سیر و سیاحت:
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
سفر نمونہ سقر بھی ہے اور وسیلہ ظفر بھی ، دوران سفر کچھ دقتیں اور پریشانیاں ضرور پیش آتی ہیں لیکن اس کے فوائد بے شمار ہیں۔
اللہ کے گھر کا سفر اور سفر جہاد کتنا بابرکت اور بے انتہا اجر و ثواب کا ذریعہ ہے، تجارت و ملازمت کی نیت سے سفر بھی باعث اجر ہے۔اور علمی سفر کے راستے میں فرشتے پر بچھا دیتے ہیں ،اور اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے جنت کا سفر آسان کردیتے ہیں ۔
سفر کے ذریعے خالق کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے، تہذیب و تمدن اور سماجی حالات کا علم ہوتا ہے ، اسی کے ساتھ وہ ذہنی تفریح و سکون کاسبب اور ٹینشن اور الجھن سے نجات کا ذریعہ بھی ہے، جس سے انسان تروتازہ اور اس کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں اور سوچنے کے نئے نئے زاویے فراہم ہوتے ہیں۔
قرآن حکیم میں گیارہ آیتوں اور نو سورتوں میں سیاحت کا تذکرہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ روئے زمین پر چل پھر کر
اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر کرو، اور اس وسیع کائنات میں اس کی صناعیوں اور اس کی قدرت کے کرشموں اور اس کی رحمت کی نشانیوں ،ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندروں اور آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑوں ،ابلتے ہوئے چشموں، نغمہ ریز نہروں اور دلکش و حسین مناظرِ فطرت کو دیکھو اور پرودگار کی عظمت کے گن گاؤ اور اس کے ذریعے خالق کائنات کی معرفت حاصل کرو اور غور کرو کہ رب کائنات سے سرکشی اختیار کرنے والوں کا انجام کیا ہوا۔ ارشاد ربانی ہے:
*قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ بَدَاَ الۡخَلۡقَ ثُمَّ اللّٰہُ یُنۡشِیٴُ النَّشۡاَۃَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ .
*کہو کہ : ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح مخلوق کو شروع میں پیدا کیا، پھر اللہ ہی آخرت والی مخلوق کو بھی اٹھا کھڑا کرے گا۔ یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے. (سورہ العنکبوت : 20)
*قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ .
*کہو کہ : ذرا زمین میں سفر کر کے دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیسا ہوا ہے۔(سورہ النمل : 69)
*اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ.
*تو کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں جس سے انہیں وہ دل حاصل ہوتے جو انہیں سمجھ دے سکتے، یا ایسے کان حاصل ہوتے جن سے وہ سن سکتے ؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔(سورہ الحج :46)
مذکورہ آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں سیر و سیاحت کا اصل مقصد عبرت و نصیحت اور کائنات میں غور فکر اور تدبر ہے تاکہ خالق کائنات کی معرفت حاصل ہو اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان میں اضافہ ہو۔
نیز اس کا ایک اہم مقصد اسلام کی حقانیت سے انسانوں کو آگاہ کرنا ہے اور اس دین کی طرف لوگوں کو بلانا ہے جو آخری پیغمبر اور رہبر عالم پر نازل ہوا ہے ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے لئے متعدد صحابہ کرام کو شاہان عالم کے نام خطوط دیکر مختلف ملکوں کی طرف روانہ کیا اور آنحضرت ﷺ کے انتقال کے بعد اس کے لئے صحابہ کرام روئے زمین پر پھیل گئے اور وطن سے دور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی ،
اسی طرح سے سب سے بہترین سیاحت حج وعمرہ اور جہاد کی سیاحت ہے ،حج متعین دنوں میں سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے اور عمرہ پورے سال کبھی بھی کیا جاسکتا ہے۔
حصول علم کے لئے سفر کرنا بھی ایک عبادت ہے یہاں تک کہ بعض تابعین کے نزدیک درج ذیل آیت میں "سائح” سے مراد علم کے لئے سفر کرنے والے ہیں (فتح القدير ( 2 / 408 للشوکانی ) ۔
التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدونَ الآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
(جنہوں نے یہ کامیاب سودا کیا ہے وہ کون ہیں ؟ ) توبہ کرنے والے ! اللہ کی بندگی کرنے والے ! اس کی حمد کرنے والے ! روزے رکھنے والے ! رکوع میں جھکنے والے ! سجدے کرنے والے ! نیکی کی تلقین کرنے والے، اور برائی سے روکنے والے، اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے، (اے پیغمبر) ایسے مومنوں کو خوشخبری دے دو ۔
(سورہ التوبة/112)
اگرچہ راجح تاویل کے مطابق اس سے مراد روزہ دار ہيں.مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ السائحون ہے اس لفظ کے اصل معنی تو سیاحت کرنے والے کے ہیں۔ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفسیر روزہ رکھنے سے فرمائی ہے اور یہی تفسیر متعدد صحابہ اور تابعین سے بھی منقول ہے (تفسیر ابن جریر) بظاہر روزے کو سیاحت اس لیے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح سفر میں انسان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات قائم نہیں رہتے، اسی طرح روزے میں بھی ان معمولات میں فرق آجاتا ہے۔(آسان ترجمہ قرآن)
تفریحی سفر کی شرطیں:
قدرتی مناظر اور تاریخی عمارتوں وغیرہ کو دیکھنے کے لئے سفر کرنا جائز ہےکہ یہ ذہنی سکون اور جسمانی صحت کا ذریعہ ہے ۔خالق کائنات کا ارشاد ہے :
هوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا فَامۡشُوۡا فِیۡ مَنَاکِبِہَا وَ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِہٖ ؕ وَ اِلَیۡہِ النُّشُوۡرُ ۔
وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو رام کردیا ہے، لہذا تم اس کے مونڈھوں پر چلو پھرو، اور اس کا رزق کھاؤ، اور اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔ ( سورہ الملک: 15)
تفسیر:
یعنی زمین کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے تصرف میں دے دی ہیں، لیکن ان کو استعمال کرتے وقت یہ مت بھولو کہ تمہیں ہمیشہ یہاں نہیں رہنا، بلکہ ایک دن یہاں سے اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جانا ہے جہاں تمہیں ان نعمتوں کا حساب دینا ہوگا۔ لہذا یہاں کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہی استعمال کرو۔
( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
علامہ قرطبی مذکورہ آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
"(فامشوا في مناكبها) هو أمر إباحة، وفيه إظهار الامتنان. وقيل: هو خبر بلفظ الأمر، أي لكي تمشوا في أطرافها ونواحيها وآكامها وجبالها.”(215/18ط:دار الكتب المصرية)
"زمین کے اوپر چلو” اس میں امر کا لفظ اباحت و جواز کے لئے ہے اور اس کے ذریعے اللہ کی نعمت کا اظہار ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ امر کے لفظ کی شکل میں در حقیقت خبر دینا ہے ، یعنی تاکہ تم زمین کے کناروں، اس کے گوشوں اور ٹیلوں اور پہاڑوں پر چل سکو۔
اور حدیث میں کہا گیا ہے :
فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا.
بے شک تمہارے جسم کا تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے۔
(صحيح بخاري: 1975)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے :
سافِروا تَصِحُّوا.
سفر کرو صحت مند ہوجاؤگے ۔
(الراوي: أبو سعيد الخدري •أخرجه ابن عدي في الكامل في الضعفاء454/3، وأبو نعيم في الطب النبوي/ 120. الصحيحة للالبانی :3352)
اس کے برخلاف بعض حدیثوں سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سیر و سیاحت جائز نہیں ہے چنانچہ حضرت ابو امامہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِي السِّيَاحَةِ . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنَّ سِياحَةَ أُمَّتِي الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى۔
ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے سیاحت کی اجازت دیجئے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد ہے(ابوداؤد: 2486)
لیکن اس حدیث میں سیاحت سے مراد مطلق سفر نہیں ہے بلکہ وہ سفر مراد ہے جس میں آدمی راہبوں کی طرح سے مخلوق خدا سے کٹ کر پہاڑوں اور جنگلات میں جاکر خیمہ زن اور گوشہ نشیں ہوجائے چنانچہ لسان العرب میں ہے:
السِّياحةُ: الذَّهَابُ فِي الأَرض للعبادة والتَّرَهُّب؛ وَفِي الْحَدِيثِ:لَا سِياحة فِي الإِسلام ۔۔۔ قَالَ ابْنُ الأَثير: أَراد مفارقةَ الأَمصار وسُكْنى البَراري وتَرْكَ شُهُودِ الْجُمُعَةِ وَالْجَمَاعَاتِ.
عبادت اور رہبانیت کے لیے سفر کرنے کو سیاحت کہتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے: "لَا سِیاحَةَ فِي الإِسْلَام”( اسلام میں سیاحت نہیں ہے)ابن الأثیر نے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ شہروں کو چھوڑ دینا، جنگلوں اور ویرانوں میں رہائش اختیار کرنا، اور جمعہ و نماز کی جماعت کو ترک کردینا۔(لسان العرب 493/2)
غرضیکہ ایک شخص نے سیاحت کے قدیم تصور کے اعتبار سے نبی ﷺ سے اس کی اجازت طلب کی تاکہ غاروں اور جنگلات میں جاکر یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرے جیسے کہ اس زمانے کے راہب اور سادھو وغیرہ کیا کرتے تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہماری شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اس سے بہتر شکل جہاد ہے۔
حاصل یہ ہے کہ تفریحی سفر جائز ہے
البتہ اس کے لئے درج ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
1- ایسی جگہ کے سفر سے اجتناب کیا جائے جہاں فحاشی ، عریانیت ، بے حیائی اور معصیت و نافرمانی عام ہو ،یا وہاں جانے سے دینی یا اخلاقی اعتبار سے بگاڑ کا اندیشہ ہو۔
غرضیکہ فسق و فجور والی جگہوں کا سفر نائز ہے ۔
2-ایسی جگہوں پر بھی تفریح و سیاحت کے مقصد سے نہ جائے جہاں کسی قوم کی نافرمانی کی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا ہو چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے :
لَمَّا مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحِجْرِ قَالَ : ” لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ أَنْ يُصِيبَكُمْ مَا أَصَابَهُمْ، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ ". ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَهُ، وَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّى أَجَازَ الْوَادِيَ۔
نبی کریم ﷺ جب حجر (قوم ثمود کی بستی) سے گزرے تو فرمایا:تم ان لوگوں كى رہائش گاہوں ميں مت جاؤ جنہوں نے اپنى جانوں پر ظلم كيا کہ اندیشہ ہے كہ كہيں تم بھی اس عذاب میں مبتلا نہ کردئے جاؤ جس میں وہ گرفتار ہوئے تھے، البتہ اگر وہاں جانا ہی چاہتے ہو تو پھر روتے ہوئے جاؤ ۔
اس کے بعد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے چہرے پر كپڑا لپيٹ ليا، اور وہاں سے تيزى كے ساتھ گزر کراس وادی کو پار كيا.(صحیح بخاری :4419۔صحیح مسلم :2980 )
اور منى اور مزدلفہ كے درميان وادى محسر سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تيزى سے گزرنا بھى اسى وجہ سے تھا، كيونكہ يہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالى نے ہاتھيوں كے لشكر كو ہلاك كيا تھا ” (زاد المعاد 490/3)
3-غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں بھی گھومنے پھرنے کے مقصد سے نہ جائے؛ کیونکہ یہ جگہیں معصیت کا گڑھ اور شیاطین کی آماجگاہ ہوتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا ۔
اور (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ (سورہ الفرقان : 72)
تفسیر:
قرآن کریم میں اصل لفظ ” زور “ استعمال ہوا ہے جس کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ اور ہر باطل اور ناحق کو بھی ” زور “ کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں ناحق اور ناجائز کام ہو رہے ہوں، اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ان میں شامل نہیں ہوتے۔ اور اس کا ایک یہ ترجمہ بھی ممکن ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور حضرت عمر فاروق سے منقول ہے :
۔۔ ولا تدخلوا على المشركينَ في كنائِسِهم يومَ عيدِهم، فإنَّ السُّخطةَ تنزِلُ عليهِم۔
مشرکوں کے تیوہار کے موقع پر ان کی عبادت گاہوں میں مت جاؤ کیونکہ وہاں اللہ کا غضب نازل ہوتا رہتا ہے ۔(مصنف عبد الرزاق:1609)
اور علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
يُكْرَهُ لِلْمُسْلِمِ الدُّخُولُ فِي الْبِيعَةِ وَالْكَنِيسَةِ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ حَيْثُ إنَّهُ مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ، لَا مِنْ حَيْثُ إنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّهَا تَحْرِيمِيَّةٌ؛ لِأَنَّهَا الْمُرَادَةُ عِنْدَ إطْلَاقِهِمْ۔
یہودیوں اور نصرانیوں کی عباد ت گاہ میں مسلمان کے لئے جانا مکروہ ہے یہ مکروہ اس حیثیت سے ہے کہ وہ شیاطین کا گڑھ ہے۔ اس حیثیت سے نہیں کہ کسی مسلمان کے لیے وہاں جانے کا حق نہیں ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے کہ جب فقہاء مطلق مکروہ کا لفظ بولتے ہیں تو یہی مراد ہوتا ہے
( البحر الرائق214/7)
اور امداد الفتاوی میں ہے:
”میلۂ پرستش گاہِ ہنود میں عموماً مسلمانوں کا جانا اور خصوصاً علماء کا جانا اور یہ بھی نہیں کہ کوئی ضرورتِ شدیدہ دنیاوی ہی ہو، محض سیر و تماشے کے لیے، سخت ممنوع و قبیح ہے ۔۔۔ ممانعت ایسی جگہ جانے سے دوسری آیت سے ثابت ہے: {فلاتقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين} یعنی بعد نصیحت کے قومِ ظالمین کے پاس مت بیٹھ ، یعنی کفار سے اختلاط مت کر، اور حدیث میں ہے: ”من كثر سواد قوم فهو منهم“.(جو کسی جماعت کی تعداد بڑھائے اس کا شمار اُن ہی میں سے ہے) اور حدیثِ صحیح میں آیا ہے کہ قربِ قیامت میں ایک لشکر کعبہ معظمہ کے ارادہ سے چلے گا، جب قریب پہنچیں گے تو سب زمین میں دھنس جائیں گے، ازواجِ مطہرات میں سے ایک بی بی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اس میں تو بازاری دکان دار لوگ بھی ہوں گے کہ ارادہ لڑنے کا نہ رکھتے ہوں گے، ان کا کیا قصور ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب عام آتا ہے، اس وقت دھنس جائیں گے، پھر قیامت کے روز اپنی اپنی نیت کے موافق محشور (جمع) ہوں گے۔انتہیٰ۔پس جب یہ لوگ باوجودیکہ ضرورتِ تجارت کے بسبب ان کے ساتھ شامل ہوں گے، عذابِ الٰہی سے نہ بچ سکیں گے تو جس کو یہ بھی ضرورت نہ ہو وہ کیوں کر اس غضب و عتاب سے جو مجمعِ کفار میں من اللہ نازل ہوا کرتا ہے محفوظ رہے گا“۔(4/270، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)
4-ایسے مقامات کا سفر نہ کیا جائے جہاں جہاں عزت و آبرو اور جان و مال کا خطرہ ہو کہ سیاحت محض مباح ہے اور جان و مال کی حفاظت فرض ہے ارشاد ربانی ہے :
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ .
اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورہ البقرۃ : 195)
علامہ شوکانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
فَكُلُّ ما صَدَقَ عَلَيْهِ أنَّهُ تَهْلُكَةٌ في الدِّينِ أوِ الدُّنْيا فَهو داخِلٌ في هَذا، (فتح القدير)
"پس جو بھی چیز دین یا دنیا میں ہلاکت و بربادی کا باعث ہو پر وہ اس (حکم) کے اندر داخل ہے۔”
5-جہاں تک ہوسکے سفر کا دورانیہ مختصر رکھے اور جلد سے جلد گھر واپسی کی فکر کرے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
” السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ، يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَنَوْمَهُ، فَإِذَا قَضَى نَهْمَتَهُ فَلْيُعَجِّلْ إِلَى أَهْلِهِ ".
سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے جو تمہیں کھانے ،پینے اور نیند سے روک دیتا ہے لہذا جب تم اپنی ضرورت پوری کرلو تو جلدی سے گھر والوں کے پاس واپس آجاؤ ۔(بخاري: 1804 مسلم:1927)
اور حج جیسی اہم عبادت کے سفر کے بارے میں حدیث میں کہا گیا ہے:
إذا قضى أحدُكم حَجَّه فليُعجِّلْ إلى أهلِه الرِّحلةَ، فإنَّه أعظمُ لأجرِه.
(الراوي: عائشة أم المؤمنين • الذهبي، المهذب في اختصار السنن 2022/4 الدارقطني 300/2 والبيهقي:10663 . إسناده قوي)
جب تم اپنا حج مکمل کر لو تو جلدی سے گھر واپس آجاؤ کہ اس میں تمہارے لئے بڑا اجر ہے۔
6- زندگی ایک مسلسل سفر کا نام ہے اور سفر کا بہترین توشہ تقوا ہے( سورہ البقرۃ 197)اور سب سے اچھا لباس تقوا کا لباس ہے (سورہ الأعراف 26)اور جس کے پاس تقوا کا توشہ اور لباس موجود ہوتو اسے اللہ کی معیت اور نصرت حاصل ہوتی ہے (سورہ النحل 128)اور اسے اللہ کی قربت اور دوستی کا شرف حاصل ہوتا ہے( الانفال 34)اور آخرت میں تاریکی کے موقع پر اسے روشنی عطاء کی جاتی ہے( الحدید 28)اور ایسی بصیرت دی جاتی ہے جس کے ذریعے وہ حق و باطل میں فرق کرسکتا ہے (الانفال 29)
لہذا اس سفر میں بھی اس زاد راہ کو ساتھ رکھنا ضروری ہے ۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُسَافِرَ فَأَوْصِنِي، قَالَ : ” عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالتَّكْبِيرِ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ "، فَلَمَّا أَنْ وَلَّى الرَّجُلُ. قَالَ : ” اللَّهُمَّ اطْوِ لَهُ الْبُعْدَ، وَهَوِّنْ عَلَيْهِ السَّفَرَ ".
ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سفر میں جارہا ہوں لہذا کچھ نصیحت کیجیئے ۔آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے تقوے کو لازم کرلو اور ہر بلندی پر چڑھتے ہوئے اللہ اکبر کہو۔جب وہ واپس جانے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا:اے اللہ:اس کے لئے دوری کو سمیٹ دے اور اس کے سفر کو آسان کردے۔(ترمذي: 3445۔ ابن ماجه :2771)
6-پکنک منانا :
سیر وتفریح کی مذکورہ شرطوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اہل وعیال یا طلبہ کے ساتھ پکنک منانے کے لئے کہیں جانے کی اجازت ہے اور وہاں جاکر کھیل کود کرنا یا مختلف قسم کے پکوان تیار کرنا اور مل جل کر کھانا جائز ہے ۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
اَرۡسِلۡہُ مَعَنَا غَدًا یَّرۡتَعۡ وَ یَلۡعَبۡ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ۔
کل آپ اسے ہمارے ساتھ (تفریح کے لیے) بھیج دیجیے، تاکہ وہ کھائے پیے، اور کچھ کھیل کود لے۔ اور یقین رکھیے کہ ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے۔ (سورہ یوسف: 12)
اور حضرت عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں حبشیوں کا کھیل تماشا دکھایا اور اس موقع پر فرمایا:
” لِتَعْلَمَ يَهُودُ أَنَّ فِي دِينِنَا فُسْحَةً ؛ إِنِّي أُرْسِلْتُ بِحَنِيفِيَّةٍ سَمْحَةٍ ".
تاکہ یہودیوں کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے ۔مجھے آسان اور سیدھی راہ والے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ (مسند احمد:25962)
یعنی اسلام ایک دین فطرت ہے ،یہاں قدم قدم پر انسانی خصلت کی رعایت ہے، کسی خشک ،تنگ اور پیچیدہ نظام کا نام اسلام نہیں ہے کہ اس میں تفریح طبع کی کوئی گنجائش نہ ہو۔
حضرت عائشہ صدیقہ سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے :
أنها كانت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر قالت: فسابقته فسبقته على رجلي، فلما حملت اللحم سابقته فسبقني فقال: «هذه بتلك السبقة»”.
وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھیں ،آنحضور ﷺ نے ان کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا جس میں وہ آگے رہیں لیکن جب میں فربہ ہوگئی اور دوبارہ مقابلہ ہوا تو آنحضرت ﷺ جیت گئے اور فرمایا یہ پہلی سبقت کا بدلہ ہے ۔(ابوداؤد: 2578)
اور دار العلوم دیوبند کا فتوا ہے :
سوال:اکثر شادی کے بعد دولہا دلہن ہنی مون کے نام پر گھومنے کے لئے جاتے ہیں اور ہزاروں روپئے سیر و تفریح میں خرچ کرتے ہیں۔ اور بہت سے والدین اپنے بچوں کے سالانہ چھٹیوں میں بھی گھومنے کے لئے نکلتے ہیں، اس کے علاوہ سکول ،کالج اور آج کل دینی مدارس میں بھی پکنک کے نام پر سال میں ایک مرتبہ بچوں کو سیر و تفریح کے لئے لےجایا جاتا ہے ۔ کیا شریعت پکنک اور ہنی مون کے نام پر گھومنے پھرنے اور سیر و تفریح کی اجازت دیتی ہے ؟ کیا اس طرح گھومنے پھرنے میں پیسا خرچ کرنا جائز ہے ؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1103-1139/L=10/1439
شادی کے بعد بیوی کو دور دراز مقامات پر لے جانا، ہوٹلوں میں قیام کرانا، تفریحی مقامات کی سیر کرانا وغیرہ یہ یہود ونصاری وغیرہ کا طریقہ ہے، مسلمانوں کو اس سے بچنا ضروری ہے، اس کے علاوہ اگر بچوں یا طلبہ کو سمندر یا تاریخی مقامات وغیرہ کی سیر کرادی جائے بشرطیکہ وہ جگہ منکرات و فواحش کا اڈہ نہ ہو تو اس کی گنجائش ہوگی اور چونکہ یہ تشحیذ اذہان کا ایک ذریعہ ہے؛ اس لیے علی الاطلاق اس میں رقم خرچ کرنا فضول خرچی میں شامل نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند.
البتہ اگر خواتین ساتھ میں ہوں تو ضروری ہے کہ وہ پردہ کی پوری پابندی کریں ،نامحرم مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو ،ایسی جگہ نہ جائیں جہاں کسی فتنے کا اندیشہ ہو؛ کیونکہ عورت کا اصل دائر کار گھر ہے اور اسی میں اس کی عصمت و عفت کی حفاظت ہے ۔ارشاد باری ہے :
وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی.
اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو اور (غیر مردوں کو) بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو، جیسا کہ پہلی بار جاہلیت میں دکھایا جاتا تھا (۔ سورہ الاحزاب : 33)
تفسیر:
اس آیت نے یہ واضح فرمادیا ہے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے لئے گھر سے نکلنا جائز نہیں، کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث نے واضح فرمادیا ہے کہ حاجت کے وقت عورت پردے کے ساتھ باہر جاسکتی ہے، لیکن اس فقرے نے یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ عورت کا اصل فریضہ گھر اور خاندان کی تعمیر ہے اور ایسی سرگرمیاں جو اس مقصد میں خلل انداز ہوں، اس کے اصل مقصد زندگی کے خلاف ہیں، اور ان سے معاشرے کا توازن بگڑجاتا ہے۔ پہلی جاہلیت سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے کا زمانہ ہے جس میں عورتیں بےحیائی کے ساتھ بناؤ سنگھار غیر مردوں کو دکھاتی پھرتی تھیں، اور پہلی جاہلیت کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایک جاہلیت آخر میں بھی آنے والی ہے، اور کم از کم اس بےحیائی کے معاملے میں یہ جاہلیت ہماری آنکھوں کے سامنے اس طرح آچکی کہ اس نے پہلی جاہلیت کو مات کردیا ہے۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
” الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ، فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ ".
عورت چھپانے کی چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے ۔
(ترمذي: 1173)
تاہم جس طرح سے مرد کے لئے جسمانی صحت اور ذہنی سکون کے لئے تفریحی سفر کی اجازت ہے اسی طرح سے عورت کے لئے بھی گنجائش ہے کہ وہ کبھی کبھار گھر والوں کے ساتھ تفریحی سفر کرے لیکن ذہن نشیں رہے کہ انسانی ضرورت کی بنیاد پر تفریح طبع کی اجازت دی گئی ہے لہذا اس کو ضرورت کے دائرے میں رکھنا ضروری ہے اور بلاوجہ بار بار اس طرح کا سفر مناسب نہیں ۔