سلسله(4)

پیدائش اور نسب سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

4-مادہ تولید کی ذخیرہ اندوزی ۔(sperm Bank)

اسپرم بینک سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں مادہ تولید کو خاص تکنک کے ذریعے محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ بچے کی خواہش مند عورت اسے وہاں سے حاصل کر کے مصنوعی طریقے پر بارآوری کے بعد بچے کو جنم دے سکے۔
نطفے کی خرید و فروخت اور اس کے لیے اسپرم بینک کا قیام ناجائز ہے اس لیے کہ نسل انسانی کی افزائش کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے نکاح اور شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کے نطفے سے بارآوری زنا کے ہم معنی ہے۔قران حکیم میں ہے:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ  اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ  مَّوَدَّۃً  وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ  فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ  لِّقَوۡمٍ  یَّتَفَکَّرُوۡنَ ۔
اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیے۔یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں۔( سورہ الروم : 21)
اور حدیث میں ہے:
ما من ذنبٍ بعدَ الشركِ، أعظمَ عند اللهِ من نطفةٍ وضعها رجلٌ في رَحِمٍ لا يَحِلُّ له.
اللہ کی نگاہ میں شرک کے بعد سنگین ترین گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے نطفہ کو اس بچہ دانی میں داخل کرے جو اس کے لئے حلال نہیں ہے ۔
(الراوي: الهيثم بن مالك الطائي • الألباني، السلسلة الضعيفة :1580• ضعيف • أخرجه ابن أبي الدنيا في الورع:137)
یہ حدیث گرچہ سندی اعتبار سے ضعیف ہے مگر قرآن اور دوسری احادیث سے اس کے مضمون کی تائید ہوتی ہے ۔
یہ زمانہ جاہلیت کے اس قبیح رسم کی طرح ہے جس میں کوئی شخص بہتر نسل حاصل کرنے کے لیے اپنی بیوی کو کسی دوسرے کے یہاں بھیج دیا کرتا تھا چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا : أَرْسِلِي إِلَى فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ. وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا، وَلَا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ، فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ، وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ، فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ۔
ایک شخص اپنی بیوی سے کہتا کہ جب تم حیض سے پاک ہوجاؤ تو فلاں کے پاس جاؤ اور اس سے بچہ حاصل کرو اور اس کے بعد اس کا شوہر اس سے الگ رہتا اور اسے ہاتھ نہیں لگاتا یہاں تک کہ دوسرے شخص سے حمل کے آثار نمایاں ہوجاتے اور اس کے بعد اگر اس کا شوہر چاہتا تو اس سے اپنی خواہش پوری کرتا ،ایسا بہتر بچے کی چاہت میں کیا جاتا اور اس طریقے کو نکاح استبضاع کہا جاتا ۔(صحیح بخاری : 5127)
اس طرح سے نسب کی شناخت گم ہو جائے گی حالانکہ نسب کی حفاظت شریعت کا اہم مقصد ہے اور اسی وجہ سے زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح سے شوہر کی وفات یا طلاق بائن کے بعد اس کے نطفے سے اس کی سابق بیوی کو بارآور کرنا بھی حرام ہے کہ وفات یا طلاق بائن کی وجہ سے میاں بیوی کا رشتہ مکمل طور پہ ختم ہو چکا ہے.
البتہ اگر شوہر نے اپنے نطفے کو محفوظ کرا دیا ہو اور کسی مرض یا حادثے کی وجہ سے بیوی اس سے حاملہ نہ ہو سکے تو  ضرورت کی حالت میں اس کے محفوظ  نطفے سے اس کی بیوی کو بار آور کیا جا سکتا ہے.(1)

(1)عالج جاريته فيما دون الفرج فاخذت ماءه وجعلته في فرجها وعلقت منه صارت ام ولد.(بزازية على هامش الهندية359/5)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے