اقامت کے وقت قیام کا مسئلہ
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی
اقامت کا مقصد مسجد میں موجود نمازیوں کو نماز کے قیام سے آگاہ کرنا ہے، تاکہ وہ صفوں میں اپنی جگہ لے لیں ، اور صف درست ہوجائے، کیونکہ نماز کی تکمیل کیلئے صفوں کی درستگی ضروری ہے، اﷲ کے رسولﷺکاارشاد گرامی ہے :
’’ سَوَّوْا صُفُوْفَکُمْ فَاِنَّ تَسْوِیَۃَ الصُّفُوفِ مِنْ تَمَامِ الصَّلوٰۃِ ‘‘(رواہ البخاری ومسلم، ریاض الصالحین/۴۳۲،ط: مؤسسۃ غراس الکویت۔ )
’’صفوں کو سیدھی رکھو، اس لئے کہ صف درست ہونے پر نماز مکمل ہوتی ہے‘‘۔
صفوں کی درستگی کااثر صرف نماز تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی پوری زندگی اس سے متاثر ہوتی ہے، نماز کی صفیں درست رہتی ہیں تو مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی رہے گا، اور اگر صفوں کی درستگی کا اہتمام نہیں ہے تو مسجد سے باہر کی زندگی بھی اختلاف وانتشار کا شکار ہوگی، اور دلوں میں نفرت وکدورت پروان چڑھے گی، اس لئے کہ ظاہر کااثر باطن پر ضرور پڑتا ہے، حضرت ابومسعود کہتے ہیں :
کان رسول اﷲ ﷺ یمسح مناکبنا فی الصلوٰۃ ویقول استووا ولا تختلفوا فتختلف قلوبکم‘‘(رواہ مسلم، ریاض الصالحین:432)
’’اﷲ کے رسولﷺنماز کے شروع میں ہمارے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا کرتے تھے کہ سیدھے کھڑے رہو، آگے پیچھے مت رہو، کیونکہ ایسا کرنے سے تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوگا‘‘۔
اورحضرت نعمان بن بشیرؓ سے منقول ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ فرمایا کرتے تھے :
’’ واﷲ لتقیمن صفوفکم أو لیخالفن اﷲ بین قلوبکم‘‘(سنن ابوداؤد /۱۲۰،ط: مکتبہ المعارف، الریاض)
’’اﷲ کی قسم تم صفوں کو ضرور درست رکھو، ورنہ اﷲ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف ڈال دے گا‘‘۔
شیطانی وساوس اور پراگندہ خیالات سے محفوظ رہنے کے لئے بھی صفوں کی درستگی اور مل کر کھڑا ہونا ضروری ہے، حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسولﷺ نے فرمایا:
’’رصوا صفوفکم وقاربوا بینھا وحاذو بالاعناق فوالذی نفسی بیدہ إنی لأری الشیطان یدخل من خلل الصف کأنھا الخذف‘‘ (حوالہ مذکور)
صفوں میں مل کر اور قریب قریب رہو، گردن کے ذریعہ صف برابر کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں دیکھتا ہوں کہ شیطان بکری کے بچے کی طرح صف میں خالی جگہ سے داخل ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبیﷺخصوصی طورپر صف کی درستگی کااہتمام فرمایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر سے مروی ہے :
’’أن رسول اﷲ ﷺ کا یسوی صفوفنا حتیٰ کانما یسوی بھا القداح حتیٰ إذا رأی انا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوماً فقام حتیٰ کاد یکبر فرأی رجلاً بادیا صدرہ من الصف فقال عباد اﷲ لتسون صفوفکم أو لیخالفن اﷲ بین وجوھکم‘‘(رواہ مسلم، ریاض الصالحین :۴۳۵)
’’اﷲ کے رسولﷺ بذات خودہماری صفوں کو درست کیا کرتے تھے، صفیں اس طرح سے سیدھی ہوتیں کہ گویا کہ اس کے ذریعہ تیر سیدھی ہوسکتی ہے، یہاں تک کہ جب آپ نے یہ محسوس کرلیا کہ ہم نے اسے اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے، پھر ایک روز آپ نماز کیلئے تشریف لائے اور تکبیر کہنے ہی جارہے تھے کہ ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے، تو آپ نے فرمایا اﷲ کے بندو! تم ضرور اپنی صفوں کو سیدھی رکھو، ورنہ اﷲ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا کردے گا‘‘۔
صفوں کی درستگی کے اسی تاکیدی حکم اور عمل کی وجہ سے ایسا بھی ہوا کہ اقامت ہوئی اور رسول اﷲﷺ کے تشریف لانے سے پہلے ہی صف سیدھی ہوگئی، حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں :
’’ أقیمت الصلوٰۃ فقمنا فعدلنا الصفوف قبل أن یخرج الینا رسول اﷲ ﷺ ‘‘(صحیح مسلم: ۱/۱۲۰۔ )
’’نماز کے لئے اقامت کہی گئی، ہم کھڑے ہوگئے اور رسول اﷲ ﷺ کے مسجد میں تشریف لانے سے پہلے ہی صف برابر ہوگئی ‘‘۔
لیکن کبھی کسی وجہ سے تشریف آوری میں تاخیر ہوجاتی اور صحابہ کرام کھڑے کھڑے انتظار کرتے، لوگوں کو اس مشقت اور پریشانی سے بچانے کے لئے آپ نے ارشاد فرمایا:
’’إذا اقیمت الصلوٰۃ فلا تقوموا حتیٰ ترونی قد خرجت‘‘(رواہ البخاری ومسلم، واللفظ لہ :۱/ ۱۲۰، والترمذی: ۱۵۱۔ )
’’جب نماز کیلئے اقامت کہی جائے تو اس وقت تک کھڑے مت ہو جب تک کہ مجھے آتا ہوا دیکھ نہ لو‘‘۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ زرقانی لکھتے ہیں :
’’اس حدیث میں آپﷺ کے مسجد میں آنے سے پہلے قیام سے منع کیا گیاہے،اورآپ کو آتا ہوا دیکھ لینے کے بعد کھڑے ہونے کی اجازت دی گئی ہے، یہ اجازت مطلق ہے، اور اقامت کے کسی لفظ کے ساتھ خاص نہیں ہے ‘‘۔ (شرح مؤطا للزرقانی:۱/۲۱۴، نیزدیکھیے فتح الباری ۲؍۱۴۸۔ )
اس حکم کے بعد حضرت بلالؓ کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ اﷲ کے رسولﷺ کے گھر کی جانب نگاہ لگائے رکھتے اور جیسے آپﷺ نظر آتے اقامت شروع کردیتے، اور صحابہ کرام کھڑے ہوجاتے اور آنحضرتؐ کے مسجد میں تشریف لانے سے پہلے ہی صف درست ہوجاتی، حضرت جابرؓ سے منقول ہے:
’’کان موذن رسول اﷲ ﷺ یمھل فلایقیم حتیٰ إذا رأی رسول اﷲ قد خرج أقام الصلوٰۃ حین یراہ‘‘(مسلم:۱/۱۲۰، ابوداؤد:۱/۱۰۰،ترمذی:۱/۶۰۔ )
’’اﷲ کے رسول ﷺکے موذن اذان دے کر ٹھہرے رہتے تھے اور اقامت نہیں کہتے، البتہ جب رسول اﷲﷺکو تشریف لاتے ہوئے دیکھ لیتے تو اقامت کہتے‘‘۔
علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ:
حضرت بلالؓ رسول اﷲﷺکے نکلنے کی راہ دیکھا کرتے تھے اور حجرہ شریفہ کی طرف نگاہ لگائے رہتے تھے، لہٰذا بیشتر لوگوں کے دیکھنے سے پہلے ہی وہ رسول اﷲﷺکو تشریف لاتے ہوئے دیکھ لیتے اور دیکھتے ہی اقامت شروع کردیتے، اور دوسرے لوگ آپ کو دیکھنے کے بعد کھڑے ہوتے، اس لئے نبی ﷺکے امامت کی جگہ پر آنے سے پہلے ہی صف درست ہوجاتی‘‘۔ (فتح الباری:۲/۱۴۹،نیزدیکھیے شرح الزرقانی:۱/۲۱۴، عون المعبود:۱/۲۷۷)
حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ایک روایت میں خود ہی اس کی وضاحت ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
’’الصلاۃ کانت تقام لرسول اﷲ ﷺ فیاخذ الناس مصافھم قبل ان یقوم النبی ﷺ مقامہ‘‘(صحیح مسلم:۱/۱۲۰)
’’اقامت رسول اﷲ ﷺکیلئے کہی جاتی تھی، تو صحابہ کرام نبی ﷺ کے جائے اقامت پر قیام سے پہلے ہی صفوں میں اپنی جگہ لے لیتے تھے‘‘۔
اور ابن شہاب زہری سے منقول ہے کہ :
’’ان الناس کانوا ساعۃ یقول الموذن اﷲ اکبر یقومون الی الصلوٰۃ فلایاتی النبی ﷺ مقامہ حتیٰ تعتدل الصفوف‘‘(مصنف عبد الرزاق:۱/۵۰۷۔ )
’’ موذن کے اﷲ اکبر کہتے ہی صحابہ کرام کھڑے ہوجاتے تھے اور نبی ﷺکے اپنی جگہ پر تشریف لانے سے پہلے ہی صف سیدھی ہوچکی ہوتی تھی‘‘۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت کے سلسلہ میں اصل چیز امام کی موجودگی ہے،اس لیے اس کے بغیر اقامت نہیں کہنی چاہئے، اور اگر اقامت کہہ دی گئی تو کھڑے ہوکر انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ امام ترمذیؒ لکھتے ہیں :
’’صحابہ کرام اور بعض دوسرے اہل علم کھڑے ہوکر امام کا انتظار کرنے کو ناپسند کرتے تھے‘‘۔ ترمذی:۱۵۱، ابواب السفر۔
اور امام کو آتا ہوا دیکھ لینے کے بعد اقامت کہی جاسکتی ہے اور لوگ اقامت کے شروع ہی میں کھڑے ہوکر صفوں میں اپنی جگہ لے لیں اور اسے درست کرلیں ، اس لئے کہ اصل اہمیت صفوں کی درستگی کی ہے، اقامت کے کسی خاص لفظ پر کھڑے ہونے کی نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی اہمیت، کسی بھی صحیح یا ضعیف حدیث میں کسی مخصوص لفظ پر کھڑے ہونے کی فضیلت اور نہ قیام کرنے پر مذمت نہیں بیان کی گئی ہے … بلکہ امام کو آتا ہوا دیکھ لینے کے بعد جائے امامت پر آنے سے پہلے ہی صحابہ کرام کا نماز کے لئے قیام کا معمول رہا ہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ اگر امام مسجد میں موجود ہے تو بدرجہ اولیٰ شروع اقامت میں قیام کرنا بہتر ہے، چنانچہ علامہ عینی لکھتے ہیں :
’’فذھب مالک وجمھور العلماء الیٰ انہ لیس لقیامھم حد ولکن استحب عامتھم القیام إذا أخذ الموذن الاقامۃ‘‘(عمدۃ القاری:۵/۱۵۳)
’’امام مالک اور اکثر علماء کی رائے ہے کہ اقامت کے وقت قیام کی کوئی حد بندی نہیں ہے، لیکن ان میں سے بیشتر علماء نے شروع اقامت میں قیام کو بہتر قرار دیا ہے‘‘۔
نیز علامہ نووی لکھتے ہیں :
’’ونقل قاضی عیاض عن مالک وعامۃ العلماء انہ یستحب أن یقوموا إذا أخذ الموذن فی الاقامۃ‘‘(شرح نووی علیٰ مسلم:۱/۲۲۱)
’’قاضی عیاض نے امام مالک اور زیادہ ترعلماء کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے نزدیک اقامت کے شروع میں قیام کرنا مستحب ہے ‘‘۔
اور علامہ ابن رشد لکھتے ہیں :
’’نماز کیلئے کس وقت قیام پسندیدہ اور مستحب ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شروع اقامت میں قیام بہتر ہے، اس لئے کہ اصل یہی ہے کہ نیکی کے کاموں میں جلدی کرنا چاہئے، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ ’’ قد قامت الصلوٰۃ ‘‘ اور بعضوں کے نزدیک ’’ حی علی الفلاح ‘‘ کے وقت، اور کچھ لوگوں کے یہاں امام کے آنے کے وقت قیام مستحب ہے اور امام مالک اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کی کوئی تحدید نہیں کی ہے، اور یہ قوت وطاقت کے اعتبار سے ہر شخص کی مرضی پر منحصرہے، اور اس سلسلہ میں حضرت ابوقتادہ کی حدیث کے سوا کوئی حدیث موجود نہیں ہے جس میں اﷲ کے رسولؐنے فرمایا ہے کہ جب اقامت کہی جائے تواس وقت تک قیام نہ کرو جب تک کہ مجھے آتا ہوا دیکھ نہ لو، اگر یہ حدیث صحیح ہے تو اس کے مطابق عمل ضروری ہے، ورنہ یہ مسئلہ اپنے اصل کے اعتبار سے قابل درگزر ہے، یعنی اس کی کوئی حدبندی نہیں ہے اور جس وقت بھی قیام کرلے بہتر ہے ‘‘۔ (بدایۃ المجتہد:۱/۱۶۵۔ )
واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابوقتادہ کی مذکورہ حدیث صحیح بھی ہے اور صریح بھی اور مسئلہ کے لئے اصل بنیاد بھی، جس کے مطابق اﷲ کے رسولﷺ کی زندگی اور اس کے بعد صحابہ کرام وتابعین عظام کا عمل رہا ہے کہ وہ آپﷺکوتشریف لاتے ہوئے دیکھنے کے بعد ہی نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے اور بعض روایتوں کے مطابق حضرت بلالؓ آپ کو آتا ہوا دیکھ لینے کے بعد اقامت شروع کرتے اور لوگ ابتداء اقامت ہی میں کھڑے ہوجاتے اور جائے امامت پر آنحضرتؐ کی تشریف آوری سے پہلے ہی صف درست ہوجاتی۔
صف کی درستگی کا تاکیدی حکم اور اس کے مطابق رسول اﷲﷺ اور صحابہ کرام کا عمل ایسی دلیل ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ابتداء اقامت میں کھڑا ہونا واجب ہے، چنانچہ مشہور اور جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن المسیب اور خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز کہتے ہیں کہ :
’’موذن جب اﷲ اکبر کہے تو قیام واجب ہے اور جب ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ کہے تو اس وقت تک صف سیدھی ہوجانی چاہئے اور لاالٰہ لا اﷲ کہنے پر امام تکبیر کہے گا‘‘۔ (فتح الباری :۲/ ۱۴۸،عمدۃ القاری :۵/۱۵۳۔ )
حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک ’’ حی علی الفلاح ‘‘ اور ’’ قدقامت الصلوٰۃ ‘‘ کہنے کے وقت قیام کرنا مستحب ہے، (١)یہ دونوں نقطہ نظر محض اس حکمت پر مبنی ہیں کہ ان الفاظ کے ذریعہ نماز کی طرف بلایا جارہا ہے،یا نماز قائم ہونے کی اطلاع دی جارہی ہے، لہٰذا اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے اس وقت کھڑ اہوجانا چاہئے، چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں :
’’والقیام حین حی علی الفلاح لانہ امر بہ یستحب المسارعۃ الیہ‘‘(البحر الرائق:۱/۲۳۱۔ )
’’ حی علی الفلاح ‘‘پر قیام کرنا مستحب ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ حکم دیا جارہا ہے،لہٰذا اس کیلئے جلدی کرنا مستحب ہے۔
اور یہ وقت مستحب کی آخری حد ہے یعنی اگر کوئی تلاوت یا کسی اور کام میں مشغول ہے تو اس وقت اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے کھڑا ہوجائے، اگر کوئی اس وقت بھی نماز کے لئے کھڑا نہیں ہوتا ہے تو مستحب وقت ختم ہوجائے گا، چنانچہ علامہ طحطاوی لکھتے ہیں :
’’والظاھر انہ احتراز عن التاخیر لاالتقدیم حتیٰ لوقام اول الاقامۃ لابأس بہ‘‘(طحطاوی علی الدر:۱/۳۳۱۔ )
’’اس کا ظاہریہ ہے کہ اس کے بعد قیام میں تاخیر سے بچنا ہے، پہلے کھڑے ہونے کی کوئی ممانعت نہیں یہاں تک کہ اگر کوئی شروع اقامت ہی میں کھڑا ہوجائے تو اس میں کوئی خرابی نہیں ہے‘‘۔
نیکی کے کاموں کی طرف تیزی سے بڑھنا اور لپکنا، کتاب وسنت کی روشنی میں مطلوب اور پسندیدہ ہے، اس لئے اقامت کے شروع ہی میں قیام بہتر ہے، نیز اس کی وجہ سے صفوں کی درستگی میں مدد ملے گی، اور اقامت کے بعد تکبیر میں تاخیر نہیں ہوگی، ’’حی علی الفلاح‘‘ پر قیام کرنے میں اندیشہ ہے کہ اس کے بعد صف سیدھی کرنے کی وجہ سے تکبیر میں تاخیر ہوگی جو کہ ناپسندیدہ ہے۔
(۱)’’حی علی الفلاح‘‘ کہنے کے وقت قیام کرنے کیلئے کوئی صحیح یا ضعیف حدیث موجودنہیں ہے، ’’قد قامت الصلوٰۃ ‘‘ کے سلسلہ میں ایک حددرجہ ضعیف روایت موجود ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں : عن عبد اﷲ بن ابی اوفیٰ قال کان بلال إذا قال’’ قدقامت الصلوٰۃ ‘‘ نھض رسول اﷲ ﷺ فکبر، علامہ ہیثمی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : رواہ الطبرانی فی الکبیر من طریق حجاج بن فروخ وھو ضعیف جداً، مجمع الزوائد:۲/۵۔