اسلام کا نظام وراثت
اسلام ایک مکمل نظام حیات اور دستور زندگی کا نام ہے ، اس کی ضیا پاش کرنوں سے زندگی کا ہر گوشہ روشن اور تابناک ہے ، اس بارانِ رحمت سے حیات انسانی کا ہر حصہ سیراب اور پربہار ہے ، پیدائش سے لے کر موت اور مرنے کے بعد کے مسائل کا حل پیش کرتاہے اور ایسا حل جو عقل انسانی سے قریب تر اور فطرت سے ہم آہنگ ہے ۔ اعتدال اور توازن اس کی تعلیمات کی خصوصیت اور امتیاز ہے۔
زندگی کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ مرنے والے کے مال و جائداد کی تقسیم ہے، جس میں انسانیت ہمیشہ افراط و تفریط میں مبتلا رہی ہے، اسلام نے اس مسئلہ میں بھی ایک جنچا تلا اور عدل وانصاف پر مبنی قانون اور لائحہ عمل پیش کیا،جس کی تفصیلات آئندہ صفحات میں ہیں۔
لغوی اور اصطلاحی مفہوم:
’وراثت‘ عربی زبان میں دو معنوں میں استعمال ہوتاہے، باقی رہنا اور ایک شخص سے دوسرے کی طرف کسی چیز کا منتقل ہونا(التحقیقات المرضیۃ/10صالح فوزان ) خواہ وہ مال و جائداد ہو یا علم اور شرف و منزلت۔ شریعت کی اصطلاح میں کسی شخص کی وفات کے بعد اس کی ملکیت کو وارثوں کی طرف منتقل کرنے کا نام میراث اور وراثت ہے۔(المواریث فی الشریعۃ الاسلامیۃ/34 للصابونی)
اسی مفہوم کی ادائیگی کے لیے ایک دوسرا لفظ ’’فریضہ‘‘استعمال ہوتاہے جس کی جمع فرائض ہے ، عربی زبان میں یہ لفظ متعدد معانی کے لیے مستعمل ہے ؛کاٹنا، متعین کرنا، اتارنا، واضح کرنا وغیرہ اور اصطلاح میں علم فرائض کہا جاتا ہے ایسے علم کو جس میں وراثت کے حقدار اور اس سے محروم ہونے والے اور وارثوں کے متعین حصے اور ان کو باہم تقسیم کرنے کے طریقے کو بتلایا گیا ہو۔(التحقیقات المرضیۃ فی المباحث الفرضیۃ/10)
وراثت کی اہمیت:
1-قرآن مجید:
قرآن حکیم میں عام طور پر مسائل کے سلسلہ میں اجمالی حکم دیا گیا ہے اور جزئیات و تفصیلات سے گریز کیاگیا ہے، چنانچہ نماز اور زکات جیسے اہم مسئلے کے لیے بھی صرف ’’اقیموا الصلوٰۃ وآتوا الزکاۃ ‘‘ کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے اور اس سے متعلق بنیادی تفصیلات بھی مذکور نہیں ہیں لیکن وراثت ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بیشتر جزئیات اور تفصیلات خود قرآن میں مذکور ہیں، ہر ایک کے حصے کو متعین کردیا گیا ہے اور اس کی تعیین اور تفصیل کسی مقرب فرشتے یا نبی مرسل کے حوالے نہیں کی گئی۔’’وصیت‘‘ جیسے تاکیدی لفظ سے اس حکم کی ابتداء کی گئی۔ارشاد ربانی ہے:
’’یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین‘‘
تمہاری اولاد کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں یہ وصیت کرتے ہیں کہ مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔‘‘(سورہ النساء :11)
نیز اسے اللہ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ اور متعین کردہ حکم اور حدود خداوندی قرار دیا گیا اور اس حد کی پاسداری پر بڑے اجروثواب کا وعدہ اور اس کی خلاف ورزی پر سخت عذاب کی دھمکی دی گئی ۔ ارشاد ربانی ہے:
تلک حدود اللہ ومن یطع اللہ ورسولہ یدخلہ جنات تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا وذلک الفوز العظیم و من یعص اللہ ورسولہ ویتعد حدودہ یدخلہ نارا خالدا فیھا ولہ عذاب مھین .
یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو کوئی ان حدود کی پاسداری کرکے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے ایسی جنت میں داخل کریں گے جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوںگی، وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا اور یہ بڑی کامیابی ہے اور جوکوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کے حدود کو پھلانگے تو اسے آگ میں ڈال دیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت آمیزعذاب ہے۔(سورۃ النساء:13-14)
2- احادیث نبوی:
1-حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
تعلموا الفرائض وعلموہ فانہ نصف العلم وھو ینسی وھو اول شیء ینتزع من امتی (رواہ ابن ماجہ والدار قطنی والحاکم وفیہ متروک ، نیل الاوطار6/53)
علم میراث کو سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ کہ وہ آدھا علم ہے ، یہ علم بھول جاتاہے اور سب سے پہلے یہی علم میری امت سے اٹھا لیا جائے گا۔
اس حدیث سے علم فرائض کی قدروقیمت اور شرف ومنزلت کا اندازہ ہوتاہے کہ اسے آدھا علم کہا گیا کہ جتنے بھی علوم ہیں اگر انھیں تقسیم کیاجائے اور ایک طرف تمام علوم اور دوسری طرف علم فرائض کو رکھ دیاجائے تو یہ ان سب کے برابر ہوگا۔
2-حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تعلموا القرآن وعلموہ الناس وتعلموا الفرائض وعلموھا فانی امرء مقبوض والعلم مرفوع ویوشک ان یختلف اثنان فی الفریضۃ والمسألۃ فلا یجد ان احدا یخبرھما.(رواہ النسائی والحاکم والدار قطنی وفیہ انقطاع وراہ نضربن شمیل وشریک متصلاً (نیل الاوطار6/53))
قرآن سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ، علم میراث بھی خود سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ، کیونکہ میں دنیامیں ہمیشہ نہیں رہوں گا اور علم اٹھا لیا جائے گا اور عنقریب ایک ایسا دور آئے گا کہ دو آدمیوں کے درمیان فرائض کے سلسلہ میں اختلاف ہوگا اور وہ کسی ایسے کو نہیں پائیں گے جو انھیں صحیح مسئلہ بتلا سکے۔
3- حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
العلم ثلاثۃ وما سوی فضل آیۃ محکمۃ او سنۃ قائمۃ او فریضۃ عادلۃ۔(رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ، فیہ راویان ضعیفان، نیل الاوطار 6/54، وصححہ السیوطی فی الجامع الصغیر 2/49)
علم تین چیزوں کا نام ہے اور اس کے علاوہ جو چیزیں ہیں وہ زوائد کے قبیل سے ہیں۔ قرآنی آیت، سنت اور عدل پر مبنی علم وراثت۔
ان حدیثوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کس طرح سے اس علم کی اہمیت دل و دماغ میں اتارنے کی کوشش کی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علم محض سیکھنے اور سکھانے سے ہی باقی رہ سکتا ہے کہ اس کا دارومدار قرآنی آیت اور احادیث پر ہے ، قیاس اور اجتہاد کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ نیز یہ کہ یہ علم بہت جلد بھول بھی جاتاہے، اس لیے اس کی طرف خصوصی عنایت اور توجہ کی ضرورت ہے۔
3-صحابہ کرام کے اقوال:
1-حضرت عمرؓ فرماتے ہیں :
تعلموا الفرائض فانھا من دینکم(المغنی9/5)
فرائض سیکھو کہ وہ تمہارے دین کا ایک حصہ ہے۔
اور ان سے منقول ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
تعلموا الفرائض واللحن والسنۃ کما تعلمون القرآن (حوالہ مذکور)
جس طرح تم قرآن سیکھتے ہو اسی طرح فرائض ،نحو اور سنت بھی سیکھو۔
2- حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں:
عن عبداللہ بن مسعود قال من تعلم القرآن فلیتعلم الفرائض (حوالہ مذکور 9/6)
جو قرآن سیکھ لے تو اسے اب فرائض سیکھنا چاہیے۔
3-حضرت عبداللہ بن عباس قرآنی آیت ’’الاتفعلوہ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وراثت کے سلسلہ میں اللہ نے جو حکم دیا ہے اس کے مطابق عمل نہ کروگے تو روئے زمین پر بڑا فساد اور فتنہ برپا ہوجائے گا۔
(عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ ’’الا تفعلوہ‘‘ معناہ ان لم تاخذوا المیراث بما امرکم اللہ ’’تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر‘‘(تفسیرابن الجوزی 3/386)
اسباب وراثت:
اپنی ضروریات زندگی کو محدود کرکے اور خواہشوں کو روک کرکے انسان مال جمع کرتاہے، زمین و جائداد بناتا ہے یہ امید کرتے ہوئے کہ اس کے بعد پس ماندگان کسی کے محتاج نہیں رہیں گے، کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کریں گے بلکہ اس کے سہارے وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں گے، وہ اس بات کی شدید خواہش رکھتاہے بلکہ اسی لیے وہ محنت و مشقت برداشت کرتاہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا مال اس کے قریبی رشتہ داروں ہی کے ہاتھ میں پہنچے اور اگرکوئی یہ جان لیتاہے کہ اس کے بعد یہ مال دوسروں کو مل جائے گا ، حکومت اس پرقبضہ کرلے گی تو وہ اسے زندگی ہی میں لٹانے کی کوشش کرتاہے۔
فطرت کے اس تقاضے کا لحاظ کرتے ہوئے شریعت اسلامیہ نے وراثت کو ایسے افراد میں محدود کردیا ہے جو اسے وجود بخشنے یا اس کے وجود کو باقی رکھنے کا ذریعہ ہیں۔جن سے اس کی نسل چلتی ہے اور جن کے احسانات کے بوجھ تلے وہ دبا ہوا ہے اور جن کی احسان فراموشی کا وہ تصور نہیں کرسکتاہے، ایسے لوگ جو زندگی بھر اس کے مددگار اور معاون بنے رہے ، اس کی دکھ، درد میں شریک اور آڑے وقت میں کام آتے رہے ، ان سے اس کا محبت و الفت اور مدد و نصرت کا رشتہ استوار ہے، انھوں نے اسے آزادی بخشی ہے، یا وہ زندگی کے سفرکا ساتھی ہے۔ چنانچہ اسباب وراثت کو تین اسباب میں محدود کردیا گیا ہے :قرابت، زوجیت اور ولاء۔
1-قرابت:
قرابت یعنی خون اور نسب کا رشتہ، یہ چار طرح کے لوگوں پر مشتمل ہے:
1-فروع یعنی بیٹا، بیٹی وغیرہ .
2-اصول یعنی باپ ، ماں ، دادا، دادی وغیرہ. 3-عصبہ یعنی بھائی ، بھتیجا، چچاوغیرہ ۔4-ذوی الارحام جیسے پھوپھی، ماموں، بھانجا، لڑکیوں کی اولاد وغیرہ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا۔
ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں، اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ اس کے باوجود اللہ کی کتاب کے مطابق پیٹ کے رشتہ دار دوسرے مومنوں اور مہاجرین کے مقابلے میں ایک دوسرے پر (میراث کے معاملے میں) زیادہ حق رکھتے ہیں الا یہ کہ تم اپنے دوستوں (کے حق میں کوئی وصیت کر کے ان) کے ساتھ کوئی نیکی کرلو۔ یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ (سورہ الاحزاب: 6)
تفسیر:
یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ اگرچہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، اور آپ کی ازواج مطہرات کو سب مسلمان اپنی ماں سمجھتے ہیں، لیکن اس وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی ازواج مطہرات کو میراث کے معاملے میں کسی مسلمان کے اپنے رشتہ داروں پر فوقیت حاصل نہیں ہوئی، چنانچہ جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی میراث اس کے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم ہوتی ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ کی ازواج مطہرات کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا، حالانکہ دینی اعتبار سے آپ اور آپ کی ازواج مطہرات دوسرے رشتہ داروں سے زیادہ حق رکھتی ہیں۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی ازواج مطہرات کو ان کے دینی رشتے کے باوجود میراث میں شریک کیا گیا تو منہ بولے بیٹے کو محض زبان سے بیٹا کہہ دینے کی بنا پر میراث میں کیسے شریک کیا جاسکتا ہے ؟ البتہ اگر ان کے ساتھ نیکی کا ارادہ ہو تو ان کے لیے اپنے ترکے کے تہائی حصے کی حد تک کوئی وصیت کی جاسکتی ہے۔
( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اس سے متعلق تفصیلات کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلامیہ نے قانون میراث میں قریب اور دور ہر طرح کے رشتہ داروں کا لحاظ رکھا ہے ،اس میں بظاہر حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ ارتکاز دولت کا سدباب ہو، مال چند ہاتھوں تک محدود نہ رہ جائے جس کی وجہ سے معاشرہ معاشی ناہمواری کا شکار ہوجاتا ہے، دوسرے یہ کہ خاندان کے افراد کے درمیان الفت و محبت اور مدد و نصرت کا ماحول بنارہے اور ان میں باہم کینہ اور حسد کی فضا پیدا نہ ہو کہ جب یہ احساس ہوگا کہ ہم سے ہر ایک اس کا وارث ہے تو بوقت ضرورت اس پر خرچ کرنے میں بوجھ نہیں محسوس ہوگا اور اس کی مدد اور تعاون میں بخل سے کام نہیں لیاجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بوقت حاجت شریعت نے نفقہ اور خرچہ انہیں لوگوں پر واجب قرار دیا ہے جن میں اس کا وارث بننے کی صلاحیت ہے۔
( … وَ عَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَ کِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ لَا تُکَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِہَا وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ٭ وَ عَلَی الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰلِکَ ۚ …
اور جس باپ کا وہ بچہ ہے اس پر واجب ہے کہ وہ معروف طریقے پر ان ماؤں کے کھانے اور لباس کا خرچ اٹھائے، (ہاں) کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی، نہ تو ماں کو اپنے بچے کی وجہ سے ستایا جائے، اور نہ باپ کو اپنے بچے کی وجہ سے. اور اسی طرح کی ذمہ داری وارث پر بھی۔ (سورہ البقرۃ: 233)
واضح رہے کہ وارثو ں کی فہرست میں مذکورہ تمام رشتہ دار شامل ہیں لیکن وراثت کی تقسیم میں دوری اور نزدیکی کا خیال رکھا گیا ہے اور قریب ترین رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار کو محروم قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ باپ کی موجودگی میں دادا اور اس کی موجودگی میں بھائی اور بھائی کے ہوتے ہوئے چچا محروم ہوتاہے اور ذوی الارحام(نانیہالی رشتے دار)کا نمبر اس وقت آتا ہے جبکہ فروع، اصول اور عصبہ میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
2- زوجیت:
میاں بیوی ایک دوسرے کے رفیق اور زندگی کے سفر کا ساتھی ہوتے ہیں، شوہر مال کماتا ہے ، اسے عورت پر بالادستی حاصل ہے ، وہ اس کی طرف سے دفاع کرتا ہے اور عورت اس کے مال و جائداد کی محافظ بنی رہی، اپنے آپ کو بہت سی چیزوں سے محروم کرکے مال جمع کرنے میں اس کے ساتھ تعاون کرتی رہی ، باہمی الفت و محبت، مدد اور نصرت اور رفاقت کا تقاضا ہے کہ ان میں ہر ایک جو کچھ چھوڑ جائے دوسرے کا اس میں حق ہو اور اسے کسی حال میں محروم نہ کیاجائے۔ ارشاد ربانی ہے:
ولکم نصف ما ترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیۃ یوصی بھا او دین ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولد فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیۃ توصون بھا او دین (سورۃ النساء :12)
تمہیں اس ترکے کا آدھا ملے گا جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں ، اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو اور اگر اولاد ہو تو تہمارے لیے ان کے ترکہ سے ایک چوتھائی ہے جو وہ وصیت کر جائیں اس کے نفاذ اور ان کے قرض کی ادائیگی کے بعد اور تم جو چھوڑ جاؤ اس میں سے تمہاری بیویوں کو ایک چوتھائی ملے گا ، اگر تمہاری کوئی اولاد نہ ہو اور اگر اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ سے آٹھواں حصہ ہے ، اگر تم کوئی وصیت کر جاؤ تو اس کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔
زوجیت سے مراد یہ ہے کہ مرد و عورت صحیح طریقے پر رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے ہوں، گرچہ یکجائی کی نوبت نہ آئی ہو پھر بھی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، کیونکہ مذکورہ آیت عام ہے اور صحبت ہونے یا نہ ہونے دونوں حالت کو شامل ہے ، دوسرے یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک ایسی عورت کو وارث قرار دیا جس کے شوہر کی یکجائی سے پہلے ہی وفات ہوگئی تھی۔(الفقہ الاسلامی8/251 )
3- ولاء:
کوئی شخص اپنے غلام کو آزاد کردے اور اس آزاد کردہ غلام کاکوئی رشتہ دار اور
قریبی وارث وغیرہ نہ ہو تو آزاد کرنے والا شخص اس کا وارث ہوتا ہے، وراثت کے اسی حق کو ’’ولاء‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بھی نسبی رشتہ کی طرح ایک قابل احترام رشتہ ہے کہ جس طرح سے باپ اپنے بیٹے کے وجود کا ذریعہ بنتا ہے اسی طرح سے آقا بھی اسے آزادی کی نعمت سے سرفراز کرکے اسے معنوی وجود بخشتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
الولاء لحمۃ کلحمۃ النسب (رواہ ابن حبان والحاکم و قابل الالبانی صحیح ، ارواء الغلیل 6/109 )
ولاء ایک رشتہ ہے نسب کے رشتہ کی طرح۔
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
الولاء لمن اعتق (رواہ البخاری ، نیل الاوطار6/68)
ولاء اسے ملے گا جس نے آزاد کیا ہے ۔
ولاء کی ایک دوسری قسم ’’ولاء الموالاۃ‘‘ ہے جس کا مفہوم یہ ہے دو شخص آپس میں یہ معاہدہ کریں کہ ہم میں سے کسی سے قتل کا جرم سرزد ہوجائے تو دوسرا ’’دیت‘‘ کی ادائیگی میں شریک رہے گا اور دونوں آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ ایسی صورت میں قرابت داروں وغیرہ کی غیر موجودگی میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:
والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم (سورۃ النساء /33)
اور جن لوگوں سے تم نے عہد کررکھا ہے انھیں ان کا حصہ ادا کرو۔
واضح رہے کہ ’’ولاء الموالاۃ‘‘ کا سبب وراثت ہونا صرف امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہے ، ان کے علاوہ امام مالک، شافعی اور احمدبن حنبل اس کے قائل نہیں ہیں، ان کے خیال کے مطابق یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا ، بعد میں درج ذیل آیت کے ذریعہ اسےمنسوخ کردیاگیا۔
واولواالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ (سورۃ الانفال:75)
اور جو لوگ باہم رشتہ دار ہیں کتاب اللہ میں ایک دوسرے (کی میراث)کے زیادہ حقدار ہیں۔
وراثت کی شرطیں:
وراثت کی شرائط بھی تین ہیں:
1- مورث کی وفات ، خواہ حقیقتاً ہو یا حکماً، موت حکمی کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی طور پر اس کی موت کے متعلق علم نہیں ہے کیونکہ اس کا کوئی اتاپتا نہیں ہے اور ایک مدت کے بعد قاضی اس کی موت کا حکم لگادے یا کوئی شخص مرتد ہوکر اسلامی مملکت سے ’’دارالحرب‘‘ چلاجائے تو اسے بھی حکماً مردہ تصورکیاجائے گا۔
2- مورث کے مرنے کے بعد وارث کی زندگی کا ثبوت، یہ بھی عام ہے کہ حقیقی ہو یا حکمی جیسے حمل کہ اسے حکماًزندہ سمجھاجاتاہے لیکن اگر زندگی کا ثبوت نہ ہو تو وہ وارث نہیں ہوگا جیسے آگ لگ جانے یا ڈوب جانے یا ہوائی جہاز کے حادثہ میں باپ، بیٹے کی وفات ہوجائے اور یہ نہ معلوم ہوکہ ان میں سے پہلے کس کی موت ہوئی ہے تو یہ ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔
3- وراثت کی راہ میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان میں سے کوئی موجود نہ ہو۔
مانع وراثت:
وراثت کی راہ میں یہ چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں:قتل، اختلاف دین، اختلاف دار اور غلامی۔ ان میں سے کوئی بھی موجود ہوتو باہم وراثت جاری نہ ہوگی۔
1- قتل:
کوئی شخص اپنے مورث کو قتل کردے تو اس کی میراث سے کچھ پانے کا حقدار نہ ہوگا۔ چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:
لیس للقاتل من المیراث شیء (رواہ الدارقطنی والبیہقی وقال الالبانی صحیح، ارواء الغلیل 6/117، نیز دیکھئے نیل الاوطار 6(74)
قاتل کے لیے میراث میں سے کچھ بھی نہیں ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قاتل کو وراثت کا حقدار قرار دینا در حقیقت مورث کے قتل کا دروازہ کھولنا ہے، بہت سے بدبخت زمین و جائداد کو جلدحاصل کرنے کے لیے اپنے مورث کو قتل کرنے سے دریغ نہ کریں گے اور اس کی وجہ سے خوف اور لاقانونیت کا جو حال ہوگا وہ محتاج اظہار نہیں۔ دوسرے یہ کہ قتل ایک شدید اور قبیح جرم ہے اور شریعت و عقل اسے درست نہیں سمجھتی ہے کہ کوئی جرم کسی انعام کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہو۔
میراث میں رکاوٹ بننے والے قتل کی چار قسمیں ہیں:قتل عمد، شبہ عمد، قتل خطا، قائم مقام خطا ۔
قتل عمد سے مراد یہ ہے کہ جان بوجھ کر کسی دھار دار یا قتل کے لیے استعمال ہونے والے دوسرے ہتھیار سے قتل کیاجائے۔
شبہ عمد کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسی چیز سے جان بوجھ کر مار ڈالاجائے جو عام طور پر قتل کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے جیسے لاٹھی، ڈنڈا وغیرہ۔
قتل خطا یہ ہے کہ کسی شکار پر بندوق چلائے اور وہ غلطی سے کسی انسان کو لگ جائے۔
قائم مقام خطا یہ ہے کہ چھت وغیرہ پر سے کسی آدمی پر گر پڑے اور جس پر گرے وہ آدمی مرجائے۔
قتل کی ان تمام صورتوں میں قاتل میراث سے محروم ہوگا۔ البتہ ’قتل بالسبب‘ کی وجہ سے وراثت کا حقدار باقی رہے گاجیسے راہ میں پتھر رکھ دے اور کوئی اس سے ٹکراکر مرجائے یا جھوٹی گواہی دے کر کسی کو عدالت کے ذریعہ قتل کرادے تو ایسا کرنے والا شخص میراث سے محروم نہ ہوگا۔ یہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ مورث حملہ آور ہو اور وارث دفاع کرتے ہوئے اس کو قتل کردے یا قاتل نابالغ بچہ یا پاگل ہے۔(دیکھئے رد المحتار 10/504)
یہ تمام تفصیل فقہ حفی کے مطابق ہے ، دیگرائمہ کی رائے اس سے مختلف ہے، امام مالک کے نزدیک وہی قتل مانع وراثت ہے جو جان بوجھ کر اور ظلماً ہو، قتل خطا مانع وراثت نہیں ہے ، امام شافعی کے نزدیک قتل ہر حالت میں مانع وراثت ہے ،یہاں تک کہ قاضی گواہی کی روشنی میں کسی کے قتل کا فیصلہ کردے اور وہ گواہ مقتول کا وارث ہو تو اس کی میراث سے محروم ہوگا، اس لیے کہ حدیث عام ہے اور ہر طرح کے قتل کو شامل ہے ، امام احمدبن حنبل کے نزدیک جس قتل کی وجہ سے ضمان اور تاوان لازم ہو (خواہ وہ تاوان قصاص کی شکل میں ہو یا دیت یا کفارہ کی صورت میں)وہ قتل مانع وراثت ہے۔ اس نقطہ نظر کے اعتبار سے قتل کی مذکورہ چار صورتیں اور قتل سبب مانع وراثت ہے ،یہی حکم بچے ، پاگل اور سونے کی حالت میں قتل کا بھی ہے۔(دیکھئے المغنی 9/152)
اختلاف دین:
وراثت کی بنیاد باہمی تعاون اور ولایت پر ہے چونکہ کافر و مسلم کے درمیان باہمی تعاون اور ولایت کا رشتہ باقی نہیں رہتا ہے ، اس لیے وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم (متفق علیہ، نیل الاوطار 6/76)
نہ تو کوئی مسلمان کسی کافر کا وارث ہوسکتاہے اور نہ کافر کسی مسلمان کا۔
جمہور صحابہ، تابعین اور فقہاء امت کا یہی نقطہ نظر ہے ، اس کے برخلاف حضرت معاذ بن جبل ، حضرت معاویہ، محمدبن الحنفیہ، سعید بن المسیب اور بعض دوسرے
حضرات کا خیال ہے کہ کافر کسی مسلم کا وارث نہیں ہوسکاہے۔ لیکن مسلمان کسی کافر کا وارث بن سکتاہے۔ ان حضرات کے پیش نظریہ دلائل ہیں:
عن معاذ بن جبل قال رسول اللہ ﷺ الاسلام یزید ولا ینقص .
حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اسلام بڑھتاہے، گھٹتا نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام بڑھنے کا ذریعہ ہے ، نقص اور کمی کا سبب نہیں ہے، لہٰذامسلمان کو کافر کا وارث قرار دیاجائے گا کہ یہ اضافہ ہے اور کافر کو مسلمان کا وارث نہیں بنایاجائے گاکہ اس کی وجہ سے کمی ہوگی اور اسلام کسی کمی کا ذریعہ نہیں بنتاہے۔
نیز حدیث میں ہے کہ
الاسلام یعلو ولا یعلیٰ علیہ .
اسلام سربلندرہتاہے اور کوئی دوسرا اس سے بلندنہیں ہوسکتا ہے۔
لیکن یہ دونوں حدیثیں مبہم ہیں اور موضوع سے متعلق صریح نہیں بلکہ ان کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہی رہے گی ، گھٹے گی نہیں اور دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اسلام دلیل و حجت کے اعتبار سے ہمیشہ غالب رہے گا، کوئی اسے مغلوب نہیں کرسکتا ہے، اس کے برخلاف پہلی حدیث صحیح بھی ہے اور صریح بھی ، لہٰذا اسے ترجیح حاصل ہوگی۔( دیکھئے المغنی 9/154-155 ،حاشیہ رد المحتار 10/505-507)
مرتد:
کوئی بدبخت اسلام چھوڑ کرکے دوسرا مذہب اختیار کرلے تو بہ اتفاق وہ کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتاہے لیکن کوئی مسلمان اس کا وارث ہوسکتاہے یا نہیں؟ اس میں قدرے اختلاف ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس نے مسلمان ہوتے ہوئے جو مال حاصل کیا ہے تو مرتد ہونے کے بعد اس کے وارثوں کے درمیان اسے تقسیم کردیا جائے گا اور ارتداد کے بعدجومال حاصل کیاہے اسے ’بیت المال‘ کے حوالے کردیا جائے گا۔ یہ تفصیل اس صورت میں ہے جبکہ مرتدکوئی مرد ہو اور مرد کے بجائے عورت ہو تو کسی تفصیل کے بغیر اس کے تمام مال کو وارثوں کے درمیان تقسیم کیاجائے گا۔
امام ابویوسف اور محمد کے نزدیک مرد اور عورت کی تفریق کے بغیر تمام مال کو وارثوں کے حوالے کردیاجائے گا، خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی کی بھی یہی رائے ہے ، حضرت سعید ابن المسیب ، عمر بن عبدالعزیز، امام شعبی اور ثوری بھی اسی کے قائل ہیں۔
اس کے برخلاف امام مالک، شافعی اور احمدبن حنبل کے نزدیک کسی تفصیل کے بغیر تمام مال ’’بیت المال‘‘ کے سپرد کردیاجائے گا کہ اس میں اور کافر اصلی میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ لہٰذا اسے مال غنیمت سمجھاجائے گا اور بیت المال میں جمع کردیاجائے گا۔ (دیکھئے المغنی 9/159-162)
حنفیہ کی دلیل خلیفہ اول حضرت ابوبکر الصدیق، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی ؓ کا طرز عمل ہے ۔ نیز یہ کہ ارتداد ایک طرح سے موت ہے، جس کی وجہ سے مال مرتد کی ملکیت سے نکل جاتا ہے اور اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجاتاہے۔ علاوہ ازیں کافر اصلی اور مرتد میں بڑا فرق ہے کہ کافر اصلی یہودی و نصرانی ہو تو اس کا ذبیحہ حلال ہے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا درست ہے جبکہ مرتد کا ذبیحہ حلال نہیں گرچہ وہ یہودی اور نصرانی ہوجائے اور نہ ہی کسی مرتدہ سے نکاح درست ہے۔ اس فرق کے ہوتے ہوئے ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ۔ خصوصاً اس مال کے متعلق جسے اس نے حالت اسلام میں حاصل کیا ہے اور اس سے یک گونہ اس کے وارثوں کا حق متعلق ہوچکاہے۔
زندیق (جیسے قادیانی) کا بھی وہی حکم ہے جو مرتد کا ہے۔(دیکھئے المغنی 9/163)
کافروں کے مختلف فرقے:
فقہاء کرام نے اس پر بھی بڑی لمبی چوڑی بحث کی ہے کہ کافروں کے مختلف فرقے مثلاً یہودی ، نصرانی، مجوسی اور بت پرست آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ حنفیہ، شافعیہ اور جمہور فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ کافروں کے تمام فرقے ایک مذہب کی طرح ہیں ’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ لہٰذا اختلاف مذہب کے باوجود وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، امام مالک نے غیر مسلم فرقوں اور مذاہب کو تین گروپ میں تقسیم کیاہے: یہودی ، نصرانی اور دیگر فرقے۔ ان میں سے ہر ایک آپس میں وارث ہوسکتے ہیں۔
امام احمدبن حنبل کی رائے ہے کہ جتنی بھی ملت اور فرقے ہیں ان میں سے ہرفرقہ دوسرے فرقے کا وارث نہیں ہوسکتاہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لایتوارث اھل ملتین شتی (رواہ احمد، وابوداؤد و ابن ماجہ عن عبداللہ بن عمرو والترمذی مثلہ عن جابر ، نیل الاوطار 6/73، قال الالبانی سندہ حسن ،ارواءالغلیل6/121)
دو مختلف ملتوں کے حاملین میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔
جولوگ اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں رکھتے ، ان کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں دو ملت سے مراد اسلام و کفر ہے ، اسلام ایک ملت ہے اور کفر ایک ملت۔ اور اس حدیث کا بھی وہی مفہوم ہے جو کہ ’’لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم‘‘ سے مراد ہے۔
امام احمد بن حنبل کی رائے حدیث سے قریب تر ہے ، اس اضافے کے ساتھ کہ وراثت کے سلسلہ میں خود ان کے مذہبی قانون پر عمل کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔
اختلاف دار:
’اختلاف دار‘ کا مفہوم یہ ہے کہ وارث و مورث کا تعلق دو الگ الگ ملکوں سے ہو، جن کے درمیان کوئی ربط و معاہدہ نہ ہو بلکہ جنگ یا جنگ کا ماحول ہو، ایسی صورت میں مسلمان ملک کا کافر، کسی حربی کا وارث نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہی حربی کسی مسلمان ملک کے کافر کا۔ لیکن یہ حکم کافروں کے ساتھ مخصوص ہے ، رہے مسلمان تو وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، جہاں بھی رہیں۔(رد المحتار 10/509) امام ابوحنیفہ، امام شافعی اسی کے قائل ہیں ۔ امام احمد سے بھی ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے ۔ اس کے برخلاف امام مالک کی رائے اور امام احمدبن حنبل کا دوسرا قول یہ ہے کہ کافروں کے لیے بھی اختلاف دار مانع نہیں ہے کیونکہ شریعت نے اختلاف دین کے علاوہ دوسری چیز اختلاف دار کو وراثت کے لیے مانع قرار نہیں دیا ہے اور نہ تو اس سے متعلق کوئی قرآنی آیت ہے اور نہ حدیث اور نہ ہی اجماع امت۔ بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ دو مختلف ملت کے لوگ آپس میں وارث نہیں ہوسکتے ہیں ، اس کے عموم کا تقاضا ہے کہ اگر ملت ایک ہو تو وراثت جاری ہوگی گرچہ ملک مختلف ہو کیونکہ وراثت کی بنیاد یعنی اتحاد ملت موجود ہے۔ (المغنی9/158)
حنفیہ وغیرہ کے پیش نظریہ با ت ہے کہ وراثت کی بنیاد معاونت اور ولایت پر ہے’اختلاف دار‘ کی وجہ سے یہ چیز نہیں پائی جاتی ہے ، اس لیے آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی نہ ہوں گے۔(رد المحتار10/509)
4- غلامی:
کوئی شخص غلام رہتے ہوئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوتاہے بلکہ اس کا اور اس
کے قبضے میں موجود تمام چیزوں کا مالک اس کا آقا ہوتاہے اور جب وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے تو اس کا کوئی کیسے وارث ہوسکتاہے اور اس کے رشتہ داروں کی موت پر اسے وارث قرار دیاجائے تو جو کچھ اسے ملے گا وہ خود اس کا مالک نہیں ہوگا بلکہ آقا کے قبضے میں چلاجائے گا اس طرح سے ایک غیر رشتہ دار کو وارث بنانا ہوگا ،لہٰذا نہ تو وہ کسی کا وارث ہوگا اور نہ اس کے رشتہ دار اس کے وارث ہوں گے۔ چونکہ اب یہ مسئلہ موجود نہیں ہے ، اس لیے اس سے متعلق تفصیلات کو نظرانداز کیاجارہاہے۔
ولد زنا ولعان اور لقیط:
بدکاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ زانی کا وارث نہ ہوگا ، گرچہ وہ اقرار کرے کہ وہ اسی کا نطفہ ہے؛ کیونکہ شریعت زانی سے اس کے نسب کو ثابت نہیں مانتی ہے ۔ البتہ اپنی ماں اور اس کے رشتہ داروں کے ترکے میں حقدار ہوگا، یہی حکم اس بچے کا بھی ہے، جس کے باپ نے اسے اپنا نطفہ ماننے سے انکار کردیا ہو اور لعان کرکے اس کے ماں سے علاحدگی اختیار کرلی ہو۔ چنانچہ عمرو بن شعیب کی سن سے منقول حدیث میں ہے:
عن النبی ﷺ انہ جعل میراث ابن الملاعنۃ لامہ ولورثتھا من بعدھا (رواہ ابوداؤد، نیل الاوطار6/66)
نبی ﷺ نے لعان کردہ لڑکے کے ترکے کا حقدار اس کی ماں کو قرار دیا اور اس کی غیر موجودگی میں اس کے رشتہ داروں کو ۔
ایک دوسری روایت میں ہے:
وکان ابنھا ینسب الی امہ فجرت السنۃ انہ
یرثھا وترث منہ (نیل الاوطار 6/66)
لعان کردہ لڑکا اپنی ماں کی طرف منسوب تھا اور اسی وقت سے یہ سنت جاری ہوگئی کہ وہ اپنی ماں کا وارث ہوتاہے اور ماں اس کا وارث ہوتی ہے ۔
یہ ایک اجماعی اور اتفاقی مسئلہ ہے ۔ (المغنی 9/115)
پرورش کی ذمہ داری نہ اٹھا سکنے کی وجہ سے یا بدنامی کے اندیشے سے کچھ لوگ اپنے بچوں کو کہیں پھینک آتے ہیں، ایسے بچے کو شریعت کی اصطلاح میں لقیط کہا جاتا ہے اور جوشخص اسے اٹھالے اسی کے پاس بچے کو رہنے دیاجائے گا، البتہ اس کے خرچے کا ذمہ دار اسلامی حکومت ہوگی ، وہی اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں جواب دہ ہے اور اسی لیے اس کی میراث کا حقدار بھی ’بیت المال ‘ ہے، اس مسئلے پر بھی تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔(الفقہ الاسلامی وأدلتہ 8/432)
بعض لوگوں نے مانع وراثت میں سے ان چیزوں کو بھی شمار کیا ہے اور اسی مناسبت سے اسے یہاں نقل کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق مانع وراثت سے نہیں ہے بلکہ اسباب و راثت سے ہے کہ وراثت کا سبب یہی ثبوت نسب اور قرابت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں کو وارث قرار نہیں دیاگیاہے۔(رد المحتار10/511)
حقدار وراثت:
وراثت کے مستحقین کی تعداد نو ہے لیکن میراث کو بیک وقت ان تمام کے درمیان تقسیم نہیں کیاجائے گا بلکہ ان میں ایک ترتیب ملحوظ ہے اور ترتیب وار پہلے درجے کی غیر موجودگی میں دوسرے پھر تیسرے کو دیاجائے گا ۔ مستحقین وراثت بالترتیب یہ ہیں:
1-اصحاب الفروض.
2-عصبہ نسبیہ.
3-عصبہ سببیہ.
4-اصحاب فروض پر رد.
5-ذوی الارحام.
6-مولی الموالاۃ.
7-مقرلہ بالنسب علی الغیر.
8-موصی لہ بجمیع المال.
9-بیت المال.
1-اصحاب الفروض:
فروض ، فرض کی جمع ہے بمعنی متعین کرنا۔ ’اصحاب الفروض‘ یعنی متعین حصے والے، فقہ کی اصطلاح میں ’اصحاب فروض‘ ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کا حصہ متعین ہو، خواہ یہ تعیین آیت قرآنی کے ذریعہ ہو یا حدیث اور اجماع امت سے۔
’اصحاب فروض‘ کل بارہ افراد ہیں جن میں چار مرد اور آٹھ عورتیں شامل ہیں، جس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے عورتوں کے سلسلہ میں کافی توجہ اور اہمیت دی ہے، تاکہ انھیں کسی طور سے محروم کرنے کے لیے کوئی روزن باقی نہ رہے ۔وہ افراد یہ ہیں: باپ، جد صحیح(دادا)، ماں شریک بھائی، شوہر، ماں، جدہ صحیحہ(دادی، نانی)، بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، باپ شریک بہن، ماں شریک بہن، بیوی۔
میت کے مال و جائداد کو سب سے پہلے انھیں کے درمیان تقسیم کیاجائے گا، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فلاولی رجل ذکر (رواہ البخاری و مسلم والترمذی عن ابن عباس)
ترکہ اصحاب فرائض کے درمیان تقسیم کردو اور جو بچ جائے وہ میت کے سب سے قریبی مرد کے لیے ہے۔
متعین حصے:
1-باپ:
میت نے کسی مذکر اولاد کو چھوڑا ہے تو اس وقت باپ کے لیے چھٹا حصہ ہے اور اگر صرف مؤنث اولاد تو چھٹے حصے کے ساتھ ’اصحاب فروض‘ کو دینے کے بعد جو کچھ بچے اس کا مالک بھی یہی ہوگا اور اگر کوئی اولاد نہ ہو تو باپ کے لیے کوئی متعین حصہ نہیں بلکہ ’اصحاب فروض‘ اگر موجود ہوں تو انہیں دینے کے بعد جو کچھ رہے گا اس کا مالک باپ ہوگا۔ اگر اصحاب فروض موجود نہ ہوں تو پورے کا مالک ہوگا۔ ارشادربانی ہے:
ولابویہ لکل واحد منھا السدس مما ترک ان کان لہ ولد فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابواہ فلامہ السدس۔(سورۃ النساء :11)
والدین میں سے ہر ایک کے لیے ترکہ کا چھٹا حصہ ہے، اگر اس کی اولاد موجود ہوں اور اگر میت کی کوئی اولاد نہ ہو اور صرف والدین وارث ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اولاد نہ ہونے کے وقت ماں کو ایک تہائی حصہ ملے گا، لیکن اس حالت میں باپ کا متعین حصہ کیا ہے؟ آیت اس سے خاموش ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ ایسی صورت میں باپ کے لیے کوئی متعین حصہ نہیں ہے بلکہ ’اصحاب فروض‘ کو دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ اس کا مالک ہوگا۔
2- جد صحیح:
عربی زبان میں ’جد‘ کا لفظ نانا اور دادا دونوں کے لیے استعمال ہوتاہے، فرق کے لیے صحیح اور فاسد کا اضافہ کرتے ہیں۔ ’جد صحیح‘دادا کو اور ’جد فاسد‘ نانا کو کہاجاتاہے۔
باپ کی غیر موجودگی میں دادا وارث بنتا ہے اور باپ کا قائم مقام بن کر اس کے حصے کا حقدار ہوتاہے، چنانچہ حضرت عمربن بن حصینؓ کہتے ہیں:
ان رجلا اتی النبی ﷺ فقال ان ابن ابنی مات فمالی من میراثہ قال لک السدس فلما ادبر دعاہ قال لک سد آخر فلما ادبر دعاہ فقال ان السدس الآخر طعمۃ رواہ احمد وابوداؤد و الترمذی وصححہ (نیل الاوطار6/60-61 )
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہاکہ میرے پوتے کی وفات ہوگئی ہے ، اس کی وراثت میں سے میرا کیا حصہ ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: چھٹا حصہ، جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور کہاکہ بقیہ چھٹا حصہ بھی تمہارا ہے، پھر جب وہ جانے لگا تو آپ نے بلاکر کہاکہ یہ دوسرا چھٹا حصہ مقدار مفروض سے زائد ہے۔
شارحین حدیث لکھتے ہیں کہ مسئلے کی شکل یہ تھی کہ متوفی نے اپنے پیچھے دو لڑکیوں اور دادا کو چھوڑا تھا، آپ ﷺ نے ترکہ میں سے دو تہائی لڑکیوں کو دے دیا اور بقیہ ایک تہائی کو دو حصہ کرکے دادا کے حوالے کردیا، ایک حصہ ’اصحاب فروض‘ ہونے کی وجہ سے اور دوسرا حصہ عصبہ ہونے کی بنیاد پر۔(حوالہ مذکور 6/61)
واضح رہے کہ دادا کا حقدار وراثت ہونا قرآنی آیت کے عموم اور صریح حدیث سے ثابت ہے ، اس کے علاوہ اس کے وارث ہونے پر ’امت محمدیہ‘ کا اتفاق اور اجماع بھی ہے۔
3- ماں شریک بھائی:
مرنے والے کے اصول و فروع میں سے کوئی موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں ماں شریک بھائی اگر تنہا ہو اس کے ساتھ اس کا بھائی یا بہن موجود نہیں ہے تو اسے چھٹا حصہ ملے گا اور اگر بھائی بہن میں سے کوئی موجود ہو تو سب کے لیے ایک تہائی حصہ ہے ، خواہ ان کی تعداد دو ہو یا دو سے زائد ۔ ارشاد ربانی ہے:
وان کان رجل یورث کلالۃ او امرأۃ ولہ اخ او اخت فلکل واحد منھما السدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکاء فی الثلث(سورۃ النساء : 12)
اور اگر میت مرد اور عورت کے اصول و فروع میں سے کوئی نہ ہو لیکن اس کا بھائی یا بہن ہے تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے اور اگر بھائی بہن ایک سے زائد ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوںگے۔
اس آیت میں ’کلالہ‘ سے مراد وہ شخص ہے جس کے اصول (آباء و اجداد) اور فروع(بیٹا،بیٹی ،پوتاوغیرہ) میں سے کوئی موجود نہ ہو، نیز ’اخ‘(بھائی) اور ’اخت‘ (بہن) سے مراد ماں شریک بھائی اور بہن ہیں، اس مفہوم پر امت کا اجماع ہے۔(حجۃ اللہ البالغۃ2/221)
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ماں شریک بھائی اور بہن دونوں موجود ہوں تو
ان کے درمیان تہائی مال کو برابر برابر تقسیم کیاجائے گا، اس مسئلے میں بھائی بہن کے دو گنے حصے کا حقدار نہ ہوگا۔
4- شوہر:
مرنے والی بیوی کی کوئی اولاد (لڑکا یا لڑکی ، پوتا،پوتی وغیرہ) موجود ہو ، خواہ اسی سے ہو یا کسی دوسرے شوہر سے تو اس وقت شوہر کو میراث کاچوتھائی حصہ ملے گا اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں آدھا حصہ کا حقدار ہوگا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ولکم نصف ما ترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیۃ یوصین بھا او دین (سورۃ النساء : 12)
تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ جائیں تو اس میں سے تمہارے لیے آدھا ہے اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو اور اگر اولاد ہو تو تمہارے لیے ترکہ میں سے ایک چوتھائی ہے ، نفاذ وصیت اور دین کی ادائیگی کے بعد۔
5-ماں:
ماں کی تین حالتیں ہیں:پہلی حالت میں وہ چھٹے حصے کا حقدار ہوتی ہے جبکہ میت کی کوئی اولاد یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی وغیرہ موجود ہو، ایسے ہی مرنے والے کے دو یا اس سے زیادہ بھائی بہن موجود ہوں تو بھی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا، خواہ حقیقی بھائی بہن ہو یا باپ شریک یا ماں شریک۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس(سورۃ النساء /13)
اگرمیت کے ایک سے زائد بھائی بہن ہوں تو ماں کے لیے چھٹاحصہ ہے۔
دوسری حالت یہ ہے کہ میت کی کوئی اولاد اور دو یا اس سے زیادہ کسی طرح کے بھائی بہن موجود نہ ہوں تو وہ تہائی کاحقدار ہوتی ہے ۔ تیسری حالت یہ ہے کہ میت کے وارثوں میں سے صرف ماں، باپ اور شوہر یا ماں باپ اور بیوی ہو اس وقت شوہر یا بیوی کا حصے دینے کے بعد بقیہ ترکہ کے ایک تہائی حصہ ماں کو ملے گا۔
بھائی کی موجودگی میں (حالانکہ باپ کی وجہ سے انھیں وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملتاہے) ماں کاحصہ آدھا ہوجانے کی وجہ اوراس کی حکمت یہ ہے کہ باپ ان بھائیوں کے نکاح اور خرچے وغیرہ کا ذمہ دار ہوتاہے جبکہ ماں اس ذمہ داری سے بری ہوتی ہے ، اس لیے باپ کو زیادہ مال کی ضرورت ہے، اس لیے ماں کے حصے کو کم کردیاگیاہے۔
6- جدہ صحیحہ:
’جدہ صحیحہ‘ یعنی میت سے رشتہ جوڑنے میں ’جدفاسد‘ کا واسطہ نہ ہو جیسے ماں کی ماں(دادی) باپ کے ماں کی ماں(نانی)وغیرہ۔ ماں کی غیرموجودگی میں دادی اور نانی دونوں وارث ہوتی ہیں اور ترکہ کے چھٹے حصے کی حقدار ہیں، اسے ان کے درمیان برابر برابر تقسیم کیاجائے گا ۔ چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں:
حضرت رسول اللہ ﷺ اعطاھا السدس(رواہ الخمسہ الا النسائی وصححہ الترمذی ، نیل الاوطار 6/59)
میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا آپ نے جدہ کو چھٹاحصہ دیا ۔
اور حضرت بریدہؓ سے منقول ہے :
ان النبی ﷺ جعل للجدۃ السدس اذا لم یکن دونھا ام (رواہ ابوداؤد ، نیل الاوطار 6/59
ساتھ ماں نہ ہو۔)
نبی ﷺ نے ’جدہ‘ کے لیے چھٹا حصہ قرار دیا.
حدیث کے علاوہ امت کے اجماع سے بھی ’جدہ‘ کا حقدار وراثت ہونا ثابت ہے۔(العذب الفائض 162)
7-بیٹی:
بیٹی کے ساتھ اگر بیٹھا بھی موجود ہو تو اس کا کوئی متعین حصہ نہیں ہے بلکہ بقیہ اصحاب فروض کو دینے کے بعد جو کچھ بچے اسے یہ دونوں آپس میں تقسیم کرلیں گے، اس طور پر کہ بیٹے کو بیٹی کے حصے کا دوگنا ملے گا۔
اگرکوئی بیٹا موجود نہ ہو اور صرف ایک بیٹی ہو تو اسے آدھا ملے گا اور اگر ایک سے زائد بیٹیاں ہوں تو دو تہائی میں تمام شریک ہوںگی۔ ارشاد باری ہے:
یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثا ما ترک وان کانت واحدۃ فلھا النصف(النساء : 11)
تمہاری اولاد کے سلسلہ میں اللہ تم کو حکم دیتاہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر، اگر صرف لڑکیاں ہوں دو سے زیادہ تو ان کے لیے ترکہ کا دوتہائی حصہ ہے اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔
اس آیت میں ’فوق اثنتین‘ (دو سے زیادہ) کے حکم میں دو بھی شامل ہے جیساکہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت سعد بن ربیعؓ کی دو بچیوں کو دو تہائی حصہ دیا اور آٹھواں حصہ ان کی بیوی کو اور بقیہ ان کے بھائی کو ۔(رواہ الخمسۃ الا النسائی وحسنہ الترمذی ، نیل الاوطار 6/56)
8- پوتی:
میت کی اولاد میں سے کوئی نہ ہو تو پوتی کو آدھا حصہ ملتا ہے جبکہ وہ تنہا ہو اور اگرایک سے زائد پوتیاں ہوں تو انھیں دو تہائی حصہ ملے گا۔ میت کی اولاد میں صرف ایک لڑکی موجود ہو تو پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا۔ البتہ ان کے ساتھ پوتا بھی ہو تو ان کے لیے کوئی متعین حصہ نہیں ہے بلکہ بیٹی کا حصہ دینے کے بعد بقیہ کو یہ آپس میں تقسیم کرلیں اس طور پر کہ پوتے کو دوتہائی اور پوتی کو ایک تہائی ملے گا۔
میت کی اولاد میں دو یا زیادہ لڑکیاں موجود ہوں تو پوتی کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے ، الا یہ کہ ان کے ساتھ کوئی پوتا یا پر پوتا ہو تو بقیہ حصہ کو آپس میں مذکورہ تفصیل کے مطابق تقسیم کرلیں۔ اسی طرح سے بیٹے کی موجودگی میں پوتی وارث نہیں ہوتی ہے۔
9-حقیقی بہن:
میت کی کوئی اولاد (لڑکا، پوتا، بیٹی ، پوتی وغیرہ) موجود نہ ہو اور نہ ہی باپ، دادا میں سے کوئی ہو تو حقیقی بہن کو آدھی میراث ملے گی جبکہ تنہا ہو، اگر دو یا اس سے زیادہ حقیقی بہنیں ہوں تو دو تہائی کا حقدار ہوں گی۔ اگر حقیقی بھائی بھی موجود ہو تو ان کے لیے کوئی متعین حصہ نہیں بلکہ ’’اصحاب فروض‘‘ سے بچے ہوئے حصے کو آپس میں بانٹ لیں، اس طور پر کہ بھائی کو دوتہائی اور بہن کو ایک تہائی ملے گا۔ میت کی اولاد میں سے بیٹیاں یاپوتیاں ہوں تو ان کا حصہ دینے کے بعد بچے ہوئے حصے کا مالک حقیقی بہن ہوتی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادہے:
یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ ان امراھلک لیس لہ ولد و لہ اخت فلھا نصف ما ترک و ھویرثھا ان لم یکن لھا ولد فان کانتا اثنتین فلھما الثلثان مما ترک وان کانوا اخوۃ رجالا و نساء فللذکر مثل حظ الانثیین(سورۃ النساء/177)
لوگ آپ سے مسئلہ پوچھ رہے ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تمہیں کلالہ کے متعلق یہ حکم دیتاہے کہ اگر کوئی شخص وفات پاجائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی کوئی بہن ہو تو اسے پورے ترکہ کا آدھا ملے گا (اور اگر یہ بہن مرجائے) تو بھائی اس کا وارث ہوگا ، اگربہن کی کوئی اولاد نہ ہو اور اگر بہنیں دو یا اس سے زیادہ ہوں تو ان کے لیے پورے ترکہ میں سے دو تہائی ہے اور اگر متعدد بھائی، بہن ہو تو مرد کو دو بہنوں کے حصہ کے برابرملے گا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود نے آپ کا فیصلہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
قضی النبی ﷺ للبنت النصف ولابنۃ الابن السدس تکملۃ للثلثین وما بقی فللاخت (رواہ الجماعۃ الا مسلما والنسائی ، نیل الاوطار 6/58)
نبی ﷺ نے یہ فیصلہ کیاکہ بیٹی کو آدھا، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا، دو تہائی کی تکمیل کے لیے اور جو بچ جائے وہ بہن کے لیے ہے۔ مذکر اصول و فروع کی موجودگی میں حقیقی بہن محروم رہتی ہے۔
10-باپ شریک بہن:
حقیقی بھائی یا حقیقی بہن موجود ہو لیکن اس کے ساتھ میت کی لڑکی یا پوتی بھی موجود ہو جس کی وجہ سے اسے باقی میراث مل رہی ہو تو باپ شریک بہن محروم رہے گی۔ یہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ میت کی نسل میں سے کوئی مذکر اولاد موجود ہو یا اس کے باپ دادا باحیات ہوں، اگر صرف ایک حقیقی بہن موجود ہو تو باپ شریک بہن کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر حقیقی بہن کی تعداد دو یا اس سے زائد ہو تو باپ شریک بہن محروم ہوگی الا یہ کہ اسی درجے کا باپ شریک بھائی بھی موجود ہو تو ایسی صورت میں دونوں حقیقی بہنوں سے بچے
ہوئے حصے کو آپس میں گذشتہ تفصیل کے مطابق تقسیم کرلیں۔
بیٹی یا پوتی کے ساتھ حقیقی بہن نہ ہو تو یہ بقیہ حصہ کا مالک ہوں گی اور اگر اوپر مذکور لوگوں میں سے کوئی موجود نہ ہو تو باپ شریک بہن آدھی میراث پائے گی جبکہ تنہا ہو اور دو یا اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں دو تہائی اور اگر ان کے ساتھ باپ شریک بھائی بھی ہو تو پورے ترکہ کو آپس میں تقسیم کرلیں اس طور پر کہ بھائی کو بہن کا دو گنا حصہ ملے گا۔
باپ شریک بہنوں کے سلسلہ میں یہ تفصیل حقیقی بہن سے متعلق آیت سے ماخوذ ہے۔
11- ماں شریک بہن:
میت کی نسل میں سے مذکر و مؤنث کوئی اولاد موجود ہے یا باپ ، دادا، پردادا وغیرہ میں سے کوئی زندہ ہے تو ماں شریک بہن محروم ہوگی اور کوئی موجود نہ ہو اور ماں شریک بہن تنہا ہو تو اسے چھٹا حصہ ملے گا اور اگر ایک سے زائد ماں شریک بہن یا بھائی موجود ہو تو انھیں ایک تہائی میراث ملے گی جسے بہن اور بھائی میں برابر برابر تقسیم کیاجائے گا۔ اس سے متعلق آیت گذر چکی ہے۔
12- بیوی:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن ولد فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیۃ توصون بہا أو دین (سورۃ النساء/12)
اور بیویوں کو تمہارے ترکہ سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا اگر تمہاری کوئی اولاد نہیں ہے اور اگر اولاد ہوں تو ان کے لیے ترکہ میں آٹھواں حصہ ہے نفاذ وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔
عورت ایک ہو یا اس سے زائد بہر صورت وہ چوتھائی یا آٹھویں حصے کی مالک ہوگی اور اسے ایک سے زائد ہونے کی صورت میں ان کے درمیان برابر تقسیم کیاجائے گا۔
عورت کے وارث ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نکاح صحیح ہو، گرچہ خلوت کی نوبت نہ آئی ہو ، نیز وفات کے وقت وہ باقی بھی ہو لیکن اس سے طلاق رجعی مستثنی ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں دوران عدت شوہر انتقال کرجائے تو عورت بالاتفاق وارث ہوگی ، خواہ طلاق حالت صحت میں دی گئی ہو یا حالت مرض میں ۔ یہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ مرض الموت میں عورت کی مرضی اور مطالبے کے بغیر اسے طلاق بائن دی گئی ہو اور دوران عدت شوہر وفات کرجائے۔ حالت صحت میں طلاق بائن دی گئی ہو تو وفات کے بعد بہ اتفاق عورت وارث نہ ہوگی اور اگر حالت مرض میں عورت کی مرضی اور مطالبے پر طلاق دی گئی ہو تو بھی واث نہیں ہوگی۔(المغنی 9/194، الھدایۃ باب طلاق المریض)
دوران مرض عورت کے مطالبے کے بغیر طلاق دینے کی صورت میں عورت کو وارث قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ طلاق بدنیتی پر محمول ہے ، وہ اس کے ذریعہ بیوی کو میراث سے محروم کرنا چاہتا ہے، یہ سوچ کر کہ دوسرے رشتہ داروں سے خون اور نسب کا تعلق ہے جبکہ یہ عورت غیر ہے ، میرے بعد دوسرے سے رشتہ ازدواج استوار کرلے گی، اسے میری محنت کی کمائی کا ایک اچھا خاصا حصہ کیوں ملے؟ لہٰذا اسے طلاق دے کر اس بندھن کو توڑ دیاجائے تاکہ میری زمین وجائداد میری اولاد اور خاندان کے لوگوں ہی میں باقی رہے، اس غلط سوچ کی بنیاد کو ختم کرنے کے لیے شریعت نے یہ حکم دیاکہ اگرکوئی ایسا کرتاہے تو اس کی موت کے بعد اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی عورت وارث ہوگی تاکہ اس طرح کی طلاق کا سد باب ہوسکے ۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ وراثت کا حقدار اس وقت ہوگی جبکہ عدت باقی ہو، امام احمدبن حنبل فرماتے ہیں کہ عدت گذرنے کے بعد بھی وارث ہوگی بشرطیکہ اس نے دوسرا نکاح نہ کیا ہو، امام مالک کا خیال ہے کہ عدت کے بعد اس عورت نے دوسری شادی کرلی اور پہلے شوہر کی وفات اسی بیماری میں ہوئی ہے جس میں طلاق دی ہے تو بھی اسے وراثت میں سے حصہ ملے گا، امام شافعی کی رائے ہے کہ بہرصورت مطلقہ بائنہ عورت کو میراث سے حصہ نہیں ملے گا (التحقیقات المرضیہ/34)
وارث قرار دینے والوں کی دلیل حضرت عثمان بن عفان کا عمل ہے کہ انھوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی بیوی کو ان کا وارث قرار دیا جسے انھوں نے حالت مرض میں طلاق دے دی تھی، صحابہ نے اس فیصلے پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ اس طرح سے اس پر اجماع بھی منعقدہوگیا۔(المغنی 9/195)
2-عصبہ:
ایسے وارثوں کو عصبہ کہا جاتا ہے جنھیں ’’اصحاب فروض‘‘ کے بعد حصہ ملتا ہے اور ان سے بچے حصے کا مالک ہوتاہے اور ’اصحاب فروض‘ میں سے کوئی نہ ہو تو تنہا میراث کا حقدار ہوتا ہے ۔ چنانچہ قرآن حکیم میں کہا گیا ہے:
ولأبیہ لکل واحد منھا السدس مما ترک ان کان لہ ولد فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابواہ فلامہ الثلث (سورۃ النساء /11)
اگر میت کی اولاد ہو تو والدین میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف اس کے والدین وارث ہوں تو ماں کے لیے تہائی حصہ ہے ۔
اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ میت کی کوئی اولاد ہو تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اولاد نہ ہو تو ماں کو ایک تہائی حصہ ملے گا، لیکن ’باپ‘ کیا پائے گا اس کو متعین نہیں کیاگیاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ ماں کے حصے کے علاوہ جو کچھ بچے اس کا مالک باپ ہوگا۔
ایک دوسری آیت میں کہا گیا ہے:
ان امرء ھلک لیس لہ ولد ولہ أخت فلھا نصف ما ترک وھو یرثھا ان لم یکن لہا ولد ۔
اگرکوئی شخص وفات پاجائے اور اسکی اولاد نہ ہو اور بہن موجود ہو تو ا س کے لیے پورے ترکہ کا آدھا ہے اور اگر بہن مرجائے اور اس کی اولاد نہ ہو تو بھائی اس کا وارث ہوگا۔(سورۃ النساء :177)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بہن کے ترکے میں سے بھائی کے لیے کوئی متعین حصہ نہیں ہے بلکہ بہن کی اولاد نہ ہو تو بھائی اس کے پورے ترکہ کا مالک ہوگا۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
الحقوا الفرائض بأھلھا فما بقی فلاولی رجل ذکر (متفق علیہ، نیل الاوطار 6/55)
جن کے حصے متعین ہیں ان کے حصے دے دو اور جو بچے وہ اس مذکر کے لیے ہے جو میت سے زیادہ قریب ہو۔
عصبہ کی دو قسمیں ہیں:عصبہ سببی، عصبہ نسبی۔
1-عصبہ سببی:
کسی غلام کو آزاد کرنے والا خواہ وہ مرد ہو یا عورت وہ اس غلام کا وارث ہوتا ہے اور اسی کو عصبہ سببیہ کہتے ہیں، آزاد کرنے والا اسی وقت وارث ہوتاہے جبکہ غلام کا عصبہ نسبی موجود نہ ہو ۔ایسی حالت میں وہ ’اصحاب فروض‘ سے بچے ہوئے حصے کا مالک ہوتاہے اور اگر ’اصحاب فروض‘ نہ ہوں تو غلام کے پور ے ترکہ کا تنہا حقدار ہوتاہے، چونکہ اب یہ مسئلہ موجود نہیں ہے اس لیے اس سے متعلق تفصیلات کو نظرانداز کیاجارہاہے۔
2-عصبہ نسبی:
’عصبہ نسبی‘ یعنی وہ رشتہ جو نسب سے متعلق ہو ، اس کی تین قسمیں ہیں؛ عصبہ بنفسہ، عصبہ بغیرہ، عصبہ مع غیرہ۔
1-عصبہ بنفسہ:
’عصبہ بنفسہ‘ اسے کہاجاتا ہے جس کا میت سے رشتہ جوڑنے میں کسی عورت کا واسطہ نہ ہو ۔ یہ چار قسم کے لوگ ہیں:
1-بیٹا، پوتا اور ان کی نسل
2-باپ، دادا، پردادا وغیرہ
3-بھائی، بھتیجا وغیرہ
4-چچا، چچازاد بھائی وغیرہ
سب سے پہلے ترکہ میں سے بیٹے یا پوتے وغیرہ کو ملے گا اور اگر ان میں سے کوئی موجود نہیں ہے تو باپ ، دادا وغیرہ حقدار ہوں گے اور ان میں سے کوئی نہ ہو تو پھر بھائی، بھتیجا وغیرہ عصبہ ہوں گے اور سب سے آخر میں چچا، غرضیکہ عصبہ کے وارث ہونے میں جہت اور درجے کا لحاظ رکھا جائے گا، اگر پہلی جہت کا کوئی موجود ہے تو دوسری جہت کا شخص عصبہ نہیں بنے گا۔ لہٰذا بیٹے وغیرہ کی موجودگی میں باپ عصبہ نہیں ہوگا اور اسی طرح سے آخر تک۔ نیز اگر جہت ایک ہے مگر درجے میں فرق ہے تو جس کا درجہ میت سے زیادہ قریب ہو وہی عصبہ ہوگا اور جو اس سے بعید ہے وہ محروم جیسے بیٹے اور پوتے کی جہت ایک ہے ، یہ دونوں پہلی قسم میں شامل ہیں لیکن درجہ میں فرق ہے لہٰذا بیٹا چونکہ میت سے قریب تر ہے اس لیے وہ عصبہ ہوگا اور اس کے ہوتے ہوئے پوتا محروم رہے گا۔
اور اگر درجہ و جہت ایک ہو تو قوت قرابت کا لحاظ کیاجائے گا۔ میت سے جس کی رشتہ داری قوی تر ہوگی وہی وارث ہوگا اور دوسرا محروم جیسے حقیقی اور باپ شریک بھائی دونوں کی جہت اور درجہ ایک ہے لیکن قوت قرابت میں فرق ہے چونکہ حقیقی بھائی کا رشتہ قوی تر ہے اس لیے وہ وارث ہوگا اور باپ شریک محروم ہوگا۔ واضح رہے کہ قوت قرابت کی وجہ سے صرف تیسری اور چوتھی قسم میں ترجیح دی جاتی ہے ، پہلی اور دوسری قسم یعنی بیٹا اور باپ میں اس کا اعتبار نہیں ہے ۔ آسانی کے لیے ترتیب وار ان کی فہرست دی جارہی ہے۔
(1)بیٹا(2)بیٹے کی نسل(3) باپ(4)دادا یا اس رشتے سے جو موجود ہو (5)حقیقی بھائی (6)باپ شریک بھائی(7)حقیقی بھائی کا بیٹا(8)باپ شریک بھائی کا بیٹا(9)حقیقی چچا(10)باپ شریک چچا(11)حقیقی چچا کا بیٹا (12)باپ شریک چچا کا بیٹا (13)باپ کا حقیقی چچا(14)باپ کا باپ شریک چچا(15)باپ کے حقیقی چچا کا بیٹا (16)باپ کے باپ شریک چچا کا بیٹا(17)دادا کا حقیقی چچا (18)دادا کا باپ شریک چچا (19)دادا کے حقیقی چچا کا بیٹا (20) دادا کے باپ شریک چچا کا بیٹا۔
عصبہ بنفسہ میں تمام تر مرد شامل ہیں ، کوئی عورت عصبہ بنفسہ نہیں ہوسکتی ہے۔
2-عصبہ بغیرہ:
’عصبہ بغیرہ‘کل چار عورتیں ہیں جن کا آدھا یا دو تہائی حصہ متعین ہے مگر اپنے بھائی کی موجودگی میں ان کا متعین حصہ ختم ہوجاتا اور اس کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہیں۔ اور ’اصحاب فروض‘ کو دینے کے بعد بقیہ کو ان کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا ہے ، اس طور پر کہ مرد کو دو حصہ اور عورت کو ایک حصہ ملتا ہے ۔ وہ یہ ہیں:
1-بیٹی۔ 2-پوتی۔3-حقیقی بہن۔ 4-باپ شریک بہن۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ لأنثیین(سورۃ النساء :11)
اللہ تعالیٰ اولاد کے متعلق تمہیں حکم دیتے ہیں کہ مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے ۔
ایک دوسری آیت میں ہے :
فان کانوا اخوۃ رجالا و نساء فللذکر مثل حظ الأنثیین(سورۃ النساء :176)
اگر وارث متعدد بھائی بہن ہو تو مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔
3-عصبہ مع الغیر:
’عصبہ مع الغیر‘ بھی عورتیں ہی ہوتی ہیں اور ان کی تعداد کل دو ہے ۔ حقیقی اور باپ شریک بہن جو بیٹی یا پوتی کی موجودگی میں عصبہ بن جاتی ہے اور بیٹی یا پوتی کو متعین حصہ دینے کے بعد بقیہ کی مالک ہوتی ہے۔ بشرطیکہ ان کا بھائی موجود نہ ہو اور اس حال میں وہ بھائی کی جگہ پر آجاتی ہے اور حقیقی بہن کے ہوتے ہوئے جبکہ ان کے ساتھ بیٹی یا پوتی موجود ہو باپ شریک بھائی عصبہ نہیں بنتاہے بلکہ محروم ہوتاہے ، ایسے ہی وہ لوگ بھی جن کا درجہ باپ شریک بھائی کے بعد ہے ۔ اسی طرح سے بیٹی یا پوتی کے ساتھ باپ شریک بہن جب عصبہ بن جاتی ہے تو وہ بھتیجے وغیرہ کو عصبہ بننے سے روک دیتی ہے۔
4- اصحاب فروض پر رد:
وراثت کے مسئلے میں کوشش کی گئی ہے کہ مورث کی طبعی خواہش کی بنیاد پر اس کے مال کو انھیں لوگوں تک محدود رکھاجائے جن سے اس کا قریبی تعلق ہے اور جولوگ زندگی میں اس کے مددگار اور دکھ درد میں شریک رہے ۔ لہٰذا ’اصحاب فروض‘ کو دینے کے بعد بقیہ مال کو لینے کے لیے کوئی عصبہ موجود نہ ہوتو پھر دوبارہ بچے ہوئے حصے کو اصحاب فروض میں تقسیم کردیاجائے گا جسے اصطلاح میں ’’رد‘‘کہا جاتا ہے۔رد صرف نسبی اصحاب فروض پر ہوتا ہے ۔ میاں بیوی پر رد نہیں ہوتا ہے۔ عام طور پر صحابہ کرام کا یہی نقطہ نظر ہے اور اسی کے قائل امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل بھی ہیں۔ خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان کے نزدیک شوہر اور بیوی پر بھی رد ہوگا۔ اس کے برخلاف حضرت زید بن ثابت کی رائے ہے کہ عصبہ کی غیرموجودگی میں ’اصحاب فروض‘ سے بچے ہوئے حصے کو بیت المال کے حوالے کردیاجائے گا، امام مالک اور امام شافعی کا بھی یہی خیال ہے ۔ لیکن بیت المال کا نظام مختل ہوجانے کی وجہ سے ان کے پیروکاروں نے حنفیہ وغیرہ کی رائے کو اختیار کرلیا ہے۔ (المغنی9/48-49، رد المحتار 10/539)
جولوگ صرف نسبی رشتہ داروں پر رد کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ آیت قرآنی ہے۔
واولوا الأرحام بعضھم اولی ببعض
اور رشتہ دار آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔
طریقہ استدلال یہ ہے کہ ’اصحاب فروض نسبیہ‘ میت کے قریبی رشتہ دار ہیں لہٰذا ’بیت المال‘ کے بالمقابل وہ اس کے ترکے کے زیادہ حقدار ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے ترکہ کو بیت المال کے حوالے نہیں کیاجائے گا، نیز میاں بیوی کا آپس میں چونکہ کوئی نسبی رشتہ نہیں ہے اس لیے ان پر رد نہیں ہوگا ، علاوہ ازیں جو رشتہ تھا وہ بھی موت کی وجہ سے ختم ہوچکا ہے ، اس لیے بھی ان پر رد نہیں ہونا چاہیے۔ رہا حضرت عثمان غنی کا طرزعمل تو وہ اس سلسلہ میں واضح دلیل نہیں ہے ، اس لیے صحیح روایت سے بس اتنا ثابت ہے کہ انھوں نے شوہر پر ’رد‘کیا۔ بیوی پر رد کرنا ثابت نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ شوہر ہی اس کا عصبہ رہا ہو یا ذوی الارحام میں شامل ہو۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
من ترک مالا فھو لورثتہ (متفق علیہ ، المغنی 9/49)
جو مال چھوڑ جائے تووہ اس کے وارث کے لیے ہے۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ میت کے ترکے کا حقدار وارث ہے اور اس کے ہوتے ہوئے مال کے کسی حصے کو حکومت کے حوالے نہیں کیاجائے گا۔
جولوگ رد کے قائل نہیں ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر وارث کے حصے کو متعین کردیا ہے، لہٰذا ان کے حصے سے زیادہ دینا اس تعیین کے خلاف ہے اور رائے و قیاس کے ذریعہ میراث کے مسئلے کو ثابت کرنا ہے حالانکہ مسئلہ وراثت میں رائے اور قیاس کو دخل نہیں ہے ۔ (المغنی9/49)
لیکن یہ حقیقت ہے کہ ’’رد‘‘کی وجہ سے کسی کو اس کے متیعن حصے سے زیادہ نہیں دیاجاتا بلکہ اس کا متعین حصہ ہی دیاجاتا، اس لی یہ تعیین کے خلاف نہیں ۔ نیز آیت قرآنی کے مقتضی اور حدیث سے ثابت ہے، اس لیے اسے محض رائے اور قیاس پر مبنی نہیں قراردیا جاسکتا ہے
5- ذوی الارحام:
باعتبار لغت ’ذوی الارحام‘ کے معنی ’قریبی اور نسبی رشتہ دار ‘کے ہیں، خواہ رشتہ کی نوعیت کچھ بھی اور اصطلاح میں اس سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جو نہ ’اصحاب فروض ‘ میں شامل ہوں اور نہ عصبہ میں ۔ ’اصحاب فروض نسبی‘ اور عصبہ کی غیرموجودگی میں یہ وارث ہوتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔
واولوالارحام بعضھم اولیٰ ببعض فی کتاب اللہ (سورۃ الانفال /75)
اور رشتہ دار آپس میں ایک دوسرے پر زیادہ حق رکھتے ہیں ، اللہ کی کتاب کے مطابق۔
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ قریبی رشتہ دار میراث کے زیادہ حقدار ہیں
دوسرے کے مقابلے میں ۔ کیونکہ لفظ ’اولوالارحام‘ باعتبار لغت عام ہے اور ہر طرح کے قریبی رشتہ دار کو شامل ہے ، خواہ وہ اصحاب فروض ہوں یا عصبہ یا ان کے علاوہ دوسرے رشتہ دار ۔ لہٰذا اس آیت کے عموم کا تقاضا ہے کہ اصحاب فروض اور عصبہ کی غیرموجودگی میں ’بیت المال‘ کے بجائے ایسے لوگوں کو وارث قرار دیاجائے جس سے میت کا قریبی تعلق ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان والاقربون مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا (سورۃ النساء: 7)
ماں، باپ اور قرابت دار جو کچھ چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی ، خواہ ترکہ کم ہو یا زیادہ، ان کے لیے ایک متعین حصہ ہے ۔
اس آیت میں کہاگیا ہے کہ قریبی رشتہ داروں اور والدین کے چھوڑے ہوئے مال میں مردو عورت کا ایک حصہ ہے اور ’ذوی الارحام‘ بالاتفاق قریبی رشتہ دار میں شامل ہے۔ لہٰذا وہ قرابت کی بنیاد پر وارث ہوں گے اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
والخال وارث من لا وارث لہ یعقل عنہ ویرثہ (رواہ ابوداو ٔد، نسائی ابن ماجہ وغیرہ وصححہ ابن حبان وحسنہ الترمذی وابوزرعۃ الرازی ، نیل الاوطار 6/62)
جس کا کوئی وارث نہ ہو تو ماموں اس کا وارث قرار پائے گا ، اس کی طرف سے خونبہا اداکرے گا اور اس کی وراثت میں سے حصہ پائے گا۔
اور جمہور صحابہ و تابعین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے ، حنفیہ اور حنابلہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔ اس کے برخلاف بعض صحابہ کرام جیسے حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن عباس کی رائے ہے کہ ’اصحاب فروض‘ اور عصبہ کے نہ ہونے کی صورت میں میت کے ترکہ کو ’بیت المال‘ کے حوالے کردیاجائے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کی رائے بھی یہی ہے لیکن ’بیت المال‘ کا نظام مختل ہوجانے کی وجہ سے ان حضرات کے متبعین بھی ’ذوی الارحام‘ کو وارث قرار دیتے ہیں، اس طرح سے اب یہ مسئلہ اتفاقی ہے اور اسی وجہ سے ان کے دلائل سے صرف نظر کیاجاتا ہے اور اس لیے بھی کہ پہلا نقطہ نظر قرآن و حدیث سے قریب تر اور عقل انسانی سے زیادہ ہم آہنگ ہے ۔
جو لوگ ’ذوی الارحام‘ کو وارث قرار دیتے ہیں ان کے درمیان طریقہ وراثت اور اس کی کیفیت کے سلسلے میں اختلاف ہے ، کچھ لوگ کسی تفریق کے بغیر ہر طرح کے قریبی رشتہ دار کو وارث قرار دیتے ہیں اور قریب اور دور اور مرد عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھتے بلکہ ہر ایک کو برابر دینے کے قائل ہیں، گویا کہ ان کے یہاں صرف میت سے رشتے کا لحاظ رکھا جاتا ہے،لیکن دلیل کے اعتبار سے یہ ایک کمزور رائے ہے ، اس لیے ائمہ مجتہدین میں سے کوئی اس کا قائل نہیں ہے ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ جس شخص کے واسطے سے ان کا رشتہ ہے انھیں اسی کے درجے میں رکھاجائے جیسے نواسا اور نواسی وغیرہ کو ان کی ماں کی جگہ پر رکھ کر بیٹی کے حصے کا حقدار قرار دیاجائے، امام احمدبن حنبل اسی کے قائل ہیں اور مالکیہ اور شوافع کے یہاں اسی کے مطابق عمل ہے ، اس کے برخلاف امام ابوحنیفہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انھیں وارث قرار دینے میں رشتہ کی دوری اور نزدیکی کا لحاظ رکھاجائے گا اور سب سے پہلے اسی کو وارث قرار دیاجائے گا، جو میت سے زیادہ قریب ہو اور اس کے ہوتے ہوئے اس کی بہ نسبت دور کے رشتہ دار محروم ہوں گے۔
پہلے نقطۂ نظرکے قائل کو ’اہل الرحم‘ اور دوسرے کو ’اہل التزیل‘ اور تیسرے کو ’اہل القرابۃ‘ کہاجاتاہے۔
اہل قرابت کے یہاں ذوی الارحام کی چار قسمیں ہیں:
1-وہ لوگ جو میت کی طرف فروع مؤنث کے واسطے سے منسوب ہوں جیسے لڑکیوں کی اولاد (نواسا، نواسی) اور لڑکے کے لڑکیوں کی اولاد (پوتیوں کی اولاد خواہ مذکر ہوں یا مؤنث)۔
2-وہ لوگ جو میت کی طرف کسی اصول مؤنث کے واسطے سے منسوب ہوں جیسے نانا، پرنانا وغیرہ اور نانا کی ماں۔
3- وہ لوگ جو میت کے والدین کی فروعات میں سے ہوں جیسے بہنوں کی اولاد خواہ وہ بہنیں حقیقی ہوں یا باپ شریک یا ماں شریک اور بھائیوں کی لڑکیوں کی اولاد اور بھائیوں کے بیٹوں کی لڑکیاں۔
4-وہ لوگ جو میت کے دادا یا نانا کے فروع میں سے ہوں جیسے پھوپھی، ماموں، میت کا ماں شریک چچا، خالہ وغیرہ اور ان سب کی اولاد۔
اسی ترتیب سے وراثت کے حقدار بھی ہوں گے یعنی دوسرے درجے کے لوگ اسی وقت مستحق ہوں گے جبکہ پہلے درجے کے لوگ یا ان کی اولاد میں سے کوئی نہ ہوں ۔ غرضیکہ پہلے اسی کو وارث قرار دیاجائے گا جو میت سے زیادہ قریب ہو اور اگر ایک درجے کے لوگ جمع ہوجائیں تو ان میں قوت قرابت کا بھی لحاظ رکھاجائے گا۔ جس طرح سے کہ ’عصبات‘ میں اس کا خیال رکھا جاتا ہے، نیز مردو عورت کے درمیان ’عصبہ‘ کے طریقے پر ہی مال تقسیم کیاجائے گا۔(دیکھئے المغنی9/85-86، رد المحتار 10/545-554)
آسانی کے لیے ترتیب وار ان کے نام نقل کیے جارہے ہیں:
(1)لڑکیوں کی اولاد اور ان کی نسل خواہ مذکر ہوں یا مؤنث۔(2) پوتیوں کی مذکر و مؤنث اولاد اور ان کی نسل۔ (3) نانا، پرنانا وغیرہ۔ (4) نانا کی ماں(5)حقیقی، باپ شریک، ماں شریک بہنوں کی مذکر و مؤنث اولاد ۔(6)حقیقی، باپ شریک ، ماں شریک
بھائی کی لڑکیاں اور بھتیجوں کی لڑکیاں۔(7)ماں شریک بھائی کے بیٹے اور ماں شریک بھتیجوں کی مؤنث و مذکر اولاد۔(8)حقیقی، باپ شریک، ماں شریک پھوپھیاں، ماموں، خالہ، ماں کے چچا۔(9)ان سب کی اولاد اور ان کی مذکر و مؤنث نسل۔ (10) میت کے باپ کی حقیقی ، باپ شریک ، ماں شریک پھوپھیاں، میت کے باپ کے ماموں اور خالہ وغیرہ۔ (11) اور ان سب کی اولاد ۔
6- مولیٰ الموالاۃ:
امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک اسباب وراثت میں سے ایک سبب ’’ولاء الموالاۃ‘‘ بھی ہے جس سے متعلق کچھ باتیں سابق میں آچکی ہیں۔ یہ اس وقت وارث ہوتاہے جبکہ ’’اصحاب فروض نسبی‘‘ عصبہ اور ذوی الارحام میں سے کوئی نہ ہو ۔ اس کے وارث ہونے کی دلیل یہ قرآنی آیت ہے :
ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدان والاقربون والذین عقدت ایمانکم فاتو ھم نصیبھم ، ان اللہ کان علی کل شیء شھیدا(سورۃ النساء :33)
اور ہر ایسے مال کے لیے جسے والدین اور قرابت دار چھوڑ جائیں ہم نے وارث مقرر کیے ہیں اور جن سے تم نے عہد کیا ہے ان کا حصہ ادا کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہیں۔
اور حدیث میں ہے کہ
مولی القوم منھم وحلیف القوم منھم وابن أخت القوم منھم (رواہ الدارمی، مشکوٰۃ المصابیح مع التعلیق الصبیح 3/39)
کسی قوم کا آزاد کردہ غلام اور ان سے معاہدہ کرنے والا اور بہن کا بیٹا ان سب کا شمار اسی قوم سے ہوگا۔
صحابہ کرام میں حضرت عمر ، علی اور ابن مسعود اور تابعین میں حضرت حسن بصری اور حضرت ابراہیم نخعی وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔(رد المحتار 10/501وغیرہ)
7- مقر لہ بالنسب علی الغیر:
عاقل، باشعور ، بالغ اور آزاد شخص کسی مجہول النسب کے متعلق دعویٰ کرتاہے کہ یہ میرا بیٹا ہے تو گواہوں کے بغیر بھی اس اقرار کا اعتبار کیاجائے گا اور یہ اس کا بیٹا سمجھا جائے گا اور مرنے کے بعد اس کا وارث ہوگا بشرطیکہ اس عمر کا آدمی اس کا بیٹا ہوسکتاہو، نیز یہ بیٹا بھی اس کا اعتراف کرے لیکن اگرکوئی باشعور شخص یہ کہتا ہے کہ فلا ں میرا بھائی یا پوتا ہے لیکن اس کا باپ یا بیٹا اس کا اقرار نہیں کرتا ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور باپ کی وراثت میں دیگر بھائیوں کے ساتھ یہ شریک نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ دوسرے شخص پر ایک دعویٰ کر رہا ہے اس لیے گواہ کے بغیر اسے قبول نہیں کیاجائے گا۔ البتہ اگر یہ شخص آخر دم تک اپنے دعویٰ پر قائم رہا اور مذکورہ وارثوں میں سے کوئی موجود نہ ہو تو یہ شخص اس کا وارث ہوگا۔ (حوالہ مذکور 10-501/502)
8- جس کے لیے تہائی سے زیادہ کی وصیت کی گئی ہو:
وصیت کا حق بس تہائی مال تک محدود ہے ، اس سے زیادہ کی وصیت وارثوں کی مرضی پر منحصر ہے ، اگر وہ زائد مال کی وصیت کو بھی نافذ کرنا چاہیں تو بہتر ہے، ورنہ بقیہ وصیت ساقط ہے ۔ البتہ مذکورہ وارثوں میں سے کوئی وارث موجود نہ ہو تو تہائی سے زائد وصیت کو نافذ کیاجائے گا اور ’بیت المال‘ کو حوالے کرنے کے بجائے اسے وصیت میں صرف کیاجائے گا۔
9- بیت المال:
اگرکوئی وارث موجود نہ ہو تو اس کے خرچے اور تجہیز و تکفین وغیرہ کا ذمہ دار
اسلامی حکومت ہوا کرتی ہے ، اس لیے عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی طرح کے وارث کی غیرموجودگی میں اس کے ترکہ کو بیت المال کے حوالے کردیاجائے کہ جو نقصان کا ذمہ دار ہے فائدہ بھی وہی اٹھائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ
من ترک مالا فلورثتہ وانا وارث من لا وارث لہ اعقل عنہ وارثہ (رواہ احمدوأبوداؤد وابن ماجہ وصححہ الحاکم وابن حبان وحسنہ الترمذی وابوزرعۃ ، نیل الاوطار 6/62)
جوشخص کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے اور جس کا کوئی وارث نہ ہو میں اس کا وارث ہوں گا ، اس کی طرف سے خونبہا اداکروں گا اور اس کا ترکہ حاصل کروں گا۔
دیگر مذاہب پر ایک نظر:
وراثت کے سلسلہ میں اسلامی نقطہ نظر بیان کرنے کے بعد دیگر مذاہب اور فرقوں کے نظریہ کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتاہے تاکہ تقابل کی وجہ سے اسلامی شریعت کا اعتدال اور توازن نمایاں ہوسکے۔
یہودیت:
یہودیوں کے یہاں وراثت کا حقدار صرف لڑکا ہوتا ہے، اس کی موجودگی میں نہ تو میت کے والدین کے لیے کوئی حصہ ہے اور نہ بیٹی کے لیے ،نہ بیوی اور شوہر کا کوئی حصہ ہے اور نہ ہی دیگر رشتے داروں کا ، بیوہ اور بیٹیاں اولاد نرینہ کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ البتہ لڑکی اگر نابالغ ہو تو بارہ سال کی عمر تک وہ باپ کے ترکہ میں سے اپنا خرچہ لے سکتی ہے ۔ اس کے بعد اس کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ۔ بیوہ بہرصورت میراث سے محروم ہوتی ہے اور ایک بوجھ سمجھی جاتی ہے ۔
لڑکا ہر حالت میں میراث کا حقدار ہوتاہے چاہے وہ نکاح کے ذریعہ وجود میں آیا ہو یا بدکاری کا نتیجہ ہو ۔ نیز سب سے بڑا لڑکا خواہ وہ بدی کا نطفہ ہو دو گنا حصہ پاتاہے۔
بیٹا، پوتا وغیرہ کی غیرموجودگی میں لڑکیاں میراث پاتی ہیں اور وہ نہ ہوں تو ان کی اولاد۔
اور لڑکے ، لڑکیاں، پوتے ، نواسے وغیرہ نہ ہوں تو ترکے کا مستحق باپ ہوتا ہے اور اس کی غیرموجودگی میں دادا اور اس کے بعد بھائی چچا وغیرہ۔
کسی یہودی عورت کا انتقال ہو اور کوئی اولاد نہ ہو تو شوہر اس کا وارث ہوتاہے۔
اولاد نرینہ ہوتے ہوئے مورث کو کسی بھی طرح کی وصیت کا حق نہیں ہے اور وارث لڑکیاں ہوں تو جسے چاہے اور جتنا چاہے وصیت کرسکتا ہے۔
کوئی بت پرست یہودی مذہب اختیار کرلے تو اس کی وفات کے بعد غیر یہودی رشتہ دار اس کے وارث نہ ہوں گے ، البتہ کوئی بت پرست وفات کرجائے تو یہ یہودی اس کا وارث ہوگا اور اگرکوئی یہودی بت پرست وغیرہ ہوجائے تو یہ اپنے یہودی رشتہ داروں کے ترکہ سے محروم ہوگا۔ اور یہودی رشتہ دار اس کے وارث ہوں گے۔
نصرانیت:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوئی نئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت ہی پر عامل تھے، وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں شریعت موسویؑ کوختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کی تکمیل کے لیے آیا ہوں ، اس لیے ظاہر ہے کہ وراثت کے سلسلہ میں مسیحیت کا بھی وہی نقطہ نظر ہے جو اوپر تورات کے حوالے سے مذکور ہوا ۔ لیکن حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بائیس سال بعد مسیحیت نے تورات کے تمام احکامات پر خط نسخ پھیر دیا۔ اس لیے اب ان کے یہاں اس پر عمل نہیں ہے بلکہ مختلف فرقوں کے یہاں وراثت کے سلسلہ میں الگ الگ احکام ملتے ہیں۔ جن میں سے بیشتر احکام رومی یا یونانی قانون سے ماخوذ ہیں۔
رومی قانون وراثت:
رومی قانون وراثت میں مختلف اوقات میں متعدد تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ ابتداء میں وراثت کو وصیت سے متعلق کیاگیا تھا کہ مورث جس شخص کے لیے وصیت کرجائے وہی اس کے تمام مال کا وارث ہوگا یہاں تک کہ بادہ ’غسطنیانوس‘(5453ء) کا دور آیا اور اس نے وراثت کی بنیاد قرابت پر رکھی، نیز قریب ترین وارث کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار کو محروم قرار دیا اور استحقاق وراثت میں مردو عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا اس نے وارثوں کا مختلف طبقہ بنایا، پہلا طبقہ فروع یعنی بیٹا ، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ ان کی نسل سے اگر کوئی موجود ہے تو دوسرا وراثت کا حقدار نہ ہوگا اور ان کی غیرموجودگی میں دوسرا طبقہ یعنی اصول کے درمیان ترکہ تقسیم ہوگا جس میں باپ، دادا، بھائی وغیرہ شامل ہیں۔
قابل ذکر یہ ہے کہ اگر دادا کے ساتھ حقیقی بھائی موجود ہے تو وہ محروم نہ ہوگا بلکہ برابر کا حقدار ہوگا ، ایسے ہی پوتا بھی محروم نہیں ہوتاہے بلکہ دادا کے مرنے کے بعد وہ اپنے چچا کے ساتھ برابر کا حصہ دار ہوتاہے۔
اصول و فروع اور حقیقی بھائی موجود نہ ہو تو یہ حق ماں شریک یا باپ شریک بھائی کو ملتاہے اور اس کی غیرموجودگی میں دیگر رشتہ دار وں میں برابر برابر تقسیم کیاجائے گا، اس طور پر کہ قریب ترین رشتہ دار کی موجودگی میں دور کا رشتہ دار محروم ہوگا۔
میاں ، بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے ترکے سے مکمل طورپر محروم ہوگا کیونکہ ان کے یہاں وراثت کی بنیاد قرابت پر ہے۔
یونانی قانون وراثت:
یونانیوں کے یہاں بھی ابتداء ً وراثت کو وصیت سے متعلق رکھا گیا تھا کہ انسان اپنی زندگی ہی میں کسی کے لیے وصیت کرجائے اور اس کی موت کے بعد تمام ترکہ وصیت کردہ شخص کی طرف منتقل ہوجاتا تھا ، بعدمیں کچھ تبدیلیاں ہوئیں اور قرابت کو بنیاد قرار دیاگیا ، تاہم اولاد نرینہ کی موجودگی میں کسی عورت کے لیے کوئی حصہ نہ تھا۔ بیٹی وغیرہ وراثت کا حقدار اس وقت ہوتی جبکہ کوئی مرد وارث موجود نہ ہو ۔ ان میں یہ بھی رواج تھا کہ نکاح کے وقت بیٹی کو ’’دوطہ‘‘(جہیز) کے نام سے گھریلو استعمال کی چیزیں دے دیا کرتے تھے اور یہی ان کی وراثت سے محرومی کا عوض ہوتا تھا۔
اولاد نرینہ کی غیرموجودگی میں بیٹی اپنے باپ کے مال کا نگراں ہوتی تھی اور شادی کے بعد اسے کوئی لڑکا پیدا ہوجائے تو قانونی طور سے وہ مجبور تھی کہ اس لڑکے کو اپنے باپ کی طرف منسوب کرے اور ترکہ اس کے نام کردے ، گویا کہ عورت میراث کو صرف منتقل کرنے والی ہوتی ہے اور وہ کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتی ۔
ہندومت:
ہندو قانون وراثت میں عورتوں کے لیے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہے نیز تمام چیزوں کا مالک صرف بڑا لڑکا ہوتا ہے اور دوسرے سب محروم ۔ (دیکھئے منوسمرتی /181 اردوترجمہ تاراچند چھپرتاجر کتب لاہور)
فرانس ، جرمنی، انگلینڈ اور روس:
بعض ملکوں میں وراثت سے متعلق جو قوانین نافذ ہیں وہ یونانی اور رومی قانون کا چربہ ہیں، انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین ہیں جن میں اکثر و بیشتر تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ فرانسیسی قانون میں میت کی اولاد اور ان کی غیرموجودگی میں اس کے باپ، دادا ، پھر بھائی اور چچا کو وراثت کا حقدار قرار دیا گیا تھا اور ان سب کی غیر موجودگی میں غیرقانونی لڑکا حصہ دار ہوتاہے ۔ بیٹا اور پوتا کی موجودگی میں باپ دادا محروم ہوتے ہیں اور اگر کوئی بیٹا وفات کرجائے تو دوسرے موجود بیٹوں کے ساتھ پوتا بھی دادا کی میراث کا حقدار ہوتاہے۔
جرمن قانون کے لحاظ سے وراثت کی بنیاد قرابت اور زوجیت پر ہے ، فرع کی موجودگی میں زن و شو میں سے ہر ایک کا حصہ چوتھائی ہے اور فرع کے نہ ہونے کی صورت میں آدھا اور اصو ل و فروع میں سے کوئی موجود نہ ہو تو شوہر پورے ترکے کا حقدار ہوتاہے۔
انگریزی قانون میں بیٹا کے ہوتے ہوئے بیٹی محروم ہوتی ہے ، نیز پہلا لڑکا سب پر مقدم ہوتاہے اور اولاد نرینہ کی غیرموجودگی میں بیٹی وارث ہوتی ہے ۔
روس میں جب کمیونزم برسراقتدار ہوا تو شروع میں وراثت کا کوئی تصور ہی نہ تھا کہ فرد کسی چیز کا مالک نہ تھا ہر چیز پر حکومت کی ملکیت ہوتی تھی ۔ بعد میں تبدیلیاں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ 1945ء میں تین طرح کے لوگوں کو وارث قرار دیاگیا۔
1-اولاد،زوجین۔
2-والدین اور منھ بولا بیٹا۔
3-بھائی بہن۔
ان میں سے قریب ترین کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار کو محروم قرار دیا گیا۔
یورپ ، امریکا اور دیگر ملکوں میں اس وقت جو قانون وراثت رائج ہے ، اس کا ذکر تفصیل طلب ہے ۔ اس لیے اس سے گریز کرتے ہیں کہ اس وقت بھی ان میں رومی اور یونانی روح کار فرما ہے ، گرچہ بعض جزئیات اور تفصیلات میں اختلاف ہے۔
عرب:
اہل عرب مختلف قبیلوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے تھے، ان میں باہم آویزش اور کشمکش رہتی تھی ، میدان کار زار ہمیشہ گرم رہتاتھا، اس لیے وہ تمام معاملات کو اسی کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے تھے، چنانچہ وراثت میں ان کے یہاں چھوٹے بچوں اور عورتوں کا کوئی حصہ نہ تھا کہ یہ لوگ جنگی صلاحیتوں سے محروم تھے۔ اپنے قبیلہ کی طرف سے دفاع نہیں کرسکتے تھے، ان کے یہاں میراث پانے کے تین اسباب تھے؛ قرابت، ولاء، تبنی۔
1-قرابت:
میراث کے اسباب میں سے قرابت ایک اہم سبب تھی لیکن اس کے لیے شرط تھی کہ وارث بالغ اور جنگی صلاحیت کا حامل ہو اور ترکہ کا سب سے پہلا حقدار بیٹا تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئی اور وارث نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد پوتا، پھر باپ، دادا اور ان کے بعد بھائی اور چچا وغیرہ کا حق تھا۔
2-ولاء:
اسی جنگ و جدال کی وجہ سے ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے اور ایک شخص دوسرے شخص سے مدد اور نصرت کا معاہدہ کرتا تھا جسے ’’ولاء‘‘کہاجاتاہے اور قریبی وارث کی غیرموجودگی میں یہ شخص وارث ہوتا تھا۔
3- تبنی:
گذشتہ امتوں اور مذاہب میں لے پالک بیٹے کا رواج تھا اور اب بھی بہت سے فرقوں میں باقی ہے کہ لوگ دوسروں کے بچے کو گود لے لیتے ہیں اور وہ حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا ہے اور اس کی جائداد کا وارث ہوتاہے۔ عربوں میں بھی یہ طریقہ رائج تھا یہاں تک کہ اسلام نے آکر اس غیر فطری طریقے کو ختم کیا۔ (یہ تمام تر تفصیلات ڈاکٹرمصطفی السباعی کی کتاب ’’ھذا ھو الاسلام‘‘ 1/33 اور ابوالیقظان عطیہ کی کتاب ’’حکم المیراث فی الشریعۃ اسلامیۃ‘‘ /11-12سے ماخوذ ہیں۔)
اسلامی نظام وراثت کا امتیاز:
جو مذاہب اور فرقے فرد کی ملکیت کے قائل ہیں ان تمام کے یہاں وراثت کا تصور موجود ہے لیکن وہ اعتدال کی راہ سے ہٹا ہوا اور حکمت سے عاری اور عقل کے تقاضوں سے غیر آہنگ ہے ۔ کسی مذہب و قانون میں مرنے والے کو یہ حق دیاگیا ہے کہ وہ جتنا چاہے اور جس کے لیے چاہے وصیت کرسکتا ہے ، یہاں تک کہ کتے اور بلی کے لیے بھی تمام زمین و جائداد ور مال و دولت کی وصیت درست ہے۔ خواہ اس کے وارث قلاش اور دریوزہ گر ہوجائیں۔ چنانچہ امریکا اور یورپ وغیرہ میں کتے اور بلی کے لیے وصیت کرجانے اور وارثوں کو محروم چھوڑ دینے کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ بہت سے ملکوں میں وراثت کو ایک اختیاری معاملہ قرار دے کر اسے مورث کے صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جسے چاہے وراث قرار دے اور جسے چاہے عاق کردے کہ وہ زندگی بھر محرومی کی آگ میں جلتا رہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے ہی لوگوں سے انتقام کی تدبیر اور ان کے خلاف سازش کے تانے بانے میں لگا رہتا ہے، کہیں وراثت کا حقدار صرف بڑے لڑکے کو قرار دیاگیاہے تو دوسری جگہ انھیں لوگوں کو وارث بنایا گیا ہے جن میں لڑنے اور دفاع کرنے کی صلاحیت ہے ۔بہت سے قوانین میں اصول و فروع کی موجودگی میں میاں اور بیوی کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے اور ایسے ہی اولاد کے ہوتے ہوئے ماں، باپ کو محروم قرار دیاگیاہے۔
قدیم مذاہب اور قوانین میں عورت کو وراثت سے محروم رکھ کر ظلم کیاگیا تھا تو جدید قوانین میں عورت اور مرد کو یکساں اور برابر کا حصہ دار قرار دے کر مرد پر ظلم کو روا رکھا گیا اور عورت کو فطرت سے بغاوت پر ابھارا گیا۔
اسلام نے دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی نہایت ہی جنچاتلا، عدل و انصاف پر مبنی اور عقل و فطرت سے ہم آہنگ راہ اپنائی ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے :
1- وصیت کی حدبندی کی گئی ، مرنے والے کو ایک تہائی حصے تک وصیت کی اجازت دی گئی اور بقیہ دو تہائی حصے کو وارث کا حق قرار دیا ۔ حرام اور ناجائز کاموں میں وصیت کو نادرست ٹھہرایا۔ ایسے ہی کتے اور بلی وغیرہ کے لیے وصیت کو غلط کہاگیا۔
2- وراثت ایک اجباری معاملہ ہے ، لہٰذا مورث اپنے وارثوں میں سے کسی کو عاق نہیں کرسکتا ہے، اگر وہ عاق کردے بھی جب بھی مرنے کے بعد وہ اس کا وارث ہوگا۔
3- اولاد کے ہوتے ہوئے بھی باپ، دادا کا حصہ رکھا گیا جبکہ دیگر قوانین میں اولاد کی موجودگی میں باپ ، دادا کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔
4- زن و شو کا حصہ متعین کیاگیا اور اصول و فروع کی موجودگی میں بھی انھیں حقدار قرار دیا ، اس کے برخلاف قدیم و جدید تمام قوانین میں اصول و فروع کے ہوتے ہوئے شوہر اور بیوی کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے ۔
5- بھائی اور بہن بھی وراثت کے حقدار ہیں، ان حالات میں جبکہ عقل و حکمت کا تقاضا ہے کہ ان کو بھی حصہ ملے۔
6-عورتوں کے لیے ایک حصہ متعین کر دیا گیا تاکہ کسی طور پر ان کی کمزوری سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکے بلکہ قرآن و حدیث میں جن لوگوں کا حصہ متعین کیاگیاہے ان میں سب سے زیادہ تعداد عورتوں کی ہے ، چنانچہ ’اصحاب فرائض‘ کل بارہ ہیں۔ جن میں صرف چار مرد شامل ہیں اور بقیہ تمام عورتیں ہیں۔
دیگر مذاہب میں عورتوں کے لیے کوئی حصہ نہ تھا، بعض نظام قانون میں اگر عورت کے حصے کو تسلیم کیاگیاہے تو اس کے حصے کو متعین نہیں کیاگیا، صرف عورت کے لیے کچھ وصیت کرجانے کی ترغیب دی گئی۔ یہاں تک کہ یورپ میں 1870ء تک شادی شدہ عورت کے لیے نجی جائداد رکھنے کا حق حاصل نہ تھا۔ فرانس میں یہ حق 1938ء میں تسلیم کیاگیا۔ وراثت سے عورت کو محروم کرنے کے پس منظر میں یہ تصور کار فرما تھاکہ وہ دوسرے خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ لہٰذا شوہر کی وفات کے بعد اس کی گاڑھی کمائی کو وہ دوسرے خاندان میں منتقل کردے گی اسی تصور کی وجہ سے بعض ناخدا ترس زندگی کے آخری لمحے میں بیوی کو طلاق دے دیا کرتے تھے، اسلام نے اس تصور پرکاری ضرب لگائی اور طلاق کے باوجود عورت کو میراث کا حقدار قرار دیا۔(دیکھئے الہدایۃ کتاب الطلاق باب اطلاق المریض)
6- وراثت میں حصے کے تفاوت کی بنیاد احتیاج پر ہے جسے مال کی زیادہ ضرورت ہے اس کا حصہ زیادہ رکھا گیاہے، چنانچہ میت کے باپ کے بالمقابل اس کے بیٹے کا حصہ زیادہ ہے کیونکہ زندگی کے آخری مراحل میں اس کے ذمہ کوئی مطالبہ یا دوسروں کا حق نہیں ہوتاہے اور پوتا اس کی کفالت کا ذمہ دار ہے جبکہ پوتے کے سامنے ایک لمبی زندگی ہے اور اس کے کاندھوں پر گھر کے مختلف افراد کا بوجھ ہے ۔ اسی اصول کی بنیاد پر عورتوں کا حصہ مردوں سے آدھا رکھا گیا ہے۔ کیونکہ اسلامی معاشرے میں عورت پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے ، جب تک وہ اپنے والدین کے زیر سایہ رہتی ہے اس کے تمام اخراجات کی ذمہ داری باپ پر ہے اور رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجانے کے بعد اس کے نان و نفقہ اور خرچہ کی ذمہ داری شوہر پر عائد ہوجاتی ہے اور نکاح میں عورت پر شریعت کی طرف سے کوئی خرچ نہیں ہے بلکہ مہر کی صورت میں ایک معقول رقم اسے ملتی ہے۔ نکاح کے بعد شوہر کی وفات یا طلاق کی صورت میں اس کے خرچہ کی ذمہ داری باپ اور بھائی وغیرہ پر آپڑتی ہے ، غرضیکہ زندگی کی راہ میں عورت کے ناتواں کندھے پر کوئی مالی بوجھ نہیں رکھا گیا ہے۔ لہٰذا میراث اور مہر کی صورت میں عورت کو جو رقم ملتی ہے وہ اس کے لیے ایک محفوظ سرمایہ ہے جسے شاید و باید ہی خرچ کرنے کی نوبت آتی ہو۔ اس کے برخلاف لڑکا جونہی بالغ ہوا ، باپ اس کے خرچہ کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا۔ گرچہ اس کے یہاں مال و دولت کی فراوانی ہی کیوں نہ ہو۔ لڑکا اپنی زندگی کی گاڑی خود کھینچے بلکہ والدین اگر محتاج ہیں تو ان کا خرچ بھی اب اسی کے ذمہ ہے ۔ نکاح کی مالی ذمہ داریاں اسی پر عائد کی گئیں ہیں کہ مہر کی صورت میں ایک خطیر رقم عورت کے حوالے کرے اور نکاح کے بعد اس کے تمام اخراجات کی ذمہ داری سنبھالے، بیوی کی رہائش کے لیے
مکان کا بندوبست کرے اور اولاد ہونے کی صورت میں ان کے تمام مصارف کا بار اس کے سر ہے، غرضیکہ اسے جو کچھ ملا وہ خرچ ہوگیا بلکہ مستقل ذمہ داری عائد ہوگئی کہ وہ اپنی بیوی ، بچوں اور خاندان کے محتاج افراد کی کفالت کرے۔
اس پس منظر میں شریعت نے وراثت میں اسے دوہرا حصہ دیا تو عورت پر کیا ظلم کیا گیا بلکہ عورت کے لیے جس پر اپنے خرچ کا بوجھ بھی نہیں ہے اکہرا حصہ بھی باعث اعزاز و تکریم ہے ، سوچنے کی بات ہے کہ لڑکی والدین کی الفت و محبت کے گھنیرے سایہ میں بڑھتی اور پروان چڑھتی ہے ، اس کے نکاح تک اس کے تمام اخراجات کا ذمہ دار والد یا بھائی وغیرہ ہیں۔ نکاح کے بعد اس کی رہائش ، خوراک، پوشاک اور دیگر ضروریات کا ذمہ دار شوہر ہوجاتاہے ، عورت مالدار اور صاحب ثروت ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کے تمام اخراجات شوہر کے ذمے ہیں۔ اسے جو کچھ ملا ، محفوظ رہا۔ وہ پاتی ہے لیکن خرچ سے سبکدوش ہے ، اس پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ یہاں تک کہ ذاتی اخراجات بھی دوسرے کے ذمہ ہیں۔ ان حالات میں اکہرا حصہ ملنا ہی قرین انصاف ہے۔
عورتوں کے اخراجات کا ذمہ دار مرد کو قرار دینے کی حکمت یہ ہے کہ فطری طور پر اس کے اندر معاشی تگ و دو کی صلاحیت ، استعداد اور اہلیت رکھی گئی ہے ، اس کی اس استعداد کے سامنے ہر چیز ہیچ ہے ، اس کے برخلاف عورت فطری طور پر گھر کی منتظمہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کی ساخت و پرداخت کا تقاضا ہے کہ وہ چراغ خانہ رہے ، معاشی دوڑ میں اسے شامل کرنا اس کی فطرت سے بغاوت ہے ، جس کی وجہ سے خانگی ہم آہنگی برقرار نہ رہ سکے گی بلکہ خاندانی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ جنھوں نے اپنی عورتوں کو معاش کے لیے باہر نکالا اور انھیں بھی اپنی غلطی کا احساس ہوچکاہے۔ سابق روسی صدر گورباچوف نے اس سلسلہ میں اپنے دلی کرب کا احساس کچھ اس طرح سے کیا ہے:
ہماری مغرب کی سوسائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا اور اس کو گھر سے باہر نکالنے کے نتیجے میں بے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد حاصل کیے ہیں اور پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن پیداوار زیادہ ہونے کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہواکہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا ہے اور اس فیملی سسٹم کے تباہ ہوجانے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں وہ ان فوائد سے زیادہ ہیں جو پیداوار کے اضافے کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوتے ہیں۔(ازاصلاحی خطبات مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب )
مغرب کے عیار ذہن نے عورت کو گھر کی چہار دیواری کے اندر سکون سے رہنے نہ دیا بلکہ ’’آزادی نسواں‘‘ اور ’’مساوات مردو زن‘‘ کا پرفریب نعرہ دے کر اپنے حصے کا کام عورت کے حوالے کردیا کہ وہ کارخانوں ، دفتروں اور ہوٹلوں میں دھکے کھاتی پھرے اور اپنی عزت کو خطرے میں ڈال کر خود ہی اپنی روزی روٹی کا انتظام کرے اور اس کے صلہ میں عورت کو کیا ملا؟وراثت میں سے مرد کے برابر حصہ، جس کے ذریعہ شاید ہی وہ زندگی کے چند روز گذار سکے۔
ہرشخص فیصلہ کرسکتاہے کہ کیا یہ بہترہے کہ وراثت میں سے مرد کے برابر حصہ دے کر پوری زندگی کے لیے اس کے دوش ناتواں پر اپنے اخراجات کی ذمہ داری ڈال دی جائے یا یہ کہ وراثت میں سے تو اسے مرد کے بالمقابل اکہرا حصہ ملے لیکن مرد کو اس کے تمام اخراجات کا ذمہ دار بنادیا جائے، اسے مرد پر عورت کا حق قرار دیاجائے اور قانونی طور پر اسے ادا کرنے کے لیے مرد مجبور ہو۔