ أَحَدُ الْفَرِيقَيْنِ بِأَيْدِيهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَا لَكُمْ لَا تَرْمُونَ ؟ ” فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَهُمْ ؟ قَالَ : ” ارْمُوا وَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ .صحيح بخاري: 3373)
اور فقیم لخمی نے حضرت عقبہ بن عامر سے کہا کہ آپ ان دونوں نشانوں کی درمیان دوڑ بھاگ کرتے رہتے ہیں حالانکہ آپ بوڑھے ہوچکے ہیں اور آپ کے لئے یہ بڑا مشکل کام ہے ،انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث نہ سنی ہوتی تو یہ مشقت برداشت نہیں کرتا ۔۔۔آپ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی تیر اندازی سیکھے اور پھر اسے چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے یا اس نے نافرمانی کی۔
(أَنَّ فُقَيْمًا اللَّخْمِيَّ، قَالَ لِعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : تَخْتَلِفُ بَيْنَ هَذَيْنِ الْغَرَضَيْنِ وَأَنْتَ كَبِيرٌ يَشُقُّ عَلَيْكَ. قَالَ عُقْبَةُ : لَوْلَا كَلَامٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أُعَانِيهِ. قَالَ الْحَارِثُ : فَقُلْتُ لِابْنِ شُمَاسَةَ : وَمَا ذَاكَ ؟ قَالَ : إِنَّهُ قَالَ : ” مَنْ عَلِمَ الرَّمْيَ، ثُمَّ تَرَكَهُ فَلَيْسَ مِنَّا ” أَوْ ” قَدْ عَصَى ". صحیح مسلم: 1919)
اور امام نووی کہتے ہیں کہ تیر اندازی سیکھنے کے بعد اسے چھوڑ دینے میں شدید ترین کراہت ہے ۔(الموسوعہ 124/24)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے پاس خط لکھا کہ اپنے بچوں کو تیرنا اور لڑنے والوں کو تیر اندازی سکھاؤ۔ (مسند الفاروق لابن کثیر 378/2)
تیر اندازی اور نشانہ بازی کی پریکٹس کے لئے زندہ جانوروں کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔حضرت سعید بن جبر کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن عمر قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے۔ وہ ایک پرندے کو باندھ کر اس پر نشانہ لگا رہے تھے اور پرندے کے مالک کے مالک سے یہ کہہ رکھا تھا کہ جو تیر پرندے کو نہ لگے تمہارا ہو جائے گا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو آتے دیکھ کر وہ ادھر ادھر بھاگ گئے۔ انہوں نے پوچھا یہ کس کی حرکت ہے؟ اور فرمایا ایسا کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پہ لعنت فرمائی ہے جو کسی جاندار کو نشانہ بناتے ہیں۔
(عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ : مَرَّ ابْنُ عُمَرَ بِفِتْيَانٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ نَصَبُوا طَيْرًا وَهُمْ يَرْمُونَهُ، وَقَدْ جَعَلُوا لِصَاحِبِ الطَّيْرِ كُلَّ خَاطِئَةٍ مِنْ نَبْلِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوُا ابْنَ عُمَرَ تَفَرَّقُوا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَنْ فَعَلَ هَذَا ؟ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ فَعَلَ هَذَا ؛ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ مَنِ اتَّخَذَ شَيْئًا فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا.صحیح بخاری: 5515۔ صحیح مسلم:1958واللفظ لہ)
لعنت کا سبب یہ ہے کہ اس میں بلاوجہ جانور کو عذاب میں مبتلا کرنا ہے اور درندگی کی علامت اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت اور مال کو ضائع کرنا ہے کہ پریکٹس کے لئے کسی غیر جاندار چیز کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ دورمیں بندوق بھی تیراندازی ہی کے حکم میں ہے اس کا سیکھنا، مشق کرنا کارِ ثواب اور اس پر شرعی حد میں رہ کر انعامی مقابلہ جائز اور پسندیدہ ہے۔
5- نیزہ بازی:
عہد نبوی ﷺ میں نیزہ بازی کا بھی رواج تھا حدیث گزر چکی کہ آنحضرت ﷺ نے حبشیوں کے نیزہ بازی کے کھیل کو خود دیکھا اور زوجہ محترمہ کو دکھایا اور اس کھیل کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:
دونکم یا بنی ارفدہ۔حبشہ کے لوگو:شاباش واہ واہ ۔
لیکن یہ محض ایک کھیل نہیں تھا بلکہ باقاعدہ ایک فوجی ٹریننگ تھی کہ کس طرح سے میدان جنگ میں نیزہ سے حملہ کیا جائے گا اور اگر فریق مخالف نیزہ چلائے تو اس سے بچنے کی کیا تدبیر ہوگی؟۔