خطبہ جمعہ سے متعلق دو سنتیں
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
اللہ کے رسول ﷺ کی سنتوں میں ایک اہم سنت جمعہ کا خطبہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کبھی بھی خطبہ کے بغیرجمعہ کی نماز نہیں پڑھی ہے ، خطبہ نماز جمعہ کے لیے شرط ہے کہ اس کے بغیر جمعہ کی نماز درست نہیں ہے .( الھدایۃ:184/1)
خطبہ کے آداب اور مستحبات میں سے یہ ہے کہ امام جب خطبہ کے لیے اپنے حجرہ سے نکلے اور ممبر کی طرف بڑھے تو مسجد میں موجود لوگوں کو سلام کر ے ، اس کے مستحب ہونے پر چاروں اماموں کا اتفاق ہے ، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ ممبر پر چڑھنے کے بعد لوگوں کی طرف رخ کرکے سلام مسنون ہے یا نہیں ؟ عام طور پر فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھاہے کہ اس وقت سلام غیرمسنون ہے ، لیکن ’’السراج ‘‘ نامی کتاب کے حوالے سے علامہ ابن عابد شامی نے لکھا ہے کہ اس وقت بھی سلام مستحب ہے ،( رد المحتار:10/2) ماضی قریب کے ممتاز فقیہ اور محدث علامہ ظفر احمد عثمانی کی بھی یہی رائے ہے ، (اعلاء السنن:83/8)امام مالک کے متعلق علامہ نووی اور ابن قدامہ نے لکھاہے کہ ان کے نزدیک اس وقت سلام کرنا مسنون نہیں ہے ،( المجموع: 256/4،المغنی:148/2) اس کے برخلاف امام شافعی اور احمد بن حنبل کے نزدیک سلام کرنا سنت ہے ، جس کے دلائل یہ ہیں :
1۔عن جابربن عبداللّٰہ ان النبیﷺ کان اذا صعد المنبر سلم.
’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب منبر پرتشریف فرماہوتے تو سلام کرتے ‘‘۔
محد ث ابن ماجہ نے اس حدیث کی روایت کی ہے ،( سنن ابن ماجہ:87)اس میں ایک راوی ’’ابن لہیعہ‘‘ ہیں ، جن پر کلام کیا گیا ہے، اس لیے علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ بوصیری نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔( دیکھیے التلخیص الحبیر:155/2،زوائد ابن ماجہ:370/1)
2۔عن ابن عمرقال کان رسول اللّٰہﷺ اذا دخل المسجد سلم علی من عند منبرہ من الجلوس فاذا صعد المنبر یوجہ الی الناس فسلم علیہم۔
’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو منبر کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرتے اور جب منبر پر تشریف فرما ہوتے تو لوگوں کی طرف رخ کر کے سلام کر تے ‘‘۔
امام طبرانی نے اس حدیث کو ’’معجم اوسط ‘‘ میں نقل فرمایا ہے اور علامہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کی سند میں موجود ایک راوی عیسیٰ بن عبداللہ انصاری ضعیف ہے ،(مجمع الزوائد:215/1) ایسے ہی ابن عدی اور ابن حبان وغیرہ نے بھی انہیں ضعیف قرار دیا ہے ۔(دیکھیے :التلخیص:155/2،الکامل:253/5 لابن عدی، المجروحین:121/2،لابن حبان۔)
3۔عن الشعبی قال کان رسول اللّٰہﷺ اذا صعد المنبر یوم الجمعۃ استقبل الناس فقال السلام علیکم
’’امام شعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جمعہ کے روز جب منبر پر چڑھتے تو لوگوں کی طرف رخ کرکے کہتے ’’السلام علیکم‘‘۔
یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ امام شعبی تابعی ہیں اور کسی صحابی کے واسطے کے بغیر براہ راست اس روایت کو نقل کرتے ہیں ،(التلخیص:155/2) البتہ سندی حیثیت سے کوئی حرج نہیں ہے ۔(اعلاء السنن:83/8)
4۔ عن عطاء قال کان النبیﷺ اذا صعد المنبر یوم الجمعۃ استقبل الناس بوجھہ فقال السلام علیکم۔
’’حضرت عطاء سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺجمعہ کے دن جب منبر پر چڑھتے تو لوگوں کی طرف رخ کرکے کہتے ’’السلام علیکم‘‘۔
محد ث عبدالرزاق نے اس حدیث کو نقل کیا ہے لیکن روایت مرسل ہے اور ضعیف بھی ، کیونکہ محدثین کے نزدیک حضرت عطا ء کی مرسل روایت ضعیف سمجھی جاتی ہے ۔(حوالہ مذکور)
