تعارف جامعہ

جہالت ایک طرح کی تاریکی ہے ،جو اپنے ساتھ ہزاروں خرابیاں لے کر آتی ہے،جس میں سے ہر ایک برائی سے نبرد آزما ہونےکیلئے ایک طویل مدت درکار ہے،پھر بھی کامیابی کی  کوئی گارنٹی نہیں،علاج صرف ایک  ہے ،علم کی شمع جلائی جائے،روشنی ہوتے ہی جہالت کی تمام برائیاں رفوچکر ہوجائیں گی۔یہی وجہ ہے کہ جب مکہ میں اسلام کا آفتاب عالمتاب طلوع ہوا تو سب سے پہلے پڑھنے اور لکھنے کا تذکرہ کیا گیا:(اِقرأ باسم ربک الذی خلق ، خلق الأنسان من علق، اِقرأ   و  ربک الأکرم ،  الذی علم بالقلم)

حالانکہ اس وقت عربوں میں بہت سی ایسی خرابیاں تھیں جنہیں ختم کرنے کی سب سے پہلے ضرورت تھی ،پوری قوم اختلاف و انتشار کا شکار تھی ، شرک و بت پرستی اپنے انتہا ء کو پہونچی ہوئی تھی،ظلم و جور کی حکمرانی تھی اور حیوانیت اور درندگی اپنے عروج پر تھی ، بے حیائی اور بے شرمی کا چلن تھا، غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلی وحی میں ان برائیوں میں سے کسی کا ذکر نہیں، بلکہ اس کی جگہ پڑھنے لکھنے کا تذکرہ ہے ، ایسا اس لئے کہ جہالت کی کوکھ سے تمام شرور  و  فتن جنم لیتے ہیں ، اور علم ہی وہ سرچشمہ ہے جہاں سے تمام اچھائیاں پھوٹتی ہیں ،اس لئے سب سے پہلے علم کی ضرورت ہے ،کہ کسی سماج میں جب علم کا سورج طلوع ہوگا تو وہ جہالت کو اور اس سے پنپنے والی خرابیوں کو جلاکر خاکستر کردے گا،کسی بھی سماج اور معاشرہ کی تشکیل میں تعلیم کا بنیاد ی کردار ہوتا ہےکیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے کمزور اور ناسمجھ بچے بیس سال کی مدت میں کمزورترین اور بے اثر سطح سے نکل کرمعاشرہ کے مؤثر ترین سطح پر آجاتے ہیں اور سماج کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔

اس وقت تعلیم و تربیت کے حوالہ سے  مسلمانوں کو دو طرح کی یلغار کا سامنا ہے، ایک یہ کہ ذرائع ابلاغ اور وسائل تعلیم کے ذریعہ ننگے پن، فحاشی ، مذہب بیزاری اور مفاد پرستی کو فروغ دیاجارہاہےاور اپنی روشن تاریخ اور بے مثال تہذیب و تمدن سےناواقف مسلمان بچے نادانی کی وجہ سے اسکا شکار ہورہے ہیں،اور اسلامی افکار و اقدار کے تئیں احساس کمتری میں گرفتار ہورہے ہیں ،

دوسرے یہ کہ حکومت مشرکانہ رسوم  و رواج کو پورے ملک پر مسلط کرنے کے خبط میں بری طرح مبتلاء ہے،اور ہندو میتھالوجی کو برقرار اور بہتر قرار دینے کیلئے کوشاں ہے،ستم ظریفی کی انتہاء یہ ہے کہ مسلمانوں کے زیرانتظام چلنے والے اداروں میں بھی وہی کتابیں داخل ِنصاب ہیں جن میں اسلام دشمنی اثرات نمایاں ہیں ،           اکبر مرحوم نے بڑے کرب اور حسرت کے ساتھ کہاتھا:

ہم سمجھتے تھے کہ لائیگی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئیگا الحاد بھی ساتھ

لیکن اب تعلیم کے ساتھ الحاد کےآنے کی خبر بالکل عام ہوچکی ہے ،اس لئے ضرورت ہے کہ والدین بچوں کو دینی تعلیم پر بھر پور توجہ دیں ،اور اسی مقٓصد کے تحت ہمارے بزرگوں نے دینی مکاتب ومدارس قائم کئے ہیں جن میں سے ایک نمایاں نام ’’ مدرسہ انوارالعلوم فتح پور تال نرجا ‘‘ کا ہے،جس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے،جسے حضرت مولانا عبد القیوم صاحب فتحپوری علیہ الرحمہ (مجاز صحبت حضرت تھانوی اور مجازبیعت حضرت مصلح الامت) نے قائم کیا تھا۔

حضرت مولانا اعجاز صاحب اعظمی علیہ الرحمہ اس مدرسہ کے قیام کے بارے میں رقم طراز ہیں: حضرت مولاناعبد القیوم صاحب نے تعلیم مکمل کرنے کےبعد دس بارہ سال بارہ بنکی میں خدمت کی ،پھر اللہ کو منظور ہوا کہ فیض کےاس سرچشمہ سے وطن اور قرب وجوار کے لوگ مستفید ہوں ،حالات کچھ ایسے پیدا ہوئے کہ مولانا کو گھر پر ٹہرنا ضروری ہوگیا ،

۵۳-۱۹۵۲ء کے لگ بھگ آپنے گھر رہنے کا فیصلہ کیا ،اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت اقدس حضرت تھانوی کے حکم سے ،حضرت مصلح الأمت نے جب فتحپور میں کام کرنے اور قیام کرنے کا ارادہ کیا تو تھانہ بھون سے حضرت بارہ بنکی تشریف لائے اور حضرت مولانا عبد القیوم صاحب سے فرمایاکہ میر ارادہ فتحپور میں رہنے اور کام کرنے کا ہے ،میں چاہتاہوں کہ آپ بھی ساتھ چلیں ،آپ وہاں مدرسہ چلائیں اور میں اپنا کام کروں گا ،حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب بے تأمل اور بغیرعذر کے آمادہ ہوگئے۔ )تذکرہ  حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب/۲۵)

یہی مدرسہ انوارالعلوم کے نام سے موسوم ہوا اور جسے ان کے صاحبزادے عالی قدرجناب مولانا قاری ولی اللہ صاحب برداللہ مضجعہ (خلیفہ مرشدالأمت حضرت مولاناعبدالحلیم صاحب) نے تعلیم وتربیت کے حوالہ سے ایک الگ شناخت دی اور قرب وجوار میں حفظ کی تعلیم کے تعلق سے ایک بہترین مرکز کی حیثیت سے معروف ہوا ،اور اب شدید ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ دینی وعصری تعلیم کے سلسلے میں بھی وہ اپنا مطلوبہ کردار ادا کرے کیونکہ اس قت قرب وجوار میں موجود مدارس سرکاری امداد یافتہ ہیں اور تعلیم وتربیت کے اعتبار سے ان کی جو حالت ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے ،

چنانچہ روضۃ الأطفال اور پرائمری کے ساتھ عالمیت اور افتاء کی تعلیم بھی شروع کردی گئی ہے ،جس میں دینیات کے ساتھ عصری علوم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