میاں بیوی کے درمیان شقاق و اختلاف کی صورت میں قاضی اور حکم کے اختیارات۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
نکاح ایک پاکیزہ اور پائدار بندھن ہے ، اس کی بنیاد باہمی الفت و محبت اور سکون و طمانیت پر ہے۔ (سورۃ الروم:21) اس رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اور بعض اختلافات اور ناپسندیدگی کو انگیز کرناچاہیے، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادہے:
وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسی ان تکرھوا شیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا۔
اور عورتوں کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ گذر بسر کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتاہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس کے اندر کوئی بڑی بھلائی رکھ دے۔(سورۃ النساء:19)
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
لایفرک مؤمن مومنۃ ان کرہ منھا خلقا رضی منھا خلقا آخر۔
کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو کچھ چیزیں پسندیدہ بھی ہوں گی۔(صحیح مسلم :1469)
نیز آپﷺ نے فرمایا:
ایما امرأۃ سألت زوجھا طلاقا من غیر بأس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ۔
جو عورت بلا وجہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے تو اس کے لیے جنت کی خوشبو حرام ہے ۔(رواہ اصحاب السنن وحسنہ الترمذی، جمع الفوائد/ 654)
لیکن کبھی محبت کے اس رشتے میں تلخی آجاتی ہے ، الفت اور چاہت کی جگہ دل میں نفرت بیٹھ جاتی ہے اور اصلاح حال کی تمام کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں، ایسی صورت میں ایک ناخوش گوار ضرورت کے تحت جدائیگی کی اجازت دی جاتی ہے ، اگر شوہر اس کی ضرورت محسوس کرتاہے تو وہ طلاق دے کر خوش اسلوبی کے ساتھ اس رشتہ کو ختم کردے اور اگر عورت محسوس کرتی ہے کہ اب اس کے لیے اس رشتہ کے تقاضوں پر عمل کرنا دشوار ہے تو وہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے ، جسے شرعی اصطلاح میں ’’خلع‘‘ کہا جاتا ہے، طلاق دینے کی شکل میں مرد مہر کی رقم کا نقصان گوارا کرتاہے اور خلع لینے کی صورت میں عورت اس رقم سے محرومی برداشت کرتی ہے۔
خلع کی تعریف:
قرآن حکیم میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے ’’لباس‘‘ قرار دیاگیا ہے، نباہ نہ ہونے کی صورت میں جدائیگی ایک طرح سے اس لباس کو اتار دینا ہے، اس لیے اس کے لیے ایک لفظ ’’خلع‘‘ بھی استعمال کیاگیاہے جس کے معنیٰ ہیں کسی چیز کو اتار دینا ، کھینچ لینا ۔اور اصطلاحی اعتبار اسے اس کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے:
فراق الرجل زوجتہ علی عوض یحصل لہ۔ کسی شخص کا اپنی بیوی سے کچھ عوض لے کر اسے چھوڑ دینا ۔(عمدۃ القاری 273/14)
اور علامہ ابن نجیم نے اس کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے:
ازالۃ ملک النکاح المتوقفۃ علی قبولھا بلفظ الخلع او ما فی معناہ۔
خلع یا اس جیسے کسی لفظ کے ذریعہ ملکیت نکاح کو اس طور پر ختم کرنا کہ وہ عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہو۔(البحر الرائق 119/4)
خلع میں قاضی کے اختیارات:
