تعارفی رپورٹ (2023-1444)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تعارفی رپورٹ (2023-1444)

پیش کش: انعام الحق قاسمی

جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ،مئو، یوپی

الحمد للہ رب العٰلمین و الصلوٰۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین ، اما بعد

سب سے پہلے میں اپنی طرف سے ، ادارہ کی طرف سے اور دیگر تمام منتظمین کی طرف سے باہر سے آنے والے تمام مہمانان عظام کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنی تمام ترمصروفیات کے باوجود ہماری دعوت پر لبیک کہتے ہوئے یہاں تشریف لائے اور پروگرام میں شریک ہوکر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی، اور ہم سب اُ س رب کریم کا شکریہ اد اکرتے ہیں جس نے ہمیں اس بابرکت مجلس کو سجانے کا موقع عنایت فرمایا ، لیکن یہ پُر رونق مجلس ، مسجد و مدرسہ کی یہ عظیم الشان عمارت ، یہاں کی تعلیم و تربیت اور یہاں پر اللہ اور اس کے رسول کے نام کی صداؤں کا بلند ہونا وہ بھی ایک چھوٹی سی پسماندہ بستی میں۔ مزید براں اِس بستی کے جنگلی علاقہ میں اتنے قیمتی و سنہرے مواقع کا میسر ہوجانا خود بخود نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بڑی قربانیاں ہیں جس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے تو آئیے میں آپ کے سامنے اس ادارہ کے قیام اور موجودہ نظام ِتعلیم و تربیت کے حوالے سے اختصاراً تعارفی خاکہ پیش کرتا ہوں ۔

حضرت مولانا اعجاز صاحب اعظمی علیہ الرحمہ جامعہ کے قیام کے بارے میں رقم طراز ہیں : حضرت مولانا عبد القیوم صاحب ؒ فتح پوری(مُجاز صحبت حضرت تھانوی اور مجاز بیعت حضرت مصلح الامت ) نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دس بارہ سال بارہ بنکی میں خدمت کی ، پھر اللہ کو منظور ہوا کہ فیض کے اس سرچشمہ سے وطن اور قرب و جوار کے لوگ مستفید ہوں ، حالات کچھ ایسے پیدا ہوئے کہ مولانا کو گھر پر ٹھہرنا ضروری ہوگیا ، 53-1952 کے لگ بھگ آپنے گھر رہنے کا فیصلہ کیا ، اِ س کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے حکم سے حضرت مصلح الامت ؒ نے جب فتح پور میں کام کرنے اور قیام کرنے کا ارادہ کیا تو تھانہ بھون سے حضرت مصلح الامت بارہ بنکی تشریف لائے اور مولانا عبدالقیوم صاحب ؒ سے فرمایا کہ میرا ارادہ فتح پور میں کام کرنے اور رہنے کا ہے ، میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی ساتھ چلیں ، آپ وہاں مدرسہ چلائیں اور میں اپنا کام کروں گا ، حضرت مولانا عبد القیوم صاحب ؒ بے تامل اور بغیر عذر کے آمادہ ہوگئے ۔

چنانچہ مولانا عبد القیوم صاحب ؒ عرصہ دراز تک اس آبادی میں بیٹھ کر حفظ قرآن شریف اور متوسطات تک کی خدمات انجام دیتے رہے ، بعد ازاں اِس بستی کے کچھ سربراہ حضرات کے باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ یہاں ایک ادارہ حضرت مولانا عبد القیوم صاحب ؒ کی یادگار میں قائم کیاجائے ، چنانچہ 7/رجب المرجب 1415ھ مطابق 11/ دسمبر 1994ء کو الحاج مولانا قاری ولی اللہ صاحب ؒ ( خلیفہ مرشد الامت حضرت مولانا عبد الحلیم صاحبؒ ) کے مبارک ہاتھوں اس جامعہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ، مولانا قاری ولی اللہ صاحب ؒ نے اس ادارہ کو تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک الگ شناخت دی اور قرب و جوار میں حفظ کی تعلیم کے تعلق سے ایک بہترین مرکز کی حیثیت سے معروف و مشہور ہوا ۔

