بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(11)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
2-جوڈو ، کراٹا
دفاعی اور خود حفاظتی نقطۂ نظر سے جوڈو اور کراٹے کا کھیل نہایت مفید ہے ۔اس لئے اس کے سیکھنے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً ایسی جگہوں پر جہاں مسلمان ہر وقت خطرے کی زد میں رہتے ہوں وہاں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ۔
البتہ سیکھنے کے دوران دو باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :
1-کراٹا ماسٹر کے سامنے سلام کے طور پر جھکا نہ جائے ۔حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کے وقت اس کے سامنے جھک سکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں. عرض کیا :کیا اس سے لپٹ کر اسے بوسہ دے سکتے ہیں؟ فرمایا :نہیں۔عرض کیا: اس کا ہاتھ پکڑکر مصافحہ کر سکتے ہیں ؟ فرمایا :ہاں۔
(قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَالَ: «لَا»، قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟ قَالَ: «لَا»، قَالَ: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ».”ترمذی: 2728. ابن ماجہ: 3702.مسنداحمد: 13044)
2-کراٹا سیکھنے کے دوران بطور مشق چہرہ پر مکا مارنے سے اجتناب کرے ۔حضرت ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کی اپنے بھائی سے لڑائی ہو جائے تو اس وقت بھی چہرے پر مارنے سے بچے۔
( ” إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ۔ بخاري: 2559.مسلم :2612واللفظ لہ)
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ نووی کہتے ہیں کہ چہرہ جسم کا بڑا نازک حصہ اور انسان کی تمام خوبیوں کا مرکز ہے اور اس کے اجزاء بڑے نفیس اور لطیف ہیں،احساس و ادراک کے زیادہ تر آلات وہیں موجود ہیں، لہذا چہرے پر مارنے سے یہ چیزیں ضائع ہوسکتی ہیں یا ان میں نقص پیدا ہو سکتا ہے یا کبھی چہرہ بگڑ سکتا ہے۔ اور چہرے کا عیب بہت برا معلوم ہوتا ہےکہ وہ بالکل سامنے ہوتا ہے اور اسے چھپانا ممکن نہیں۔ اور چہرہ پر مارنے کی وجہ سے عام طور پر کوئی نہ کوئی عیب پیدا ہوجاتا ہے اور ممانعت میں وہ صورت بھی داخل ہے جبکہ بطور تادیب اپنی بیوی، بچے یا غلام کو مارے۔(شرح نووی ۔ حدیث رقم: 2612)
3-علمی مقابلہ:
دین کی حفاظت و صیانت اور مدافعت کبھی تیر و تلوار سے کی جاتی ہے اور کبھی زبان و قلم سے ۔ چنانچہ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جاھدوا المشرکین بأموالکم وأنفسکم و ألسنتکم۔
مشرکوں سے جان و مال اور زبان کے ذریعہ جہاد کرو۔ (ابوداؤد: 2504)
زبان و قلم کی اہمیت ہر دورمیں مسلم رہی ہے ، یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جس کی افادیت کا شاید ہی کوئی منکر ہو، موجودہ حالات میں جب کہ ہر طرف سے باطل کی فکری یلغار اور علمی یورش برپا ہے ، ایمانیات ، اعتقادیات میں شک و شبہ پیدا کیاجارہا ہے، مسلمات میں طرح طرح سے کیڑے نکالے جارہے ہیں تو ایسی حالت میں اس کی اہمیت اور وقعت اور دوچند ہوجاتی ہے ، یقینا ان چیزوں کا علمی طرز پر دفاع کرنے والا اور جواب دینے والا کسی مرد مجاہد سے کم نہیں، اور یقینا علمی صعوبتوں ، پریشانیوں اور کٹھنائیوں کو طے کرنے اور لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنے کے لیے باہمی مقابلہ کروانا ،معاوضہ اور انعام دینا اور بازی لگانا جائز ہے ۔ محقق عبداللہ بن محمد لکھتے ہیں:
اور اسی طرح دو عالموں کے درمیان اختلاف کی صورت میں کسی بڑے عالم کے پاس رجوع ہونے کی ضرورت پڑجائے اور اس پر کوئی معاوضہ مقرر ہوجائے یعنی یہ شرط ٹھہرا لیں کہ اگر ان کا جواب تمہارے موافق ہوا تو میں تم کو اتنی رقم دوں گا اور اگر انھوں نے میری تائید کی تو میں تم سے کچھ نہیں لوں گا ، یہ جائز ہے ، اس لیے کہ جہاد کی وجہ سے جب گھوڑ سواری میں معاوضہ مقرر کرنا جائز ہے تو اس میں کیونکر جائز نہ ہوگا ، جبکہ اس کے ذریعہ علم دین حاصل کرنے کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے اور جس طرح دین کی حفاظت و صیانت جہاد سے ہوتی ہے ، اسی طرح علم سے بھی ہوتی ہے۔(مجمع الانھر 550/2)
البتہ اگر شرط دو طرفہ ہو تو جوا کی وجہ سے جائز نہیں۔ علامہ ابن عابدین شامی رقمطراز ہیں:
اور اگر یہ شرط ہوکہ جس کی بات صحیح ہو دوسرا اسے اتنا روپیہ دے گا تو یہ صحیح نہیں ، اس لیے کہ یہ دو طرفہ شرط ہے اور جوا ہے ، الا یہ کہ درمیان میں کسی محلل کو داخل کرلیاجائے مثلاً کسی مسئلہ میں تین رائیں پیدا ہوگئی ہوں اور دو آدمی یہ شرط لگالیں کہ اگر تیسرے کی رائے درست ہو تو ہم دونوں اسے معاوضہ دیں گے اور اگر ہم میں سے کوئی جیت گیا تو اس کا تیسرے پر کچھ نہیں ہے۔(رد المحتار286/5)