تحیۃ المسجد :
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
’’تحیہ ‘‘ کے معنی سلامی کے ہیں، گویا یہ نماز بارگاہ خداوندی میں حاضر ہونے کے بعد بطور سلامی پڑھی جاتی ہے، یہ مسجد کے آداب اور تعظیم میں داخل ہے اور مسجد کا حق اس سے متعلق ہے ۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: مسجدوں کا حق ادا کرو. (اعطوا المساجد حقھا ) صحابہ نے عرض کیا کہ مسجد کا کیا حق ہے؟ ارشاد ہوا: بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنا۔( رواہ الاثرم باسناد جید .اعلاء السنن 33/7)) ایک دوسری حدیث میں ہے :
اذادخل احدکم المسجد فلا یجلس حتی یصلی رکعتین۔
جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دورکعت نماز پڑھنے سے پہلے نہ بیٹھے (رواہ الجماعۃ۔ نیل الاوطار 67/3)
اس نماز کو مسجد میں داخل ہوکر بیٹھنے سے پہلے پڑھنا چاہئیے، تاہم تھوڑی دیر بیٹھ کر پڑھنے پر بھی تحیۃ المسجد ادا ہوجائے گی۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر مسجد میں داخل ہوئے اور تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھ گئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا تم نے دو رکعت پڑھی ؟ انھوں نے عرض کیا: نہیں ۔فرمایا:اٹھو اور انھیں پڑھو۔
(حدیث ابی ذر انہ دخل المسجد فقال النبی ا رکعت رکعتین قال لا قال قم فارکعھما۔إعلاء السنن 33/7) گرچہ یہ عمل کراہت تنزیہی سے خالی نہیں۔( مراقی الفلاح معہ حاشیۃ الطحطاوی 261 ۔) لیکن وقفہ طویل ہوجائے تو پھر تحیۃ المسجد کا وقت ختم ہوجائے گا اور اس نماز کی قضا نہیں ہے۔(ولوطال الفصل فاتت ولا یشرع قضا ھابالاتفاق) (المجموع 53/4)
ہر وہ نماز جو مسجد میں داخل ہونے کے بعد پڑھی جائے وہ تحیۃ المسجد کی جگہ لے لے گی گو اس کی نیت نہ ہو لیکن ثواب کے حصول کے لئے نیت ضروری ہے کہ نیت کے بغیر تحیۃ المسجد کا ثواب نہیں ملے گا۔(ردالمحتار۔502/1)
مسجد میں ٹہرنا نہ ہو صرف گذرنا مقصود ہو جب بھی تحیۃ المسجد مسنون ہے۔(البحر الرائق 35/2 الفقہ علی المذاہب 334/1) لیکن اگر وضو نہ ہو یا وضو ہو مگر مشغولیت کی وجہ سے جلدی گذرنا ہویا مکروہ وقت ہوتو چار مرتبہ سبحان اللہ الحمد اللہ والا الہ الا اللہ واللہ اکبر پڑھ لینا چاہئیے۔
یوں تو بہتر ہے کہ جب بھی مسجد میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد پڑھے۔ لیکن پریشانی اور دشواری ہو تو ہر دن ایک مرتبہ پڑھ لینا کافی ہے ۔(حاشیہ طحطاری ؍ 260 الدرالمختار مع الرد 502/1)
تحیۃ المسجد مسنون ہے، امام نووی نے سنت ہونے پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے ۔(وھی سنت باجماع المسلمین۔ حاشیہ نووی علی مسلم 248/1)