14-خون چڑھانا:

 

خون حرام ہے ، قرآن میں بصراحت اس کی حرمت کو بیان کیاگیاہے ، اس کے علاوہ وہ جسم انسانی کا ایک حصہ بھی ہے اور جسم انسانی کے کسی حصہ سے فائدہ اٹھانا بھی ناجائز ہے، غرضیکہ خون کے چڑھانے میں حرمت کی دو وجہیں جمع ہوگئیں:حرام و

ناپاک ہونا اورانسان کا جزء ہونا مگر یہ ایسا جز ہے کہ بطور علاج بدن سے نکالنے کی اجازت ہے ، حدیثوں میں پچھنا کے ذریعہ خون نکالنے کی اجازت بلکہ بطور علاج ترغیب دی گئی ہے۔(خیر ما تداویتم بہ الحجامۃ (متفق علیہ۔ زاد المعاد 53/4)اور خود آپ ﷺ سے پچنا لگانا ثابت ہے۔(ان النبی ﷺ احتجم واعطی الحجام اجرہ ۔متفق علیہ) حوالہ سابق)

اس کی وجہ یہ ہے کہ خون نکالنے کی وجہ سے بالکل ختم نہیں ہوجاتا ہے بلکہ دوبارہ پھر نیا خون بن جاتا ہے، گویا کہ خون بالکل دودھ کی طرح ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ خون ناپاک اور دودھ پاک۔ اور بچے کی ضرورت کے پیش نظر دودھ سے استفادہ کی اجازت ہے،

خون کی حرمت کی وجہ سے عام حالات میں خون چڑھانے کی اجازت نہیں ہے البتہ اگر کوئی شخص اضطراری حالت سے دوچار اور موت حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون چڑھائے بغیر اس کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو یا یا ہلاکت کا خطرہ تو نہ ہو لیکن اس کے بغیر صحت کا امکان نہ ہو تو بدرجہ مجبوری اس کی اجازت ہے،اس لئے کہ اس طرح کی بیماریوں کا علاج ضرورت کا درجہ رکھتا ہے کہ مسلسل کسی بیماری میں مبتلا رہنے کی وجہ سے روز مرہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا دشوار ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

* اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ.

اس نے تو تمہارے لئے بس مردار جانور، خون اور سور حرام کیا ہے، نیز وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو. ہاں اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری کی حالت میں ہو ( اور ان چیزوں میں سے کچھ کھالے) جبکہ اس کا مقصد نہ لذت حاصل کرنا ہو اور نہ وہ (ضرورت کی) حد سے آگے بڑھے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔(سورہ البقرۃ :173)

تفسیر:

اس آیت میں تمام حرام چیزوں کا احاطہ کرنا مقصود نہیں بلکہ مقصد یہ جتلانا ہے کہ جن جانوروں کو تم نے حرام سمجھ رکھا ہے وہ تو اللہ نے حرام نہیں کئے، تم خوامخواہ ان کی حرمت اللہ کے ذمے لگا رہے ہو، البتہ کئی چیزیں ایسی ہیں جن کو تم حرام نہیں سمجھتے مگر اللہ نے انہیں حرام قرار دیا ہے، حرام چیزیں وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو حرام تو وہ ہیں جنہیں تم نے حلال سمجھا ہوا ہے۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)

* وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا ذُکِرَ اسۡمُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ وَ قَدۡ فَصَّلَ لَکُمۡ مَّا حَرَّمَ عَلَیۡکُمۡ اِلَّا مَا اضۡطُرِرۡتُمۡ اِلَیۡہِ ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا لَّیُضِلُّوۡنَ بِاَہۡوَآئِہِمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُعۡتَدِیۡنَ.

اور تمہارے لیے کون سی رکاوٹ ہے جس کی بنا پر تم اس جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو ؟ حالانکہ اس نے وہ چیزیں تمہیں تفصیل سے بتا دی ہیں جو اس نے تمہارے لیے (عام حالات میں) حرام قرار دی ہیں، البتہ جن کو کھانے پر تم بالکل مجبور ہی ہوجاؤ (تو ان حرام چیزوں کی بھی بقدر ضرورت اجازت ہوجاتی ہے) اور بہت سے لوگ کسی علم کی بنیاد پر نہیں (بلکہ صرف) اپنی خواہشات کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ بلا شبہ تمہارا رب حد سے گزرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔(سورہ الانعام: 119)

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے