بوہرہ اسماعیلیہ-ایک تعارف
٭مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
اسلام کی طرف نسبت کرنے والے فرقے بنیادی طور پر چار ہیں : شیعہ ، خوارج ، مرجئہ، معتزلہ ، ان میں سب سے قدیم شیعہ فرقہ ہے ، شیعہ کے معنی مددگار اورحمایتی کے ہیں اور حضرت علیؓ اورحضرت معاویہؓ کے درمیان باہمی کشمکش کے دوران ہر ایک کے حمایتیوں کے لیے شیعہ کا لفظ استعمال کیا گیا ، حضرت علیؓ کے طرف داروں کو شیعانِ علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے ساتھیوں کو شیعانِ معاویہؓ کہا جاتا تھا لیکن یہ گروہ بندی میدانِ جنگ تک محدود تھی ، میدان فکر و نظر میں ان میں باہم کوئی اختلاف نہیں تھا ، یہ ایک سیاسی اور وقتی اختلاف تھا لیکن بعد کے ادوار میں اسے مذھبی اختلاف بناکر دائمی حیثیت دے دی گئی اور ایک فرقہ اس نام سے مشہور ہوا جس کا یہ خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت علیؓ خلافت کے سب سے زیادہ حق دار ہیں اور ان کے بعد ان کی اولاد اور نسل کے لئے یہ حق خاص ہے ،نیز اللہ کے رسول ﷺ نے صراحتاً حضرت علیؓ کی خلافت و امامت کا اعلان فرمایا تھا ، اسی طرح سے ہر امام کے لیے اپنے بعد آنے والے امام کے نام کا اعلان کرنا ضروری ہے ۔
لیکن صراحت کے عقیدے کے باوجود شیعوں میں امامت کے سلسلے میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے اور اسی بنیادی مسئلے کو لے کر ان میں 82 فرقے پیداہوئے ، چنانچہ زیدیہ فرقہ حضرت زید بن علی بن حسین کو امامت کا حق دار مانتا ہے اوردوسرے شیعہ فرقے حضرت باقر کی امامت کے قائل ہیں ، اسماعیلیہ فرقہ حضرت جعفر صادق کے لڑکے حضرت اسماعیل کو امامت کا اصل حقدار سمجھتا ہے اور اثنا عشریہ حضرت موسیٰ کاظم کو اصل امام مانتا ہے ۔
اسماعیلیہ فرقہ:
یہ شیعہ امامیہ سے نکلی ہوئی ایک جماعت ہے جو حضرت جعفر صادق کے سب سے بڑے لڑکے حضرت اسماعیل کی طرف منسوب ہے جو ضابطہ کے مطابق امامت کے اصل حقدار ہیں اور شیعی روایت کے مطابق امام جعفر نے انہیں اس حق کے لیے نامزد بھی کر دیا تھا لیکن چونکہ وہ اپنے والد کی زندگی ہی میں وفات پاگئے ، اس لیے ان کے بعد امامت کے سلسلہ میں اختلاف شروع ہوگیا ،عام شیعہ ان کے بھائی موسیٰ کاظم کو امام ماننے لگے لیکن اسماعیلیہ فرقہ حضرت اسماعیل کی امامت پر ڈٹا رہا اوران کے بعد ان کے لڑکے محمد کو امام مانتا ہے ، یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ شیعی روایات کے مطابق حضرت جعفر کے چار لڑکوں میں سے ہر ایک اپنے متعلق امامت کا دعویدا ر رہا ہے ۔
محمد بن اسماعیل(وفات: 183ھ) دشمنوں کے خوف سے لوگوں کے سامنے نہیں آتے تھے ، اس لیے انہیں مکتوم ( پوشیدہ ) کہا جاتا ہے اور یہ دور مستوری کا دور کہلا تا ہے ، ائمہ مستورین کی تعداد کل چار ہے :
1-۔ محمد بن اسماعیل۔ 2۔عبداللہ بن محمد (وفات: 210ھ ) 3۔احمد بن عبداللہ (وفا ت: 240ھ) 4۔حسین بن احمد (وفات: 268)
حسین کے لڑکے عبداللہ مہدی کے ذریعہ پوشیدگی کا دور ختم ہوا اور ’’ظہور ‘‘ کا زمانہ شروع ہوا جنہوں نے شمالی افریقہ اور مراکش وغیرہ پر حکومت کی اور انہیں کی نسل سے فاطمی حکومت کے فرمانروا پیدا ہوئے ۔
فاطمی حکمراں:
اللہ کے رسول ﷺ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ کی طرف نسبت کرکے یہ خود کو فاطمی کہلا تے ہیں ، شیعوں کے تینوں فرقوں (زیدیہ ، اسماعیلیہ ، اثنا عشریہ )کے امام حضرت فاطمہ کی نسل سے ہیں لیکن اسماعیلیہ فرقہ نے اسے اپنا خصوصی لقب قرار دیا تاکہ دوسرے شیعی فرقوں سے امتیاز رہے ۔
جیسا کہ مذکور ہوا کہ فاطمی حکومت کی بنیاد سب سے پہلے عبداللہ مہدی کے ذریعہ تونس (افریقہ ) میں 297ھ میں رکھی گئی اور ان کے بعد درج ذیل فاطمی خلفاء ہوئے :
1۔ محمد بن عبداللہ (القائم بامر اللہ ) دور حکومت 322-334ھ .
2۔اسماعیل بن محمد (المنصور باللہ ) دور حکومت 334-341ھ.
3۔معد بن اسماعیل (المعزلدین اللہ )دور حکومت 341-365ھ
انہیں کے عہد میں مصر پر 361ھ میں فاطمیوں کا قبضہ ہوا اورایک طویل زمانے تک وہاں ان کی حکومت قائم رہی ، انہیں کے دور میں قاہر ہ شہر آباد کیا گیا اور یہ نام اس نیک فالی میں رکھا گیا کہ عنقریب یہاں سے پور ی دنیا پر قہر و غلبہ حاصل ہو گا اوراسی دور میں ایک مسجد کے طور پر جامع ازہر کی تعمیر ہوئی ۔
4۔نزار بن معد (العزیز باللہ ) دورحکومت 365-386ھ
یہ ایک عالی ظرف ، کشادہ ذہن اور علم دوست انسان تھے ، انہوں نے مختلف علوم و فنون کو پروان چڑھانے میں دلچسپی لی ، ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا ، جہاں دنیا بھر سے کتابیں تلاش کرکے لائی گئیں ، جامع ازہر کو مسجد سے ترقی دے کر یونیورسٹی کی حیثیت دی گئی ، جہاں علوم عقلیہ اور نقلیہ کی تعلیم ہوئی تھی اور اطرافِ عالم سے آنے والے طلباء کے لیے ہاسٹل تعمیر کیے گئے اور ان کے اخیر زمانے میں جامع انور کی بنیاد رکھی گئی جس کی تکمیل سے پہلے ہی وقت مقرر آپہنچا اور ان کے لڑکے حاکم کے ذریعہ یہ مکمل ہوئی اور انہوں نے اس کانام بدل کر جامع حاکم رکھا ، بوہرا داعی محمد بر ہان الدین کے مطالبے پر مصر ی حکومت نے جامع حاکم کی جدید کاری ، تزئین و آرائش اور داخلی انتظام بوہر ہ کے حوالے کر دیا ۔
ان کے عہد میں فاطمی حکمرانوں کے آلِ رسول ہونے پر شک و شبہہ کا اظہار کیا گیا اور اس کی وجہ سے شورش بر پا ہوئی ۔
5۔الحسین المنصور بن نزار (الحاکم بامر اللہ ) دور حکومت 386-411ھ
یہ گیارہ سال کی عمر میں خلیفہ بنایا گیا ، مقریزی کے بیان کے مطابق دماغی خشکی کی وجہ سے اس سے عجیب و غریب حرکات سرزد ہو تے تھے ، اس کے داعی اسے یَا اَحَد’‘، یَا وَاحِد’‘ کہہ کر سلام کرتے تھے ، ایک مرتبہ اس نے قاضی شہر کے حوالے ایک رقعہ کیا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’باسم الحاکم الرحمن الرحیم ‘‘ قاضی نے اس پر شدید نکیر کی اور یہ بات لوگوں میں شہرت پا گئی جس کی وجہ سے بڑافتنہ بر پا ہوا اور بہت سے لو گ مار ے گئے ۔(البوہرہ تاریخھا و عقائدھا/89-90ڈاکٹر رحمت اللہ الاثری ۔بوہرہ فرقے سے متعلق تمام تفصیلات اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔براہ راست ان کی کسی کتاب سے استفادہ نہیں کیاگیاہے)
حاکم کے مصاحبوں میں سے محمد بن اسماعیل درزی نے اس کی الوہیت کا شوشہ چھوڑا اوربہت سے لوگ اس پیروکار ہوگئے، حاکم کی کسی محفل میں ایک ترکی نے جرات کی اور اسے تہہ تیغ کردیا اور اسکے نتیجے میں اسے بھی قید کر کے مار ڈالا گیا ۔ اور بدلے میں مزید ستر لوگ حاکم کے حکم پر شہید کئے گئے۔ اس عقیدے کو جانے والے آج بھی بیروت اور سیریا وغیرہ میں موجود ہیں جو حاکم کو معبود مانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ وہ اس وقت بھی باحیات ہے وہ جلد ہی وہ ظاہر ہوگا ۔محمد بن اسماعیل درزی کی طرف نسبت کرکے اس فرقے کو دروزی کہا جاتاہے ۔
طرح طرح کے دعوا اور خرافات اور بلاوجہ قتل وغارت گری کی وجہ سے ملکی نظام شکت و ریخت کا شکار ہوگیا اور انتشار و خلفشار اور خانہ جنگی کے دوران اچانک حاکم کے غائب ہونے کے خبر مشہور ہوئیاور جو لوگ اس کی الوہیت کے قائل تھے انھوں نے شہرت دی کہ اسے آسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور دوبارہ وہ دنیا میں آئے گا۔اور حقیقت پسند مورخین کہتے ہیں کہ اسے قتل کردیا گیا جسے اس کی بہن نے حسین بن دواس کے ساتھ مل کر انجام دیا۔
6۔علی بن حسین (الظاہر لاعزاز دین اللہ ) دور حکومت 411-427ھ.
سولہ سال کی عمر میں اسے خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی ، یہ اپنے باپ سے بھی دوقدم آگے نکلا ، چنانچہ مقریزی لکھتے ہیں کہ 418ھ میں ظاہر نے خود شراب پی اور دوسروں کو بھی کھلی چھوٹ دے دی ، یہ شراب ، ناچ اور گانے کا رسیا تھا ، ناچ اور گانے والی عورتوں کی ایک پوری ٹیم اس کے ساتھ رہتی ۔(المقریزی 129/2)
7۔سعد بن علی (المستنصر باللہ ) دور حکومت 427-487ھ
427ھ میں ظاہر کی وفات کے بعد سات سال کی عمر میں اسے خلیفہ منتخب کیا گیا اور اس سے بھی پاگلوں اور مجنونوں جیسی حرکتیں سرزد ہو تی تھیں ، یہاں تک کہ اسے مستنصر مجنوں کہا جانے لگا ، دین اور شعائر دین کا مذاق اڑایا کرتا تھا ، حج کے زمانے میں عورتوں اور خادموں کے ساتھ ایک تفریح گاہ میں چلا جاتا اور لباس بدل لیتا اور استہزاء کے لیے حاجیوں جیسی صورت بنا لیتا اور پانی کی جگہ شراب کے مٹکے ہوتے اور دس دنوں تک یہ دور چلتا ، جس کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی پھیل گئی ، حکومت نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی یہاں تک کہ امیر الجیوش بدر جمالی نے آکر صورت حال کی اصلاح کی ، نظم و ضبط قائم کیا اور فاطمی حکومت کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا ، مستنصر کی حکومت برائے نام تھی ، 487ھ میں زہر خورانی کی وجہ سے اس کی وفات ہوئی ۔
8۔ احمد بن سعد (المستعلی باللہ ) دور حکومت 487-495ھ.
مستنصر کے تین لڑکوں میں سے سب سے بڑے کانام نزار ، درمیانی کانام عبداللہ اور سب سے چھوٹے کا نام احمد تھا ، اصول و ضابطہ اور حسن بن صباح کی روایت کے مطابق مستنصر نے اپنے بعد اپنے بڑے لڑکے نزار کو خلیفہ نامزد کیا تھا لیکن اس کے وزیر افضل بن بدر جمالی کو یہ گوارا نہیں تھا ، وہ سب سے چھوٹے لڑکے مستعلی کو امام بنا نا چاہتا تھا کیونکہ وہ اس کا بھانجا تھا اس لیے اس نے نزا ر کو قید میں ڈال دیا اور ہر طرف سے اس کی دیواروں کو بند کردیا جس میں دم گھٹنے سے اس کی وفات ہو گئی ۔
لیکن حسن بن صباح خود مستنصر کی زبانی نزار کی خلافت کے متعلق سن چکا تھا اس لیے وہ اسی کا وفادار رہا اور مصر کی فاطمی حکومت سے بغاوت کرکے ایک الگ سلطنت کی بنیاد رکھی جو ایک لمبے عرصے تک باقی رہی یہاں تک کہ ہلاکو خاں کے ذریعہ اس کا خاتمہ ہوا لیکن یہ فرقہ آج بھی آغاخانی اورخوجہ کے نام سے موجود ہے اور نزارہی کو اصل امام مانتا ہے ۔
9۔ المنصور بن احمد (الآمر باحکام اللہ ) دور حکومت 495-525ھ
مستعلی کی وفات کے وقت اس کے لڑکے آمر کی عمر پانچ سال تھی ، اس نے اپنے وزیر افضل جمالی کو اس کا نگراں بنایا جو مستعلی کے دور میں بھی اصل حکمراں تھا اور اس بچے کے بہانے اس نے مکمل آزادی کے ساتھ حکومت کی ، آمر اس کے اشارے کا پابند تھا ، افضل کو نزاریوں نے 524ھ میں دھوکے سے قتل کر دیا اورآمر نے بھی ان نزاریوں سے اپنی جان کا خطرہ محسوس کیا اور اس نے اپنے بعد اپنے لڑکے طیب کو امامت و خلافت کے لیے نامزد کر کے اسے چھپا دیا اور حکومت اپنے بھتیجے حافظ کے حوالے کر دیا لیکن اسے جس بات کا اندیشہ تھا وہ ہو کر رہا ، 525ھ میں نزاریوں نے اسے بھی قتل کر ڈالا۔
اس کے بعد مصر پر تین فاطمی خلفاء نے حکومت کی ، آخر ی خلیفہ عاضد کی حکومت صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ختم ہوئی ۔
بوہرہ:
اسماعیلیہ مستعلیہ کو بوہرہ بھی کہا جاتاہے ، جو مستعلی اوراس کے بعد اس کے لڑکے آمر اور اس کے لڑکے طیب کو اپنا امام مانتے ہیں ، اس لیے وہ خود کو طیبہ بھی کہتے ہیں ، اس کے ماننے والوں نے سیاست سے کنارہ کشی کرکے تجارت کو اپنا پیشہ بنایا اوراسی مقصد سے ہندوستان آئے اور یہاں انہیں بوہرہ کہا جانے لگا ، یہ گجراتی لفظ ہے جس کے معنی تاجر کے ہیں ، جن ہندوستانیوں نے ان کی کوششوں سے اسلام قبول کیا انہیں بھی یہی لقب مل گیا ، اس وقت اس لقب سے جو لوگ متعارف ہیں ان میں کچھ سنی ہیں اور کچھ اسماعیلی شیعہ .
525ھ میں امام طیب بھی روپوش ہوگئے اوراسی حالت میں ان کی وفات ہوئی ، البتہ بوہرہ عقیدہ کے مطابق آج تک ان کی نسل سے امام ہوتے رہتے ہیں اور قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے اور قیامت کے وقت جو آخر ی امام ہوں گے انہیں ’’قائم القیامۃ‘‘ کہا جاتا ہے ، اس مستوری اورپوشیدگی کے دور میں داعی کے ذریعہ ان کا کام انجام پائے گا جنہیں داعی مطلق اور نائب کہا جاتا ہے ، انہیں امام کے تمام اختیار ات حاصل ہوتے ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ امام معصوم ہوتا ہے اور یہ معصوم نہیں ہوتے ، ان سے غلطی ہو سکتی ہے ، واضح رہے کہ جتنے فاطمی خلفاء گزرے ہیں وہ سب بوہرہ کے عقیدہ کے مطابق معصوم اور گناہوں سے پاک و صاف تھے ، اسی طرح سے داعی کو حد نافذ کرنے اور جمعہ و عیدین قائم کرنے اور اس میں خطبہ دینے کا حق نہیں ہے ، اسی لیے بوہر ہ کے یہاں جمعہ میں خطبہ نہیں ہے نیزامام کا سلسلہ نسلی ہے لیکن داعی کا سلسلہ نسلی نہیں ہے یعنی باپ کے بعد بیٹے کا داعی ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے خاندان کا لائق شخص داعی ہوسکتا ہے ۔
ہندوستان میں بوہر ہ داعی سب سے پہلے 270ھ میں گجرات آئے اور ان کی کوششوں سے یہاں کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد اسلام سے شرف یاب ہوئی اوران میں دن بدن اضافہ ہی ہوتارہا ، یہاں تک کہ جب ان کی اچھی خاصی تعداد ہو گئی تو 946ھ میں مرکز کو یمن سے ہندوستان منتقل کر دیا گیا ۔
بوہر ہ کے دو بڑے فرقے ہیں :
1۔ بوہرہ داؤدیہ : جو قطب شاہ داؤد کی طرف منسوب ہے اوران کے ماننے والے ہندوپاک میں پائے جاتے ہیں ۔
2۔ بوہرہ سلیمانیہ : جو سلیمان بن حسن کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں اوریمنی بوہرہ کا تعلق انہیں سے ہے ۔
عقائد و افکار:
1۔امامت وخلافت:
اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان سب سے بنیادی اختلاف ، امامت و خلافت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے بعد امامت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے کسی کو شخصی طور پراپنے بعد خلیفہ نامزد نہیں کیا بلکہ اسے آپؐ نے امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا اور امت نے اتفاقی طور پر آپؐ کے بعد حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب کیا ، اس لیے وہی پہلے خلیفۂ برحق ہیں ، شیعوں میں سے زیدیہ فرقے کا نظریہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے شخصی طور پر نہیں البتہ صفاتی طور پر خلیفہ کی تعیین کی تھی اور وہ تمام صفات حضرت علیؓ پر منطبق ہوتی ہیں لیکن یہ صفات خلافت کی صحت کے لیے شرط نہیں تھی اس لیے حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ وغیرہ کی خلافت بھی درست ہے ، اس کے برخلاف اثنا عشری اور اسماعیلی ( بوہرہ) اوردوسرے شیعی فرقے اس بات کے قائل ہیں ،خلافت حضرت علیؓ اوران کے بعدان کی نسل کے ساتھ خاص ہے اور رسول اللہ ﷺ کا یہ فرض منصبی تھا کہ وہ اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو شخصی طور پر منتخب کردیں اور آپ ﷺ نے اس فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور غدیرخم نامی جگہ پر صحابہ کرامؓ کے ایک بڑے مجمع میں صراحتاً حضرت علیؓ کی خلافت کا اعلان فرمایا ، اسی طرح سے ہر امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے امام کی شخصی طور پر تعیین کر ے ، اس طرح سے شخصی تعیین کے ذریعہ دنیا میں کل بارہ امام آئے ، آخر ی امام محمد حسن عسکری 329ھ میں روپوش ہو گئے اور قیامت کے قریب دوبارہ ظاہر ہو ں گے ، ان لوگوں کو موسویہ یا اثنا عشریہ کہا جاتا ہے ، بوہرہ کے یہاں اماموں کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں آخر ی معلوم امام طیب ہیں اوران کے بعد جو امام ان کی نسل سے پیدا ہورہے ہیں ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔
امام کاسلسلہ چونکہ نسلی ہے ا س لیے بوہرہ کہتے ہیں کہ امامت کاسلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہو کر ایک ہی نسل میں منتقل ہوتے ہوئے حضرت ابو طالب تک پہنچا جو اپنے وقت کے امام تھے اور ان کے بعد حضرت علیؓ امامت کے حقیقی وارث تھے لیکن اس دور میں بعض حالات کی وجہ سے ایک رسول کی ضرورت تھی ، اس لیے مرتبۂ رسالت پر آنحضرت ﷺ کو فائز کیا گیا اور حضرت ابوطالب نے مرتبہ امامت بطور امانت آپؐ کے حوالے کی کہ آپؐ اپنے بعد یہ حق حضرت علیؓ کو سونپ دیں کہ وہی امام مستقل ہیں ۔(ہمارا اسماعیلی مذھب/330.از زاہد علی بوہرہ)
زاہد علی بوہرہ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے بعض اسماعیلی اساتذہ سے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی حیثیت قاصد اور امام مستودع کی تھی (امام مستودع و ہ ہے جسے وقتی طورپر کسی عارض کی وجہ سے یہ منصب دیا گیا تاکہ وقت آنے پر وہ اسے حقیقی اور مستقل امام کے حوالے کردے )یعنی آپ ﷺ کو رسول صرف اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ حضرت علیؓ کی ولایت و خلافت سے لوگوں کو باخبر کر دیں ، چنانچہ قرآن کی اس آیت کی تاویل میں وہ کہا کرتے تھے ’’ ٰٓیاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ‘‘(المائدہ:67)کہ علی کی ولایت کے سلسلہ میں جو چیزیں آپ پر نازل ہوئی ہیں اسے لوگوں تک پہنچا دیجیے۔(حوالہ مذکور/75)
یہ کہنے کی ضرورت اس لیے ہوئی کہ ا ن کے عقیدے کے مطابق بعد میں آنے والے امام کا سابق امام کی نسل سے ہونا ضروری ہے جس کا لازمی تقاضا ہے کہ حضرت ابوطالب کو ’’اما م مستقل ‘‘ مانا جا ئے اوران کے بعد ان کے لڑکے حضرت علیؓ کو اور درمیان میں آنحضرت ﷺ کی حیثیت ’’امام مستودع ‘‘کی رہے ۔
اس کے برخلاف ان کی بعض معتبر کتابوں میں جناب ابو طالب کو گمراہ، بے عقل اور سجدہ کی تحقیر کرنے والا بتا یا گیا ہے ۔(حوالہ مذکور 65-66.شرح الاخبار 20/2)
امامت و خلافت کے سلسلہ میں اس خیال کی وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے شخصی طورپر حضرت علیؓ کو نامزد کیا تھا ، یہ سوال پیدا ہوگا کہ پھر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی خلافت کی کیاحیثیت رہ جائے گی ؟جواب لازمی اوریقینی طور پر یہ ہوگا کہ ان کی خلافت غاصبانہ ہے اور جن لوگوں نے انہیں خلیفہ بنا یا ہے وہ اللہ کے سولؐ کے باغی اوران سے کیے ہوئے عہد کو توڑنے کے مجرم ہیں ۔
لیکن پھر سوال ہو گا کہ حضرت علیؓ کے طرز عمل کی کیا توجیہ ہوگی ؟ وہ مکمل طور پر ان خلفا ء کے وفادار اور مخلص رہے ، جو اب یہ ہو گاکہ وہ جبر و دباؤ اور جان کے خوف سے بطور ’’تقیہ‘‘ ایسا کرتے رہے۔
ایک آخری سوال ذہن میں آئے گا کہ امامت و خلافت کے سلسلہ میں جب شخصی طور پر تعیین ضروری ہے تو پھر قرآن اس سلسلہ میں خاموش کیوں ہے ؟ جواب یہ ہے کہ موجودہ قرآن اصل قرآن نہیں ہے بلکہ نامکمل اورناقص ہے ۔
ان جوابات سے صحابہ کرام کی شخصیت کے متعلق جو مختلف اعتراضات پیدا ہوں گے، حضرت علیؓ کے اخلاق و کردار پر جو حرف آئے گا اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ محفوظ کتاب کے متعلق جو شکوک پیدا ہوں گے انہیں ختم کر نا بڑا مشکل ہو گا ۔
اس لیے ضرورت ہے کہ اس پر غور کیا جائے کہ کیا کتاب و سنت اوراہل تشیع کے قابل اعتماد روایتوں میں خلافت کے لیے شخصی طور پر تعیین کی صراحت ہے یا نہیں ، مشہور شیعہ عالم دین علامہ موسیٰ موسوی کی مانیں تو اس کا جواب نہیں میں ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں ہماری کتابوں میں اس وقت داخل کی گئیں جب کہ بارہویں امام غائب ہو چکے تھے اور صحیح و غلط جاننے کے لیے ان سے ربط کاذریعہ نہیں رہا ، ان کے دلائل یہ ہیں:
۱۔ حضرت علیؓ سے متعدد ایسے اقوال منقول ہیں جس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ ان کی خلافت سے متعلق اللہ کی طرف سے کوئی صراحت نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کا دارو مدار شوریٰ پر ہے ، یہی رائے حضرت علیؓ کے ساتھیوں کی بھی تھی اور تین صدیوں تک ان کے ماننے والے اسی کے قائل تھے ، چنانچہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں :
’’میر ی بیعت انہیں لوگوں نے کی ہے جنہوں نے حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور جن باتوں پر ان کے ہاتھ پر بیعت کی انہیں باتوں پر میرے ہاتھ پر بھی بیعت کی ، لہٰذا کسی موجود شخص کو اب کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ ہی غیر موجود کو، رد کردینے کا حق شوریٰ مہاجرین اور انصار کا ہے ، اگر یہ لو گ کسی پر اتفاق کر لیں اور اسے امام مقرر کرلیں تو اسی میں اللہ کی خوشنودی ہے ، اب اگر کوئی شخص اس معاملہ میں کسی الزام یا بدعت کی وجہ سے نکلنا چاہتا ہے تو اسے واپس لانے کی کوشش کی جائے گی لیکن اگر وہ آنے سے انکار کر دے تو مومنین کے راستے کے بر عکس راستہ اپنانے کی وجہ سے اس سے جنگ کی جائے گی ۔(نہج البلاغہ 7/3.الشیعہ و التصحیح 19-20)
مجھے میرے حال پر چھوڑ دور اور (خلافت کے لیے ) کسی اور کو تلاش کرلو … جان لو کہ اگر میں تمہاری دعوت قبول کرلیتا ہوں تو جن باتوں کو میں صحیح سمجھتا ہوں ان پر تم سے عمل کراؤں گا اور پھر کسی کہنے والے کی بات اور کسی ناراض ہونے والے کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کروں گا اور اگر تم نے مجھے چھوڑدیا تو میں تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں گا اور جسے تم امیر بنالوگے تم سے زیادہ اس کی اطاعت کروں گا ، میں تمہارے لیے امیر کے مقابلہ میں وزیر زیادہ بہتر ثابت ہوں گا ۔‘‘(نہج البلاغہ 182/1الشیعہ والتصحیح/33)
حضرت علیؓ وضاحت و صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ وہ خلافت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ، انہوں نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ ان کے خلافت کے سلسلہ میں کوئی حکم الٰہی نازل ہوا ہے جس کی لوگوں نے خلاف ورزی کی ہے ۔
’’خدا کی قسم نہ تو مجھے خلافت میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ حکمرانی کی کوئی خواہش لیکن تم لوگوں نے مجھے اس کی دعوت دی اور مجبور کیا ۔(نہج البلاغہ 184/2)
وہ بار بار صاف لفظوں میں یہ بیان کرتے ہیں کہ خلافت کانظام شورائی ہے اور جب اہل شوریٰ کسی کو منتخب کر لیں تو دوسرے کو اعتراض اور اختیار کا حق باقی نہیں رہ جاتا ہے :
’’میر ی زندگی کی قسم! اگر خلافت کے لیے یہ شرط ہو کہ تمام لو گ بیعت کرلیں تو پھر کبھی خلافت منعقد ہی نہیں ہوسکتی ہے بلکہ جو لو گ اس کے اہل ہیں وہ ان کی طرف سے بھی فیصلہ کریں گے جو غائب ہیں ، پھر جو اس وقت موجود ہوگا اسے رجوع کرنے اور جو غائب ہو گا اسے دوسرے کو منتخب کرنے کا حق نہ ہوگا ۔(نہج البلاغہ 186/2)
2۔ خلفاء راشدین کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا طرز عمل :
حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد وہ انہیں ان الفاظ میں خراج عقید ت پیش کرتے ہیں :
’’ابوبکر! اللہ آپ پر رحمت نازل کرے ، آپ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ، سب سے مخلص ایمان والے ، سب سے پختہ و قوی یقین رکھنے والے ، سب سے زیادہ مالدار اور سب سے زیادہ اللہ کے رسول کی اطاعت کرنے والے تھے اور اخلاق و کردار ، فضلیت و ہدایت اور راست روی میں اللہ کے رسول ﷺ کے سب سے زیادہ قریب تھے ، اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام ، رسول ﷺ اور تمام مسلمانوں کی طرف سے بہتر بدلہ عنایت کرے ۔‘‘(الشیعہ و التصحیح/47)
حضرت عمرؓ کے متعلق فرماتے ہیں :
’’انہوں نے لوگوں میں موجود کجی کو سیدھا کیا ، بیماری کا علاج کیا ، فتنہ کو ختم کیا اور سنت کو قائم کیا ، وہ دنیا سے پاک دامن اور کم عیب رخصت ہوئے ، خلافت کی اچھائیوں کو حاصل کیا اور اس کی برائیوں سے دور رہے اور مکمل طورپر اللہ کی اطاعت کی اور اس کے حق کو ادا کیا ۔(نہج البلاغہ 222/2)
رومیوں سے جہادکے لیے حضرت عمرؓ بذات خود شریک ہونا چاہتے تھے لیکن حضرت علیؓ نے انہیں اس سے باز رکھا اور ایک درد مندانہ اور مخلصانہ مشورہ دیا ، اس طرح کی رائے کوئی ایسا شخص نہیں دے سکتا ہے جو اندر سے کسی کا مخالف ہو ، انہوں نے فرمایا :
’’اگر آپ خود دشمن سے لڑنے گئے اور شکست سے دوچار ہوگئے تو مسلمان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہ جائے گی ، لہٰذا ان کے لیے کسی تجربہ کار شخص کو بھیجئے اور اس کے ساتھ ایسے لوگوں کو کر دیجیے جو جنگ کی سختیوں کو جھیل سکیں اور مخلص و خیر خواہ ہوں پھر اگر اللہ نے انہیں فتح سے ہم کنار کیا تو یہی آپ کا مقصد ہے اور اگر دوسری صورت پیش آئی تو آپ کی ذات مسلمانوں کے لیے بدستور پناہ گاہ اور مددگار رہے گی ۔‘‘(نہج البلاغہ 28/2۔ اور 30/2)
3۔ خلفاء راشدین کے سلسلہ میں اہل بیت اور ائمہ کا طرز عمل :
حضرت علیؓ جب ابن ملجم کی زہر آلود تلوار سے زخمی ہو گئے اور شہادت یقینی ہو گئی تو اس موقع پر آپ کے بعد خلیفہ کے سلسلہ میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا :
’’اترککم کما ترککم رسول اللّٰہ ﷺ میں تمہیں اسی طرح چھوڑے جارہا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺ اپنی امت کو چھوڑ گئے تھے ۔‘(الشیعہ و التصحیح/45)
حضرت علیؓ کی وفات کے بعد مسلمانوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا لیکن انہوں نے حضرت معاویہؓ سے صلح کر لی اور خلافت سے دست بردار ہو گئے اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ اس صلح کے ذریعہ مسلمانوں کی باہمی خوںریزی سے بچا جاسکتا ہے ، سوال یہ ہے کہ اگر خلافت اللہ کی طرف سے نامزد چیز ہوتی تو کیا خوں ریزی سے بچنے کے لیے اس سے دست بردار ہونے کی گنجائش ہے جب کہ سب کو یہ معلوم ہے کہ اللہ کے حکم کو نافذکرنے کی راہ میں خوں ریزی روکنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے ورنہ پھر دین و شریعت کے دفاع کے لیے جہاد کرنے کا کیا مطلب رہ جائے گا ؟
اسی طرح سے حضرت حسینؓ نے جب یزید بن معاویہ کے خلاف علم انقلاب بلند کیا اور اپنی اور اپنے ساتھیوں اوراولاد کی جان کربلا کے میدان میں جان آفریں کے حوالے کر دی لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ چونکہ آسمانی حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اس لیے وہ علم انقلاب بلند کررہے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ بس یہ کہتے رہے کہ وہ خلافت کے سلسلہ میں یزید سے بہتر اور زیادہ حق رکھتے ہیں ۔
اور انھوں نے بھی میدان کربلا میں خلافت کے دعوے سے دست بردار ہونے کی پیش کش کی تھی ۔اور کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو تاکہ اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دوں۔
اسی طرح سے امام علی بن حسین کے اقوال میں بھی کوئی ایسی عبارت نہیں ملتی جس سے خلافت کے نامزد ہونے کا پتہ چلتا ہو ، ایسے ہی امام باقر کے دور میں بھی جس میں اہل بیت کا فقہی نقطہ نظر نمایاں ہونا شروع ہو گیاتھا اور جسے ان کے فرزند حضرت امام جعفر صادق نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ، ان دونوں اماموں کے عہد میں بھی خلافت کے لئے تعیین کا تصور نہیں ملتا اور حضرت جعفر صادق حضرت ابوبکر صدیق سے اپنی عقیدت اور تعلق کا اظہار ان الفاظ میں کیا کرتے تھے :
’’اولدنی ابوبکرمرتین۔
ابوبکر سے میرا دوہر ا نسبی رشتہ ہے ۔‘‘
اور وہ اس طرح سے کہ امام جعفر صادق کی والدہ فاطمہ بنت قاسم بن ابوبکر ہیں اور آپ کی نانی اسماء بنت عبدالرحمن بن ابو بکر ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ شیعی راویوں نے انہیں امام سے جو اپنے نانا پر فخر کیا کرتے تھے ایسی روایتیں منسوب کی ہیں جن میں اسی نانا پر شدید نکتہ چینی کی گئی ہے ، کیا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ایک طرف تو وہ ان پرفخر کریں اور دوسری طرف ان پر لعن طعن کریں ، اس طرح کی بات کوئی جاہل اور بازاری شخص تو کر سکتا ہے لیکن اپنے زمانے کے سب سے بڑے فقیہ اور پر ہیز گار کی زبان سے اس طرح کی بات نہیں نکل سکتی ہے. (الشیعہ و التصحیح/45-46)
اور جعفر بن منصور جنہیں اسماعیلیہ جماعت میں صاحب التاویل کا درجہ حاصل ہے ، کہتے ہیں :
’’کانا امامین عادلین ماتا علی الحق.
حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ عادل خلیفہ تھے اور حق پر ان کی موت ہوئی ہے ۔‘‘(اسماعیلی عقائد/31.البوہرہ/193)
خلافت اور خلفاء راشدین کے سلسلہ میں حضرت علیؓ اورائمہ اہل بیت کے بہت سے اقوال اور طرز عمل کو دیکھنے کے بعد کیا یہ کہنے کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ خلافت و امامت کے سلسلہ میں اللہ کی طرف سے ناموں کی صراحت ہوتی ہے اور اگر ناموں کی صراحت ہو اور پہلے خلیفہ کے طور حضرت علیؓ کو نامز د کیا گیاہو تو کیاحضرت علیؓ کے لیے یہ ممکن ہوتا وہ اس نامزدگی کو نظرانداز کرکے دوسروں کے ہاتھ پر بیعت کریں اور ان کے ساتھ بہترتعلقات رکھیں ۔
شیعہ علماء نے ان کے طرز عمل کی توجیہ یہ کی ہے کی انہوں نے دوسروں کے ہاتھوں پر اس اندیشہ کی وجہ سے بیعت کی کہ اسلام کو نقصان نہ پہنچے اور تفرقہ نہ پیدا ہو جو اسلام کے ڈھانے کا سبب بن جائے ، دوسری وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنی جان کے سلسلہ میں خطرہ تھا ، اس لیے جان بچانے کے لیے بطور ’’تقیہ ‘‘ ایسا کیا ۔
سوال یہ ہے کہ خلافت و امامت کے سلسلہ میں اگر اللہ کی طرف سے صراحت اور تعیین ہوتی تو کیا کسی کے لیے یہ روا ہوتا کہ بعض مصلحتوں کی وجہ سے اس کی خلاف ورزی کرے ، حالانکہ یہ بات کسی کے بس میں نہیں ہے کہ وہ کسی آسمانی حکم پر عمل درآمد کو روک دے ، اللہ کے رسول ﷺ کو مکی عہد میں جب آپ ہر طرف سے خطرات سے گھرے ہوئے تھے ، بے لاگ و لپٹ فرمان خداوندی کو پہنچانے کاحکم دیا گیا ۔
اس لیے اگر خلافت کی تعیین کے سلسلہ میں کوئی آسمانی حکم ہوتا تو کسی کے لیے درست نہ ہوتا کہ وہ اس کی خلاف ورزی کرے یا اس سے تجاہل بر تے اورانکار کرے ، اس طرح کا تصور حضرت علیؓ اور صحابہ کرام کی کردار کشی ہے ، اس لیے کہ اس کے ذریعہ ان کی یہ تصویر بنتی ہے کہ خلافت اللہ کی طرف سے متعین طور پر حضرت علیؓ کو سوپنی گئی لیکن سارے صحابہ نے جان بوجھ کر اس کی مخالفت کی اور حضرت علیؓ نے اصل حقدار ہونے کے باوجود دو رخا رویہ اپنایا ، وہ پچیس بر س تک تین خلفاء کے ساتھ بظاہر رواداری اور مخلصانہ بر تاؤ کرتے رہے ، یہاں تک کہ اپنی صاحبزادی ام کلثومؓ کو حضرت عمرؓ کی زوجیت میں دے دیا ، اپنے صاحبزادوں کے نام حضرت ابوبکرؓ و عمر ؓاور عثمانؓ کے نام پر رکھے لیکن جو کچھ آپ کہہ رہے تھے اور کر رہے تھے دل سے اس کے قائل نہیں تھے ۔
کیا یہ بات ایسی ہستی کے متعلق کہی جاسکتی ہے جو اپنے متعلق خود یہ کہے :
’’اللہ کی قسم اگر مجھے ہـفت اقلیم کی دولت اس شرط پر دی جائے کہ میں کسی چیونٹی سے جو کا دانہ چھین کر اللہ کی نافرمانی کروں تو میں ایسا نہیں کرسکتا ، تمہاری دنیا کی حیثیت میرے نزدیک اس پتے سے بھی کمتر ہے جسے ٹڈی اپنے منہ میں لے کر چباتی ہے ۔‘‘(نہج البلاغہ 218/2)
’’اللہ کی قسم ابو طالب کا بیٹا موت سے اس سے زیادہ مانوس ہے جتنا ایک دودھ پینے والا بچہ پستانِ مادر سے ہوتا ہے ۔‘‘(حوالہ مذکور 140/1)
نیز آپ فرماتے ہیں :
’’میری اور رسول اللہ ﷺ کی حیثیت ایسی ہے جیسے ایک جڑ سے نکلنے والی دو شاخیں یا دست و بازو ، اللہ کی قسم اگر سارا عرب میرے خلاف جنگ کے لیے اکٹھا ہوجائے تو بھی میں پیٹھ نہیں پھیروں گا ۔(حوالہ مذکور 220/2)
کیا اس یادگار و شاندار موقف رکھنے والے جلیل القدر امام اور ان کے فرزندان عالی مقام کے متعلق یہ سوچا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی جان کے خوف سے خلفا مء کے ساتھ تعاون کیا ، صحیح جواب یہ ہے کہ شیعی روایات کے مطابق زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت علیؓ اپنے آپ کو خلافت کا زیادہ اہل سمجھتے تھے یا وہ امامت کے زیادہ حقدار تھے لیکن جب صحابہ کرام نے اتفاقی طور پر حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تو انہوں نے ان کی خلافت کو صحیح سمجھا ، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ خلیفہ کا انتخاب شوریٰ کے ذریعہ ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں کوئی آسمانی حکم کسی متعین شخص کے لیے نہیں ہے اور زندگی بھر ان کے ساتھ ایک دیانت دار مشیر اور مخلص دوست کی طرح رہے ۔
2۔عصمت ائمہ:
تمام شیعوں کے نزدیک اما م وقت ہر طرح کے گناہ سے پاک و صاف اور معصوم ہوتا ہے اور اسماعیلیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امام بظاہر کسی معصیت کا ارتکاب کرے تو وہ اس کے حق میں سرے سے معصیت ہی نہیں ہے کیونکہ وہ ظاہری شریعت کاپابند نہیں ہوتا ہے ، چنانچہ حضرت جعفر صادق کے لڑکے اسماعیل کے متعلق انہیں اعتراف ہے کہ وہ شراب نوشی کیا کرتے تھے لیکن وہ روحانیت کے جس اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے وہاں تک پہنچ جانے والا شریعت کا پابند نہیں ہوتا ہے ۔(تاریخ فاطمیین مصر41/1)
اسی طرح سے متعدد فاطمی حکمرانوں کے متعلق ان کی مستند اور قابل اعتماد کتابوں میں ان کی شراب نوشی اور احکام شریعت کی خلاف ورزی بلکہ کھلے عام مذاق اڑانا مذکور ہے جو اپنے وقت کے امام اور معصوم تھے ۔
3۔ ائمہ اور علم غیب:
موسوی اور اسماعیلی (بوہرہ ) دونوں فرقے اس پر متفق ہیں کہ ائمہ علم غیب رکھتے ہیں اور وہ کائنات کے ذرے ذرے سے واقف ہیں لیکن بعض محقق بوہرہ علماء اس سے اختلاف رکھتے ہیں چنانچہ قاضی نعمان لکھتے ہیں :
’’ہم ان باتوں کے قائل نہیں ہیں جو غالی ، گمراہ اور باطل پر ست اور اولیاء اللہ سے روکنے والے اور ائمہ کی امامت سے انکار کرنے والے کہتے ہیں ، جو یہ گمان کرتے ہیں کہ ائمہ غیب کی باتوں کو جانتے ہیں اور دلوں میں پوشیدہ باتوں سے باخبر ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس علم کے سلسلہ میں منفرد ہیں اورکسی کو اس سے آگاہ نہیں کرتے مگر اپنے پسندیدہ رسولوں کو ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
’’قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘(سورہ النمل:65)
کہہ دو کہ اللہ کے سوا زمین و آسمان میں رہنے والی کوئی بھی چیز غیب نہیں جانتی ہے ۔‘‘(کتاب الھمۃ فی آداب اتباع الائمہ۔البوہرہ/135)
4۔تحریف قرآن:
کرمانی کہتا ہے :
’’قرآن کو حضرت علیؓ نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد جمع کیا تھا اور اسے لوگوں کے سامنے پیش کیا لیکن لوگوں نے ضد اور ہٹ دھرمی اور دشمنی میں اسے قبو ل نہیں کیا اور کہنے لگے کہ جو قرآن ہمارے پاس ہے وہ کافی ہے ، حضرت علیؓ اپنا قرآن لے کر یہ کہتے ہوئے واپس ہوگئے کہ اب اسے صرف امام قائم قیامت ہی کھول سکتا ہے ۔(اساس التاویل 71/2 از سیدنا حمید الدین۔اسماعیلی مذھب /7)
جعفر بن منصور اوراس کے والد کو اسماعیلی دعوت کے موسسین میں شمار کیاجاتا ہے ، یہ خلیفہ معز کے باب الابواب تھا اوراسے امام اصغر کا لقب ملا تھااور قاضی نعمان اپنی جلالت شان کے با وجود اس کے غلاموں میں شمار ہوتے ہیں ، اس بلند و بالا حیثیت کے مالک شخص کا کہنا ہے:
’’جس طرح سے یہودیوں اور نصرانیوں نے اللہ کی کتاب توریت اور انجیل کو پس پشت ڈال دیا ، اسی طرح سے مسلمانوں نے بھی کتب الٰہی قرآن کے ساتھ یہی کیا اور اپنی رائے اورا پنے قیاس سے ایک دوسری کتاب تیار کر لی ، حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے خود قرآن کو جمع کیا اور بطور امانت سب کے سامنے اپنے وصی کے حوالے کیا لیکن لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اور اس سے اعراض کرکے ایک نیا قرآن تیار کر لیا اور جب تیسرے خلیفہ آئے تو انہوں نے پہلے دو خلفاء کے جمع کیے ہوئے قرآن کو جلا دیا اورایک نیا نسخہ لے کر آئے اورحجاج نے اسے بھی آگ کے حوالے کر دیا اوراپنی خواہش کے مطابق ایک قرآن تیار کیا جو اس وقت ان لوگوں کے پاس ہے ۔(اسرار النطقاء/106-107)
اسماعیلی (بوہرہ)اور موسوی دونوں فرقوں کے یہاں اس طرح کی چیزیں ملتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ قرآن اصل قرآن نہیں ہے بلکہ ناقص اور تحریف شدہ ہے ، البتہ دونوں فرقوں میں ایک بڑی تعداد پہلے لوگوں میں سے اور بعد کے لوگوں میں سے تقریباً تما م ہی لوگ موجودہ قرآن کو اصل اور مکمل قرآن مانتے ہیں اور تحریف قرآن کے نظریہ کی شدت سے تردید کرتے ہیں ۔
5۔ تا ویل:
تحریف قرآن کا عقیدہ امامت کے سلسلہ میں عقیدہ تعیین کے لوازمات میں سے ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اہل تشیع کے بیشتر فرقوں میں یہ نظریہ کسی نہ کسی حدتک ضرور موجود ہے ، البتہ کسی بھی دور میں اسے رواج اورقبول عام حاصل نہیں ہوا لیکن تاویل کے راستے سے اس ضرورت کی تکمیل کر لی گئی ہے اوراس تاویل کو بوہرہ فرقہ اہل بیت کے معجزات میں شمار کر تا ہے اور ائمہ کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرتا ہے جو لغت ، کلام عرب ، سیاق وسباق کے بالکل مخالف ہے ، درج ذیل آتیوں کی تاویل ملاحظہ ہو :
’’فاذا فرغت فانصب‘‘یہ آیت صاد کے کسرہ کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب آپؐ اقامت فرائض سے فارغ ہو جائیں تو حضرت علیؓ کو لوگوں کے لیے متعین کر دیجیے۔
’’ولن نشرک بربنا احدا‘‘یعنی علیؓ کے ساتھ ان کے مرتبہ میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ۔
اور کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ کی تاویل ہے ’’لاالٰہ الا امام الزمان‘‘۔(اسماعیلی مذہب/401)
6۔ تقیہ:
بوہر ہ فرقہ میں اپنے عقیدہ و نظریہ کو چھپانے اور دوسرے لوگوں سے بیان نہ کرنے کا زبردست رجحان پایا جاتا ہے ، مقریزی کے بیان کے مطابق جو بوہر ہ فرقہ کے نزدیک ایک عادل مؤرخ ہے ، ان کے عہد نامہ کی ایک دفعہ یہ ہے کہ امام، ان کے بھائیوں ، ساتھیوں اوراہل بیت کے متعلق جو کچھ تم نے سنا ہے یا آئندہ سنوگے جوتم جانتے ہو یا آئندہ جانو گے اسے دوسروں سے پوشیدہ رکھو گے بلکہ دوسرے لوگوں سے اپنے عقیدہ کے برخلاف ظاہر کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ کارثواب ہے ،جسے وہ ’’تقیہ ‘‘کہتے ہیں ، چنانچہ حضرت جعفر صادق کی طرف یہ منسوب ہے کہ :
’’التقیۃ دینی ودین اٰبائی و اجدادی من لا تقیۃ لا دین لہ‘‘
’’تقیہ میرے باپ دادا کا دین ہے او ر جو تقیہ نہ کرے وہ بے دین ہے ۔‘‘
لیکن اہل بیت کی روشن سیرت ان کے اس عقیدے کی نفی کرتی ہے ، خصوصاً حضرت حسینؓ کی میدان کربلا میں شہادت اور جاں فروشی کے بے مثال شاہکار میں اس عقیدہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، اگر تقیہ کی کوئی حقیقت ہوتی تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے ضرورتاً اسے اپناتے اور یزید اور اس کے لشکریوں کی مخالفت مول نہ لیتے بلکہ بظاہر یزید کے ہاتھ پر بیعت کرکے اپنی اور اپنے خاندان کی جان کو بچا لیتے ۔
7۔ رسم و رواج :
شادی : عام مسلمانوں میں شادی بیاہ کا جو طریقہ رائج ہے ، بوہر ہ فرقہ بھی اس پر عمل پیرا ہے ، البتہ نکاح سے پہلے عہد نامہ کی تجدید ضروری ہے ، نیز وہی نکاح صحیح مانا جائے گا جو داعی مطلق یا اس کی طرف سے اجازت یافتہ کسی شخص کے ذریعہ انجام پائے ، اس کے بغیر جو نکاح ہو گا وہ باطل ہوگا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نسل غیر ثابت النسب ہو گی ۔
صدقہ و خیرات اور ٹیکس : بوہر ہ فرقہ میں کل دس طرح کے مال مذہبی پیشوا کے حوالے کیے جاتے ہیں ۔
کلینڈر: اس فرقہ کا تجارتی اور مالی سال دیوالی سے شروع ہوتا ہے اور ا س موقع پر مذہبی پیشوا کے ذریعہ دوکانوں میں برکت کے لیے بسم اللہ لکھا جاتا ہے اور ’’تسلیم ‘‘ کے نام سے نذرانہ وصول کیاجاتا ہے ، روزہ اور عید وغیرہ کے لیے وہ ہجری کلینڈر کا استعمال کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں فاطمی تقویم پر اعتماد کرتے ہیں جس کا دارو مدار چاند دیکھنے پر نہیں ہے بلکہ فلکی حساب پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ عام طور پر عید وغیرہ ایک دو دن پہلے کرتے ہیں ۔
کفن دفن : کفن دفن کا نظام عام مسلمانوں کی طرح ہے ، البتہ قبر میں وہ عہد نامہ ضرور رکھتے ہیں ۔
٭٭٭