بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(38)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

38-احتجاج و مظاہرہ:

ظلم و نا انصافی ایک مذموم حرکت ہے ، دنیاکے کسی بھی مذہب میں اس کی اجازت نہیں ہے ۔اور اس کے خلاف مناسب اور مؤثر طریقے پر آواز بلند کرنا مظلوم کا حق ہے ، اس لیے کہ ظلم پر خاموش رہنے سے بھی اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے مومنین کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ :
’’ وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ”۔
’’ اور جب ان پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں ‘‘۔ (سورۃ الشوریٰ:39)
نیز فرمایا گیاہے  :
’’  لَایُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ‘‘۔
’’ برائی کے اظہار اور بیان کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے ہیں ، سوائے اس کے کہ کسی پر ظلم کیاگیا ہو ‘‘۔(سورۃ النساء:148)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ اور قتادہ کہتے ہیں ، ایسی بات کہنا جس سے دوسرے کو تکلیف ہو اللہ کو پسند نہیں ہے ، ہاں مظلوم کے لیے اجازت ہے کہ وہ ظالم کے خلاف بد دعا کرے ، حضرت اصم کہتے ہیں کہ پوشیدہ امور کو ظاہر کرنا درست نہیں ہے ، البتہ مظلوم کے لیے اجازت ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا تذکرہ لوگوں سے کرے، بایں طور کہ وہ بیان کرتا پھرے کہ فلاں نے میرا مال چوری کرلیا ہے یا مجھ سے چھین لیا ہے ۔(التفسیر الکبیر للرازی:91/11،تفسیر قرطبی:6/1)
اور علامہ زمخشری لکھتے ہیں:
کسی کی برائی کا اظہار اللہ کو پسند نہیں ہے البتہ اس سے مظلوم مستثنیٰ ہے کہ وہ ظالم کے خلاف بد دعا اور لوگوں سے اس کے ظلم کو بیان کرسکتا ہے.( تفسیر الکشاف)
اور علامہ آلوسی کہتے ہیں:
اگر مظلوم اپنے اوپر ہوئے ظلم کو بیان کرتا پھرے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ ناپسندیدہ نہیں ہے ،مثلا وہ ظالم کے خلاف بد دعا اور اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرے اور لوگوں کے سامنے اس کی برائیوں کو واضح کرے…اور امام مجاہد کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کو یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی کسی کی مذمت اور شکوہ شکایت کرے ۔البتہ اگر مظلوم ہے تو وہ ظالم کی شکایت کرسکتا ہے اور لوگوں سے اس کے کرتوت کو بیان کرسکتا ہے ۔(روح المعاني 148/4)
سید رشید رضا مصری لکھتے ہیں :
اگر مظلوم شخص ظالم کے ظلم کو حکام کے سامنے یا ایسے لوگوں سے بیان کرے جن سے ظلم کے خلاف مدد اور تعاون کی امید ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(تفسیرالمنار:6/5)
غرضیکہ ظلم کا چرچا کرنا ، حقوق کی بازیابی اور انصاف کے حصول کیلئے آواز بلند کرنا،کسی چیز پر ناراضگی کے اظہار اور تنقید کے لئے احتجاج کرنا ، ظالم کے لیے بد دعا کرنا جائز اور درست ہے اور موجودہ زمانے میں احتجاجی جلسہ ، اخباروں میں مذمتی بیان ، احتجاجی جلوس وغیرہ صحیح ہے بشرطیکہ اعتدال ملحوظ رہے ۔
اور اللہ کے آخری فرستادے کا اعلان اور فرمان ہے  :
’’ من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان‘‘ ۔
’’ تم میں سے جوکوئی کسی منکر کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے ، اگر ہاتھ سے نہ کرسکے تو زبان سے ، اور اگر زبان سے بھی نہ ہوسکے تو دل میں برا جانے ، اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے ‘‘۔(صحیح مسلم:49،جامع ترمذی:218)
’’ ان الناس اذا رأو الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ اوشک ان یعمھم اللّٰہ بعقاب منہ‘‘ ۔
’’ جب لوگ کسی کو ظلم کرتے دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ  اللہ تعالیٰ سب کو عمومی طور پر سزا دے ‘‘۔(سنن ابو داؤد،حدیث:4338)
یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم ظلم پر سر اپا احتجاج بن جائیں اور حسب استطاعت اسے ختم کرنے کی کوشش کریں ، انسانی سماج کو ظلم و ناانصافی سے پاک کرنا اور معاشرہ کے محروم طبقات کو ان کے حقوق دلانا ہر فرد کی ذمہ داری ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ حدیث میں اسے بہترین جہاد کہا گیا ہے ،(’’افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر‘‘۔(رواہ ابوداؤد، واللفظ لہ والترمذی وابن ماجہ۔ الترغیب للمنذری:886/2)
ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا معاشرہ اور سماج کی زندگی کی دلیل ہے ، حضرت ابوھریرہ کہتے ہیں  :
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْكُو جَارَهُ، فَقَالَ : ” اذْهَبْ فَاصْبِرْ ". فَأَتَاهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَقَالَ : ” اذْهَبْ فَاطْرَحْ مَتَاعَكَ فِي الطَّرِيقِ ". فَطَرَحَ مَتَاعَهُ فِي الطَّرِيقِ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ فَيُخْبِرُهُمْ خَبَرَهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَلْعَنُونَهُ : فَعَلَ اللَّهُ بِهِ وَفَعَلَ وَفَعَلَ. فَجَاءَ إِلَيْهِ جَارُهُ فَقَالَ لَهُ : ارْجِعْ، لَا تَرَى مِنِّي شَيْئًا تَكْرَهُهُ.
’’رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر آیا ، آپؐ نے فرمایا : صبر کرو۔وہ دو تین مرتبہ شکایت لے کے آیا تو آپ صلّی علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اپنا سامان راستہ میں ڈال دو ، اس نے ایسا ہی کیا ، لوگ وہاں سے گزرتے اور یہ منظر دیکھ کر اس سے صورت حال دریافت کرتے جسے سن کر لوگ اس کے پڑوسی پر لعن طعن کرتے ، اور کہتے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا ایسا کرے۔
وہ پڑوسی اس کے پاس آیا اور کہا اپنا سامان اندر کرلو ،مجھ سے دوبارہ ایسی حرکت نہیں ہوگی۔(ابوداؤد:5153)
اور ایک روایت میں ہے کہ وہ پڑوسی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ لوگ مجھے تکلیف پہنچا رہے ہیں ، اللہ کے رسولؐ نے پوچھا کیا کر رہے ہیں ؟ کہنے لگا کہ مجھ پر لعنت بھیج رہے ہیں ، آپؐ نے فرمایا کہ لوگوں سے پہلے تو اللہ نے  تم پر لعنت کی ہے ، اس نے کہا کہ میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ، اتنے میں شکایت کرنے والے بھی آگئے ، آپؐ نے کہا اپنا سامان اٹھا لو ، مقصد پورا ہوگیا ‘‘۔(مجمع الزوائد:170/8)
مکہ کے مشرکانہ ماحول میں آپؐ کو منصب نبوت پر سرفراز کیے جانے سے پہلے کا واقعہ ہے کہ قبیلہ زبید کا ایک شخص سامان تجارت لے کر مکہ آیا ، قریش کے ایک سردار عاص بن وائل نے سارا سامان خرید لیا اور قیمت ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنے لگا ، اس نے سردارانِ قریش سے مدد چاہی لیکن عاص بن وائل کی حیثیت اور وجاہت کی وجہ سے انہوں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ،اب اس نے حرم میں جاکر ہر باحوصلہ، صاحب ہمت اور حق و انصاف کے حامی سے فریاد کی ، لوگوں کو غیرت آئی اور اس طرح کی صفات کے لوگ عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے اور انہوں نے یہ معاہدہ کیا کہ ہم سب ظالم کا مقابلہ اور مظلوم کی حمایت کریں گے اور صاحب حق کو اس کا حق دلائیں گے اور زبیدی کا حق دلایا ، اللہ کے رسول ﷺ بھی اس معاہدہ میں شریک تھے اور بعثت کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ اسلام کے بعد بھی کوئی مجھے اس طرح کے معاہدہ کے لیے بلائے تو میں ضرور حاضر ہوں گا ۔(سیرت ابن کثیر:258/1)
غرضیکہ مظلوم کا ظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اور ظالم کو بے نقاب کرنا ایک پسندیدہ امر ہے اور جو لوگ براہ راست اس کے شکار نہیں ہیں انہیں بھی محض تماشائی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ ظلم کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور ظالم و جابر شخص کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور قانون کے شکنجے میں کسنے کے لیے پوری طاقت لگا دینا چاہیے ، معروف فقیہ علامہ داماد آفندی لکھتے ہیں :
’’جو شخص اپنے قول و فعل کے ذریعہ لوگوں کو پریشان کرتا ہو تو اس کے ظلم کا تذکرہ غیبت میں داخل نہیں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایاکہ فاسق و فاجر کی برائیوں کو بیان کرو تاکہ لوگ اس سے دور رہیں ، اور ظالم کو اہل حکومت تک پہنچائے تاکہ وہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کریں اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ بھی ظلم سے روکنے اور منکر سے منع کرنے میں شامل ہے ‘‘(مجمع الانھر:552/2 کتاب الکراھیۃ، فصل فی المتفرقات)
لیکن ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس میں کسی طرح کے تشدد اور زیادتی کی آمیزش نہ ہو ، اس لیے کہ یہ خلاف شریعت ہے ،شیخ بدران لکھتے ہیں :
’’ہر و ہ چیز جو ممنوع تک لے جائے وہ بھی ممنوع ہوگی ‘‘۔(اصول الفقہ الاسلامی:342)
نیز یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ظلم کے خلاف رد عمل کے اظہار میں مرتب ہونے والے نتائج کہیں اس سے زیادہ شدید نہ ہوں ، اس طرح کی چیزوں میں حد درجہ حکمت مطلوب ہے اور جان کو ہلاکت میں ڈالنا صحیح نہیں ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے