سنت اور حدیث
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی
لغت میں سنت کے معنی طریقے اور روش کے ہیں اور اسی اعتبار سے دین میں رائج طریقے کو سنت کہا جا تا ہے، (الطریقۃ المسلوکۃ فی الدین)دوسرے لفظوں میں رسول اللہ ﷺ سے منقول وہ قول و عمل سنت ہے جس پر صحابہ کرام اور بعد کے لوگوں کا عمل رہا ہو جس کے نتیجے میں اس کے اندر تواتر کی شان پائی جاتی ہو اور حدیث آنحضور ﷺ کی طرف منسوب وہ قول و فعل ہے جو ایسے راویوں کے ذریعے منقول ہو جن کی تعداد تواتر سے کم ہو ، جس کو اصطلاح میں’’خبر آحاد‘‘ کہا جاتا ہے ۔ سنت و حدیث دونوں شرعی دلیل ہیں ، البتہ تعارض اور ٹکراؤ کی صورت میں حدیث کے مقابلے میں سنت کو ترجیح حاصل ہوگی ، چنانچہ حضرت عمرؓ سے منقول ہے:
لَا نَتْرُكُ كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِ امْرَأَةٍ، لَا نَدْرِي لَعَلَّهَا حَفِظَتْ، أَوْ نَسِيَتْ.
’’ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے کہنے سے نہیں چھوڑ سکتے کہ نہ معلوم اس نے یاد رکھاہے یا بھول گئی ہے ‘‘۔(صحيح مسلم: 1480)
خبر واحد کی حیثیت:
معلوم ہوا کہ سنت ایک متواتر قول و عمل ہے ، اس لیے اس کے مقابلے میں کسی ’’خبر واحد‘‘ کو قبول نہیں کیاجائے گا ، جس کی سند کے صحیح ہونے کے باوجود راوی کی غلطی ، وہم اور نسیان کا امکان ہے اور اسی فرق کا لحاظ کرتے ہوئے محدثین کے یہاں یہ ضابطہ ہے کہ :
’’ وہ خبر واحد قبول نہیں کی جائے گی جو عقل ، قرآن سے ثابت اور محکم حکم اور معلوم سنت اور سنت کے قائم مقام عمل اور کسی بھی قطعی دلیل کے خلاف ہو ‘‘۔ ( الکفایۃ فی علم الروایۃ للبغدادی:432)
اسی فرق کی بنیاد پر امام مالک عمل اہل مدینہ کے مقابلے میں خبر واحد کو قبول نہیں کرتے اوران کے استاذ ربیعہ الرای کہا کرتے تھے کہ :
’’ہزاروں نے ہزاروں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے ، یہ ایک ایک کی روایت سے بہتر ہے ‘‘۔(حلیۃ الاولیاء:261/3۔)
دونوں کے درمیان یہ فرق خود محدثین کے درمیان بڑا مشہور تھا اور اسی بنیاد پر وہ کسی کی اہمیت اور حیثیت کو متعین کیا کرتے تھے ، چنانچہ عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں :
’’سفیان ثوری حدیث میں امام ہیں سنت میں نہیں اور اوزاعی سنت میں امام ہیں ، حدیث میں نہیں اور مالک دونوں میں امام ہیں ‘‘۔( شرح الزرقانی علی المؤطا:3/1۔)
اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’خبر واحد ‘‘ کا ناقل خواہ ثقاہت و عدالت کے اعلیٰ معیار پر فائز ہو اور بحث و تحقیق میں اس نے اپنی پوری طاقت لگا دی ہو ، اس کے باوجود وہ انسان ہے اور غلطیوں سے معصوم نہیں ہے ، اس کی تحقیق اور جستجو کو قطعیت کا درجہ دینے کا مطلب ہے کہ اسے معصوم سمجھا جارہا ہے ، حدیثوں کے سلسلے میں محدثین نے تحقیق و جستجو کے جو ریکارڈ قائم کیے ہیں وہ ہمارے لیے سرمایہ افتخار ہیں لیکن ان سب کے باوجود خود انہیں اعتراف ہے کہ حدیث کی صحت و ضعف کا فیصلہ ظنی ہے ، قطعی نہیں ،جیساکہ ’’تدریب الراوی‘‘ میں ہے کہ :
’’جب یہ کہا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو اس کا مفہوم وہی ہے جو گزرچکا یعنی مذکورہ اوصاف کے ساتھ اس کی سند متصل ہو تو ہم نے ظاہر سند پر عمل کرتے ہوئے اسے قبول کرلیا ہے ، نہ یہ کہ حقیقت میں بھی وہ یقینی طور پر صحیح ہے کیونکہ قابل اعتماد راوی سے بھی غلطی اور بھول ہوسکتی ہے ‘‘۔( تدریب الراوی:43۔)
بعض لوگوں نے یہ دعویٰ کیا کہ جس حدیث کو بخاری و مسلم دونوں نے یا ان میں سے کسی ایک نے نقل کیا ہو تو وہ ’’خبر واحد‘‘ہونے کے باوجود قطعی اور یقینی ہوتی ہے لیکن امام نووی جیسے محدث اور محقق نے سختی سے اس دعوے کی تردید کی ہے ،وہ لکھتے ہیں :
’’شیخ ابن صلاح نے ذکر کیا ہے کہ جس حدیث کو بخاری و مسلم دونوں نے یا ان میں سے ایک نے روایت کیا ہو تو وہ یقینی طور پر صحیح ہے …لیکن محققین اور اکثر لوگ اس رائے کے برخلاف ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کی روایت متواتر نہ ہو تو اس سے صرف ظن کا فائدہ حاصل ہوگا ‘‘۔(حوالہ مذکور:92-93۔)
اگرچہ علامہ سیوطی نے ا بن صلاح کی رائے کی تائید میں بڑا زور لگایا ہے لیکن انہوں نے آخرمیں یہ کہتے ہوئے اس بحث کو ختم کردیا ہے کہ ایسا ماننے کی صورت میں خود ابن صلاح کے کلام میں تضاد نظر آرہا ہے :
’’البتہ اس رائے اور ابن صلاح کے ذکر کردہ اس اصول میں مطابقت پیدا کرنا باقی ہے کہ جب محدثین کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں صحیح ہونے کی شرطیں پائی گئی ہیں نہ یہ کہ وہ واقعہ میں صحیح ہے تواس رائے اور اس اصول میں تضاد ہے ، اس لیے تطبیق کے بارے میں سوچ لیا جائے کیونکہ یہ بہت مشکل ہے اور میں نے کسی کو اس پر متنبہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔(حوالہ مذکور:96۔)
علامہ نووی کی یہ بات بہت ہی منطقی اور فطری ہے کہ ’’خبر واحد ‘‘ کا ناقل کوئی بھی ہو اس میں قطعیت اور یقین کی شان پیدا نہیں ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ راوی کو معصوم سمجھنے کے مترادف ہے اور جب صحابہ کرام کی روایتوں میں غلطی اور بھول کاامکان ہی نہیں بلکہ واقعہ ہے تو پھر دوسرے کس شمار و قطار میں ، ام المومنین حضرت عائشہؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ زندہ لوگوں کے رونے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے ، یہ سن کر کہنے لگیں :
’’اللہ ابوعبدالرحمن(ابن عمر) کو معاف کرے ، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا لیکن وہ بھول گئے ہیں یا ان سے غلطی ہوگئی ہے ، واقعہ یہ تھاکہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت کے گھر کے پاس سے گزرے جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا کہ تم اس پر رو رہے ہو حالانکہ اسے قبر میں عذاب دیا جارہا ہے ‘‘۔(صحیح بخاری:1289، صحیح مسلم:2153۔)
قطع نظر اس سے کہ ابن عمر کی بات غلط تھی یا نہیں اوران کے کلام کی تاویل اور توجیہ ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یہاں صرف یہ دیکھنا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے بھول اور خطا کے پیش نظر ان کی بات کو قبول نہیں کیا اور یہ روایت گزر چکی ہے کہ حضرت عمرؓ نیز حضرت عائشہؓ نے اسی امکان کے پیش نظر حضرت فاطمہ بنت قیس کی روایت کو قبول کرنے سے انکار کر دیاتھا اور اسی طرح سے متعدد صحابہ کرام نے حضرت ابوہریرہؓ کی بعض روایتوں پر تنقید کی ہے ، انہوں نے حدیث بیان کی کہ آگ پر پکی ہوئی چیزوں سے وضو کرو ، ابن عباسؓ نے کہا کیا گرم پانی سے وضو کرنے کے بعد دوبارہ وضو کرنا ہوگا؟ ، (سنن ابن ماجہ:485، قال الالبانی حسن۔)اسی طرح سے انہوں نے بیان کیا کہ جو شخص جنازہ کو اٹھائے وہ وضو کرے توحضرت عائشہؓ نے کہا، کیا کسی لکڑی کو پکڑنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ (الاجابۃ:۱۱ )ظاہر ہے اگرحضرت عائشہؓ ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ یہ سمجھتے کہ حضرت ابوہریرہؓ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ یقینی طور پر اللہ کے رسول ﷺ کا کلام ہے اور ان سے حدیث کو سمجھنے اور نقل کرنے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے تو وہ اعتراض کی جرأت نہیں کرسکتے ۔
اسی طرح خود صحیح بخاری و مسلم میں راوی کے وہم ، بھول اور غلطی کی مثالیں ملتی ہیں ، مشہور حدیث ہے کہ جنگ خندق کے بعد آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم عصر کی نماز بنو قریظہ ہی میں پڑھو ، صحیح بخاری اورحدیث کی دیگر کتابوں میں ’’عصر‘‘ کی نماز مذکور ہے ، لیکن صحیح مسلم میں عصر کی جگہ ’’ظہر‘‘ کا لفظ ہے جو یقینی طور پر راوی کا وہم ہے ، اسی طرح سے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ سات لوگ عرش الٰہی کے سائے میں ہوں گے ، ان میں سے ایک وہ ہے جو اپنے دائیں ہاتھ سے اللہ کی راہ میں اس طرح خرچ کرے کہ بائیں کو خبر نہ ہو مگر یہی حدیث صحیح مسلم میں ان الفاظ میں ہے کہ بائیں ہاتھ سے اس طرح خرچ کرے کہ دائیں کو خبر نہ ہو ، ظاہر ہے کہ الفاظ کی یہ تبدیلی راوی کی غلطی ہے ، اس جیسی بہت سی مثالیں معمولی تلاش کے نتیجے میں دستیاب ہو سکتی ہیں ۔
صحت و ضعف کے اصول اجتہادی ہیں:
عادل و ضابط اور قابل اعتبار راوی سے بھی بھول اور غلطی ہوسکتی ہے بلکہ ہوئی ہے جس کی متعدد مثالیں گزر چکی ہیں ، اسی کے ساتھ کسی راوی کے عادل و ضابط اور کسی حدیث کی صحت و ضعف کے جو اصول و ضوابط اور شرائط متعین کیے گئے ہیں وہ بھی ایک انسانی کوشش اور اجتہاد پر مبنی ہیں جس کی وجہ سے حدیث کے اماموں کے درمیان بڑا اختلاف پایا جاتا ہے ، اس سلسلے میں ’’تدریب الراوی ‘‘ اور ’’الباعث الحثیث‘‘کا مطالعہ کیاجاسکتا ہے ، یہاں تک کہ خود امام بخاریؒ و مسلمؒ کے درمیان بعض اصولوں میں شدید اختلاف ہے ، امام مسلمؒ کے نزدیک وہ حدیث جو عن فلان عن فلاں کے ذریعہ منقول ہو اس میں راوی اور جس سے روایت نقل کررہا ہے دونوں کا زمانہ ایک ہونا اور امکان ملاقات کافی ہے اور اس کے بر عکس امام بخاری وغیرہ کے نزدیک ثبوت ملاقات ضروری ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے بہت سی حدیثیں امام مسلمؒ کے نزدیک صحیح ہیں ، لیکن امام بخاریؒ کے یہاں صحیح نہیں ہیں۔(دیکھیے الہدی الساری لابن حجر:8/1)
اور اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہؒ کی یہ عبارت چشم کشا ہے :
’’کوئی بھی امام جسے قبولیت عام حاصل ہو ، وہ جان بوجھ کر اللہ کے رسولؐ کی سنت کی مخالفت نہیں کرسکتا ہے ، خواہ وہ سنت بہت اہم ہو یا معمولی ، اس لیے اگر کسی امام سے ایسا قول منقول ہو جو کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو اسے اس حدیث کے ترک کرنے میں معذور سمجھنا چاہیے ‘‘۔
پھر انہوں نے ترک حدیث کے اسباب اور اعذار بیان کیے ہیں جس میں سے ایک سبب یہ ہے :
’’وہ اپنے اجتہاد کی وجہ سے کسی حدیث کو ضعیف سمجھتا ہے ، جسے دوسرے لوگ صحیح مانتے ہیں اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں ، ایک یہ کہ کسی راوی کو ایک مجتہد ضعیف سمجھتا ہے اور دوسرا اسے ثقہ قرار دیتا ہے اور حدیث کے راویوں کے جانچنے اور پرکھنے کا میدان بہت وسیع ہے اور ان کے بارے میں علما ء کے درمیان اسی طرح سے اختلاف و اتفاق ہے جیسا کہ دوسرے علو م میں ۔
اور ترک حدیث کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ خبر واحد کے سلسلے میں جسے کسی عادل اور ضابط نے نقل کیا ہو بہت سی شرطوں کے بارے میں اختلاف ہے ، جیسے بعض لوگوں کے نزدیک اسے کتاب و سنت پر پیش کیا جائے گا اور اسی وقت قبول کیا جائے گا جب کہ وہ ان کے موافق ہو اور بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ اگر کوئی حدیث خلاف قیاس ہو تو محدث کا فقیہ ہونا ضروری ہے اور بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ اگر حدیث کا تعلق عام لوگوں سے ہواور اس طرح کے واقعات بکثرت پیش آتے ہوں تو ضروری ہے کہ وہ حدیث بہت سے لوگوں کو معلو م ہو ‘‘۔(رفع الاعلام:15-17۔)
اورامام ترمذی لکھتے ہیں کہ :
’’جیسے دوسرے علوم میں اختلاف ہے ، اسی طرح سے کسی راوی کو ضعیف قرار دینے میں اہل علم اماموں کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے ‘‘۔( اعلاء السنن: 52/19۔)
اور مشہور ناقد علامہ ذہبی رقم طراز ہیں :
’’یہ ان لوگوں کے ناموں کا تذکرہ ہے جو علم نبوی کے حاملین کی تعدیل کرتے ہیں او ر کسی راوی کو ثقہ یا ضعیف یا کسی حدیث کوصحیح یا غلط قرار دینے کے سلسلے میں جن کے اجتہاد کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ‘‘۔
(حوالہ مذکور:54/19۔)
اور کسی راوی کو عادل اور ضعیف کہنے میں اختلاف کاحال یہ ہے کہ بدتر سے بدترین راوی کو بھی ثقہ کہنے والے دو چار لوگ مل جائیں گے اور عدالت و ثقاہت کے اعلیٰ معیار پر فائز شخصیت کو ضعیف کہنے والے کچھ لوگ نکل آئیں گے ، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں :
’’ذہبی نے کہا جو راویوں پر جرح و تعدیل کے سلسلے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں کہ اس فن کے علماء میں سے دو لو گ بھی کسی ضعیف کو ثقہ یا کسی ثقہ کو ضعیف کہنے میں متفق نہ ہوسکے ‘‘۔(نزھۃ الخواطر:138/1۔)
اسی کے ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جرح و تعدیل میں لوگوں کے شخصی ذوق و مزاج اور ذاتی رجحانات کا بھی خاصا اثر پڑا ہے اور ایسے لوگوں کو بھی ضعیف قراردیا گیا ہے یا کم سے کم انہیں نظر انداز کیاگیا ہے جوان کے نقطہ نظر کے موافق نہیں تھے ، امام احمدؒ جیسے محدث اور فقیہ بھی ان لوگوں سے حدیث نہیں لیتے تھے جو قیاس اور رائے کے مطابق فتویٰ دیتے تھے ، چنانچہ معلی بن منصور سے انہوں نے اسی بنیاد پر روایت نہیں لی ،(تہذیب التہذیب:238/10) اور اسی ’’جرم ‘‘کی وجہ سے امام مالکؒ کے استاذ ربیعہ پر کلام کیاگیا ، (الھدی الساری:461/1۔)اور امام ابوحنیفہؒ اور دوسرے حنفی اماموں پر محدثین نے جو جرح کی ہے اس کی بھی بنیادی وجہ یہی رائے اور قیاس ہے ۔
اور علامہ ذہبی جیسے معتدل مزاج اور ماہرفن کے متعلق خود ان کے شاگرد علامہ سبکی کہتے ہیں :
’’وہ اہل سنت یعنی’’ اشاعرہ کے خلاف بے جا حملہ کرتے ہیں ، اس لیے اس معاملے میں ان پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا‘‘۔(الھدی الساری:461/1)
یہاں تک کہ خود امام بخاری کو شخصی رجحانات کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور روئے زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور وہ موت کی تمنا کرنے لگے اور لوگ ان سے حدیث لینے اور ان سے سنی ہوئی حدیث کوبیان کرنے سے احتراز کرنے لگے ، چنانچہ ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب ’’الجرح والتعدیل ‘‘میں لکھا ہے کہ میرے والد ابو حاتم اور ابو زرعہ نے بخاری سے حدیثیں سنیں لیکن جب محمد بن یحییٰ نیشا پوری نے ان کے پاس لکھا کہ بخاری نے ان کی موجودگی میں کہا ہے کہ قرآن کا تلفظ مخلوق ہے تو ان دونوں نے ان کی حدیثیں چھوڑ دیں ۔ (قاعدۃ فی الجرح والتعدیل للسبکی:14۔)
علاوہ ازیں جرح و تعدیل کرنے والے بھی ایک انسان تھے اور بغض و حسد جیسی انسانی کمزوریوں سے پاک نہیں تھے ، اس لیے جرح و تعدیل کا عمل اس سے بھی بہت زیادہ متاثر رہا ہے ، اس کی بے شمار مثالیں جرح و تعدیل کی کتابوں میں موجود ہیں ، علامہ ذہبی لکھتے ہیں :
’’ہم عصر لوگوں کا کلام ایک دوسرے کے بارے میں معتبر نہیں ہے ، خصوصاً جب کہ ظاہر ہوجائے کہ وہ حسد اور دشمنی پر مبنی ہے ، جس سے وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ بچالے او ر میرے علم کے مطابق انبیاء اور صدیقین کے علاوہ کسی بھی زمانے کے لوگ اس سے محفو ظ نہیں رہے ہیں‘‘ ۔(اعلاء السنن: 177/19۔)
ظاہر ہے یہ ایک پوشیدہ کمزوری ہے ، اس لیے بعض علامتوں اور دلیلوں کی روشنی میں کچھ لوگوں کی جرح کے بارے میں معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ بغض و حسد یا معاصرانہ چشمک پر مبنی ہے لیکن تمام لوگوں کے بارے میں پتہ لگانا دشوار ہی نہیں بلکہ محال ہے ۔
سنت اور عملی تواتر:
حقیقت یہ ہے کہ عبادتوں کی صورت گری اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں اصل کردار سنت اور عملی تواتر کا ہے ،اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد و عمل کو صحابہ کرامؓ نے اپنی زندگی کا حصہ بنالیا، آپ ﷺ نے عبادت کے جو طریقے بتلائے ،صحابہ کرامؓ نے اسی کے مطابق عمل شرو ع کردیا ، پیدائش و وفات اور شادی بیاہ کے متعلق آپ نے جو ضابطے متعین کیے وہی معاشر ے میں رائج ہوگئے ، خریدو فروخت کے جو طریقے بتائے گئے بازاروں میں اسی کا چلن ہوگیا اور پھر ایک نسل کے ذریعے دوسری نسل تک منتقل ہوا ،اور ایک دن کے لیے بھی اس میں انقطاع نہیں ہوا بلکہ قرآن کے بیان پر مشتمل معاشرہ ایک تسلسل کے ساتھ ہم تک پہنچا ۔
اور امت کی سہولت کے پیش نظر بعض احکام میں تنوع اور تعدد کی رعایت رکھی گئی اور اللہ کے رسول ﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام ان مختلف سنتوں پر عمل پیرا رہے اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد مختلف ذوق اور رجحانات کے حامل صحابہ کرام عالم اسلام کے متعدد شہروں میں رہائش پذیر ہوگئے اور وہاں کے لوگوں نے ان کے ذریعے سے دین و شریعت کو سیکھا اور اس کے مطابق عمل کرتے رہے اور اگران کے پاس ایسی کوئی ’’خبر واحد‘‘پہنچتی جو ان کے معروف عمل کے خلاف ہوتی تو اسے قبول نہ کرتے ، امام مالک کے استاذ ربیعۃ الرای نے اس کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے :
’’ہزار نے ہزار سے سیکھا ، یہ ایک ایک کی روایت سے بہتر ہے ‘‘۔
عباسی خلیفہ ہارون رشید نے جب تمام لوگوں کو مؤطا میں مذکور روایتوں کے مطابق عمل کرنے کا پابند بنانا چاہا تو امام مالک نے فرمایا ،آپ ایسا نہ کریں، خود صحابہ کرام میں فروعات میں اختلاف رہا ہے اور انہوں نے مختلف شہروں میں رہائش اختیار کی اور وہاں کے لوگ اس کے مطابق عمل پیرا ہیں اور سب طریقے جاری ہوچکے ہیں ، ’’فقال لاتفعل فان اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اختلفوا فی الفروع وتفرقوا فی البلدان وکل سنۃ مضت‘‘(حجۃ اللّٰہ البالغۃ:27/1۔)
امام مالک کا عمل اہل مدینہ پر اصرار اور اس کی وجہ سے خود اپنی روایت کردہ حدیثوں پر عمل نہ کرنا اسی اصول پر مبنی ہے ، چنانچہ علامہ شا طبی ان کے متعلق لکھتے ہیں :
’’امام مالک اس عمل کو لیا کرتے تھے جس میں تسلسل پایا جاتا ہو اور جس پر اکثر لوگوں کا عمل رہا ہو اور اس کے علاوہ کو چھوڑ دیتے تھے ، گرچہ وہ کسی حدیث سے ثابت ہو ، کیونکہ انہیں تابعین کا زمانہ ملا تھا اور ان کے عمل کو انہوں نے غور سے دیکھا تھا اور تابعین انہی چیزوں پر عمل پیرا رہے جنہیں انہوں نے صحابہ کرامؓ کو کرتے ہوئے دیکھا اور ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے یہاں انہی اعمال پر استمرار تھا جنہیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو کر تے ہوئے پا یا ‘‘۔(الموافقات:270/3۔)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ ہر شہر کے لوگوں نے وہاں موجود علماء کے فتووں پر عمل کیا جیسے کہ مدینہ کے لوگ وہاں موجود فقہاء کے فتوے پر عمل کیا کرتے تھے اور امام مالکؒ نے انہی کے طریقوں کو مدون کیا اور کسی مسئلے میں وہاں کے لوگوں میں اتفاق ہو تو اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ سنت جس کے بارے میں ہمارے یہاں کوئی اختلاف نہیں ہے ، یہ ہے ’’السنۃ التی لا اختلاف فیھا عندنا کذا‘‘اور یہی حال مکہ اور کوفہ کا رہا ہے ۔(حجۃ اللّٰہ البالغۃ:271/1۔)
اور امام مالکؒ کی طرح سے امام ابوحنیفہؒ نے بھی تابعینؒ کا زمانہ پایا اور مدینہ کی طرح سے مکہ ، کوفہ اور شام میں بھی صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد آباد تھی اور طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق کوفہ میں اقامت اختیار کرنے والے صحابہ کرام میں سے ستر صحابی ایسے تھے جو جنگ بدر میں شریک تھے اور آٹھ سو وہ صحابہ کرامؓ تھے جو بیعت رضوان میں شامل تھے ، (طبقات ابن سعد:7/6۔) اور وہاں کے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے حضرت عمرؓ نے خاص طور سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بھیجا تھا ، جنہیں روانہ کر تے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ ابن مسعودؓ کی مجھے خود ضرورت تھی لیکن تمہاری ضرورت کے پیش نظر میں ایثار سے کام لے رہا ہوں ، ’’قد آثرتکم بعبد اللّٰہ بن مسعود علی نفسی‘‘ (تذکرۃ الحفاظ:16/1)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس نو آباد شہر کو علمی اعتبار سے کس طرح سے آباد کیا ؟ اس کا قدر ے اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت علیؓ کوفہ آئے تو بے ساختہ بول پڑے ، اللہ ابن مسعودؓ کا بھلا کرے انہوں نے اس شہر کو علم سے بھر دیا، ان کی محنت و کاوش ، جدو جہد اور لگن کا نتیجہ تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس شہر میں چار ہزار علماء اور محدثین پیدا ہوگئے جن میں ہرایک اپنی جگہ منارۂ نور تھا اور یہ تعداد صرف حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے تلامذہ کی ہے ، دیگر صحابہ کے تلامذہ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔
حضرت علیؓ نے کوفہ کو دارالخلافہ بنایا اور یہیں اقامت گزیں ہوگئے تو ان کے ساتھ بھی صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد کوفہ منتقل ہوگئی ، جن میں حضرت سلما ن فارسیؓ ، خباب بن ارتؓ ،حذیفہ بن یمانؓ ، ابو موسیٰ اشعریؓ ، براء بن عازبؓ اور عبداللہ بن اوفیؓ وغیرہ کا نام سرفہرست ہے ، (معرفۃ علوم الحدیث:191۔) ان عالی مقام اور ممتاز صحابہؓ کی آمد کی وجہ سے کوفہ علم کا ایک جگمگاتا ہوا شہر بن گیا اور وہاں کے آفتاب سے کسب فیض کرکے ایک ایسی جماعت تیار ہوگئی ، جو صحابہؓ کی موجودگی میں فتویٰ دیا کرتی تھی ۔
واضح رہے کہ حضرت عمرؓ کی نگاہ میں حضرت علیؓ کاکیا مقام تھا ؟ اسے حضرت سعید بن مسیب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
’’حضرت عمرؓ اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے تھے کہ کوئی مشکل مسئلہ پیش آجائے اور حضرت علیؓ موجود نہ ہوں ‘‘۔(تذکرۃ الحفاظ:16/1۔)
صحابہ کرامؓ کے درمیان حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ کا کیا درجہ تھا ،اس کے متعلق مشہور تابعی حضرت مسروقؒ کہا کرتے تھے :
میں نے دیکھا کہ تمام صحابہ کرامؓ کے علوم کے جامع چھ لوگ تھے ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ ، زید بن ثابتؓ، ابودرداء ؓاور ابن مسعودؓ ، پھر ان چھ کے علوم کے جامع دو شخص تھے ، حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ۔(مقدمہ ابن صلاح:127۔ )
امام ابوحنیفہؒ نے کوفہ میں موجود صحابہ کرامؓ کے عملی تواتر کو مدون کیا ، چنانچہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کے علوم کو ان کے اصحاب سے اور حضرت علیؓ کے علوم کو ان کے اصحاب سے اور حضرت ابن مسعودؓ کے علوم کو ان کے اصحاب سے سیکھا ۔(الخیرات الحسان:43۔)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒلکھتے ہیں :
’’امام ابوحنیفہؒ ابراہیم نخعیؒ اور ان کے ہم عصر علماء کے نقطہ نظر کی سختی سے پابندی کیا کرتے تھے اور بہت کم مسائل میں ان سے الگ رائے اختیار کرتے …اور ان کم جگہوں میں بھی وہ کوفہ کے فقہا ء کی رائے سے باہر نہیں نکلتے ‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغۃ:271/1)
اسی بنیاد پر حضرت سفیان ثوریؒ بھی کوفہ میں رائج عمل پر فتویٰ دیا کرتے تھے ، اس لیے ان کے اور امام ابوحنیفہ کے مسلک میں بہت کم فرق نظر آتا ہے ، سفیان ثوریؒ فقیہ بھی ہیں اور محدث بھی ، بلکہ ایک محدث کی حیثیت سے ان کی شہرت زیادہ ہے اورحدیث کی کتابیں ان کی روایات سے بھری پڑی ہیں ، مگر وہ خود اپنی روایت کردہ حدیث پر عمل نہیں کرتے اگر وہ کوفہ میں رائج عمل اور طریقے کے خلاف ہو ، چنانچہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اٹھانے ، سینے پر باندھنے اور زور سے آمین کہنے کی روایتوں کے وہ خود ناقل ہیں لیکن ان کاعمل اس کے برخلا ف ہے ۔
یہ تو روز پیش آنے والے مسائل ہیں لیکن جو مسائل کبھی کبھار پیش آتے ہیں ان میں بھی وہ امام ابو حنیفہ ؒکے ہم نوا ہیں ، جیسے امام مالکؒ ،شافعیؒ اور علماء حجاز کے نزدیک تین درہم یا چوتھائی دینار کی چوری میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا ، اس کے برخلاف امام ابو حنیفہؒ اور عراق کے اکثر لوگوں کے نزدیک دس درہم کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا ، کہا جاتا ہے کہ اس نقطہ نظر کی پشت پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے مگر سفیان ثوریؒ جیسے محدث کا بھی یہی مسلک ہے ، علامہ عظیم آبادی لکھتے ہیں :’’والیہ ذہب سفیان مع جلالتہ‘‘۔(عون العبود:33/12۔)
یحییٰ بن معین مشہور ناقد حدیث اور محدث ہیں ، علامہ ذہبی نے ان کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے :
’’وہ امام ،حافظ حدیث ، عبقری اور شیخ المحدثین ہیں ‘‘۔
سفیان بن عیینہ ، ابن مہدی ، یحییٰ القطان جیسے ماہرین فن ان کے اساتذہ ہیں اور امام احمدؒ ، بخاریؒ ، مسلمؒ اور ابوداودؒ جیسے محدثین ان کے تلامذہ میں شامل ہیں اوران سب کے باجود وہ فقہ حنفی کے مطابق عمل کیا کرتے تھے ۔
’’قلت قد کان ابوزکریا رحمہ اللّٰہ حنفیا فی الفروع‘‘۔(دیکھیے: سیر اعلام النبلاء :71/11-88/11۔)
اسی طرح سے حضرت وکیع بن جراحؒ ایک مشہور محدث ہیں ، ہشام بن عروہؒ ، سلیمان بن اعمشؒ ، اوزاعیؒ اور ابن عونؒ وغیرہ سے انہوں نے حدیث سنی اور عبداللہ بن مبارکؒ ،عبدالرحمن بن مہدیؒ ، حمیدیؒ اور ابن معینؒ وغیرہ ان کے شاگرد ہیں لیکن ان کے بارے میں بھی علامہ ذہبی کو یہ اعتراف ہے کہ :
’’اور امام ابو حنیفہؒ کے قول پر فتویٰ دیاکرتے تھے اور انہوں نے ابوحنیفہؒ سے بہت سی حدیثیں سنی ہیں ‘‘۔ (حوالہ مذکور:148/9۔)
بعض حضرات اس کی تاویل میں کہتے ہیں کہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ نبیذ کے حلال ہونے کے مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے ،لیکن سوال یہ ہے کہ کوفہ بلکہ عراق کے زیادہ تر لوگ اس کی حلت کے قائل تھے ، اس لیے ’’یفتی بقول ابی حنیفۃ‘‘ کی جگہ ’’یفتی بقول اھل الکوفۃ‘‘ کہنا چاہیے ، رہا بعض مسائل میں ان کا امام صاحب سے اختلاف تو ایسے ہی ہے جیسے کہ امام ابویوسفؒ اور محمدؒ کا ان سے بعض مسائل میں اختلاف ہے ۔
ان دونوں محدثین کے طرز عمل کی توجیہ اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتی ہے کہ وہ جانتے تھے کہ امام ابوحنیفہؒ نے جس چیز کی تدوین کی ہے وہ سنت اور عملی تواتر پر مبنی ہے اور ہمارے پاس جو حدیثیں ہیں وہ زیادہ تر ’’خبر واحد‘‘ ہیں اور عملی تواتر کے ہوتے ہوئے ’’خبر واحد ‘‘ پر عمل کی گنجائش نہیں ہے ۔
میت کو قبر میں کس طرف سے داخل کیاجائے ، دیوار قبلہ کی طرف سے یا پائنتی جانب سے ؟ اس میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے ، امام شافعی وغیرہ کی رائے ہے کہ پائنتی جانب سے داخل کرنا چاہیے اور اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں :
’’لوگ بکثرت دنیا سے رخصت ہوتے رہتے ہیں ، اس لیے میت کو قبر میں داخل کرنے کا معاملہ بڑا مشہور ہے اور دفن کے وقت بزرگان دین ، ائمہ کرام اور قابل اعتماد لوگ موجود ہوتے ہیں ، یہ ایک عمومی حیثیت کا معاملہ ہے جس کے لیے کسی حدیث کی ضرورت نہیں ، کیونکہ سب لوگ اس سے واقف ہوتے ہیں ، اس لیے اس طرح کے معاملے میں حدیث پیش کرنا بے جا تکلف ہے ، اللہ کے رسول ﷺ اور مہاجرین و انصار ہمارے درمیان رہے ہیں جن سے کسی اختلاف کے بغیر عمومی حیثیت سے یہ منقول ہے کہ میت کو پیر کی طرف سے داخل کیاجائے گا ‘‘۔(کتاب الام:2411)
امام شافعی کی یہ تحریر بڑی چشم کشا اور حقیقت افروز ہے اور بڑے اچھے انداز میں سنت اور عملی تواتر پر روشنی ڈالتی ہے ، اس اضافے کے ساتھ کہ دین کی دیگر چیزیں جو اسی طرح کی عمومی حیثیت کی ہوں ، ان میں بھی اس اصول کا لحاظ رکھا جائے گا اور جس طرح سے صحابہ کرامؓ مکہ اور مدینہ میں سکونت پذیر رہے ، اسی طرح سے کوفہ ، بصرہ ، شام میں بھی انہوں نے اقامت اختیار کی اور وہاں کے لوگوں نے ان کے ذریعے سنت حاصل کی اور پھر امام مالکؒ ، ابوحنیفہؒ وغیر ہ نے مدون شکل میں اسے امت کو پیش کیا ، صورت حال یہ ہے کہ میت کو قبر میں دائیں کروٹ لٹانے کے متعلق سرے سے کوئی حدیث نہیں ہے ، نہ صحیح ، نہ ضعیف لیکن پور ی امت اس کی سنت ہونے پرمتفق ہے کیونکہ عملی تواتر سے ثابت ہے ، علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ میں یہ ایسا معروف و مشہور ہے کہ اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔(السیل الجرار:362/1۔)
امام احمد بن حنبلؒ پیشے کے اعتبار سے نکاح میں کفاءت کے قائل ہیں ،ان سے کہا گیا کہ اس سے متعلق حدیثوں کو آپ خود ضعیف قرار دیتے ہیں ، پھرآپ اس کے قائل کیوں ہیں ؟ جواب میں کہا کہ عمل اسی کے مطابق ہے ’’العمل علی ھذا‘‘۔( فقہ السنۃ:252/2۔)
حدود و قصاص میں عورتوں کی گواہی کی عدم قبولیت پر کوئی صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں ہے لیکن اس پر تمام ائمہ متفق ہیں اور اتفاق کی بنیاد سنت ہے امام زہری کہتے ہیں:
جرت السنة من عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا تقبل شهاده النساء في الحدود. (حجة الله البالغة. كتاب القضاء )
انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے یہ سنت جاری ہے کہ حدود کے سلسلے میں عورتوں کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔
امام ابوحنیفہؒ نے کوفہ میں موجود سنت کو اور امام مالکؒ نے مدینہ میں موجود سنت کو اور امام شافعیؒ نے مکہ میں موجود سنت کو مدون کرنے کا کام انجام دیا اور یہی وجہ ہے کہ سند سے قطع نظر امام ابوحنیفہؒ نے کوفہ میں رائج ابن مسعودؓ کے تشہد کو اور امام مالکؒ نے مدینہ میں موجود حضرت عمرؓ کے تشہد کو اور امام شافعیؒ نے مکہ میں معروف ابن عباسؓ کے تشہد کو اختیار کیا ، حالانکہ سندی حیثیت سے ان میں قوی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا تشہد ہے ۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ اسلامی ہدایات اور تعلیمات محض حدیث کی معروف کتابوں سے ثابت ہوتی ہیں ، جن میں زیادہ تعداد ’’خبر واحد‘‘ کی ہے بلکہ یہ تعلیمات زیادہ تر سنت اور عملی تواتر سے ثابت ہیں، مکہ ، کوفہ اور مدینہ کے ہزاروں لوگوں نے سیکڑوں صحابہ کرامؓ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا اور پھراماموں کے دور میں اسے مرتب انداز میں کتابوں کے سفینے میں محفوظ کردیا گیا ۔
سنت اور عملی تواتر کی وجہ سے حدیث کو قبول نہ کرنا:
جیسا کہ گزر چکا ہے کہ اگر کوئی حدیث سنت کے خلاف ہوتی تو امام مالکؒ اور دوسرے فقہا ءؒ اور محدثینؒ اسے قبول نہ کرتے بلکہ اس کے بالمقابل سنت پر عمل کو ترجیح دیتے اور انہوں نے اس طریقے کو صحابہ کرامؓ سے سیکھا تھا اور سنت کی اسی اہمیت کے پیش نظر امام ترمذیؒ حدیث نقل کرنے کے بعد یہ ضرور لکھتے ہیں کہ اس کے مطابق فلاں فلاں کا عمل ہے ، بلکہ و ہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میری اس کتاب میں صرف دوحدیث ایسی ہیں جن پر کسی کا عمل نہیں ہے ، ایک کسی عذر کے بغیر گھر پہ رہتے ہوئے دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کی حدیث اور دوسری شرابی کو چوتھی مرتبہ قتل کردینے کی حدیث ۔ اورامام ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ ایک شافعی فقیہ کبھی کبھی امام شافعیؒ کے مسلک کے خلاف فتویٰ دے دیا کرتے تھے اور جب ان پراعتراض ہوتا تو کہتے کہ حدیث پر عمل کرنا امام شافعیؒ کے فتوے پر عمل کرنے سے بہتر ہے ، علامہ ذہبی ان پر نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جس حدیث کو انہوں نے اختیار کیا ہے اسے امام ابوحنیفہؒ اور شافعیؒ جیسے دوسرے اماموں نے قبول کیا ہو ، مثلاً امام مالکؒ ، سفیانؓ یا اوزاعیؒ وغیرہ اور وہ حدیث ثابت اور کسی علت سے محفوظ ہو اور امام ابوحنیفہؒ و شافعیؒ کی دلیل کوئی صحیح حدیث نہ ہو جو اس کے برخلاف ہو ، لیکن اگر کوئی ایسی صحیح حدیث کو اختیارکرتا ہے جسے تما م ائمہ اجتہاد نے رد کردیا ہو تو یہ درست نہیں ہے ، جیسے وہ حدیث جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی چوتھی بار شراب پینے میں پکڑا جائے تو اسے قتل کردو ،اور جیسے وہ حدیث جس میں کہا گیاہے کہ اللہ اس چور پر لعنت کرے جو انڈا چور ی کرتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹ دیاجا تا ہے‘‘ ۔( سیراعلام النبلاء:404/16،دوسری حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے ۔)
غرضیکہ کسی حدیث کے صحیح ہونے کے باوجود سلف یہ دیکھتے تھے کہ صحابہؓ و تابعینؒ کا اس پر عمل ہے یا نہیں ؟ اگر عمل نہیں ہے تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ حدیث منسوخ ہے یا راوی کے فہم کا قصور ہے ، ابن ابی زید قیروانی نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ العمل اثبت (عمل حدیث سے زیادہ مضبو ط اور قوی ہے ) اور بہت سے تابعین کے بارے میں انہوں نے لکھاہے کہ ان کے پاس دوسروں کے ذریعے سے کوئی حدیث پہنچتی تو کہتے کہ ہمیں بھی ان حدیثوں کا علم ہے لیکن اس پر عمل نہیں رہا ۔ (الجامع لابن ابی زید القیروانی:117۔)
عمل کی وجہ سے ضعیف حدیث کی تقویت:
بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ایک تسلسل کے ساتھ مسلم سماج کاحصہ رہی ہیں بلکہ اس سے مسلمانوں کی شناخت وابستہ ہے ، لیکن جب اس سے متعلق حدیث تلاش کی جاتی ہے تو وہ ضعیف ہوتی ہے یا سر ے سے کوئی حدیث ہی نہیں ہوتی ہے ، جیسے بیٹھ کر پیشاب کرنے ، عیدین کے موقع پر غسل کرنے ، نوزائیدہ بچے کے کان میں اذان دینے وغیرہ سے متعلق احادیث صحیح نہیں ہیں اور پیشاب کے بعد پانی یا ڈھیلا استعمال کر نے اور مردے کو قبر میں قبلہ رخ لٹانے سے متعلق سرے سے کوئی حدیث نہیں ۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں یہ کہہ کر انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں کیونکہ صحابہؓ و تابعینؒ کے زمانے میں کسی عمل کا رائج ہونا خود ایک قوی دلیل ہے اور اس کے ہوتے ہوئے کسی سند کی ضرورت نہیں ، علامہ ابن قیم ایک ضعیف حدیث پر کلا م کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’یہ حدیث اگرچہ ثابت نہیں ہے لیکن تمام شہروں اور زمانوں میں کسی نکیر کے بغیر تسلسل کے ساتھ اس پر عمل اس کے لائق عمل ہونے کے لیے کافی ہے ‘‘۔ (التحفۃ المرضیۃ مع الاجوبۃ الفاضلۃ:232۔)
اور علامہ سیوطیؒ لکھتے ہیں :
’’مقبول حدیث وہ ہے جسے علماء نے قبول کیا ہو اگر چہ اس کی کوئی صحیح سند موجود نہ ہو ‘‘۔(التحفۃ المرضیۃ :229۔)
اور ایک دوسری جگہ رقم طراز ہیں :
’’بہت سے اہل علم نے صراحت کی ہے کہ اہل علم کا کسی حدیث کاقائل ہونا اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ، گرچہ اس کی کوئی قابل اعتماد سند موجود نہ ہو ‘‘۔ (حوالہ مذکور:229۔)
جنازہ کو قبرمیں قبلہ رخ لٹانے کے متعلق علامہ ابن حزمؒ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے زمانے سے لے کر آج تک اسی کے مطابق مسلمانوں کا عمل رہا ہے ،(احکام الجنائزللالبانی :192۔) اور علامہ شوکانیؒ کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ میں یہ ایسا معروف و مشہور ہے کہ اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔(السیل الجرار:362/1۔)
حقیقت تو یہ ہے کہ سند کی ضرورت اس لیے تھی کہ جو چیز دین میں شامل نہیں ہے اسے حدیثوں کے نام سے دین میں شامل نہ کیاجائے اور سند اس لیے نہیں ہے کہ جس چیز کا دین ہونا یقینی ہو اسے سند کے ذریعہ سے خارج کر دیاجائے ، علامہ کشمیریؒ نے بجاطور پر لکھا ہے کہ :
’’جان لو کہ سندوں کی مضبوطی سے دھوکہ کھانے اور تعامل کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان ہوا ، حالانکہ سند توصرف دین کی حفاظت کے لیے تھی کہ جو چیز دین میں داخل نہیں ہے وہ دین میں شامل نہ ہونے پائے لیکن لوگ ان سندوں ہی کو پکڑے رہے یہاں تک کہ ان کے نزدیک تعامل کی اہمیت گھٹ گئی ، حالانکہ میرے نزدیک وہی فیصلہ کن چیز ہے ‘‘۔(فیض الباری:268/2۔)
عام طور پر مشہوریہ ہے کہ ضعیف حدیث ناقابل عمل ہوتی ہے مگر جامع ترمذی کا پڑھنے والا دیکھتا ہے کہ امام ترمذیؒ ایک حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن پھر خود ہی لکھتے ہیں کہ اس کے مطابق فلاں فلاں کا عمل ہے ، جیسے وہ یہ حدیث نقل کرتے ہیں :
’’جوکوئی کسی عذر کے بغیر دونمازوں کوایک ساتھ پڑھتا ہے تووہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے‘‘ ۔
پھر کہتے ہیں کہ یہ حدیث محققین کے نزدیک ضعیف ہے ،امام احمد وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیاہے مگر اسی کے مطابق اہل علم کا عمل ہے کہ عرفہ یا سفر کے علاوہ دو نمازیں ایک ساتھ نہ پڑھی جائیں ، مشہور محدث حسین بن محسن یمانی سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا بڑا تفصیلی جواب دیا جس کا حاصل یہ ہے کہ ضابطہ یہی ہے کہ احکام میں صرف صحیح یاحسن حدیث ہی قبول کی جائے گی لیکن یہ ضابطہ اس وقت ہے جب کہ اسے مقبولیت حاصل نہ ہو اور اگر کسی ضعیف حدیث پر عمل ہوتو وہ حجت ہے ، چنانچہ علامہ ابراہیم شبرخیتی کہتے ہیں :
’’احکام میں ضعیف حدیث پر عمل نہ کیے جانے کی بات اس وقت ہے جب کہ لوگوں نے اسے قبول نہ کیاہواور اگر لوگوں نے اسے قبول کرلیا ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا اور وہ ایک ایسی دلیل ہوجائے گی جس پر احکام اور دوسرے معاملے میں عمل کیاجائے گا جیسا کہ امام شافعی نے کہا ہے ‘‘۔ (التحفۃ المرضیۃ:233۔)
حافظ سخاوی لکھتے ہیں :
’’جب امت کسی حدیث کوقبول کرلے تو صحیح قول کے مطابق اس پر عمل کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ اس معاملے میں متواتر کا درجہ اختیارکر لیتی ہے کہ اس کے ذریعہ کسی قطعی حکم کومنسوخ کیا جاسکتا ہے ، اسی لیے امام شافعی نے کہا کہ حدیث لاوصیۃ لوارث محدثین کے نزدیک ثابت نہیں ہے لیکن اسے قبول عام حاصل ہے اور اس پر عمل کیا گیا ہے یہاں تک کہ اسے آیت وصیت کے لیے ناسخ قرار دیا گیا ہے ‘‘ ۔(حوالہ مذکور:232۔)
صورت حال یہ ہے کہ بعض حدیثوں میں کہا گیا ہے کہ پانی پاک ہے ، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کر سکتی ، الا یہ کہ ناپاکی کے پڑنے کی وجہ سے اس کا رنگ ، بو ، مزا بدل جائے ، محدثین کی نگاہ میں یہ حدیث ضعیف ہے لیکن تمام لوگوں کا عمل اسی کے مطابق ہے ،’’لکنہ قول العامۃ لا اعلم بنیھم خلافا ‘‘۔ (حوالہ مذکور:231۔)اور ایک حدیث میں ہے کہ اگر روزہ دار کو خود بخود قے ہوجائے تو اس پر قضا نہیں ہے اور اگر بالارادہ کرے تو اس پر قضا ہے ، امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ حدیث صحیح نہیں ہے ، (فتح الباری:152/4۔) یہی رائے امام ترمذیؒ کی بھی ہے لیکن اسی کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے ۔ (التحفۃ المرضیۃ:234۔)
علامہ ابن منذرؒ کہتے ہیں کہ نکاح میں گواہ بنانے سے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں ہے لیکن امام ترمذیؒ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے صحابہؓ اور تابعینؒ میں سے اہل علم اسی کے قائل ہیں ۔(فقہ السنۃ:169/2۔)
حدیث میں ہے کہ بیٹا اپنے باپ سے قصاص نہیں لے سکتا ، ’’لا یقید الابن من ابیہ‘‘ امام ترمذیؒ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح نہیں ہے ، لیکن اہل علم کا عمل اسی پر ہے ، اس لیے اگر باپ اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو قصاص میں اسے قتل نہیں کیاجائے گا ۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قاتل وارث نہیں ہوگا ، ’’القاتل لا یرث‘‘اس کے متعلق بھی امام ترمذی کہتے ہیں کہ حدیث صحیح نہیں ہے اور اس سند کے علاوہ کسی اور سند سے معلوم بھی نہیں ہے لیکن اہل علم کا عمل اسی پر ہے ۔(التحفۃ المرضیۃ:236۔)
واضح رہے کہ وراثت اور قصاص سے متعلق آیت و روایت بالکل عام ہے جس کا تقاضاہے کہ قاتل کو بھی وراثت میں حصہ ملے اور باپ کو بھی بیٹے کے قتل میں بطور قصاص قتل کر دیاجائے لیکن اس کے باوجود سنت اور عمل کی بنیاد پر عموم میں تخصیص کر دی گئی ہے اور اس کی وجہ سے ضعیف حدیث میں بھی قوت آگئی ہے ۔ علامہ حسین بن محسن یمانیؒ نے اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ذکر کی ہیں ، تفصیل کے طالب مذکورہ کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور جامع ترمذی وغیرہ سے تو اس سلسلے کی سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔
سنتوں میں اختلاف:
کیا ایک ہی معاملہ میں مختلف اور متعدد سنتیں ہوسکتی ہیں ؟ علامہ نوویؒ نماز کے ایک مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’نبی ﷺ کی نماز میں مختلف حالتیں ہواکرتی تھیں، کبھی آپ ایک طریقے پر عمل کرتے اور کبھی دوسرا طریقہ اختیار کرتے ، جیسے کہ آپ ﷺ کبھی لمبی قرأت کرتے اور کبھی مختصر اور کبھی آپؐ نے وضو میں اعضا کو ایک ایک مرتبہ دھلا اور کبھی دو اور تین مرتبہ اور کبھی آپؐ نے پیدل طواف کیا اور کبھی سواری پر ، وتر کی نماز آپؐ نے کبھی رات کے شرو ع میں پڑھی اور کبھی درمیا ن میں اور کبھی رات کے آخری حصے میں ‘‘۔(المجموع:429/3۔)
حقیقت یہ ہے کہ امت کی سہولت کے لیے جس طرح سے قرآن مجید کے مختلف طریقوں سے پڑھنے کی اجازت دی گئی اور قرأتوں میں یہ اختلاف تواتر کے ذریعے ثابت ہے ، اسی طرح سے دیگر احکام میں بھی تنوع اور تعدد کی رعایت رکھی گئی تاکہ امت دشواری میں مبتلا نہ ہو اور اگر کسی معاملے کی روح اور مقصد کے اہتمام کے ساتھ اس کی ظاہری شکل و صورت میں کچھ اختلاف ہو تو وہ نقصان دہ نہیں بلکہ مطلوب ہے ۔
جس طرح اللہ کے رسول ﷺ کے عہد مبارک میں صحابہ کرامؓ مختلف انداز کے ساتھ قرآن پڑھا کرتے تھے ، لیکن آپؐ کے بعد بعض علاقوں میں ایک خاص قرأت رواج پاگئی اور دوسری قرأتوں سے لوگ ناواقف اور نامانوس ہوگئے ، بالکل اسی طرح سے سنتوں کے سلسلے میں بھی ہوا کہ بعض علاقوں میں بعض سنتیں مروج ہوگئی ہیں جیسے کہ مدینہ میں تشہد کے جن الفاظ کا رواج ہوا وہ اس سے قدرے مختلف ہے جو مکہ میں رائج تھا اور ان دونوں سے بھی الگ تشہد پڑھنے کا معمول کوفہ میں تھا ، علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
’’کوئی اذان میں ترجیع کرے یا نہ کرے ، اقامت کے الفاظ کو ایک مرتبہ کہے یا دو مرتبہ ، سب ٹھیک ہے اور سنت کے مطابق ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ ترجیع ضروری ہے یا مکروہ ہے تو وہ غلطی پر ہے ، اسی طرح سے جو یہ کہتا ہے کہ ایک مرتبہ اقامت کہنا مکروہ ہے یا دو مرتبہ کہنا مکروہ ہے ، تو وہ غلط کہتا ہے ، رہا یہ کہ ان میں سے کسی ایک کو اختیارکرنا تو یہ اجتہادی مسائل میں سے ہے اور ایسے ہی ہے جیسے کسی خاص قرأت اور کسی خاص تشہد کو اختیارکرنا ‘‘۔(الفتاوی الکبریٰ:128/2۔)
حاصل یہ ہے کہ فقہاء مجتہدین کے مسلک کی عمارت سنت اور عملی تواتر کی بنیاد پر قائم ہے ، انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں موجود معروف و مشہور سنتوں کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے ، اس لیے ’’خبر واحد‘‘ کے ذریعے ان کے کسی نقطہ نظر کی تائید ہوجاتی ہے تو یہ اس کے حسن میں اضافے کا سبب ہوگا اور اگر کسی حدیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے تو اسے بلا دلیل اور غلط کہنا درست نہیں ، اور اسی کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ انہوں نے بہت سے مسائل میں رائے اور قیاس پر عمل کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے ، لیکن ان مسائل کی تعداد عبادات ، حدود اور وراثت وغیرہ میں نہ ہونے کے برابر ہے ، البتہ معاملات اور معاشرت میں اس کی مثالیں کثرت سے مل سکتی ہیں ، کیونکہ ان سے متعلق آیات و روایات کی تعداد بہت کم ہے اور خود شریعت کا مقصود ہے کہ ان میں وسعت رکھی جائے تاکہ قیامت تک باقی رہنے والے اور ہر عہد اور ماحول کے مسائل کا حل پیش کرنے والے دین میں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے ۔
شائع شدہ=ماہنامہ زندگی نو دہلی ۔جولائی ،اگست ،ستمبر ۔ 2018