یہ احادیث اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی اعتبار سے ان میں قوت آجاتی ہے اور درجہ حسن تک پہنچ جانے کی وجہ سے ان سے استحباب ثابت کرسکتے ہیں ، خصوصاً جب کہ ایسا کرنا حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی سے ثابت ہے ۔(ابن ابی شیبہ: 449/1، مصنف عبدالرزاق:192/3)
جولوگ اس وقت سلام کو غیر مسنون کہتے ہیں ،ان کے پیش نظر یہ بات ہے کہ امام کمرے سے باہر نکلتے ہوئے سلام کرچکا ہے اور لوگوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے منبرکی طرف آیا ہے اور اس کے اور مسجد میں موجود لوگوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوا ہے کہ دوبارہ سلام کومسنون کیاجائے ، حالانکہ دوبارہ سلام اسی وقت مسنون ہے جب کہ دونوں کے درمیان کوئی حجاب آجائے ۔
اور جو لوگ اس وقت سلام کے قائل ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ منبر پر چڑھتے ہوئے لوگ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے ، اس طرح سے اس کے اور لوگوں کے درمیان حجاب آگیا ، لہٰذا اسے منبر پر چڑھنے کے بعد سلام کرنا چاہیے ، (’’لانہ استدبر الناس فی صعودہ
فاذا اقبل علیھم سلم‘‘۔ المجموع:526/4)
واضح رہے کہ پہلے مسجد سے متصل امام کے لیے ایک حجرہ ہوتا تھا اور وہ خطبہ کے وقت اس سے باہر نکلتا تھا اور سلام کرکے منبر پر جاکربیٹھ جاتا تھا ، چونکہ وہ ایک مرتبہ سلام کرچکا ہے اس لیے دوبارہ سلام کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا، جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے ، عام طور پر اب یہ صورت حال باقی نہیں ہے بلکہ امام پہلے سے مسجد میں موجود ہوتا ہے ، اس حالت میں بہ اتفاق منبر پر چڑھنے کے بعد سلام کرنا مسنون ہونا چاہیے ، البتہ مؤذن کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اتنے وقفہ کے بعد اذان شروع کرے کہ لوگ امام کے سلام کے جواب سے فارغ ہوجائیں ۔
نماز جمعہ میں دو خطبے ہوتے ہیں ، ان دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جانا بھی مسنون ہے ، خطبہ جمعہ میں اختصار مطلوب ہے اور طویل خطبہ سے حدیث میں منع کیا گیاہے ، چنانچہ اللہ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے :
5۔ عن عمار بن یاسرقال سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول ان طول صلاۃ الرجل وقصر خطبتہ مئنۃ من فقہہ فاطیلوا الصلاۃ واقصروا الخطبۃ۔
’’حضرت عمار بن یاسر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ طویل نماز اور مختصر خطبہ انسان کی سمجھداری کی علامت ہے ، لہٰذا تم نماز لمبی پڑھو اور خطبہ مختصر کرو ‘‘۔۔(صحیح مسلم:286/1)
6۔ عن جابربن عبد اللّٰہ قال کنت اصلی مع رسول اللّٰہﷺ فکان صلاتہ قصداً وخطبتہ قصداً۔
’’حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتا تھا ، میں نے دیکھاکہ آپ کی نماز اور خطبہ دونوں درمیانی درجے کے ہوتے تھے ‘‘۔(حوالہ مذکور 284/1)
7۔ عن جابر بن سمرۃ قال کان رسول اللّٰہﷺ لایطیل الموعظۃ یوم الجمعۃ انما ھن کلمات یسیرات۔
’’حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن لمبی تقریر نہیں کرتے تھے بلکہ چند مختصر جملے ہوتے تھے ‘‘۔( رواہ ابوداؤد ورجال اسنادہ ثقات، نیل الاوطار:145/3)
ان احادیث میں آنحضور ﷺ کا حکم بھی مذکور ہے ، خطبہ مختصر کرنے کی ترغیب بھی اور آپ ﷺ کا عمل بھی، جس کی روشنی میں فقہاء کرام نے لکھاہے کہ :
’’ تکرہ زیادتھما علی قدر سورۃ من طوال المفصل‘‘ (۲)
’’دونوں خطبوں کا طوال مفصل کی سورہ سے طویل ہونا مکروہ ہے ‘‘۔(رد المحتار 148/2)
لیکن آج صورت حال اس کے بر عکس ہے کہ خطبہ طویل اور نماز مختصر ہوگئی ،خاص کرجو لوگ غیر عربی زبان میں خطبہ کے قائل ہیں اور مقامی اور اردو زبان میں خطبہ دیتے ہیں ، ان کے طویل اور لچھے دار تقریر کے سامنے نماز کی کوئی نسبت ہی نہیں رہ جاتی ہے ۔