بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(19)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
8-بچے اور بچیوں کے کھیل :
کھیل کود سے دلچسپی بچوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔اور یہ ان کی طبعی ضرورت بھی ہے کہ ہم جولیوں اور دوستوں کے ساتھ کھیلنے سے ان کی نشو و نما میں مدد ملتی ہے ، ذہنی صلاحیت پروان چڑھتی ہے، سماجی اور خاندانی زندگی گزارنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور خانگی زندگی کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔
رحمت عالم ﷺ عہد طفولت میں اس دور کے رائج اور جائز کھیلوں میں حصہ لیا کرتے تھے چنانچہ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَهُ، فَصَرَعَهُ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے جب کہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے انہوں نے آپ ﷺ کو لٹایا اور آپ کا سینہ چاک کیا۔
(مسلم: 162.مسند احمد 12221)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسین بن علی راستے میں کھیل رہے تھے،ایک دعوت میں تشریف لے جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا اور گود میں اٹھا لیا۔
(فَإِذَا حُسَيْنٌ يَلْعَبُ فِي السِّكَّةِ، قَالَ : فَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَامَ الْقَوْمِ، وَبَسَطَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَفِرُّ هَاهُنَا وَهَاهُنَا، وَيُضَاحِكُهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَخَذَهُ، فَجَعَلَ إِحْدَى يَدَيْهِ تَحْتَ ذَقَنِهِ، وَالْأُخْرَى فِي فَأْسِ رَأْسِهِ ، فَقَبَّلَهُ، وَقَالَ : ” حُسَيْنٌ مِنِّي، وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا .ابن ماجه :144.احمد: 17561)۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
أَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، قَالَ : فَسَلَّمَ عَلَيْنَا، فَبَعَثَنِي إِلَى حَاجَةٍ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، اس وقت میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اپ نے ہمیں سلام کیا اور اپنے کسی کام کے لیے مجھے بھیجا۔ (صحیح مسلم 2482)
حضرت انس کی عمر دس سال تھی جب ان کی والدہ نے انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پر مامور کیا تھا وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا، راستے میں بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوگیا اور جو کام آپ نے کہا تھا وہ بھول گیا ،کچھ دیر کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور پیچھے سے میری گردن پکڑی اور فرمایا :انس! جو کام میں نے کہا تھا وہ ہو گیا؟ میں نے دیکھا آپ کے چہرے پر خفگی کے آثار نہیں بلکہ مسکراہٹ بکھری ہوئی ہے ۔ عرض کیا: جی ہاں. اب جا رہا ہوں.
(فَخَرَجْتُ حَتَّى أَمُرَّ عَلَى صِبْيَانٍ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي السُّوقِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَبَضَ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي. قَالَ : فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقَالَ : ” يَا أُنَيْسُ، أَذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ ؟ ” قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ، أَنَا أَذْهَبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.صحیح مسلم: 2310).
حدیث گزر چکی ہے کہ حضرت انس کے بھائی ابو عمیر نغیر نامی پرندے سے کھیلا کرتے تھے اور آنحضرت ﷺ اس پرندے کے مرنے کے بعد ان سے مزاح فرمایا کرتے تھے۔(صحیح بخاري:6129)
اور عقبہ بن حارث کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کچھ دنوں کے بعد میں حضرت ابوبکر صدیق کی معیت میں کہیں جارہا تھا، حضرت علی بھی ان کے ساتھ چل رہے تھے، وہ حسن بن علی کے پاس سے گزرے جو بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مشغول تھے ، انہوں نے ان کو اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور کہنے لگے تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہو حضرت علی کے مشابہ نہیں ، یہ سن کر حضرت علی ہنسنے لگے ۔(بخاری:3542مسند احمد: 40 واللفظ لہ)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی رخصتی کے پس منظر میں کہتی ہیں :
فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ، وَمَعِي صَوَاحِبُ لِي، فَصَرَخَتْ بِي، فَأَتَيْتُهَا۔۔۔
میری والدہ ام رومان میرے پاس آئیں، اس وقت میں جھولا جھول رہی تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں تھیں ۔انھوں نے مجھے پکارا، میں ان کے پاس گئی۔۔۔(صحیح بخاری : 3894۔ مسلم :1422)
اور وہ رخصتی کے بعد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:
كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ يَتَقَمَّعْنَ مِنْهُ، فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ، فَيَلْعَبْنَ مَعِي.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں گڑیوں سے کھیلتی تھی، میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے تو وہ چھپ جاتیں اور آنحضرت ﷺ انہیں تلاش کرکے میرے پاس بھیجتے اور پھر وہ میرے ساتھ کھیلتیں۔(صحیح بخاری: 6130. صحیح مسلم: 2440)
اور ربیع بنت معوذ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے صبح میں انصار کی آبادیوں میں پیغام بھیجا کہ جو کوئی کھا پی چکا ہے وہ بقیہ دن روزہ رکھے اور جس نے کھایا پیا نہیں ہے تو وہ روزہ کی نیت کرلے۔وہ کہتی ہیں کہ ہم اس کے بعد روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں اور ان کے لیے روئی کا کھلونا بنا دیتیں، جب ان میں سے کوئی کھانے کے لیے روتا اسے کھلونا دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا ۔
( عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ قَالَتْ : أَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِلَى قُرَى الْأَنْصَارِ : ” مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلْيَصُمْ ". قَالَتْ : فَكُنَّا نَصُومُهُ بَعْدُ وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا، وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ.صحیح بخاری :1960 صحیح مسلم :1136)
اور قاضی خان کہتے ہیں:
اللعب الذي يلعب الصبیان ايام الصيف بالبطيخ بان يضرب بعضهم بعد مباح غير منكر.
بچوں کا گرمی کے دنوں میں تربوزے سے کھیلنا جائز ہے اور ناپسندیدہ نہیں ہے ۔اس طور پر کہ وہ تربوزے کو ایک دوسرے پر اچھالتے ہیں ۔(الهنديه354/5)
نیز وہ کہتے ہیں:
روي عن ابن عمر انه كان يشتري الجوز لصبيانه يوم العيد يلعبون بها وكان ياكل منه وهذا اذا لم يكن على وجه المقامره .
حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ وہ عید کے دن اپنے بچوں کھیلنے کے لئے اخروٹ خریدتے تھے اور اسے کھاتے بھی تھے ،لیکن یہ اس وقت ہے جب کہ جوئے کے طور پر نہ کھیلا جائے۔(الخانيه الهامش الهنديه 428/3)
امام غزالی کہتے ہیں:
مناسب ہے کہ مدرسے سے واپسی کے بعد بچوں کو اچھا کھیل کھیلنے کی اجازت دی جائے تاکہ مدرسے کی تھکن سے آرام پا سکیں لیکن اتنا نہیں کہ وہ کھیل کر تھک جائیں؛ کیونکہ بچوں کو کھیل سے منع کرنا اور ہر وقت تعلیم کے لیے اس پر مسلط رہنا اس کے دل کو مردہ کر دے گا اور اس کی ذہانت کند ہوجائے گی اور زندگی گزارنا اس کے لیے دشوار ہو جائے گا یہاں تک کہ پڑھائی سے بھاگنے کی تدبیر اختیار کرے گا. (احیاء علوم الدین 73/3)
اور علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ کمزور طبیعت کے لوگ جیسے کہ بچے اور عورتیں اگر بے فائدہ کھیل تماشہ چھوڑ دیں تو ہو سکتا ہے کہ اس سے بہتر میں مشغول نہ ہوں بلکہ اس سے بدتر میں مبتلا ہو جائیں.
(الاستقامہ 153/2)
نیز وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو کھیل کود میں وہ چھوٹ دی جا سکتی ہے جس کی گنجائش بڑوں کے لئے نہیں ہوتی ہے۔ (مجموع الفتاوی214/30)
9-گولیاں اور لٹو:
چھوٹے بچے آپس میں کانچ کی گولیاں کھیلتے ہیں، لٹو سے جی بہلاتے ہیں ، اگر ان کھیلوں میں ہار جیت ہو رہی ہو تو حرام اورناجائز ہیں، مفسر قرآن علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: حضرت مجاہد و عطاء کا خیال ہے کہ ہر قمار(جوا)’’میسر‘‘ میں داخل ہے، یہاں تک کہ بچے جو اخروٹ کھیلتے ہیں وہ بھی۔(تفسیر ابن کثیر 544/1)
فقہی اصول ہے کہ جو کام بڑوں کے لیے حرام ہے وہ بچوں کے لیے بھی درست نہیں اور ان کے عمل کے ذمہ دار والدین اور سرپرست ہوں گے، ان سے اس سلسلہ میں بازپرس ہوگی، اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اس قسم کے فضول کھیلوں سے دور رکھیں اور ایسے کھیلوں کی طرف رغبت دلائیں جن سے ان کے جسمانی نشوونما میں مدد مل سکے اور ان کی ذہنی و فکری تربیت کا ذریعہ ہو، بچوں کا ذہن بہت سادہ ہوتا ہے وہ ہر اچھی بری چیز کی طرف بڑی تیزی سے لپکتا ہے ، یہاں تک کہ آگ کے دہکتے ہوئے شعلے کی طرف بھی ، کیا ماں باپ اس کو گوارا کریں گے کہ ان کے دیکھتے ہوئے بچہ شعلہ کو ہاتھ میں لے لے؟ یقینا کوئی اسے برداشت نہیں کرسکتا، پھر آپ ان کے لیے ایسے کھیلوں کو کیونکر گوارا کرلیتے ہیں جو ان کے ذہن و دماغ کو جلاکر خاکستر کر دیتاہے، ایک معمولی کھیل ان کی ذہنی و جسمانی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتاہے، یہ بچے خدا کی امانت ہیں، ان کی پرورش اسی احساس اور جذبہ کے تحت ہونی چاہیے ، اگر ان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی برتی گئی ، ان کو غلط راستے پر ڈالا گیا تو اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا پڑے گا۔
علامہ آجری کہتے ہیں کہ بچوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کھیل حرام ہے ،جوا ہے تاکہ بلوغت کے بعد انہیں معلوم رہے کہ بڑوں نے اس کام سے منع کیا ہے اور بتایا ہے کہ حرام ہے ورنہ تو وہ بڑے ہو کر کہیں گے ہم تو یہ کھیل کھیلتے رہے لیکن کسی نے منع نہیں کیا، اگر ناجائز ہوتا تو لوگ اس سے منع کرتے ۔(تحریم النرد /90)