بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

 

سلسله(11) دوا علاج سے متعلق نئے مسائل

 

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242

 

 

11-انسانی اجزاء سے علاج:

 

انسان کے سوا دیگر جاندار کے اعضاء سے استفادہ کرنا جائز ہے مثلاً بندر ، بن مانس وغیرہ کے جسم کے کسی حصہ کو انسانی جسم میں منتقل کرنا درست ہے۔

شرط یہ ہے کہ جانور حلال ہو اور شرعی طریقے پر ذبح کرکے ’’عضو‘‘ کو حاصل کیاگیا ہو اس لئے کہ تمام جانور انسان کی خدمت اور آرام و آسانی ہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، جب بطور خوراک عام حالت میں انھیں استعمال کرنے کی اجازت ہے تو بغرض علاج ان کے جسم کے کسی عضو سے فائدہ اٹھانا بدرجہ اولیٰ جائز ہے ، حلال جانور کو زندہ باقی رکھ کر اس کے جسم کے کسی حصہ کو نکال لینا اور اسے استعمال کرنا جائز نہیں اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ زندہ جانور سے جو حصہ کاٹ کر علاحدہ کرلیاجائے وہ مردار ہے ۔(ترمذی)

مردہ حیوان کی خشک ہڈی اور بال سے استفادہ بغیر کسی تفصیل کے جائز ہے ، صرف خنزیر کا اس سے استثناء ہے کہ وہ سراپا نجس اور ناپاک ہے ۔ ہندیہ میں ہے:

’’امام محمد نے کہاکہ دوا کے طور پر ہڈی کا استعمال جائز ہے جبکہ بکری ، گائے، اونٹ یا گھوڑے یا دیگر جانوروں کی ہڈی ہو ، سوا خنزیر اور آدمی کے ، کیونکہ ان دونوں کے ہڈی سے علاج مکروہ ہے ، (یہ حکم اس وقت ہے جبکہ جانور کو شرعی طریقہ پر ذبح کیا ہو) اگر وہ مردار ہو تو خشک ہڈی سے علاج درست ہے اور تر سے نہیں اور کتے کی ہڈی بھی دوا کے لئے جائز ہے۔‘‘(ہندیہ 354/5)

لیکن یہ تمام تفصیلات عام حالات میں ہیں، اضطرار یا مشقت شدیدہ کے وقت جبکہ اس کے سوا کوئی متبادل نہ ہو مردار اور خنزیر کے جسم کے کسی حصہ سے پیوند کاری جائز اور درست ہے ، اس لئے کہ فقہی اصول ہے کہ ضرورت حرام کو بھی جائز کردیتی ہے۔( الضرورات تبیح المخطورات)

انسانی جسم کے کسی حصہ کو خود اسی کے جسم میں پیوندکاری کرنا جیسے منھ پر آئے ہوئے زخم کو بھرنے کے لئے ران کا گوشت لگانا ،یہ صورت امام ابویوسف کے نزدیک جائز ہے ، اس لئے کہ اس میں جسم انسانی کی کوئی توہین نہیں. (ولا اھانۃ فی استعمال جزء منہ) امام ابوحنیفہ و محمد کے نزدیک اس کی اجازت نہیں اس لئے کہ جسم سے علاحدہ کئے ہوئے حصہ کو دفن کرنا واجب ہے تو اسے دوبارہ اس جسم میں لگانا اس کے خلاف کرنا ہے.( فاذاانفصل استحق الدفن والاعادۃ صرف لہ عن جھۃ الاستحقاق)(بدائع 132/5)

اس مسئلہ میں عام طور سے لوگوں نے امام ابویوسف کے رائے کو ترجیح دی ہے اور یہی صحیح ہے ، لیکن تراش و خراش کی اجازت اسی وقت ہوگی جبکہ کوئی دوسری تدبیر کار گرنہ ہو اور ضرورت کے لئے ہو، زینت کے لئے نہیں۔

ایک زندہ یا مردہ انسان کے کسی عضو کو دوسرے انسان میں لگانا ۔ یہ صورت درست نہیں ہے ۔ناجائز ہونے کی دو وجہیں ہیں:

انسان اپنے جسم کا مالک و مختار نہیں بلکہ ’’جسم‘‘ اللہ کی طرف سے ایک ’’امانت‘‘ ہے ، جس میں ایک حد تک تصرف کا اختیار تو ہے مگر اس میں غیر امانت دارانہ تصرف کرنے اور دوسروں کو دینے کا مجاز نہیں ، یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامی میں خودکشی ایک عظیم جرم ہے اور جسم میں کسی قسم کے مالکانہ تصرف اور تبدیلی کو قرآن حکیم میں’’تغییر خلق اللہ‘‘(اللہ کی ساخت و بناوٹ کو بدلنا )سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کو سخت مذموم اور شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے۔

اور ایک حدیث میں ہے :

۔۔۔ فَلَمَّا هَاجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ هَاجَرَ إِلَيْهِ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَهَاجَرَ مَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَاجْتَوَوُا الْمَدِينَةَ، فَمَرِضَ، فَجَزِعَ، فَأَخَذَ مَشَاقِصَ لَهُ، فَقَطَعَ بِهَا بَرَاجِمَهُ، فَشَخَبَتْ يَدَاهُ حَتَّى مَاتَ، فَرَآهُ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فِي مَنَامِهِ، فَرَآهُ وَهَيْئَتُهُ حَسَنَةٌ، وَرَآهُ مُغَطِّيًا يَدَيْهِ، فَقَالَ لَهُ : مَا صَنَعَ بِكَ رَبُّكَ ؟ فَقَالَ : غَفَرَ لِي بِهِجْرَتِي إِلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : مَا لِي أَرَاكَ مُغَطِّيًا يَدَيْكَ. قَالَ : قِيلَ لِي : لَنْ نُصْلِحَ مِنْكَ مَا أَفْسَدْتَ. فَقَصَّهَا الطُّفَيْلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اللَّهُمَّ وَلِيَدَيْهِ فَاغْفِرْ ".

نبی کریم ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے تو حضرت طفیل اور ان کے خاندان کا ایک شخص بھی مدینہ ہجرت کر کے آگیا لیکن مدینہ کی آب وہوا راس نہ آنے کی وجہ سے وہ شخص بیمار ہوگیا اور بیماری کی شدت برداشت نہ کر سکا اور گھبراہٹ میں اُس نے اپنے تیر کے پھل سے اپنی انگلیوں کی جوڑ کاٹ ڈالے، یہاں تک کہ اس کے ہاتھ سے خون بہتا رہا اور وہ مر گیا۔

حضرت طفیل بن عمرو نے اسے خواب میں دیکھا۔ وہ اچھی حالت میں تھا، لیکن اپنے ہاتھ چھپائے ہوئے تھا۔ حضرت طفیل نے اس سے پوچھا: ’’تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’اللہ نے نبی ﷺ کی طرف ہجرت کی وجہ سے مجھے بخش دیا۔‘‘ طفیل نے پوچھا: ’’تم اپنا ہاتھ کیوں چھپائے ہوئے ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’مجھ سے کہا گیا: جس چیز کو تم نے بگاڑا ہے ہم اسے درست نہیں کریں گے ۔

حضرت طفیل نے یہ سارا واقعہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"اے اللہ! اس کے ہاتھوں کو بھی بخش دے۔

(صحیح مسلم:116)

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے جسم کا کوئی حصہ دوسرے کو دے دے تو قیامت کے دن بطور سزا اس کے جسم کا وہ حصہ ناقص رکھا جائے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان:

"لن نصلح ماافسدت” (جسے تم نے خراب کیا ہے ہم اسے ٹھیک نہیں کریں گے)کا تعلق خودکشی سے نہیں ہے بلکہ وہ پوروں کو زخمی کرنے اور کاٹنے سے متعلق ہے۔

اور حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق کہتی ہیں:

سَأَلَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي أَصَابَتْهَا الْحَصْبَةُ، فَامَّرَقَ شَعَرُهَا، وَإِنِّي زَوَّجْتُهَا، أَفَأَصِلُ فِيهِ ؟ فَقَالَ : ” لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمَوْصُولَةَ۔

ایک خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: یا رسول اللہ! چیچک کی وجہ سے میری بیٹی کے بال جھڑ گئے ہیں اور میں نے اس کا نکاح کر دیا ہے تو کیا میں اس کے بال میں دوسرے کے بالوں کو جوڑ سکتی ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے لعنت فرمائی ہے بال جوڑنے والی پر اور جڑوانے والی پر.(صحیح بخاري 5941)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی دوسری عورت کے بال سے استفادہ کرنا حرام ہے ؛کیونکہ وہ اس کے جسم کا ایک حصہ ہے لہذا انسان کے جسم کے کسی بھی حصے سے انتفاع جائز نہیں ہے اگرچہ اس کے لینے کی وجہ سے دینے والے کو کوئی نقصان نہ ہو۔

تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی بھوک کی وجہ سے جاں بلب ہو، موت

و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو اور کوئی اس سے کہے کہ میرے جسم سے کاٹ کر کھالو تو ایسی حالت میں بھی نہ تو اس شخص کو اجازت دینا جائز ہے اور نہ ہی دوسرے کے لئے کھاکر جان بچانا جائز ہے۔(دیکھئے فتاوی الخانیہ404/3، رد المحتار 215/5بلغۃ السالک 483/1، المجموع 45/9 کشاف القناع 198/6، المحلی 137/8)

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے جسم کا مالک نہیں ہے ، وہ اس کے پاس ایک امانت ہے، جس سے صرف فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے۔چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی خودکشی کی ممانعت سے متعلق حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

وَيُؤْخَذُ مِنْهُ أَنَّ جِنَايَةَ الْإِنْسَانِ عَلَى نَفْسِهِ كَجِنَايَتِهِ عَلَى غَيْرِهِ فِي الْإِثْمِ لِأَنَّ نَفْسَهُ لَيْسَتْ مِلْكًا لَهُ مُطْلَقًا بَلْ هِيَ لِلَّهِ تَعَالَى فَلَا يَتَصَرَّفُ فِيهَا إِلَّا بِمَا أُذِنَ لَهُ فِيهِ۔

مذکورہ حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا اپنے جسم کے سلسلے میں کسی جرم کا ارتکاب کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ دوسرے کے جسم پر۔دونوں کا گناہ یکساں ہے ۔اس لئے کہ اس کا جسم مطلقاً اس کی ملکیت نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے لہذا اس میں صرف وہی تصرف کرسکتا ہے جس کی اجازت دی گئی ہے ۔(فتح الباری 539/11)

نیز یہ کہ کسی چیز کی خرید و فروخت ، ھبہ اور وصیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ مال ہو اور جسم انسانی مال نہیں ہے لہذا اسے کسی کو ہبہ کرنا اور مرنے کے بعد کسی کے لئے اس کی وصیت کرنا جائز نہیں ہے اور تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ انسانی جسم کے کسی حصے کی خرید و فروخت درست نہیں ہے اور اسی طرح سے اس ضابطے پر بھی اتفاق ہے کہ:

ما جازه بيعه جازت هبته وما لا فلا.

جسے بیچنا جائز ہے اس کا ھبہ بھی درست ہے اور جسے بیچنا جائز نہیں اس کا ھبہ بھی صحیح نہیں ہے۔(المنثور من القواعد للزركشي/238)

اور علامہ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں:

اما الواهب فانهم اتفقوا على انه تجوز هبته اذا كان مالكا للموهوب صحيح الملك.

تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ ہبہ کرنے والے کا ہبہ اسی وقت جائز ہے جب کہ وہ ہبہ کردہ چیز کا صحیح طور پر مالک ہو۔( بداية المجتهد7/5)

اور علامہ کاسانی رقم طراز ہیں:

ومنها ان يكون مالا متقوما فلا تجوز هبة ما ليس بمال اصلا كالحر والميتة والدم …

ہبہ کی شرطوں میں سے یہ بھی ہے کہ ہبہ کردہ چیز مال متقوم ہو لہذا کسی ایسی چیز کا ھبہ جائز نہیں ہے جو اصلا مال نہ ہو جیسے آزاد انسان ،مردار اور خون۔(بدائع الصنائع179/5)

اور فتاوی ہندیہ میں ہے :

وَشَرْطُهَا كَوْنُ الْمُوصِي أَهْلًا لِلتَّمْلِيكِ وَالْمُوصَى لَهُ أَهْلًا لِلتَّمَلُّكِ وَالْمُوصَى بِهِ بَعْدَ الْمُوصِي مَالًا قَابِلًا لِلتَّمْلِيكِ۔

وصیت کے لیے شرط یہ ہے کہ وصیت کرنے والا مالک بنانے کا اہل ہو اور جس کے لیے وصیت کی گئی ہو اس کے اندر مالک بننے کی صلاحیت ہو اور جس چیز کی وصیت کی گئی ہو وہ وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد قابل تملیک مال ہو ۔(الھندیہ 90/6)

اس کے ناجائز ہونے کی دوسری وجہ انسان کی عزت و تکریم ہے ، اللہ نے انسان کو مکرم و محترم بنایاہے، (ولقد کرمنا بنی آدم) جسم انسانی کی تراش خراش اور چیر پھاڑ اس کی تکریم کے خلاف ہے، یہ درست ہے کہ شریعت نے احترام انسانیت کا کوئی بے لچک اصول مقرر نہیں کیاہے ، بلکہ مبہم رکھا ہے اور اس قسم کے مسائل میں عرف اور حالات ہی کو فیصل مانا جاتا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اہل علم کی نظروں سے پوشیدہ نہیں کہ اس سلسلہ میں اسی زمانے کا عرف معتبر ہوگا جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا، بعد کے کسی عرف و عادت سے قرآن کے کسی مبہم لفظ کی تشریح نہیں کی جاسکتی ہے، اس لئے کہ اگر حرام و حلال جیسے مسائل میں ہر زمانہ کے عرف کو معیار بنایاجائے تو پھر شریعت کی دیوار کو برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

رہی بات ضرورت کی کہ اس حالت میں قابل احترام چیزوں کی اہانت گوارا کی جاسکتی ہے ، لہٰذا اضطراری حالت میں تکریم انسانیت کا پہلو نظر انداز کیاجاسکتا ہے، تویہ بھی صحیح ہے، لیکن جیساکہ بارہا آچکا ہے کہ اصل بنیادی وجہ مالک و مختار نہ ہونا ہے، احترام انسانیت ایک ضمنی وجہ ہے ، اس پر مسئلہ کا دارومدار نہیں اور فقہاء کی تصریحات گذرچکی ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کے مقصد سے بھی اعضا ء انسانی سے استفادہ درست نہیں۔

اس مسئلہ میں جو حکم ایک زندہ انسان کا ہے وہی مردہ کا بھی ہے ، اس لئے کہ اپنے جسم کا مالک نہ ہونے اور احترام انسانیت میں دونوں یکساں ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے:

’’مردہ انسان کی ہڈی کو توڑنا زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔‘‘

نیز آپ ﷺ نے فرمایا:

’’مومن کو اس کے مرنے کے بعد اذیت پہنچانا اس کی زندگی میں اذیت پہنچانے کی طرح ہے۔‘‘

زندگی میں ایک گونہ تصرف کا حق بھی ہے ، مرنے کے بعد تو یہ حق بھی ختم ہوجاتاہے، لہٰذا اگر کوئی اس طرح کی کوئی وصیت کر جاتا ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی ورثاء کے لئے اس کی وصیت پر عمل کرنا جائز ہے ، بلکہ موت کے بعد صحیح حالت میں دفن کرنا ان کی ذمہ داری اور ایک اسلامی فریضہ ہے اور اس میں کسی قسم کی تراش خراش، خرد برد’’مثلہ‘‘ہے، جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے ۔(ونھی عن المثلۃ.بخاری 602/2، رشیدیہ دہلی)

کسی انسان کے عضو کی چھانٹ کاٹ کو مثلہ کہاجاتاہے۔( انما المثلۃ قطع عضو ونحوہ . حاشیہ ابوداؤد 244/1)

علامہ ابن عابدین شامی حنفی نے لکھا ہے اور خوب لکھاہے کہ :

’’ذمی(وہ کافر جو دارالاسلام میں سکونت پذیر ہو) کی ہڈی بھی قابل احترام ہے ، لہٰذا اگر وہ کسی قبرمیں پائی جائے تو اسے توڑا نہ جائے، کیونکہ یہ ’’مثلہ‘‘کی قبیل سے ہے ، لہٰذاجس طرح اس کو زندگی میں اذیت پہنچانا حرام ہے ، اسی طرح موت کے بعد ٹوٹنے سے اس کی حفاظت واجب ہے ۔(رد المحتار 246/2)

بعض حالات میں مردہ کے جسم کو چیرنے کی جو اجازت بعض فقہی کتابوں میں مذکور ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ایک دوسرے کا حق متعلق ہوچکا ہے ، اس حق کی رعایت میں احترام انسانیت کے پہلو کو نظر انداز کردیا گیا ہے، مگر انسانی جسم کے کسی حصہ کو کاٹ کر دوسرے میں لگانے میں ایسی کوئی وجہ موجود نہیں ہے ، لہٰذا ان جیسے مسائل کو اعضاء کی پیوندکاری کے لئے نظیر بنانا درست نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے