جامعہ انوار العلوم سے متعلق ایک طالب علم کے تاثرات ۔
اے مرکز علوم دیں اے باغ علم الوداع
اے گنبد حسیں اے دار افتاء۔۔۔۔۔الوداع
زندگی رنج و الم اور خوشی و مسرت جیسے متضاد اوصاف کے مجموعے کا نام ہے،جو انسان زندگی کے جس مرحلے میں رہتا اس کے ساتھ اسی نوعیت کی خوشی اور غمی کے مراحل پیش آتے ہیں،ایک طالب علم کے لیے سب سے زیادہ المناک اور کربناک لمحہ وہ ہوتا ہے جب اس کو اپنے مادر علمی کو الوداع کہنا ہوتا ہے ،شاہی عیش و عشرت کی زندگی کو چھوڑ کر تکلیف دہ گھاٹی اور کانٹوں بھرے راستوں پر چلنا ہوتا ہے اگر دستور حیات اور نظام مدرسہ نہ ہوتا، دینی و دنیاوی زندگی کی ذمہ داریوں کا احساس اور الزام نہ ہوتا تو مدرسہ میں زندگی گزارنے والا کوئی بھی طالب علم مدرسہ کے درودیوار اور اس میں گزارے ہوئے خوشگوار لمحات کو کب اور کیسے الوداع کہتا ۔کون ہوتا ہے جو اپنے روحانی باپ اور محبوب دوستوں کو الوداع کہتا جو صرف درسگاہ اور رہائش گاہ کے ہی رفیق نہیں بلکہ کھانے کے ایک ایک نوالے پر حق رفاقت ادا کرتے تھے مدرسہ میں گزرے ہوئے آٹھ دس سال کو جب ہم مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آٹھ دس دن بھی نہیں رہے،آہ وہ گزرے ہوئے دن جب یاد آتے ہیں تو دل شکستہ اورزخمی ساہو اٹھتا ہے۔ کبھی اساتذہ کا جھوم جھو م کر سمجھانا، کبھی لہجے کا سخت ہو نا تو کبھی ہنس کر پیار کرنا اور اپنے ساتھ سب کو ہنسا دینا کبھی دوستوں کے ساتھ تیکھی میٹھی نوک جھونک تو کبھی کسی بات پر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جانا کبھی راتوں کی لمبی لمبی باتیں تو کبھی غلبہ نیند کے غلبہ سے بغیر بستر کے ہی سوجا نا کبھی ملازم کے ساتھ مستی تو کبھی دربان کو جھانسہ دے کر بھاگ جانا کبھی استنجاء کے بہانے چائے پوڑی تو کبھی پیاس کے بہانے گھنٹی گزار دینا، کبھی جمعرات کی خوشی کبھی سنیچر کا غم، کبھی امتحان کا ڈر تو کبھی چھٹی کا انتظار ،کبھی کھانے کا انتظار کبھی جی نہ لگنے کی شکایت
کون ان یادوں کو الوداع کہنا چاہے گا۔
تاروں کی طرح دل میں چمکتے رہیں گے وہ ،
اس باغ میں جو گزرے ہیں ایام الوداع ،
رب حلیم کا کرم کہ اس نے علوم دینیہ کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بننے کی توفیق مرحمت فرمائی مزید کرم یہ کیا کہ جامعہ انوارالعلوم کی ٹھنڈی چھاؤں اور لطیف ہوا سے محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا وہ وقت یاد آتا ہے جب اس مدرسے کی چہاردیواری میں پہلا قدم رکھا اس وقت دل نے یہ صاف گواہی دی کہ مدرسہ کے درودیوار ،اس کی ایک ایک اینٹ ،اس کی معطر فضا ،
بانی مدرسہ حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب نور اللہ مرقدہ اورحضرت مولانا قاری ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی للہیت اخلاص اور جد وجہد اور قاری محبوب اللہ صاحب اور مولانا محمد سالم ندوی صاحب کی محنتوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے گویا کہ منبع علم پھوٹ پھوٹ کر کہ رہا ہے
کہ علوم نبویہ حاصل کرنے والے طلبہ حضرت کی راتوں کی شب بیداری والی دعاؤں کے مصداق ہوں۔
میں نے تقریباً نو دس میہنے مدرسہ ھذا میں گزارے مجھے مدرسہ کی درودیوار سے اس قدر عقیدت و محبت ہوگئی کہ بیان کرنے سے عاجز و قاصر ہوں۔ اس نو دس مہینے میں، میں نے مدرسے کا جو نظم و نسق اور اساتذۂ افتاء خصوصا حضرت مولانا مفتی ولی اللہ مجید صاحب قاسمی کا جو تربیتی انداز دیکھا وہ قابل تعریف ،لائق توصیف اور دیگر مدارس کے لیے قابل تقلید ہے،
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز،
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
جن اساتذہ سے میں نے علم حاصل کیا گویا وہ علم کے آفتاب و ماہتاب اور ہر فن کے ماہر ہیں چاہے وہ منطق و فلسفہ نحوصرف فقہ یا ادب ہو سب کو ہر فن کا امام اور ہر میدان کا فاتح پایا طلبہ میں علم کی تلاش و جستجو کا جوش و جنون دیکھا کسی کو قاری ،کسی کوکاتب، کسی کو واعظ دیکھا وہ طلباء بڑے خوش نصیب ہیں جن کو انوار العلوم کی چہاردیواری میں قال اللہ قال الرسول کی صدائیں بلند کرنے کا سنہرا موقع ملا اور اس کی بے مثال لائبریری سے استفادے کا موقعہ زریں ملا ۔
میں تو صرف درجہ افتا ء کی تعلیم سے بہرہ ور ہوا ویسے تو یہاں کے تمام اساتذہ علم کے آفتاب و ماہتاب ہیں لیکن بالخصوص چند باتیں اساتذۂ افتاء کے لیے جن کا ہر کوئی قائل ہے عرض خدمت ہے:
استاذ افتاء وناظم تعلیمات ،سابق شیخ الحدیث، قلم کا شہسوار ،فکر و نظر کا شہنشاہ ،حدیث اور فقہ و فتاویٰ کا بادشاہ، انوار العلوم کی روح رواں ،جسے ہم ادب سے حضرت مفتی مولانا ولی اللہ مجید صاحب قاسمی کہتے ہیں
آپ کے محققانہ طرز عمل کا میں کیا بلکہ علمائے دیار مشرق و مغرب قائل ہیں
ممکن نہیں ہے تم سے زمانہ ہو بے نیاز،
تم ہو جہاں میں گوہر نایاب کی طرح،
حضرت مفتی صاحب مسند درس کے شہنشاہ جس دل نشین انداز میں گفتگو کرتے ہیں جس محققانہ انداز میں بحث کرتے ہیں جس مدلل طرز میں تقریر کرتے ہیں،اس کی مثال کم ملتی ہے
آپ کو پیچیدہ مباحث کو آسان انداز میں سمجھانے میں نیز درسی کتب میں ید طولی حاصل ہے آپ کو اتنی پیاری اور شگفتہ زبان عطا کی گئی ہے جو بال کی کھال بڑی خوبی سے نکالتی چلی جاتی ہے اور ذہن و دماغ پر ذرا بھی ثقل محسوس نہیں ہوتا ،
حدیث وفقہ آپ کا طرۂ امتیاز ہے جس پر آپ کو کافی دسترس حاصل ہے اور الحمد للہ تمام موضوعات پر کمال رکھتے ہیں،لکھتے بھی خوب،اور بولتے بھی خوب ہیں۔ صبر و تحمل کا یہ عالم ہے کہ پورے سال دوران درس آپ کی پیشانی پر خفگی کے آثار بھی نہیں آئے ،آپ میں شفقت کا رنگ غالب ہے مزاج میں بے تکلفی اور شائستہ ظرافت ہے۔ ہٹو بچوں کا مزاج نہیں اس لیے طلبہ آپ سے قریب رہ کر علمی گہرائی و گیرائی پیدا کرتے ہیں اور ترقی کی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں تصنیف وتالیف آپ کا دلچسپ مشغلہ ہے ۔
آپ کا زیادہ وقت کتب بینی اور در س و تدریس میں گزرتا ہے ۔
تجھے میں آج تک مصروف درس وعظ پاتا ہوں،
تیری ہستی مکمل آگہی محسوس ہوتی ہے ،
آپ کے یہاں علماء اور خدام دین کی بڑی وقعت اور قدر و منزلت ہے ان کے ساتھ خصوصی اکرام اور عزت کا معاملہ فرماتے ہیں ان کی ضروریات و مزاج کی بھی رعایت فرماتے ہیں کہ مشائخ وقت یا کبار علماء آپ سے ملاقات کے لیے آتے جاتے یا بذات خود آپ ان کی خدمت میں پہنچتے ہیں تو نہایت عاجزانہ انداز میں ان سے ملاقات کرتے زیادہ تر خاموشی سے ان کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور خود بضرورت ہی بولا کرتے ہیں،
خلاصہ یہ کہ مفتی صاحب کا ہر طرز عمل اور طریقہ کار ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔
اپنے اجداد کی تاریخ پر ناز ہے ہمیں،
ان کی سینچی ہوئی تہذیب کا پاس ہے ہمیں،
نرم خو طبیعت طلباء کے مشفق مربی نظم و نسق کے شہسوار سراجی کے فنکار شیریں لب و لہجہ کے شاہ کار صدر شعبہ عربی مولانا زاہد صاحب قاسمی دامت برکاتہم آپ کا انداز تکلم وطرز درس و تدریس ہم طلبئہ افتاء کے لیے مسحور کن اور پر کیف ہے مبتدی اور منتہی طلبہ کو پڑھانا کوئی آپ سے سیکھے۔
طلباء کے دل و دماغ پر کسی بھی قسم کی پریشانی و غم ہو حضرت کی گفتگو اور درس کو سن کر غم خوشی میں تبدیل ہو جاتا ہے دوران درس آپ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ طلباء کو کسی بھی قسم کا اشکال وخدشہ نہ رہے
آپ اکابر کی روایت کے پاسدار اور مسلک ومزاج کے امین اوربڑی مضبوط شخصیت کے مالک ہیں اور وہی ذوق و فکر اپنے شاگردوں میں بھی منتقل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔بہت سی گراں قدر نصیحت اور قیمتی باتیں دوران درس طلباء کے گوش گزار ہوتی رہتی ہیں مدرسہ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی حاصل ہو اس کے لئے آپ کی محنتیں او کاوشیں کسی کے سامنے پنہاں نہیں، سادہ مزاجی اور سادی زندگی اہل علم کی قدردانی کسی بھی بات پر اہل علم سے رجوع حضرت کا خصوصی امتیاز ہے۔
خفیف جسم عمیق علم اپنی گفتگو سے ہر کسی کو موہ لینے والے لطیفہ سنج استاد انگلش و کمپیوٹرحضرت مولانا نعیم صاحب نعمانی دامت برکاتہم العالیہ ہیں عالم دین کو وقت کی اہم ضرورت انگلش وکمپیوٹر سے آگاہ و روشناس کرانا حضرت کا مطمح نظررہا ہے۔اور اب تک اس کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں آپ کو انگلش اور گرامر پر عبور و فوقیت اس درجہ حاصل ہے کہ طلباء کے ہرسوال کا جواب بلا جھجک بآسانی دے دیتے ہیں اللہ نے آپ کو حسن اخلاق کا مالک بنایا ہے آپ ہم طلبہ انوارالعلوم کے ساتھ اس طرح پیش آتے ہیں جیسے کوئی قریبی دوست ،
آپ سنجیدہ مزاج و سادہ دل ہیں گفتگو میں نرمی اور چہرے پر مسکراہٹ ہمہ وقت نمایاں رہتی ہے خلاصہ یہ ہے کہ ہم طلبہ افتا ءآپ سے بہت مستفید اور متاثر ہوے ہم سب کو بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کا درس نصیب ہوا ہم رفقائے درس آپ کے تئیں انگلش وگرامر کی انتھک کوشش پر ممنون و مشکور ہیں ۔
محاضر عصر حاضر معلومات کا سمندر مدرسہ انوارالعلوم کے نگراں مولانا انعام الحق صاحب قاسمی آپ سے محاضرہ کا شرف حاصل ہوا جو نہایت عمیق النظراور فقہ کی ان باریکیوں کی شہ رگ کو اجاگر کرتا ہے جس کے سیکھنے لیے عنقریب علمائے عصر اپنی انتھک کوششوں کو صرف کریں گے
آپ کو الحمدللہ فقہ اصول فقہ منطق و فلسفہ نحوصرف پر گہری نظر حاصل ہے آپ کی ہر گفتگوسے خواہ وہ طلبہ عزیز کے لئے ہی کیوں نہ ہو علم کی کرن پھوٹتی ہیں بے جا اور بے موقع باتوں سے پرہیز، بقدر ضرورت گفتگو آپ کی شخصیت میں چار چاند 🌙 لگاتی ہے یہ تمام اساتذۂ کرام علم و عمل کے یقیناً وہ آفتاب و ماہتاب ہیں
جن پر شاعر کا یہ شعر حرف بحرف صادق آتا ہے
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں،
کبھی سوز وساز رومی کبھی پیچ و تابِ رازی۔
اللہ مدرسہ ھذا و دیگر تمام مدارس کے اساتذہ کرام کو ان کی محنتوں کا کا ثمرہ اور نعم البدل عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
بلبلان انوارالعلوم سے بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ ناچیز کہ یہ گزارش ہے کہ دوران تعلیم اگر میری طرف سے کسی کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچی ہو
تو آپ مہمانان رسول احقر کی خطاؤں پر معافی کا قلم پھیر دیں ۔
جو بھی میرے قصور ہو کر دیجئے گا معاف
مجھ کو ملے یہ آپ سے انعام الوداع۔
آپ کی عظیم دعاؤں کا طالب :
محمد صفوان الاعظمی۔
شعبہ افتاء جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا مئو۔
(2)
2023 میرے لیے کئی اعتبار سے بہتر رہا ہے، خاص طور پر اُس سال "مادر علمی جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی” کے اندر "شعبۂ افتاء” میں میرا داخلہ ہوا اور اس میں بہت کچھ پڑھنے اور سیکھنے کو ملا، متعدد علمی و تحقیقی اورفقہی کتابیں پڑھنے کو ملیں، کئی کتابوں کی تلخیصات مکمل ہوئیں، درجنوں محاضرات ہوئے اور تقریباً دسیوں فقہی عنوانات پر مقالہ جات تحریر کیے اور الحمدللہ سب سے بڑا یہ کام ہوا کہ 2023 کے آخری ایام میں میرے اندر "ضرورتِ حدیث اور فتنہ انکار حدیث” کے عنوان پر باضابطہ ایک کتاب تصنیف کرنے کا داعیہ پیدا ہوا، جو شب و روز کی محنت و لگن، جدو جہد اور سعی و کوشش کے سبب 2024 کے ابتدائی دنوں میں پایہ تکمیل کو پہنچا "اللھم لک الحمد و لک الشکر کلہ” بلا مبالغہ میرے لیے اتنا طویل مقالہ لکھنا بالکل بھی سہل اور آسان نہیں تھا، لیکن ہمارے مشفق و کرم فرما، ذی استعداد و صلاحیت مند اور وسیع النظر شخصیت کے مالک استاذ محترم حضرت مولانا "مفتی ولی اللہ مجید قاسمی” Waliullah Majeed Qasmi صاحب دامت فیوضہم کی ہمیشہ نگرانی و رہبری اور خاص رہنمائی رہی کہ جس کی وجہ یہ کام کم وقت میں بہ آسانی تکمیل پذیر ہوا، آنے والے دنوں میں کتاب کے اندرحسب استطاعت حک و اضافے کی گنجائش ہے ان شاءاللہ، اللہ تعالیٰ سے دعا گوں ہوں کہ باری تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کو صحت و تندرستی سے نواز کر ان کو لمبی عمر عطا فرمائے اور ان کو اجر جزیل سے نوازے، نیز احقر کی اس کاوش کو لوگوں کے لیے مفید اور نافع بنائے اور ہمیشہ دفاع دین اور اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام انجام دینے والا بنائے آمین ثم آمین ۔
نسیم ظفر بلیاوی
5 شعبان المعظم 1445ھ
بمطابق 15 /2024/2