ٹیکسٹ میسج کے ذریعے نکاح:

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

نکاح کا بہتر اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ اس کا اعلان کیا جائے اور اسے مسجد میں منعقد کیا جائے جس میں لڑکی کے سرپرست کی طرف سے ایجاب اور لڑکے کی طرف سے قبول پایا جائے ۔حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ ". هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ فِي هَذَا الْبَابِ.
نکاح کا اعلان کرو اور اسے مسجد میں منعقد کرو اور دف بجاؤ۔(ترمذي: 1089)
حضرت عبداللہ بن زبیر سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” أَعْلِنُوا النِّكَاحَ ".
نکاح کا اعلان کیا کرو۔( احمد: 16130)
اور اعلان ہی کے پیش نظر کم سے کم دو گواہوں کی موجودگی ضروری قرار دی گئی ہے جو ایجاب و قبول کے الفاظ کو سنیں۔
ٹیکسٹ میسج اور تحریر کے ذریعے نکاح مسنون طریقہ اور احتیاط کے خلاف ہے اس لئے بلاضرورت اسے نہیں اپنانا چاہئے ۔ تاہم اس طرح سے کیا گیا نکاح بھی درست ہے البتہ اس کے صحیح ہونے کے لئے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے :
1-میسج یا خط صرف ایک طرف سے ہو اور جس کو اس کے ذریعے نکاح کا پیغام پہونچے وہ دو گواہوں کے سامنے اسے پڑھ کر سنائے تاکہ ایجاب کے الفاظ کو گواہان سن سکیں۔بشرطیکہ اسے یقین ہو کہ تحریر اسی شخص کی طرف سے جسے وہ جانتا پہچانتا ہے ۔اور اس میں کسی طرح کی جعل سازی نہیں کی گئی ہے ۔
2-پھر وہ کہے کہ تم لوگ گواہ رہو میں نے اس پیشکش کو قبول کرلیا ہے ۔
اس طرح سے ایک ہی مجلس میں ایجاب و قبول دونوں پالیا جائے گا جو نکاح صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے ۔
اور اگر ان دونوں شرطوں میں سے کوئی شرط نہیں پائی گئی تو نکاح منعقد نہیں ہوگا ۔
لہذا اگر پیغام پر مشتمل تحریر گواہوں کو نہ سنایا جائے اور ان کے سامنے صرف قبولیت کا اظہار کیا جائے ۔یا دونوں طرف سے تحریر ہو اس طرح کہ زبانی قبول کرنے کے بجائے تحریری طور پر قبول کرلیا جاۓ اور دستخط کرکے بھیج دیا جائے تو نکاح صحیح نہیں ہوگا گرچہ گواہوں کے سامنے تحریر لکھی جائے ۔کیونکہ ایجاب و قبول کی مجلس ایک نہیں بلکہ الگ الگ ہے ۔(1)
(1)”ینعقد النكاح بالكتاب كما ينعقد بالخطاب. وصورته: أن يكتب إليها يخطبها فإذا بلغها الكتاب أحضرت الشهود وقرأته عليهم وقالت زوجت نفسي منه أو تقول إن فلانا كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني زوجت نفسي منه، أما لو لم تقل بحضرتهم سوى زوجت نفسي من فلان لا ينعقد؛ لأن سماع الشطرين شرط صحة النكاح، وبإسماعهم الكتاب أو التعبير عنه منها قد سمعوا الشطرين بخلاف ما إذا انتفيا.”(رد المحتار ۔کتاب النکاح :12/3: ط ایچ ایم سعید)
ولو قالت إن فلانا كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني قد زوجت نفسي منه صح النكاح لأن الشهود سمعوا كلامهما بإيجاب العقد وسمعوا كلام الخاطب بإسماعها إياهم۔(الہندیہ:2/2)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے