بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

سلسله(2)

مزاح و تفریح سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242

2- انعامی مقابلہ:

    جائز اور پسندیدہ کھیلوں مں ہار جیت کا مقابلہ کرنے اور انعام دینے کی بھی گنجائش ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کروایا اور جیتنے والے کو انعام سے نوازا۔(نیل الاوطار 79/8) خود آپ ﷺ نے  رکانہ کے ساتھ کشتی لڑی۔(حوالہ سابق 92/8) اور حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑمیں مقابلہ کیا۔(ابوداؤد 348/1کتاب الجہاد)، ان  احادیث کے پیش نظر فقہاء کرام متفق ہیں کہ تمام مفید کھیلوں میں بلامعاوضہ مقابلہ جائز

ہے ۔(رد المحتار 258/5)، لیکن عوض کے ساتھ مقابلہ صرف تین چیزوں میں جائز ہے : گھوڑ دوڑ ، تیراندازی اور اونٹ کی دوڑ۔ کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:

    لا سبق الا فی نصل أو خف أو حافر۔(ابوداؤد 348/1، نسائی 124/2)

    انعامی مقابلہ صرف تیر اندازی، گھوڑ دوڑ اور اونٹوں کی دوڑ میں ہے۔

بعض حنفی فقہاء نے اس میں دوڑ کے مقابلے کو بھی شامل کرلیا ہے اور علامہ حصکفی نے خچر اور گدھے کا اضافہ کیا ہے کہ حدیث میں مذکور لفظ "حافر "(کھر والا جانور) ان دونوں پر بھی صادق آتا ہے ۔(رد المحتار 258/5)

    بعض فقہاء کی رائے میں ہر وہ کھیل جو جہاد کے لیے معین و مددگار ہو اس میں انعام مقرر کرنا یا ایسی بازی لگانا جس میں جوا شامل نہ ہو جائز ہے۔(بغیۃ المشتاق /89)،     دلائل کی روشنی میں یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ، اس لیے کہ ہر زمانے کے تقاضے جدا جدا ہیں۔ آپ ﷺ کے عہد مبارک میں عام طور سے یہی تین چیزیں جہاد میں کام آتی تھیں۔ اس لیے آپ نے ان کی اہمیت بتلانے کے لیے بطور خاص ان کا تذکرہ کیا جیساکہ ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:

    الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی۔(مسلم 142/2، ترمذی 139/2، ابوداؤد کتاب الجہاد 340/1)

    سنو! قوت توصرف تیراندازی ہے.سنو ! قوت توصرف تیراندازی ہے۔سنو! قوت تو صرف تیراندازی ہے۔

    اس حدیث میں قوت صرف تیر اندازی کو بتلایا گیا ہے لیکن مقصود قوت و طاقت کو تیر اندازی میں محصور کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتلانا ہے کہ یہ قوت کا ایک عظیم ذریعہ ہے ، اس سے غفلت تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے، اسی طرح مذکورہ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ یہ تین چیزیں جہاد میں کلیدی رول ادا کرتی ہیں، لہٰذا تم اس پر خصوصی توجہ دو یہاں تک کہ اس جذبہ کو بیدار کرنے کے لیے انعام بھی مقرر کیاجاسکتا ہے ۔

  نیز حدیث میں پیدل دوڑنے پر انعامی مقابلہ کا تذکرہ نہیں ہے اس کے باوجود جہاد کے لئے معاون ہونے کی وجہ سے اس میں بھی انعامی مقابلے کو جائز کہا گیا ہے ۔لانہ من اسباب الجہاد فکان مندوبا۔(الدر المختار مع الرد 664/9۔ط زکریا دیوبند)

  اسی طرح سے فقہاء نے کشتی اور فقہی اور علمی مقابلے میں انعام کو جائز قرار دیا ہے چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:

وانما جاز لان فيه حثا على الجهاد و تعلم العلم فان قيام الدين بالجهاد والعلم فجاز فيما يرجع اليهما لا غير۔ (رد المحتار 666/9)

انعامی مقابلہ کی شرطیں:

    انعامی مقابلہ کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں جوا کا عنصر شامل نہ ہو، اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:

    1- کوئی تیسرا شخص جو اس مقابلہ میں شریک نہ ہو وہ اپنی طرف سے انعام دے۔

    2-معاوضہ کی شرط یکطرفہ ہو مثلاً شکیل ،انیس سے کہے کہ آؤ! دوڑ میں مقابلہ کریں، اگر تم جیت جاؤگے تو میں تمہیں دس روپیہ ادا کروں گا، اگر میں جیت گیا تو تمہارے ذمہ کچھ نہیں۔

    3-معاوضہ دو طرفہ ہو مگر فریقین کسی تیسرے شخص کو اپنے ساتھ شریک کرلیں اور یہ شرط ٹھہرے کہ فریقین میں سے جو آگے بڑھ جائے گا دوسرا فریق اسے مثلاً ایک ہزار روپیہ اداکرے گا اور اگریہ تیسرا شخص جیت گیا تو کسی کے ذمہ کچھ نہیں یا یہ کہ تیسرا آدمی جیت جائے تو فریقین مل کر اس کو دو ہزار دیں گے اور ہار جانے کی صورت میں اسے ان دونوں کو کچھ دینا نہ ہو لیکن فریقین میں سے جو آگے بڑھے گا ہارنے والے کے ذمہ اس کو ایک ہزار دینا ضروری ہے۔ اصطلاح میں اس تیسرے شخص کو ’’محلل‘‘ کہتے ہیں ، اس صورت کے جواز کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس تیسرے شخص کا گھوڑا۔ اگر گھوڑوں کی ریس ہو رہی ہو-طاقت و قوت میں ان دونوں کے گھوڑوں کے برابر ہو، اگریہ تیسرا گھوڑا کمزور یا بہت تیز و طرار ہوکہ پیچھے رہ جانا یا جیت جانا یقینی ہو تو اس وقت قمار پیدا ہوجانے کی وجہ سے یہ صورت جائز نہ ہوگی(دیکھئے درمختار مع الرد 285/5، رشیدیہ پاکستان ، مجمع الانھر 550/2) اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا:

    من أدخل فرسا بین فرسین وھو لا یومن ان

یسبق فلیس بقمار وان ادخل فرسا بین فرسین وقد امن ان یسبق فھو قمار(ابوداؤد 348/1، ابن ماجہ /206، مسند احمد 505/2 عن ابی ہریرۃ)

    دو گھوڑوں کے مقابلہ میں اگر تیسرے گھوڑ ے کو بھی شامل کرلیاجائے جس کے آگے بڑھ جانے کا امکان ہو تو یہ قمار نہیں ہے ، اور اگر اس کا ہار جانا یقینی ہوتو یہ قمار ہے۔

    یہ تمام شرطیں معاوضہ سے متعلق تھیں، مقابلہ کے جائز ہونے کے لیے ان کے علاوہ بھی پانچ چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔

    1- معاوضہ کی نوعیت معلوم ہو کہ روپیہ ہے یا کوئی سامان۔

    2- انعام یا بازی پر لگائی جانے والی رقم یا سامان کی مقدار کا علم ہو۔

    3- مسافت یا مدت متعین ہو کہ یہاں سے وہاں تک یا اتنے منٹ تک دوڑنا ہے۔

    4- سواری متعین ہو مثلاً کس گھوڑے کو مقابلہ کے لیے استعمال کیاجائے گا۔

    5- دونوں میں سے ہر ایک کے آگے بڑھ جانے اور جیت جانے کا امکان ہو، اگر کوئی سواری بالکل مریل اور کمزور ہو کہ ہار جانا یقینی ہو تو مقابلہ درست نہیں۔(دیکھئے نیل الاوطار 78/8، شرح منح الجلیل 770/1، حواشی تحفۃ المحتاج39/9)

    6- حنفیہ کے نزدیک یہ ایک جائز معاملہ ہے ۔اور عقد لازم نہیں ہے لہذا ہر فریق کو یک طرفہ طور پر اختیار ہے کہ وہ اس مقابلے سے دست بردار ہوجائے ۔یہاں تک کہ جیتنے کے بعد بھی انعام دینا قانونی طور پر ضروری نہیں ہے  یعنی قاضی اسے اس کی ادائیگی پر مجبور نہیں کرسکتا ہے.البتہ اخلاقی طور پر وعدہ خلافی درست نہیں ہے۔( حتى لو امتنع المغلوب من الدفع لا يجبره القاضي ولا يقضي عليه به۔(رد المحتار  285/5)

    7- ایک ہی مقابلہ میں متعدد لوگوں کے لیے انعام مقرر کیاجاسکتاہے مثلاً اول، دوم ، سوم وغیرہ نیز تمام شرکاء کے لیے بھی کچھ نہ کچھ انعام مقرر کیاجاسکتاہے ۔مگر درجہ بندی کے اعتبار سے انعام میں بھی تفاوت ضروری ہے ، ورنہ مقابلہ کا مقصد حاصل نہ ہوگا۔

    8-اگر متعدد لوگوں کی ایک ہی پوزیشن ہو مثلاً پچاس شرکاء میں سے دس اول آجائیں تو اس وقت اول درجہ کی رقم ان میں برابر تقسیم کردی جائے لیکن اگر تمام شرکاء اول آجائیں تو پھر کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔

    9- دو جماعتوں کے درمیان مقابلہ کا وہی حکم ہے جو دو افراد سے متعلق ہے، علاوہ ازیں درج ذیل شرائط کا لحاظ بھی ضروری ہے۔

    الف-دونوں طرف شرکاء کی تعداد برابر ہو۔

    ب- انتخاب میں قوی اور ضعیف کو ملحوظ رکھاجائے ، ایسا نہ ہو کہ ایک طرف ماہر اور تنو مند جمع ہوجائیں اور دوسری طرف کمزور اور بے کار قسم کے ، انتخاب کے لیے قرعہ اندازی  درست نہیں؛ کیونکہ اس میں امکان ہے کہ ایک طرف اچھے لوگ جمع ہوجائیں اور دوسری طرف بالکل بودے قسم کے لوگ۔

    ج-ایک جماعت کے تمام شرکاء کے درمیان انعام کو برابر تقسیم کیاجائے۔

    10- انفرادی مقابلہ میں یہ شرط لگانا کہ جیتنے والا انعام کو اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے گا لغو اور فاسد ہے ، لیکن اس کی وجہ سے معاملہ پرکوئی اثر نہیں پڑے گا، معاملہ برقرار رہے گا، البتہ جیتنے والے کی مرضی ہے ، چاہے اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے یا نہ کرے۔

    11- مقابلہ کے وقت ایک دوسرے کی سواری کو دھکا دینا، اس کو چھیڑنا درست نہیں۔

    12- دائیں بائیں کھڑا ہونے میں فریقین کے درمیان اختلاف ہوتو قرعہ کے ذریعہ اس کی تعیین کی جائے۔(شرح مہذب 90/15-145)

    13- قبلہ کی طرف نشانہ بازی مکروہ ہے ، اس لیے قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت

میں تختۂ مشق کو نصب کرنا چاہیے۔(رد المحتار 286/5)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے