بسم الله الرحمن الرحيم.
حج سے متعلق نئےمسائل۔
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔
موبائل: 9451924242
13-حرم میں کثرت سے آنے والوں کے لیے احرام
امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکہ سے باہر رہنے والوں کے لیے احرام کے بغیر میقات سے گزرنا درست نہیں ہے ، حج و عمرہ کا ارادہ ہو یا نہ ہو ، ہر حال میں احرام باندھنا اور پھر عمرہ کے ذریعے حلال ہونا ضروری ہے ، اسی طرح سے مکہ کا رہنے والا شخص میقات سے باہر نکل جائے تو واپسی میں احرام اور عمرہ ضروری ہے ۔
دوسرے اماموں کے نزدیک احرام اسی کے لیے ضروری ہے جو حج و عمرہ کے ارادے سے مکہ آئے ۔
سوال یہ ہےکہ مکی یا غیر مکی اگر بار بار میقات سے باہر جا کر حرم میں آتا ہو تو کیا ہر مرتبہ احرام باندھنا اور عمرہ کرنا ضروری ہوگا ؟ جیسے تجارت پیشہ افراد یا ٹیکسی اور ٹرک ڈرائیور وغیرہ ، ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو ہر مرتبہ احرام باندھنے اور عمرہ کرنے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں دم لازم کرنے میں حرج اور تنگی ہے ، اور شرعی احکام میں آسانی اور سہولت کا خیال رکھا گیا ہے اور تنگی و پریشانی کو دور کیا گیا ہے ، ارشاد ربانی ہے :
یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر ۔
اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لئے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا۔(سورة البقرة:185)
اور دوسری آیت میں ہے :
و ما جعل علیکم فی الدین من حرج ۔
، اور تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔(سورة الحج :78)
چنانچہ بغیر احرام کے ہر شخص کے لیے مکہ میں داخل ہونے کی ممانعت کی روایات حضرت عبد اللہ بن عباس سے منقول ہیں (1)
مگر وہ بھی سامان ڈھونے والوں اور ایندھن کی لکڑی فروخت کرنے والوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں ۔(2)
علامہ عینی کہتے ہیں کہ ایندھن فروش کے معاملے میں امام ابو حنیفہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
نیز وہ لکھتے ہیں : ابوعمر کہتے ہیں میرے علم کے مطابق اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایندھن فروش اور وہ لوگ جو روزانہ بکثرت مکہ آتے جاتے ہیں انھیں احرام باندھنے کا پابند نہیں بنایا جائے گا کیونکہ ایسا کرنے میں وہ پریشانی میں مبتلا ہوجائیں گے۔(3)
اورعلامہ ابن ھمام لکھتے ہیں :
میقات کے اندر رہنے والے کے لئے اپنی حاجت وضرورت کے لئے احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہونا جائز ہے؛ اس لئے کہ وہ کثرت سے مکہ جاتا رہتا ہے ۔اور اس پر ہر مرتبہ احرام لازم کرنے میں بڑی دشواری ہوگی۔(4)
میقات کے اندر رہنے والوں کے لیے حل کا آخری حصہ یعنی حرم مکی سے پہلے کا حصہ میقات کے حکم میں ہوتا ہے اور اگر حج وعمرہ کرنا ہوتو ان کے لیے اس سےآگے احرام کے بغیر بڑھنا درست نہیں ہے اور اس زمانے میں انہیں کے بارے میں بار بار حرم آنے کا تصور کیا جا سکتا ہے کیوں کہ وہ حرم سے قریب ہوتے ہیں ، دوسرے لوگوں کے بارے میں اس دور میں ایسا نہیں سوچا جا سکتا ہے ، موجودہ دور میں تیز رفتارسواری کی سہولت نے دوسرے لوگوں کو انہیں جیسا بنادیا ہے اس لیے جو حکم میقات کے اندر رہنے والوں کا ہے وہی باہر رہنے والوں کا بھی ہوگا کیوں کہ حرج و مشقت میں دونوں مشترک ہیں ۔
(1)لا یدخل احد مکۃ الا محرما ، حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے ، (نیل الاوطار 2/300،)اور سعید بن جبیر کی مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا یجاوز احد الوقت الا محرما ۔
کوئی بھی میقات سے احرام کے بغیر آگے نہ بڑھے ۔
( مصنف ابن ابی شیبہ 4/52 ) بعض لوگوں نے اسے مرفوعا ابن عباس کے واسطے سے نقل کیا ہے ۔
(2)عن ابن عباس قال لا یدخل احد مکۃ الا باحرام الا الحطابین و الحمالین و اصحاب منافعھا (مصنف ابن ابی شیبہ ،4/211، تلخیص الجبیر 1/211)
(3)قال ابو عمر : لا اعلم خلافا بین فقہاء الامصار فی الحطابین و من يدمن الاختلاف الی مکۃ و یکثرہ فی الیوم و اللیلۃ انھم لا یامرون بذالک لما علیھم فیہ من المشقۃ ، (عمدۃ القاری10/205)۔
(4)من کان داخل المیقات لہ ان یدخل مکۃ بغیر احرام لحاجتہ لانہ یکثر دخول مکۃ و فی ایجاب الاحرام فی کل مرۃ حرج بین (فتح القدیر 3/425 )۔