بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(13) دوا علاج سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
13-فرسٹ ایڈ:
فرسٹ ایڈ یعنی ابتدائی طبی امداد جس کے ذریعے اچانک پیش آجانے والے حادثات جیسے کہ جل جانا،چھت سے گر جانا یا ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں زخمی ہو جانا وغیرہ جس کی طرف فوری توجہ ضروری ہے تاکہ بیماری یا زخم مزید خراب نہ ہو۔
اگر کسی ڈاکٹر کے پاس اس طرح کا مریض لایا جائے جس کا فوری علاج ضروری ہے اور علاج نہ کرنے میں اس کی جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہو جانے کا اندیشہ ہے یا وہ شدید پریشانی سے دوچار ہو سکتا ہے اور علاج کی وجہ سے ڈاکٹر کا کوئی نقصان نہیں ہے اور موقع پر دوسرا ڈاکٹر موجود نہیں بالفاظ دیگر علاج نہ کرنے کی کوئی شرعی عذر موجود نہیں ہے تو ایسی حالت علاج کرنا ایک دینی فریضہ ہے ؛ کیونکہ ایک انسانی جان کی حفاظت واجب ہے. اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
مِنۡ اَجۡلِ ذٰلِکَ ۚۛؔ کَتَبۡنَا عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ لَقَدۡ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا بِالۡبَیِّنٰتِ ۫ ثُمَّ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ فِی الۡاَرۡضِ لَمُسۡرِفُوۡنَ ۔
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا ۔ اور جو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے، مگر اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں ہی کرتے رہے ہیں۔(سورہ المآئدۃ : 32)
تفسیر:
مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے کیونکہ کوئی شخص قتل ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی، نیز جب اس ذہنیت کا چلن عام ہوجائے تو تمام انسان غیر محفوظ ہوجاتے ہیں ؛ لہذا قتل ناحق کا ارتکاب چاہے کسی کے خلاف کیا گیا ہو تمام انسانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ جرم ہم سب کے خلاف کیا گیا ہے.(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
” الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يُسْلِمُهُ ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ، كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے تنہا چھوڑتا ہے ،اور جو کوئی اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے اللہ تبارک و تعالی اس کی ضرورت پوری کر دیں گے اور جو کوئی کسی مسلمان کی رنج و تکلیف کو دور کرتا تو اللہ تبارک و تعالی قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور کر دیں گے اور جو کوئی مسلمان کے عیب کو چھپا لے تو اللہ تبارک و تعالی قیامت کے دن اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کریں گے۔(بخاری: 2442. مسلم: 2580)
یعنی مصائب و تکلیف میں اور دشمن کے خلاف اسے تنہا نہیں چھوڑتا ہے اور مریض کا علاج نہ کرنا بھی اسے تنہا چھوڑ دینے میں داخل ہے.
اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک کتے کی جان بچانے کی وجہ سے ایک فاحشہ عورت کی مغفرت کر دی گئی اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی جان بچانے کی اہمیت کیا ہوگی؟ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
” بَيْنَمَا كَلْبٌ يُطِيفُ بِرَكِيَّةٍ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ، إِذْ رَأَتْهُ بَغِيٌّ مِنْ بَغَايَا بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَنَزَعَتْ مُوقَهَا فَسَقَتْهُ، فَغُفِرَ لَهَا بِهِ "
ایک کتا کنویں کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا اور پیاس کی وجہ سے مرنے کے قریب تھا کہ بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت نے اسے دیکھا اور اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس میں پانی بھر کر کتے کو پلایا جس کی وجہ سے اس کی مغفرت کردی گئی ۔(بخاری 3467.مسلم 2445)
نیز حدیث میں ایسے شخص کے لیے شدید بعید بیان کی گئی ہے جس کے پاس زائد پانی موجود ہو اور وہ کسی پیاسے کو محروم رکھے۔حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ؛ رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِطَرِيقٍ يَمْنَعُ مِنْهُ ابْنَ السَّبِيلِ، وَرَجُلٌ بَايَعَ رَجُلًا لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِلدُّنْيَا، فَإِنْ أَعْطَاهُ مَا يُرِيدُ وَفَى لَهُ، وَإِلَّا لَمْ يَفِ لَهُ، وَرَجُلٌ سَاوَمَ رَجُلًا بِسِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَحَلَفَ بِاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَى بِهِ كَذَا وَكَذَا، فَأَخَذَهَا ".
اللہ تعالیٰ تین لوگوں سے نہ تو بات کریں گے اور نہ ان کی طرف دیکھیں گے اور نہ ان کو پاک و صاف کریں گے۔ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں زائد پانی موجود ہو لیکن وہ کسی مسافر کو دینے سے انکار کردے ۔دوسرا وہ شخص جو کسی حکمراں سے محض دنیا حاصل کرنے کے لیے بیعت کرے ،اگر اس کا مقصد حاصل ہوتا رہے تو وفادار رہے ورنہ نہیں ۔اور تیسرا وہ شخص جو کسی سے عصر کے بعد مول بھاؤ کرے اور قسم کھا کر کہ اس نے اتنا اتنا دیا ہے جس پر اعتماد کرکے دوسرا شخص اسے خرید لے۔(صحیح بخاری: 2672.صحیح مسلم: 108)
اور فقہاء کرام نے لکھا ہے :
ويجب لاغاثة ملهوف وغريق وحريق. الدر. (ويجب) الظاهر منه الافتراض ط قوله (لاغاثة ملهوف) سواء استغاث بالمصلي او لم يعين احدا في استغاثته اذا قدر على ذلك ومثله خوف تردي اعمى في بئر مثلا اذا غلب على ظنه سقوطه.
ستم رسیدہ اور ڈوبنے والے اور جلنے والے کی فریاد رسی کے لئے نماز کو توڑنا واجب یعنی فرض ہے ،خواہ وہ نمازی سے مدد چاہے یا فریاد کرنے میں کسی کی تعیین نہ کرے جب کہ نمازی اس کی مدد پر قادر ہو اور یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کہ کسی نابینا کے کنویں میں گرنے کا ظن غالب ہو ۔
(رد المحتار باب ما يفسد الصلاه وما يكره فيها 426/2)
والحاصل : أن المصلي متى سمع أحداً يستغيث وإن لم يقصده بالنداء، أو كان أجنبياً وإن لم يعلم ما حل به أو علم وكان له قدرة على إغاثته وتخليصه وجب عليه إغاثته وقطع الصلاة فرضاً كانت أو غيره.
حاصل یہ ہے کہ اگر نمازی کسی کو فریاد کرتے ہوئے سنے گرچہ اسے پکارنا مقصود نہ ہو یا کوئی اجنبی شخص ہو اور گرچہ نمازی کو معلوم نہیں کہ اس پر کونسی مصیبت آپڑی ہے یا اسے معلوم ہے اور اسے اس کی مدد اور اس مصیبت سے چھٹکارا دلانے کی قدرت حاصل ہے تو اس کے لئے نماز توڑنا اور اس کی مدد کرنا واجب ہے خواہ فرض نماز ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور نماز۔(رد المحتار باب ادراک الفضیلۃ609/2)