سلسله(9)
پیدائش اور نسب سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242
9جنیٹک ٹیسٹ کے بعد اسقاط:
حمل ٹھہر جانے کے بعد تین ماہ سے گزرنے سے پہلے ہی ٹیسٹ کے ذریعے جانا جا سکتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ پاگل، بد ھیئت ، خطرناک خلقی نقص سے دوچار یا ایڈز جیسے متعدی امراض کا حامل ہے اگر وہ زندہ رہا تو اس کی زندگی ناگفتہ بہ اور جس کی پرورش شدید دشواری کی باعث ہوگی بلکہ خود اس کا وجود اس کے لئے شدید پریشانی کا سبب ہوگا اور دوا علاج سے وہ ٹھیک نہیں ہوسکتا ہے یا اس کا خرچ والدین کی استطاعت سے باہر ہے اس لیے وہ اسے ساقط کرانا چاہتے ہیں۔گزر چکا ہے کہ عذر کی بنیاد پہ روح پھونکنے سے پہلے اسقاط کی گنجائش ہے اور یہ بھی ایک عذر ہے۔اس لیے ماہر ڈاکٹر کے مشورے سے ٹیسٹ کرانا اور ٹیسٹ رپورٹ کی روشنی میں بوقت ضرورت چار ماہ سے پہلے حمل کو ساقط کر دینا جائز ہوگا۔چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:
يكره ان تسقى لاسقاط حملها وجاز لعذر حيث لم يتصور. (رد المحتار 205/5)
حمل ساقط کرنے کے لیے عورت کے لیے کوئی چیز پینا مکروہ ہے البتہ عذر کی وجہ سے جائز ہے جب تک کہ شکل و صورت نہ بنی ہو۔
اور چار ماہ کے بعد اس کی اجازت نہیں ہوگی اس لئے کہ اب اس میں اور ایک زندہ وجود میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
10-زنا سے حمل شدہ بچے کا اسقاط:
اگر کسی عورت سے زور و زبردستی زنا کا ارتکاب کیا گیا جیسے کہ عام طور پر فسادات وغیرہ کے موقع پر ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو جائے تو کیا وہ اس حمل کو ساقط کرا سکتی ہے تاکہ وہ پوری زندگی ازدواجی نعمت سے محروم اور اس وحشیانہ عمل کی یاد باقی نہ رہ جائے کیونکہ اگر اس بچے کو جو اس کے پیٹ میں پل رہا ہے باقی رکھا جائے تو عورت شدید نفسیاتی امراض کا شکار ہو سکتی ہے اور سماج میں قبول نہ کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے اور اگر اس کو باقی رکھا جائے تو پوری زندگی اس وحشیانہ عمل کی یاد دلاتا رہے گا۔
ظاہر ہے کہ اسقاط کے لیے یہ ایک عذر ہے اور فقہاء نے عذر کی بنیاد پہ چار مہینہ گزرنے سے پہلے اسقاط کی اجازت دی ہے اس لیے اس حالت میں اس کے لیے اسقاط کی گنجائش ہوگی۔اور چار مہینہ گزر جانے کے بعد اس کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ یہ ایک زندہ وجود کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