ایصال ثواب: ایک تحقیقی مطالعہ

 

ولی اللہ مجید قاسمی  

 

 اصل یہ ہے کہ کسی کو صرف اسی عمل کا فائدہ ملے جسے اس نے خود انجام دیا ہو، لیکن اللہ عز و جل کے فضل و کرم اور مہربانی رحمت کا تقاضا ہوا کہ ایک مومن کے نیک عمل سے دوسرے مومن کو بھی فائدہ پہنچے، جس کے ذریعے ایمانی دوستی، بھائی چارگی،حمایت وتعاون اور الفت ومحبت کا اظہارہو، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے کہ :

’’وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَآ اَلَتْنٰھُمْ مِّنْ عَمَلِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ ‘‘(سورۃ الطور:21)

’’اوروہ لوگ جو ایمان لے آئے اوران کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی تو ہم نے ان کی اولاد کوان تک پہنچا دیا اوران کے عمل میں سے کچھ کم نہیں کیا ‘‘۔

 اس آیت میں بتلایاگیا ہے کہ باپ کے نیک عمل کا فائدہ اس کی اولاد کو بھی ملے گا اور اس کے نتیجے میں اسے بھی باپ کا درجہ مل جائے گا، گرچہ وہ عمل کے اعتبار سے اپنے باپ سے کم تر ہو، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فضل و کرم اس وقت ہوگا جب کہ دونوں صاحب ایمان ہوں۔

اور حدیث میں ہے کہ ایک صحابی کے ذمے کسی کا د و دینار رہ گیا تھا اور ادائیگی سے پہلے ہی ان کی وفات ہوگئی اور ان کی طرف سے حضرت ابو قتادہؓ نے وہ دو دینار ادا کر دیا تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :

’’ الآن حین بردت علیہ جلدہ‘‘ (رواہ الحاکم وغیرہ وقال الالبانی حسن، احکام الجنائز:27)

’’اب ان کی کھال ٹھنڈی ہوگئی ہے‘‘۔

 اس حدیث سے معلو م ہوتا ہے کہ کوئی بھی صاحب ایمان اپنے عمل کے ذریعہ کسی مومن کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، کیونکہ حضرت ابوقتادہ کا ان سے کوئی رشتہ ناطہ نہیں تھا، لیکن ان کی ادائیگی کی وجہ سے دوسرے صحابی قرض کے گنا ہ اوراس کے عذاب سے نجات پاگئے۔

 ایصال ثواب کی یہی حقیقت ہے کہ اس میں ایک شخص اپنے نیک عمل کے ذریعے جس پر اسے ثواب کی امید ہے، دوسرے شخص کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور کتاب و سنت سے ثابت ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے اس کی کوشش کامیاب ہوگی، اوروہ دوسرے کے درجات کی بلند ی اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہوگی۔

دعا و استغفار:

 اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ مومن کے لیے دعا و استغفار مطلوب اور مفید ہے خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کا اس دنیا سے رشتہ منقطع ہو چکا ہے، اس لیے کہ قرآن حکیم میں ہے کہ :

’’وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْ م بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ‘‘(سورۃ الحشر:10)

’’اوروہ لوگ جو ان (مہاجرین و انصار ) کے بعد آئیں اور دعا کریں کہ اے ہمارے رب ! ہماری مغفرت فرمااور ہمارے ان بھائیوں کی بھی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لے آئے ‘‘۔

 اور اسی مقصد کے لیے صلاۃ جنازہ پڑھنے کا حکم دیاگیا ہے اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب تم صلوٰۃجنازہ پڑھو تو اخلاص کے ساتھ میت کے لیے دعا کر و، ( اخرجہ ابوداؤد:2/68 وابن ماجہ:1/756وابن حبان، احکام الجنائز:156) اور آنحضورﷺ جنازہ کی دعا میں کہاکرتے تھے کہ اے اللہ! ہمارے زندوں اور مردوں کی مغفرت فرما۔

 اور حضرت عثمان بن عفانؓ کہتے ہیں:

’’کان النبیﷺ اذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروا لاخیکم واسئلوا لہ التثبیت فانہ الآن یسأل‘‘ (اخرجہ ابوداؤد:2/70والحاکم وقال صحیح الاسناد وواقفہ الذہبی وھو کما قالا و قال النووی اسنادہ جید، احکام الجنائز:198۔ )

’’نبی ﷺ جب دفن سے فارغ ہوجاتے تو وہاں ٹھہرے رہتے اور فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کر و کیونکہ اس وقت اس سے سوال کیاجارہا ہے‘‘۔

 نیز حدیث میں قبروں کی زیارت اور وہاں جاکر میت کے لیے دعا و مغفرت کی ترغیب دی گئی ہے۔

 اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :

’’ان اللّٰہ عزوجل لیرفع الدرجۃ للعبدالصالح فی الجنۃ فیقول یارب أنی لی ھذہ فیقول باستغفار ولدک لک‘‘ (رواہ ابن ماجہ واسنادہ حسن ثم خرجتہ فی الصحیحۃ:1598، ھدایۃ الرواۃ:2/455۔)

’’اللہ تعالیٰ نیک بندے کے درجات میں اضافہ فرمادیتے ہیں، وہ عرض کرے گا میرے رب ! یہ درجہ مجھے کیسے مل گیا، ارشاد ہوگا کہ تیرے لیے تمہارے بیٹے کے استغفار کی وجہ سے ‘‘۔

صدقہ وخیرات:

 امام نووی کہتے ہیں کہ اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ صدقہ وخیرات کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، خواہ صدقہ کرنے والا اس کاکوئی رشتہ دارہو یا کوئی اور شخص، اس لیے کہ

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:

’’ ان رجلا قال ان امی افتلتت نفسھا(ولم توص) واظنھا لو تکلمتتصدقت فھل لھا اجران تصدقت عنھا (ولی اجر) قال نعم (فتصدق عنھا)۔ (اخرجہ البخاری:3/198،مسلم:3/81 ومالک فی المؤطا:2/ 228 وغیرہ احکام الجنائز:217۔ )

’’نبی ﷺ سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ میری ماں کی اچانک وفات ہوگئی ہے اور وہ کوئی وصیت نہ کر سکی، میرا خیال ہے کہ اگرانہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کے لیے کہتیں، تو کیا اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دو ں توانہیں اور مجھے اس صدقہ کااجر ملے گا ؟ آپ ﷺنے فرمایا : ہاں، تو انہوں نے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کیا ‘‘۔

حضرت سعد بن عبادہؓ کی والدہ کی وفات ان کی غیر موجودگی میں ہوگئی تھی، انہوں نے رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا :

’’ ان امی توفیت وانا غائب عنھا فھل ینفعھا ان تصدق بشییٔ عنھا قال نعم‘‘(اخرجہ البخاری: 5/297 وغیرہ۔ )

’’میری ماں کی وفات میرے غائبانے میں ہوگئی تو کیا اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ وخیرات کروں تو ان کے لیے فائدہ مند ہوگا ؟ آپ ؐ نے فرمایا : ہاں ‘‘۔

عاص بن وائل السہمی کی وفا ت حالت کفر میں ہوئی تھی اور اس نے وصیت کی تھی کہ میری طرف سے سوغلام آزاد کر دیے جائیں، ایک بیٹے ہشام نے اس کی طرف پچاس غلامو ں کو آزاد کر دیا، دوسرے بیٹے عمرو نے کہا کہ رسول اللہ ﷺسے دریافت کرنے کے بعد ہی کچھ کروں گا، وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے او ر واقعہ سے باخبر کیا تو آپؐ نے فرمایا :

’’ انہ لوکان مسلما فاعتقتم او تصدقتم عنہ اوحججتم عنہ بلغہ ذلک (وفی روایۃ) فلوکان اقربالتوحید فصمت وتصدقت عنہ نفعہ ذلک‘‘ (اخرجہ ابوداؤد فی آخرالوصایا:2/15، والبیھقی، والسیاق لہ واحمد: 6704 واسنادھم حسن احکام الجنائز:218۔ )

’’ اگروہ مسلمان ہوتا پھر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے، صدقہ کرتے یا حج کرتے تو اسے اس کا ثواب پہنچتا اور ایک روایت میں ہے کہ اگر وہ توحید کا اقرار کرلیتا پھر تم اس کی طرف سے روزہ رکھتے اور صدقہ کرتے تو اس کا نفع اسے ملتا ‘‘۔

قربانی:

 میت کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے خوا ہ اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو، وصیت کی صورت میں قربانی کے پورے گوشت کو صدقہ کرنا ضروری ہے اور وصیت کے بغیر اپنی خوشی سے قربانی کرنے کی صورت میں اسے کھانے کی اجازت ہے، چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ :

’’ ان رسول اللّٰہﷺ اخذ الکبش فاضجعہ ثم ذبحہ ثم قال بسم اللّٰہ اللّٰہم تقبل من محمد وآل محمد ومن امۃ محمد ثم ضحی بہ‘‘(رواہ مسلم وابوداؤد وغیرھما ارواء الغلیل:4/353۔ )

’’رسول اللہ ﷺ نے ایک مینڈھے کو پکڑا، اسے لٹایا پھر ذبح کرنا چاہا اور کہا اللہ کے نام سے، اے اللہ !اسے تو میری طرف سے، میرے آل اور میری امت کی طرف سے قبول فرما، پھر آپؐ نے اس کی قربانی کی ‘‘۔

اور حضرت جابرؓ کہتے ہیں:

’’…واتی بکبش فذبحہ رسول اللّٰہﷺ بیدہ وقال بسم اللّٰہ واللّٰہ اکبرھذا عنی وعمن لم یضحی من امتی‘‘(رواہ الترمذی، وقال الحاکم صحیح الاسناد واقرہ الذہبی وقال الالبانی وھوکما قالا ارواء الغلیل:4/350۔ )

’’…او ر ایک مینڈھا لایاگیا، رسول اللہ ﷺنے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور کہا بسم اللہ، اللہ اکبر، یہ میری طرف سے ہے اور میری ان امتیوں کی طرف سے ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے ‘‘۔

ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی اور آپؐ کی امت میں بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو اس قربانی کے وقت دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور بے شمار وہ لوگ تھے جو آپؐ کے بعد آئیں گے اور اس روئے زمین پر متعین مدت گزار کر آخرت کی طرف روانہ ہوں گے اور آپ ﷺ کی طرف سے کی گئی قربانی کے ثواب سے وہ اپنا حصہ پائیں گے۔

 اور حنش کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ دو مینڈھوں کی قربانی دیتے، ایک نبیﷺ کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، اس کے بارے میں ان سے دریافت کیا گیا تو فرمایا :

’’ امرنی بہ یعنی النبیﷺ فلا ادعہ ابداً ‘‘ (الجامع للترمذی:354)

’’نبی ﷺ نے مجھے حکم دیا ہے، اس لیے میں اسے کبھی بھی نہیں ترک کروں گا‘‘۔

اس حدیث کے بعض راویوں پر کلام کیاگیا ہے، لیکن چونکہ نفس مسئلہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے اس لیے یہ حدیث اس کی تائید میں کام آسکتی ہے اور اسی بنیاد پر بعض محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ( دیکھیے المستدرک:4/230۔ )

 جمہور کے نزدیک میت کی طرف سے قربانی کرنا اور اس کا ثواب اسے پہنچانا درست ہے، چنانچہ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

’’وتجوز الاضحیۃ عن المیت کما یجوز عنہ الحج والصدقۃ‘‘ (فتاوی ابن تیمیہ:26/306)

’’اور میت کی طرف سے قربانی جائز ہے جس طرح سے کہ اس کی طرف سے حج اور صدقہ درست ہے ‘‘۔

اور علامہ عبدالرحمن مبارک پوری امام بغوی کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

’’جولوگ میت کی طرف سے قربانی کی اجازت دیتے ہیں ان کی بات دلیل کے مطابق ہے اور اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ ثابت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ دو مینڈھوں کی قربانی کیاکرتے تھے جس میں سے ایک اپنی اس امت کی طرف سے جنہوں نے اللہ کی وحدانیت اور آپؐ کی رسالت کی گواہی دی ہو اور دوسرا اپنی طرف سے اور اپنے گھروالوں کی طرف سے، اور یہ معلو م ہے کہ آپ کی امت میں سے بہت سے لوگ اس وقت وفات پاچکے تھے، اس لیے آپ ﷺ کی قربانی میں زندہ مردہ سب شریک ہوگئے ‘‘۔ (تحفۃ الاحوذی:2/354، نیزدیکھیے عون المعبود:7/245،علامہ عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ ’’میت کی طرف سے قربانی سنت ہے اور اس کاثواب اسے بلاشبہ پہنچتا ہے ‘‘،مجموعہ مقالات وفتاویٰ،علامہ شمس الحق عظیم آبادی :265)

حج و عمرہ:

بدنی عبادتوں میں سے حج کے بارے میں تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ اس کے ذریعے دوسرے کو فائدہ پہنچایاجاسکتا ہے اور میت وغیرہ کی طرف سے کوئی بھی حج کر سکتا ہے خواہ وہ اس کی اولاد ہو یا کوئی دوسرا، ( نیل الاوطار:2/781۔ )چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک خاتون نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! میری ماں نے حج کے لیے نذر مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکیں اور ان کی وفات ہوگئی، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :

’’ نعم، حجی عنھا أرأیت لوکان علی امک دین اکنت قاضیۃ، اقضوا اللّٰہ فاللّٰہ احق بالوفاء‘‘(رواہ البخاری وغیرہ)

’’ہاں، اس کی طرف سے حج کر و، تم بتلائو کہ اگر تمہاری ماں پر کسی کا قرض ہو تا توکیاتم اسے ادا کرتی ؟لوگو! اللہ کے قرض کو ادا کرو، کیونکہ وہ ادائیگی کا زیاد ہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیاجائے ‘‘۔

 بعض روایتوں میں ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ میری بہن نے حج کے لیے نذر مانی تھی لیکن حج کرنے سے پہلے ہی ان کی وفات ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ جواب دیا۔ ( بخاری ومسلم،مشکاۃ:1/456۔ )

اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ :

’’ ان رسول اللّٰہﷺ سمع رجلا یقول لبیک عن شبرمۃ قال من شبرمۃ قال اخ لی او قریب لی قال احججت عن نفسک قال لا قال حج عن نفسک ثم حج عن شبرمۃ‘‘ (رواہ الشافعی وابوداؤد وابن ماجہ مشکاۃ: 458، قال الالبانی صحیح ارواء:4/171۔ )

’’رسول اللہ ﷺ نے سنا کہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ شبرمہ کی طرف سے لبیک، آپؐ نے پوچھا شبرمہ کون ہے ؟عرض کیا میرا بھائی یا رشتہ دار، آپؐ نے فرمایا : کیا تم نے اپنا حج کرلیا ہے ؟ اس نے کہا نہیں، فرمایا پہلے اپنا حج کر و اور اس کے بعد شبر مہ کی طرف سے ‘‘۔

 ا س طرح کی روایتوں کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نیابت کی مثال ہے، اور اس میں اور ایصال ثواب میں بڑا فرق ہے، لیکن وہ اس حقیقت کو بھول جاتے   ہیں کہ دونوں کی بنیاد ایک ہے اور وہ ہے اپنے عمل سے دوسرے کو فائدہ پہنچانا، اس لیے علامہ صنعانی نے بجا طو ر پر اس پر عنوان لگایا ہے کہ :

’’ ھل ینفع الانسان عمل غیرہ‘‘

’’ کیا کسی انسان کو دوسرے کا عمل فائدہ پہنچا سکتا ہے ‘‘۔

اور انہوں نے اس پر وارد ہونے والے اعتراضات کا بڑا اچھا جواب دیا ہے۔ ( دیکھیے سبل السلام:2/699۔ )

روزہ و نماز:

خالص بدنی عبادات جیسے صوم و صلوٰ ۃ اور تلاوت قرآن کے ذریعہ ایصال ثواب کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ، مالک و احمد اور اکثر سلف کے نزدیک بدنی عبادات کے ذریعے ایصال ثواب درست ہے اور امام شافعی کے نزدیک بدنی عبادات کے ذریعے ایصال ثواب درست نہیں ہے لیکن علامہ نووی نے نقل کیا ہے کہ امام شافعی کے بعض شاگردوں کے نزدیک بدنی عبادات کے ذریعے بھی ایصال ثواب صحیح ہے اور بعد کے شافعی علماء نے اسی کو پسند کیا ہے، اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسولؐ! میں اپنے والدین کا بڑا فرماں بردار تھا، ان کی وفات کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک کی کیا صورت ہے ؟ فرمایا کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ نیکی کی شکل یہ ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے بھی نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لیے بھی روزہ رکھو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ :3/387،نیل الاوطار :2/785۔ )

اور اس پر تمام لوگوں کااتفاق ہے کہ کوئی کسی کی طرف سے فرض و نذر نماز نہیں پڑھ سکتا ہے، البتہ رمضان اور نذر کے روزے کے بارے میں اختلاف ہے۔

امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کے ذمے رمضان کا روزہ باقی ہے تو اس کی طرف اس کے وارث کے روزہ رکھ لینے کی وجہ سے اس کے ذمہ سے روزہ ساقط ہو جائے گا، اس لیے کہ حدیث میں ہے :

’’ من مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ ‘‘ (صحیح بخاری ومسلم احکام الجنائز:214)

’’جو مرجائے اوراس کے ذمہ روزہ باقی ہو تو اس کی طرف سے اس کا وارث روزہ رکھے ‘‘۔

 اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ رکھنا درست ہے، رمضان کی قضا کا روزہ نہیں، اس لیے کہ حضرت عمرہ سے روایت ہے کہ :

’’ ان امھا ماتت وعلیھا من رمضان فقالت لعائشۃ اقضیہ عنھا؟ قالت لا بل تصدقی عنھا مکان کل یوم نصف صاع علی کل مسکین‘‘ (اخرجہ الطحاوی وابن حزم وصححہ ابن الترکمان والالبانی احکام الجنائز:215)

’’ میری ماں کی وفات ہوگئی اور ان کے ذمے رمضان کا روزہ باقی تھا تو انہوں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ کیا میں ان کی طرف سے قضا کر دوں ؟ تو انہوں نے کہا، نہیں بلکہ ہردن کے روزہ کے بدلے مسکینوں کو آدھا صاع دے دو ‘‘۔

 غرضیکہ انہوں نے اس فتوے کی بنیادپر امام شافعی کی طرف سے پیش کی گئی عمومی حدیث کو خاص کر دیا ہے لیکن امام ابوحنیفہ اور مالک کے نزدیک میت کی طرف سے نہ نذر کا روزہ رکھا جاسکتا ہے اور نہ رمضان کا، اس لیے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے منقول ہے کہ :

’’لا یصوم احد عن احد ولایصلی احد عن احد ‘‘(موطا امام مالک:245)

’’کوئی کسی کی طرف سے نہ روزہ رکھے اور نہ نماز پڑھے ‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی یہی منقول ہے۔ ( رواہ النسائی فی الکبریٰ:4/ 43 والطحاوی فی مشکل الآثار:3/141 وقال الالبانی سندہ صحیح حاشیہ شرح عقیدۃ الطحاویۃ:453)

 اور میت کی طرف سے روزہ رکھنے کی روایتوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ا س کی طرف سے اس کا وارث فدیہ ادا کردے تو گویا کہ اس نے اس کی طرف سے روزہ رکھا، ’’صام عنہ ولیہ باداء الفدیۃ ‘‘(عمدۃ القاری:11/57) اور علامہ انور شاہ کشمیری کہتے ہیں:

’’حدیث کی تاویل کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا حقیقی مفہوم روزہ رکھنا مراد ہے، البتہ بطور نیابت نہیں بلکہ اپنی خوشی سے ایصال ثواب کرنے کے لیے‘‘۔ (فتح الملھم:3/159۔ )

تلاوت قرآن:

 حضرت خالد بن لجلاج کہتے ہیں کہ میر ے والد نے مجھ سے کہا :

’’ یابنی اذا انامت فالحد لی فاذا وضعتنی فی لحدی فقل بسم اللّٰہ وعلی ملۃ رسول اللّٰہ ثم سن علی التراب ثم اقرأ عند رأسی بفاتحۃ البقرۃ وخاتمتھا فانی سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول ذلک‘‘ (رواہ الطبرانی وقال الھیثمی رجالہ موثوقون وقال النیموی فی آثارالسنن:2/125، اسنادہ صحیح۔ )

’’بیٹے! جب میں مرجائوں تو میرے لیے لحدی قبر بنانا اور قبر میں رکھتے ہوئے کہنا بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ، اور پھر اچھی طرح سے مٹی ڈالنا اور پھر میرے سرکے پاس سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیتوں کو پڑھنا، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو ایسا پڑھتے سنا ہے ‘‘۔

اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ :

’’ اذا مات احدکم فلا تحبسوہ واسرعوا بہ الی قبرہ ولیقرء عند رأسہ بفاتحۃ البقرۃ وعند رجلیہ بخاتمۃ البقرۃ‘‘ (علامہ بیہقی کہتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث نہیں بلکہ ابن عمر کی اپنی رائے ہے اور علامہ نووی کہتے ہیں کہ حسن سند کے ذریعہ ثابت ہے کہ ابن عمر اسے مستحب سمجھتے تھے، الاذکار:137)

’’جب کوئی مرجائے تو اس کی مٹی کو روکے مت رکھو بلکہ اسے جلد سے جلد قبر تک پہنچا دو اور اس کی قبر کے سرہانے سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتیں اور پائنتی جانب آخری آیتیں پڑھی جائیں ‘‘۔

اور علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:

’’قبر کے پاس تلاوت قرآن میں کوئی حرج نہیں ہے اور امام احمد سے منقول ہے کہ جب تم قبرستان جائو تو آیت الکرسی اور تین مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھو اور کہو کہ اے اللہ اس کا ثواب قبروالوں کو پہنچا دے اور امام احمد سے ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ وہ قبر کے پاس قرآن پڑھنے کو بدعت کہتے ہیں، لیکن انہوں نے اس رائے سے رجوع کر لیا ہے، چنانچہ ایک جماعت نے ان سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک نابینا شخص کو قبر کے پاس قرآن پڑھنے سے روک دیا اور اس سے کہا کہ قبر کے پاس قرآن پڑھنا بدعت ہے، محمد بن قدامہ جوہری نے ان سے کہا ابو عبداللہ ! آپ مبشر حلبی کے بارے میں کیا کہتے ہیں، امام احمد نے کہا لائق اعتماد ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مبشر نے بتایا کہ ان کے والد صاحب نے وصیت کی تھی کہ دفن کے بعد ان کی قبر پر سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیتیں پڑھی جائیں اور انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا کہ انہوں نے اس کی وصیت کی تھی، امام احمد نے کہا واپس جائو اور اس آدمی سے کہو کہ وہ قبر کے پاس تلاوت کر سکتا ہے، اور خلال کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو علی الحسن نے بیان کیا  جوہمارے شیخ اور ثقہ ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل کو اس نابینا کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو قبروں کے پاس بیٹھ کر تلاوت کیا کرتا تھا اور نبی ﷺ سے منقول ہے کہ جو شخص قبرستان جائے اور وہاں سورۂ یٰسین پڑھے تو اس دن قبروالوں کے عذاب میں کمی کردی جائے گی ‘‘۔ (المغنی:2/567)

 ہمیں یہ اعتراف ہے کہ سورۂ فاتحہ، سورہ اخلاص، سورہ تکاثر، سورہ یٰسین پڑھ کر میت کو ثواب پہنچانے سے متعلق روایتیں بلاشبہہ ضعیف بلکہ شدید ضعیف اور ان میں سے بعض موضوع بھی ہیں، لیکن ان سے مجموعی طور پر یہ بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ تلاوتِ قرآن کے ذریعے ایصال ثواب درست ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امام شافعی کے علاوہ دوسرے اماموں کے نزدیک تلاوت قرآن کے ذریعے ایصال ثواب درست ہے، (الاتقان:1/111۔ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ متاخرین شافعیہ قرآن کے ذریعے ایصال ثواب کے قائل ہیں، رد المختار:2/605) اور علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم بھی اسی کے قائل ہیں، (دیکھیے مجموع الفتاویٰ:24/315،کتاب الروح:12) چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:

’’عبادتیں دو طرح کی ہیں، مالی اور بدنی اور حدیث میں مذکور ہے کہ صدقے کا ثواب میت کو ملتا ہے، اس کے ذریعے آنحضور  ﷺ نے بتلایا کہ تمام مالی عبادتوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، اسی طرح سے حدیث میں روزے کا ذکر ہے جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ تمام بدنی عبادتوں کا ثواب میت کو ملتا ہے اور حدیث میں حج کا ذکر کر کے باخبر کیاگیا کہ جو عبادتیں مالی اور بدنی دونوں ہوں ان کا ثواب بھی پہنچتا ہے، لہٰذا تینوں طرح کی عبادتوں کا ثواب پہنچناحدیث اور قیاس سے ثابت ہے ‘‘۔ (فقہ السنۃ: 1/387)

 اسی طرح سے علامہ صنعانی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری وغیرہ کے نزدیک بھی راجح یہی ہے کہ تلاوت قرآن کے ذریعے ایصال ثواب درست ہے، ( فتاوی ثنائیہ:1/536) اور یہی صحیح ہے، چنانچہ عقیدہ طحاویہ کے شارح لکھتے ہیں کہ اجرت کے بغیر قرآن پڑھنے اور اس کے ثواب کو بخش دینے کی وجہ سے وہ میت کو پہنچتا ہے، جیسے کہ حج اور روزے کا ثواب پہنچتا ہے، اگر یہ کہاجائے کہ یہ سلف کے زمانے میں مشہور نہیں تھا اور نہ ہی نبی  ﷺ نے اس کی طرف رہنمائی فرمائی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں اور تلاوت قر آن کے ذریعے ایصال ثواب میں کیا فرق ہے ؟ اور سلف کے نہ کرنے کی وجہ سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ اس کا ثواب نہیں پہنچتا ہے، اگر یہ سوال کیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ، حج اور روزہ کی طرف رہنمائی کی ہے لیکن تلاوت کی طرف نہیں، تو کہاجائے گا کہ آنحضرت ﷺ نے از خود ان کے بارے میں نہیں بتلایا بلکہ آپؐ سے ان کے بارے میں سوال کیاگیا تو آپؐ نے جواب دیا، کسی نے حج کے بارے میں پوچھا اور کسی نے روزہ کے متعلق، توآپؐ نے اس کی اجازت دی لیکن دوسری چیزوں سے منع نہیں فرمایا اور روزہ کے ذریعہ ایصال ثواب میں جو کہ محض نیت کے ساتھ کھانے پینے سے رکنے کانام ہے اور تلاوت و ذکر کے ذریعہ ایصال ثواب میں کیا فرق ہے ؟( شرح عقیدۃ الطحاویۃ:457)

 حاصل یہ ہے کہ کتاب و سنت اور قیاس کے ذریعہ نماز، روزہ اور تلاوت قرآن وغیرہ کے ذریعہ ایصال ثواب درست ہے اور جس طرح سے ایک مومن کی دعا اور استغفار کے ذریعہ دوسرے مومن کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اسی طرح سے بدنی عبادات اور قربانی و صدقہ وغیرہ کے ذریعہ سے بھی میت کوفائدہ ہوسکتا ہے. رہی وہ آیت جس میں کہا گیا ہے کہ کسی انسان کے لیے صرف وہی ہے جسے وہ خود کر ے ’’وان لیس للانسان الا ما سعی‘‘ تو اس کی متعدد تاویل کی گئی ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ آیت میں سعی (کوشش) سے مراد ’’سعی ایمانی ‘‘ ہے یعنی ایک کا ایمان دوسرے غیرمومن کے لیے فائدہ مند نہیں ہوسکتا ہے، چنانچہ یہ آیت گزرچکی ہے کہ :

’’وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ‘‘(سورۃ الطور:21)

’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان لانے میں ان کی پیروی کی تو ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے ‘‘۔

اس آیت میں کہاگیاہے کہ اگر باپ اپنے اخلاص و عمل اور تقویٰ و پرہیزگاری کی وجہ سے جنت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہوں گے تو اگر اولاد عمل میں ان سے کمتر ہوں تو ایمان کی وجہ سے ان کو بھی باپ جیسا درجہ عطا کر دیا جائے گا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کو ایمان کی دولت حاصل ہے تو اس کے لیے دوسرے کا عمل کام آسکتا ہے اور اگر کوئی اس دولت سے محروم ہے تو اس کے لیے دوسرے کا عمل کام نہیں آئے گا، اسی حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :

’’ انہ لوکان مسلما فاعتقم اوتصدقتم اوحججتم عنہ بلغہ ذلک (وفی روایۃ) فلوکان اقر بالتوحید فصمت وتصدقت عنہ نفعہ ذلک‘‘ (ابوداؤد:2/15،البانی نے اس سند کوحسن قرار دیا ہے، احکام الجنائز:218)

’’اگر وہ مسلمان ہوتا پھر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے، صدقہ کرتے یا حج کر تے تو اسے اس کا ثواب پہنچتا (اور ایک روایت میں ہے کہ )اگر وہ وحدانیت کااقرار کر لیتا پھرتم ا س کی طرف سے روزہ رکھتے او ر صدقہ کرتے تو اس کا نفع اسے ملتا ‘‘۔

علاوہ ازیں اسلام قبول کرنا خود اس کا عمل ہے اور ا س عمل کے ذریعے اس نے خود کو جماعت مسلمین میں شامل کرلیاہے اور یہ شمولیت اس بات کے لیے کافی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کی دعا سے فائدہ پہنچے، کیونکہ مومن آ پس میں ایک دوسرے کے دوست، مددگار اور حمایتی ہیں اور اسی کے ساتھ اس نے اپنے حسن سلو ک کے ذریعے بہتوں کو اپنا گرویدہ اور دوست بنایا اور اس کی محبت و الفت کی وجہ سے لوگ اس کے قریب ہوئے اور وفات کے بعد اسے یہ صلہ ملا کہ لوگ اسے اپنے عمل اور محنت کو بخشنے لگے، تو یہ بھی اس کی کوشش کا نتیجہ ہے، نہ وہ دنیا میں اس طرح سے زندگی گزارتا اور نہ اس کے رشتہ دار اور دوست و احباب اس کے ساتھ یہ سلوک کر تے۔

 دوسری تاویل یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں یہ نہیں کہاگیا ہے کہ کوئی کسی کے عمل سے فائدہ نہیں اٹھاسکتابلکہ یہ کہا گیا ہے کہ کوئی دوسرے کے عمل کا مالک نہیں ہوسکتا بلکہ ہرشخص اپنے عمل کا مالک ہے اور اگر کوئی مالک اپنی ملکیت کی چیز دوسرے کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ ( دیکھیے شرح عقیدۃ الطحاویۃ:455)

امام ابن عطیہ نے اسی کو اس طرح سے بیان کیا ہے کہ کسی انسان کو حق کی حیثیت سے جو اجر حاصل ہوگا وہ صرف اس کا عمل ہوگا جسے اس نے خود انجام دیا ہو، اس کے علاوہ دوسر ے کے عمل کا جو ثواب اسے ملے گا وہ اس کا حق نہیں بلکہ محض اللہ کا فضل وکر م ہوگا۔ (دیکھیے تفسیر المحررالوجیز لابن عطیہ: 9/263)

 اور اسی بات کو علامہ قرطبی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

’’ لام الخفض معناھا فی العربیۃ الملک والایجاب فلم یجب للانسان الا ما سعی فاذا تصدق عنہ غیرہ فلایجب لہ شییٔ الا ان اللّٰہ عزوجل یتفضل علیہ بما لایجب لہ‘‘ (الجامع لاحکام القرآن:17/115)

’’عربی زبان میں لام جر ملکیت اور وجوب کے لیے آتا ہے تو کسی انسان کے لیے صرف وہی واجب ہے جس کے لیے وہ خود کوشش کرے اور اگر کوئی دوسرا اپنی خوشی سے اسے بخش دے تو اس کے لیے وہ واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ دے دے جو اس کے لیے واجب نہیں ہے ‘‘۔

واقعہ ہے کہ یہ اور اس طرح کی دیگر آیتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کو بیان کرنا مقصود ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہرایک کو اس کے عمل کاپورا پورا بدلہ عنایت کرے گا اور کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کی جائے گی اور ایسا نہیں ہوگا کہ بلاوجہ ایک کی نیکی کو اٹھاکر دوسرے کو دے دی جائے یا دوسرے کی برائی کو اس کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔

 اسی طرح سے بعض روایتوں میں جو کہا گیا ہے کہ انسان جب مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے ’’اذا مات الانسان انقطع عملہ‘‘(اخرجہ مسلم والبخاری فی الادب المفرد احکام الجنائز:224)

تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کے اپنے عمل کاسلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، رہا دوسرے کا عمل تو وہ عمل کرنے والے کا ہے لیکن اگر وہ دوسرے کو بخش دے تو وہ اس تک پہنچے گا، جیسے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کا قرض ادا کردے تو قرضدا ر بری الذمہ ہوجائے گا۔ ( شرح عقیدۃ الطحاویۃ:456)

 ایصال ثواب کے سلسلے میں یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اس سے صرف دوفائدے حاصل ہوسکتے ہیں، ایک درجات کی بلندی دوسرے صغیرہ گناہوں کی معافی، رہے کبیرہ گناہ تو وہ توبہ کے بغیر اور بندوں کے حقوق تو وہ ادائیگی یا معافی کے بغیرمعاف نہیں ہوں گے اور ان کے لیے ایصال ثواب کچھ مفید نہیں، اس لیے کہ خود اپنے عمل کے ذریعے سے کبیرہ گناہ اور بندوں کے حقوق معاف نہیں ہوسکتے، چنانچہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے :

سوال(3138): جو شخص فوت ہوچکا ہو اور زندگی میں صغائر و کبائر کا مرتکب تھا، اب اگر اس کی اولاد اس کو بے شمار قرآن شریف کے ختم اور دوسرے برکت والے کلاموں کا چند لاکھ پڑھ کر بخشے او رصدقہ وخیرات بہت سا کرے، توکیا اس کے صغائر و کبائر معاف ہوجائیں گے یا صرف صغائر معاف ہوں گے ‘‘۔

الجواب :  درمختار میں ہے ’’وقال عیاض اجمع اھل السنۃ والجماعۃ ان الکبائر لایکفرھا الا التوبۃ ولاقائل بسقوط الدین ولوحقا للّٰہ تعالی کدین صلاۃ وزکاۃ ‘‘

’’قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اہل سنت و جماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ کبیرہ گناہ کے لیے توبہ کے علاوہ کوئی کفارہ نہیں ہے اور کوئی بھی قرض کے ساقط ہونے کا قائل نہیں ہے گر چہ وہ اللہ کا قرض اور حق ہو، جیسے کہ نماز اور زکاۃ‘‘

اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ طاعات و حسنات سے کفارہ صغائر کاہوتا ہے  نہ کہ کبائر کا، کما فی الحدیث‘‘۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند:5/436)

دوسرے یہ کہ ایصال ثواب کے لیے نہ تو کوئی خاص وقت ہے نہ خاص دن اور نہ مخصوص طریقہ، اس لیے ہر شخص جب چاہے ایصال ثواب کرسکتا ہے اور اس کے لیے زبان سے کہنا بھی ضروری نہیں بلکہ کسی نیک عمل کے کرتے وقت یہ نیت کرلینا کافی ہے کہ اس کا ثواب فلاں کو پہنچے، لہٰذ ا ایصال ثواب کے لیے دن اور تاریخ متعین کرلینا درست نہیں ہے، جیسے کہ تیجہ، چالیسواں وغیرہ، یہ سب چیزیں خلاف شریعت اور بدعت ہیں، اسی طرح سے اجرت لے کر ایصال ثواب کرنا خواہ وہ دعوت کی صورت میں ہو درست نہیں ہے، چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں :

’’تلاوت قرآن پر اجرت لینا اور اسے میت کو بخشنا درست نہیں، کیونکہ کسی بھی امام سے اس کی اجازت منقول نہیں ہے اور علماء کہتے ہیں کہ جب کوئی مال کے لیے قرآن پڑھتاہے تو خود اسے کوئی ثواب نہیں ملتا تو وہ میت کو کیا ثواب پہنچائے گا ‘‘۔ (مجموعۃ الرسائل:75)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے