بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(36)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

36-اظہار غم کے لئے خاموش رہنا:

مصیبت و تکلیف کے وقت دل پر چوٹ لگنا اور غم زدہ ہوجانا بلکہ آنسو چھلک جانا ایک طبعی چیز ہے اور گھبراہٹ کا شکار ہوجانا ،رونا چلانا اور کپڑے پھاڑنا جوانمردی  اور صبر و عزیمت کے خلاف ہے ،ارشاد ربانی ہے:
وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ.الَّذِیۡنَ اِذَاۤ  اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ  ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ.اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ .
اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ “ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے .یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں۔( سورہ البقرۃ: 155-157)
اگر کوئی مسلمان غم و حزن سے دوچار ہو یا اس پہ کوئی مصیبت آپڑے تو اسے یہ کہنا چاہیے:
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ اؤْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا.
یقینا ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور بلا شبہ ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اے اللہ! مجھے میری اس مصیبت میں اجر دے اور مجھے اس کے بدلے اس سے بہتر عطا فرما۔
حدیث میں ہے کہ اگر کوئی مسلمان مصیبت کے وقت اسے کہہ لے تو اللہ تعالیٰ اس کا بہتر بدل عنایت کریں گے. (صحیح مسلم :918)
کسی رشتہ دار یا دوست کی وفات پر آنکھوں کا برس پڑنا ایک فطری عمل اور ہمدردی و رحم دلی کی علامت ہے . حضرت اسامہ کہتے ہیں:
فَرُفِعَ الصَّبِيُّ فِي حَجْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ ، فَفَاضَتْ عَيْنَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ : مَا هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : ” هَذِهِ رَحْمَةٌ وَضَعَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادِهِ، وَلَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ إِلَّا الرُّحَمَاءَ ".
نبی کریم ﷺ کی نواسی کو آپ ﷺ کی گود میں دیا گیا ،اس وقت وہ جانکنی میں مبتلا تھی ،آنحضور کی آنکھیں بہہ پڑیں ،حضرت سعد نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ رحم و مہربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں اس کے دل میں ڈال دیتے ہیں ،اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم دل بندوں ہی پر رحم فرماتے ہیں ۔ (بخاري: 5655)
اور حضرت انس بن مالک کہتے ہیں:
۔۔۔ ثُمَّ دَخَلْنا عليه بَعْدَ ذلكَ وإبْراهِيمُ يَجُودُ بنَفْسِهِ، فَجَعَلَتْ عَيْنا رَسولِ اللَّهِ ﷺ تَذْرِفانِ، فَقالَ له عبدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عنْه: وأَنْتَ يا رَسولَ اللَّهِ؟ فَقالَ: يا ابْنَ عَوْفٍ إنَّها رَحْمَةٌ، ثُمَّ أَتْبَعَها بأُخْرى، فَقالَ ﷺ: إنَّ العَيْنَ تَدْمَعُ، والقَلْبَ يَحْزَنُ، ولا نَقُولُ إلّا ما يَرْضى رَبُّنا، وإنّا بفِراقِكَ يا إبْراهِيمُ لَمَحْزُونُونَ.
پھر اس کے بعد ہم ان کے یہاں گئے اس وقت آنحضرت ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم جانکنی میں مبتلا تھے ،یہ دیکھ کر آپ صلّی علیہ وسلم کی آنکھیں بہہ پڑیں ، حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا: اللہ کے رسول!آپ بھی رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا:عوف کے بیٹے ! یہ تو رحم دلی ہے۔پھر آپ نے فرمایا: آنکھیں اشکبار ہیں ،دل رنجیدہ ہے ،اور ہم صرف وہی کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو ۔ابراہیم ! تمہاری جدائی پر ہم غم زدہ ہیں ۔  (صحیح بخاری 1303.صحیح مسلم:2315)
مصیبت میں مبتلا ہونے پر بلند آواز سے رونا چلانا،چھاتی اور رخسار پیٹنا اور گریبان پھاڑنا غیر اسلامی طریقہ ہے، حدیث میں کہا گیا ہے کہ جو ایسا کرے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے. (صحیح بخاری –1294-1296)
کسی کی موت پر صرف تین دن تک سوگ منانے کی اجازت ہے البتہ عورت کے لیے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن تک سوگ منانے کا حکم دیا گیا ہے.
اگر کسی مصیبت یا وفات پر کسی کو تسلی دینا ہو تو حدیث میں مذکور یہ الفاظ کہنا چاہئے:
” إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ مُسَمًّى، فَلْتَحْتَسِبْ وَلْتَصْبِرْ .
اللہ ہی کا ہے جو اس نے لیا ہے اور اسی کا ہے جو اس نے دیا ہے اور اس کے یہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، اس لیے چاہیے کہ تم صبر کرو اور ثواب کی نیت رکھو۔
(بخاری: 5655)
صبر و تسلی کے لیے یہ الفاظ متعین نہیں ہیں بلکہ دوسرے الفاظ بھی کہے جا سکتے ہیں جس کے ذریعے مصیبت زدہ اور میت کے گھر والوں کو تسلی، ان کی دل جوئی اور انھیں صبر و قرار حاصل ہو بلکہ ہلکی پھلکی تقریر بھی کی جا سکتی ہے جس سے غم ہلکا اور آخرت کی فکر پیدا ہو۔ اور  مرنے والے کی خوبیوں اور خدمات کا تذکرہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔
یہاں تک کہ غیر مسلموں کے یہاں بھی بیماری کے موقع پر عیادت کے لیے جایا جا سکتا ہے اور مصیبت و وفات کے موقع پر ان کی تعزیت کی جا سکتی ہے اور ان کے لیے بھی تسلی کے کلمات کہہ جا سکتے ہیں اور مرنے والے کی اچھی صفات اور خدمات کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک غیر مسلم مریض کی عیادت ثابت ہے اور فقہی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ غیر مسلم کی تعزیت کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے جائیں:
اخلف الله عليك خيرا و اصلحك.
اللہ تمہیں بہتر بدلہ عنایت فرمائے اور تمہیں ٹھیک رکھے۔
( رد المحتار388/6 کتاب الحظر)
اظہار غم ، تعزیت اور خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے  خاموش رہنا، جھنڈے کو سر نگوں کرنا اور ماتمی دھن بجانا غیر مسلموں کے عادات و اطوار ہیں جسے اپنانا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں اور دینی اہمیت اور اسلامی غیرت کے خلاف ہے تاہم اگر سماجی اور ملی مصلحت کا تقاضا ہو تو بادل ناخواستہ اس طرح کے پروگرام میں شریک ہوا جاسکتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے