بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(17)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
5-الکٹرانک گیم :
یہ وضاحت آچکی ہے کہ کسی بھی کھیل کے جائز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں خلاف شریعت کوئی بات نہ ہو، اس سے کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ وابستہ ہو،اس میں اس درجہ انہماک نہ ہو کہ دوسری ذمہ داریاں پس پشت چلی جائیں اور ایک محدود اور مختصر وقت کے لئے کھیلا جائے ۔ارشاد ربانی ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ۔
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ (سورہ لقمٰن :6)
علامہ علامہ آلوسی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها‘‘.
حضرت حسن بصری سے منقول قول کے مطابق "لھو الحدیث” ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر سے غافل کردے جیسے کہ قصے کہانیاں ، لطیفے ، چٹکلے ، خرافات اور گانا بجانا وغیرہ۔ (روح المعانی 11 / 66)
اور مفتی محمد تقی صاحب عثمانی لکھتے ہیں:
…نیز اس میں یہ اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ دل بہلانے کا مشغلہ جو انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل اور بے پرواہ کرے، ناجائز ہے ۔کھیل کود اور دل بہلانے کے صرف وہ مشغلے جائز ہیں جن میں کوئی فائدہ ہو، مثلاً جسمانی یا ذہنی ورزش، یا تھکن دور کرنا، اور جن کی وجہ سے نہ کسی کو تکلیف پہنچے اور نہ وہ انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل کریں۔(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
موبائل اور کمپیوٹر گیمس میں اگر یہ شرطیں پائی جائیں تو وہ جائز ہیں اگر ان کے ذریعے دینی اور اخلاقی معیار کو بلند کیا جائے ،ایمان و یقین کی آبیاری ہو ،عقل کو غذا اور ذہنی افق کو وسعت ملے اور ذہانت و فطانت میں ترقی اور صلاحیت و لیاقت اور معلومات میں اضافہ ہو۔ سلیقہ مندی اور خود اعتمادی پیدا ہو ،سماجی اور اجتماعی زندگی کی عادت پڑے اور متوازن و معتدل زندگی گذارنے میں مددگار ہو۔
لیکن واقعہ کی دنیا میں ان شرطوں کا وجود بہت مشکل ہے اس لئے کہ ان کے بنانے والے عام طور پر غیر مسلم یا نام کے مسلمان ہوتے ہیں لہذا وہ نہایت عیاری یا غیر شعوری طور پر ایسی چیزیں اس میں پیوست کر دیتے ہیں جو اسلامی عقائد و تعلیمات کے خلاف ہوتی ہیں اور غیر محسوس انداز میں وہ چیزیں ہماری نفسیات و افکار کا حصہ بن جاتی ہیں اور دل و دماغ کو اس طرح سے جکڑ لیتی ہیں کہ ان سے چھٹکارا پانا مشکل ہوجاتا ہے ۔
غیر حقیقی اور مبالغہ آمیز اور خرافاتی قصے کہانیوں میں انسان اس درجہ محو ہوجاتا کہ دوسری چیزوں کی خبر نہیں رہتی اور وہ خیالی دنیا میں رہنے لگتا ہے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے ۔
مار دھاڑ اور قتل و غارتگری پر مشتمل ویڈیو گیم لوگوں کو اذیت پسند اور وحشی بنا رہے ہیں اور بطور خاص بچے اس سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں ۔ان کے ذہن و دماغ پر بڑے خطرناک اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ان میں ان کھیلوں کے تعلق سے دیوانگی اور تعلیم وتربیت سے بیگانگی پیدا ہو رہی ہے،ان کے احساسات و جذبات پر کھیل اس درجہ مسلط ہوچکا ہے کہ اس کے بغیر چین نہیں بلکہ جوئے اور شراب کی طرح سے اس کی لت لگ چکی ہے جس کے نتیجے میں وہ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں یا تعلیم ترک کردیتے ہیں۔
اور کمپیوٹر اور موبائل پر طویل وقت گزارنے کی وجہ سے صحت و تندرستی کے مسائل پیدا ہورہے ہیں، جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہو رہی ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکرین پر طویل وقت گزارنے کی وجہ سے بچے ذہنی طور پر اپاہج یا وہ مرگی کی بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں ۔
غرضیکہ موبائل اور کمپیوٹر گیمس میں قیمتی وقت کو ضائع کرنا اور ایک لایعنی اور بے مقصد کھیل ہےاور اس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہے اس لئے اس سے احتراز ضروری ہے ۔