حضرت کی روحانی برکت کا یہ نتیجہ نکلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس ادارہ نے تعلیم و تربیت کے میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا ، اس کی تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں کو دیکھ کر اطرف و جوانب کےطلبہ کا رجحان دن بدن بڑھتا گیا چنانچہ امسال کم و بیش 150 طلبہ زیر تعلیم تھے جن میں تقریباً 100 ایسے ہیں جن کی مکمل کفالت خود جامعہ کر رہا ہے ، اور بحمد اللہ تعالیٰ ہر سال طلبہ کی ایک بڑی تعدادحفظ مکمل کر رہی ہے ،اس سال فارغین حفظ کی تعداد 13/ہے،طلبہ کی اتنی بڑی تعداد اس سے پہلے کبھی فارغ نہیں ہوئی تھی،اور ان 13/میں سے 6/فارغین صرف فتح پور کے ہیں ،اور فارغین افتاء کی تعداد 5/ہے ،اور اس سال دو طلبہ بہت کم مدت میں حفظ قرآن کی دولت سے سرفراز ہوئے ہیں ،چنانچہ محمد سلمان سکریاں نے 7/ماہ 19/دن میں اور حسان مجید نے 7/ماہ 28/دن میں حفظ مکمل کیا اور اعلان کے مطابق دو سال سے کم مدت میں حفظ مکمل کرنے والوں کو سائیکل یا اس کی قیمت انعام میں دی جائے گی، اس طرح اب تک کل195 /طلبہ حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوچکے ہیں ۔

جامعہ انوار العلوم کے حفاظ و قراء کی ایک بڑی تعداد اطراف و جوانب غازیپور ،بلیا ، مئو ، کوپاگنج ،پورہ معروف، ادری ، گھوسی ، کاری ساتھ ،ندوہ سرائے،حمید پور وغیرہ میں موجود ہے اور فتح پور کی تمام مساجد میں انوار العلوم ہی کے حفاظ تراویح سناتے ہیں ۔

جامعہ کے تعلیمی وتربیتی شعبے

(1) شعبہ پرائمری

(2) شعبہ تحفیظ القرآن

(3) شعبہ تجوید و قراءت ( نیز آن لائن تجوید و قراءت کا ایک شعبہ جامعہ ہذا کی نگرانی میں قطر سے چلایا جارہا ہے ۔

(4) شعبہ عالمیت : اللہ کے فضل و کرم سے شعبہ عربی (اعدادیہ تا عربی پنجم ) منظم طور پر قائم ہے ، امسال اعدادیہ تا عربی سوم تعلیم جاری رہی ، عربی درجات میں طلبہ کو جدید علوم سے آشنا کرنے کے لئے کمپیوٹر اور انگلش کو شامل نصاب کیا گیا ہے ۔

(5) شعبہ افتاء: بفضلہ تعالیٰ گذشتہ سال (حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم العالیہ کے ایماء کے مطابق )شعبہ افتاء کا قیام عمل میں آیا جو ایک کہنہ مشق ، تجربہ کار ، ماہراور کامیاب استاذ ( حضرت مولانا ومفتی ولی اللہ مجید قاسمی صاحب ) کی نگرانی میں رواں دواں ہے ، جس میں رواں سال ملک کے بڑے تعلیمی ادارے کےپانچ فضلاء کرام نے داخلہ لے کر مفتی کاکورس مکمل کیا جنہیں آج دستار ِ افتاء سے نوازا جائے گا ، اس طرح کل فارغین افتاء کی تعداد 10/ ہے ۔

شعبہ افتاء : خصوصیات وامتیازات

اللہ کے فضل و کرم سے شعبہ افتاء صرف دو سال کی قلیل مدت میں اپنی متنوع خصوصیات کی بناء پر علمی حلقوں میں کافی معروف ومشہور ہوا اوردیار مشرق میں اہل علم کی توجہ کا مرکز اور اولین ترجیح بن گیا۔

چند خصوصیات درج ذیل ہیں :

خصوصیت(۱) روزانہ طلبہ کو دو سے تین تمرینات حل کرنے کا پابند بنایا جاتا ہے ،امسال کل 453/مسائل کی مشق کرائی گئی ۔تمرینات کے حل میں اصل مصادر و مراجع کی عربی کتابوں سے مسائل اخذ کرنا لازمی ہوتاہےتاکہ طلبہ کی استعداد میں استحکام اوران کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو، البتہ اردو کتب فتاوٰی کوخارجی مطالعہ میں ضرور رکھا گیا ہے۔

خصوصیت(2) ہر ہفتہ مختلف موضوعات پر ماہرین فن کے ذریعے محاضرے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

خصوصیت(3) ہر دو ہفتے میں ایک مقالہ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے ۔

خصوصیت(4)سال کے آخر میں ہر طالب علم کوکم سے کم 50/صفحات پر مشتمل ایک مقالہ لکھنا ضروری ہے ۔ اس سال مندرجہ ذیل موضوعات پر مقالے لکھے گئے :

(1)تعویذ گنڈے کی شرعی حیثیت: محمد صفوان اعظمی (2) کھیل کود اور اس کے احکام: مجیب الرحمٰن کبیر نگری

(3) فسخ و تفریق کے احکام : محمد طارق اعظمی (4) خواتین کی ملازمت کا شرعی حکم : محمد اسعد اعظمی

(5) اسلام کا نظام وراثت:حبیب الرحمٰن گھوسوی

(6) شعبہ نشر و اشاعت

(7) شعبہ تقریر و تحریر : اس شعبہ کے تحت انجمن ” بزم ولی اللّٰہی ” کا ہفتہ واری پروگرام منعقد کیا جاتا ہے جس میں طلبہ اپنی تقریری صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں ، اور تحریری صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لئے طلبہ کرام سہ ماہی جداریہ پرچہ آویزاں کرتے ہیں ، نیز طلبہ کے مطالعہ کے لئے کتابوں کا بڑا ذخیرہ ایک خوبصورت لائبریری کی شکل میں موجود ہے ۔

(8) شعبہ دعوت و تبلیغ:

(9) شعبہ کمپیوٹر : اس شعبہ کے تحت افتاءوعربی درجات کے طلبہ کو بیسک کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی ہے ، اس شعبہ کو چلانے کے لئے تین کمپیوٹر سسٹم موجود ہیں جو طلبہ کی تعداد کے حسا ب سے ناکافی ہیں ، مزید کمپیوٹر کی ضرورت ہے ، اہل خیر حضرات اس طرف خصوصی توجہ دیں ۔

کارہائے نمایاں

(1)رواں سال حضرت قاری محبوب اللہ صاحب (ناظم اعلیٰ) اور حضرت مولانا محمد سالم ندوی صاحب (نائب ناظم اعلیٰ) کی خصوصی توجہ اور بعض مخیرین حضرات کے خصوصی تعاون سے چند ایک بڑےکام انجام پائے ، جن میں سےایک بڑا کام یہ ہے کہ 25/سال بعد پہلی مرتبہ جامعہ کی اس مسجد کی مرمت کے ساتھ پلاسٹک پینٹ کرایا گیا جس کے لیے کل 290744/روپئے کا خرچہ آیا ، جو اللہ کے فضل و کرم اور اہل خیر حضرات کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا ۔ فجزاھم اللہ جزاء وفاقا ۔

(2)اسی طرح جامعہ کے تحتانی منزل کےتمام کمروں کی مرمت اور پینٹ کا کام(سوائے لائبریری ومطبخ کے)مکمل ہوگیا ہے ، اور آئندہ سال باقی ماندہ حصوں کی مرمت اور پینٹ کا کام توکلاً علی اللہ اہل خیر حضرات کے تعاون کی امید پر شروع کردیا جائے گا ، اور کسی بھی عمارت کے استحکام اور لانگ لائف کے لیے مرمت ضروری ہے اس لیے تمام لوگوں سے اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی گذارش ہے ۔

(3)تیسرا ہم کام یہ ہوا کہ لائبریری کی کتابوں میں وافر مقدار میں اضافے کیے گئے ، صرف اس سال تقریباً 235000/روپئے کی کتابیں خریدی گئیں ۔

اس موقع پر بے ساختہ ڈاکٹر انعام قاری عبد السلام خان صاحب کانام یاد آگیا جنہیں کتابوں سے خصوصی لگاؤ اور شغف اور جن کا تفسیری کتابوں کابڑا گہرا مطالعہ ہے ، ان سے جب بھی کسی کتاب کی فراہمی کے لیےکہا گیا فوراً وہ تیار ہوگئے ۔

شعبہ افتاء میں الحمد للہ فقہی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے اور ابھی حدیث اور شروح حدیث کی ضرورت محسوس ہورہی ہے جس پر تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار کا خرچ آئے گا ، اہل ذوق سے اس صدقہ جاریہ میں حصہ لینے کی درخواست ہے۔

(4)جونپور کے ایک صاحب خیر کےذریعہ تقریباً پچاس ہزار روپئے قیمت کی عمدہ قالین فراہم کی گئی ، ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کے اہل وعیال کو صحت و عافیت سے رکھے اور ان کی تجارت میں برکت عطا فرمائے آمین۔

معزز سامعین کرام !

امسال جامعہ میں دو بڑے سانحے پیش آئے ، پہلا سانحہ ماسڑ غلام صابر صاحب کی وفات ہے جو ایک عابد شب زندہ دار تھے ،سردی ہو یا گرمی ہر موسم میں تین بجے شب میں اٹھ کر پابندی کے ساتھ تہجد پڑھا کرتے اور ذکر و دعا میں مشغول رہتے ، ان کی وفات جامعہ کے لیے بڑا خسارہ ہے ، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور متعلقین کو صبر جمیل اور اجر جزیل اور ادارہ کو نعم البدل عطا فرمائے ۔

دوسرا حادثہ محترم جناب علیم الدین عرف مگن کے بیٹے محمد مامون کی وفات ہے جن کا جامعہ سے بڑا گہرا تعلق تھا، اور ان کے دادا حافظ عبد الحمید صاحب جامعہ کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے ، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور متعلقین کو صبر جمیل اور اجر جزیل عطا کرے ۔

آج یہ ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، محض اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے ، لیکن اسباب کے درجے میں محسن فتح پور مولانا محمد عثمان صاحب ؒ اور مصلح الامت کے فیض کا نتیجہ اور مولانا عبد القیوم صاحبؒ کے اخلاص وللہیت کی برکت اور محسن قوم و ملت حضرت مولانا قاری ولی اللہ صاحب ؒ کی جد وجہد اور دعا ء نیم شبی کا ثمرہ ، اور سرپرست اعلیٰ مولانا عبد الرحیم صاحب مظاہری دامت برکاتہم العالمیہ کی خصوصی توجہ کا اثر ہے ۔

آخر میں ہم ناظم جامعہ حضرت قاری محبوب اللہ صاحب اور نائب ناظم جامعہ مولانا محمد سالم ندوی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جن کی تگ و دو اور محنتوں اور دعا ء نیم شبی و توجہات سے آج جامعہ دن بدن ترقی پذیر اور مُلک و ملت کی خدمات میں ممکن حد تک اپنا فریضہ نبھانے کے لئے کوشاں ہے ۔

جزاکم اللہ خیراً واحسن الجزاء