اگر شوہر یہ محسوس کرتاہے کہ بیوی کے ساتھ اس کے تعلقات ایسے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں کہ بظاہر ایک ساتھ رہنے کی کوئی شکل نہیں ہے تو اس کے لیے طلاق کی اجازت ہے اور اگریہی چیز بیوی محسوس کرتی ہے کہ اس رشتہ کو باقی رکھنے کی صورت میں اس پر شوہر کے جو حقوق ہیں ، ان میں کوتاہی ہوگی اور اس کے لیے نباہ کرنا دشوار ہے تو ایسی صورت میں اسے خلع کا مطالبہ کرنے کا حق ہے اور شوہر کے لیے مناسب ہے کہ وہ اسے اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائے اور اس کے مطالبہ پر اسے خلع دے دے، خلع اصلاً باہمی رضامندی کا معاملہ ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادہے:
ولایحل لکم ان تاخذوا مما آتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدوداللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ، تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا۔
اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی عورتوں کو جو کچھ دے چکے ہو اسے واپس لو، مگر یہ کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کے متعین کردہ ضابطوں کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو اگر تم کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ کے ضابطوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے ، اس مال کے سلسلہ میں جو عورت بطور فدیہ دے، یہ سب اللہ کے مقرر کردہ ضابطے ہیں ان سے باہر نہ نکلو۔(سورۃ البقرہ:229)
مہر وغیرہ دینے کے بعد اسے واپس لینا مرد کے لیے جائز نہیں ہے ، اس لیے اسے خیال آسکتا تھا کہ خلع کی صورت میں بھی اسے واپس لینا صحیح نہ ہو، اسی طرح سے عورت سوچ سکتی تھی کہ پیسہ دے کر چھٹکارا حاصل کرنا شاید باعث گناہ ہو، اس خیال کی تردید کے لیے کہا گیاکہ اس صورت میں بطور فدیہ عورت کے لیے کچھ دینے اور مرد کے لیے اسے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگرشوہر خلع کے مطالبہ کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور معاملہ قاضی کی عدالت تک آپہنچے تو وہ پہلے شوہر کو بلاکر اس سے خلع کے لیے کہے اور اگر اس کے کہنے کے باوجود بھی وہ تیار نہ ہو تو وہ خود بھی خلع دے سکتاہے، چنانچہ حدیث میں ہے :
ان امرأۃ ثابت بن قیس اتت النبی ﷺ فقالت یا رسول اللہ ثابت بن قیس ما اعتب علیہ فی خلق و لادین ولکنی اکرہ الکفر فی الاسلام فقال رسول اللہ ﷺ اتردین علیہ حدیقتہ قالت نعم قال رسول اللہ ﷺ اقبل الحدیقۃ وطلقھا تطلیقۃ رواہ البخاری و فی روایۃ لہ وامرہ ففارقہا ۔
ثابت بن قیس کی بیوی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہاکہ مجھے ثابت بن قیس کی دینداری اور اخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن مجھے یہ بھی گوارا نہیں ہے کہ مسلمان ہوکر ناشکری کا ارتکاب کروں، آپ ﷺ نے کہا: کیا تم ان کے دئے ہوئی باغ کو واپس کر دوگی؟ انھوں نے کہا ہاں، آپ ﷺ نے ان کے شوہر سے کہاکہ باغ لے لو اور ایک طلاق دے دو، ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کے حکم پر انھوں نے اسے خود سے الگ کردیا۔(صحیح بخاری مع الفتح 3768/3، بیت الافکار الدولیۃ)
علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ خلع کا مطالبہ کرنے والی اس خاتون کا نام جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی بن سلول تھا، نیز حضرت ثابتؓ کی ایک دوسری بیوی نے بھی ان سے خلع لے لیاتھا اور ان کانام حبیبہ بنت سہل تھا۔
ان دونوں واقعات میں اللہ کے رسول ﷺ نے خلع کے لیے حضرت ثابت کی مرضی معلوم نہیں کی بلکہ صورتحال واضح ہوجانے کے بعد انھیں چھوڑ دینے کا امر صادر فرمایا اور ’’امر‘‘ اپنی اصل کے اعتبار سے وجوب کے لیے ہوتا ہے اور مخاطب پر اس کی پابندی لازم ہے اور بغیر کسی دلیل کے اسے دوسرے معنیٰ پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے اور یہاں اس طرح کی کوئی دلیل نہیں ہے جو بتلائے کہ ’’امر‘‘ اپنے حقیقی معنیٰ میں استعمال نہیں ہواہے بلکہ اس کے برخلاف دلیل موجود ہے کہ ’’امر‘‘ اصل معنیٰ میں استعمال ہوا ہے کیونکہ مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ عورت کو اچھی طرح سے رکھے یا اسے خوش اسلوبی سے الگ کردے۔ خلع کے مطالبہ کی صورت میں اچھی طرح سے رکھنا دشوار ہوچکاہے، اس لیے اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود ہی اسے الگ کردے اور اگر وہ ایساکرنے کے لیے آمادہ نہ ہو تو پھر قاضی اس کی طرف سے اس فریضہ کو انجام دے گا۔(دیکھئے نیل الاوطار286/6، سبل السلام 167/3
دوسرے یہ کہ باہمی الفت و محبت اور سکون و اطمینان کے ساتھ خوشگوار زندگی
گذارنا نکاح کے بنیادی مقاصد میں سے ہے اور جب طبعی کراہت اور ناپسندیدگی یا تعلیم اور معیار زندگی میں فرق کی وجہ سے عورت محسوس کررہی ہے کہ اس کے لیے شرعی حقوق و فرائض کی رعایت کرتے ہوئے خوشگوار زندگی گذارنا دشوار ہے تو ایسی صورت میں قاضی کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ عورت کے مطالبہ پر دونوں کے درمیان تفریق کرادے جیسے کہ شوہر کی نامردی کی صورت میں قاضی کو تفریق کرادینے کا حق حاصل ہے۔
بعض روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ثابت کی غیرموجودگی میں تفریق کا فیصلہ صادر فرمادیا تھا اورجب انھیں اس کی اطلاع ملی تو بخوشی انھوں نے اس فیصلہ کو قبول کرلیا۔( قالت فاخذھا لہ ، وخلی سبیلھا فلما بلغ ثابت بن قیس قال قد قبلت قضاء رسول اللہ ﷺ .رواہ الدارقطنی باسناد صحیح، نیل الاوطار 247/6، اعلاء السنن 222/11)
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت ثابت کے مذکورہ واقعہ میں خلع کا معاملہ ان کی مرضی سے طے پایا تھا، چنانچہ نسائی میں مذکور روایت کے الفاظ یہ ہیں:
فارسل الی ثابت فقال لہ خذ الذی لھا علیک و خل سبیلھا فقال نعم۔
آنحضرت ﷺ نے حضرت ثابت کے پاس پیغام بھیجا کہ جو مال ان کا تم پر واجب تھا وہ لے لو اور ان کو چھوڑ دو، حضرت ثابت ؓ نے کہاں ہاں۔(الدر المنثور 282/1، نیز فقہی مقالات 272/1از مولانا تقی احمدعثمانی)
اور امام ابوبکر جصاص رازی نے لکھا ہے کہ اگر خلع کا اختیار سلطان کو ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ شوہر سے یہ نہ کہتے کہ خلع کرلو بلکہ خودہی خلع کرکے عورت کو الگ کردیتے اور شوہر کو اس کا باغ واپس کردیتے۔(احکام القرآن 395/1)
اگر اسے تسلیم بھی کرلیاجائے کہ خلع کا معاملہ حضرت ثابت کی مرضی سے طے پایا اور یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کی حیثیت وجوبی نہیں تھی اور وہ اسے قبول کرنے کے پابند نہیں تھے اور یہ کہ اگر بحیثیت قاضی اللہ کے رسول ﷺ خلع دینے کے مختار تھے تو پھر انھیں خلع کے لیے کہنے کی کیا ضرورت تھی ، خود ہی اس معاملہ کو حل کردیتے۔ تو اس پورے واقعہ سے صرف ایک بات معلوم ہوتی ہے کہ خلع کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قاضی پہلے خود شوہر سے خلع کرنے کے لیے کہے اور اس کی مرضی سے اس معاملے کو نپٹائے، یہ خلع کی بہتر شکل ہے ۔ جیساکہ فقہی کتابوں میں لکھاہے کہ شوہر کی نامردی کی صورت میں قاضی پہلے خود اسی سے طلاق کے لیے کہے گا اور اگر وہ آمادہ نہ ہو تو خود تفریق کرادے گا۔ خلع کے مسئلہ میں سوال یہ ہے کہ اگر شوہر قاضی کے کہنے پر طلاق دینے کے لیے آمادہ نہ ہو تو کیا قاضی محض اس کی خوشامد پر اکتفا کرے گا اور عورت کو کرب اور بے چینی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے چھوڑدے گا اور اسے شوہر کے کھونٹے سے بندھے رہنے پر مجبور کرے گا۔ یا نامردی وغیرہ کی طرح مقصد نکاح کو فوت ہوتا ہوا دیکھ کر عورت کے مطالبہ پر اسے الگ کردے گا، اہم چیز ہر حال میں دونوں کو رشتۂ نکاح میں باندھ کر رکھنا ہے یا مقصد نکاح کو برقرار رکھنا اور اللہ کے حدود کی نگہداشت اور حفاظت ہے؟ ظاہرہے کہ حدود اللہ کی پامالی کسی بھی حال میں گوارا نہیں ہے اور جب قاضی کو اس طرح کے کسی معاملہ کا علم ہو تو وہ اس کا انتظار نہیں کرے گا کہ میاں بیوی جب یہ معاملہ اس کے پاس لے آئیں تبھی وہ کوئی فیصلہ لے گا بلکہ وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے از خود مداخلت کرے گا ، چنانچہ علامہ ابن العربی لکھتے ہیں:
واذا علم الامام من حال الزوجین الشقاق لزمہ ان یبعث الیھا حکمین ولاینتظر ارتفاعھما لان ما یضیع من حقوق اللہ أثناء ما ینتظر رفعھا الیہ لاجبر لہ۔
جب قاضی کو زوجین کے درمیان نااتفاقی کی اطلاع ملے تو اسے ان کے پاس حکمین کو بھیجنا ضروری ہے اور قاضی ان کے آنے کا انتظار بھی نہیں کرے گا، کیونکہ ان کے آنے کے انتظار کے درمیان جو اللہ کے حقوق ضائع ہوں گے ان کی تلافی کی کوئی شکل نہیں ہے ۔(احکام القرآن 543/1)
اس لیے جب قاضی کو یہ محسوس ہوکہ عورت شوہر سے اس درجہ بیزار ہوچکی ہے کہ نباہ مشکل ہے تو وہ اس کے مطالبہ پر خلع کرادے گااور اس میں یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ بے زاری اور نفرت کی وجہ اور اسباب کا پتہ لگائے جیساکہ حضرت ثابت کے واقعہ میں ہوا کہ ان کی بیویوں کو ان سے اس درجہ نفرت تھی کہ ایک نے کہا:
یارسول اللہ لایجمع راسی و راسہ ابداً انی رفعت جانب الخباء فرأیتہ أقبل فی عدۃ فاذا ھو اشدھم سواداً واقصرھم قامۃ و اقبحھم وجھا، قال زوجھا یا رسول اللہ انی اعطیتھا افضل مالی حدیقۃ لی، فان ردت علی حدیقتی قال ما تقولین؟ قالت نعم وان شاء زدتہ قال ففرق بینھما۔
اللہ کے رسول! میر ا اور ان کا سر کبھی اکٹھا نہیں ہوسکتاہے، میں نے خیمہ کا گوشہ اٹھاکر دیکھاکہ وہ چند لوگوں کے ساتھ آرہے ہیں، وہ ان میں سب سے زیادہ کالے، کوتاہ قامت اور بدصورت تھے، ان کے شوہر نے کہا کہ اللہ کے رسول میں نے انھیں اپنا سب سے بہتر مال یعنی ایک باغ دے رکھاہے، اگر وہ باغ لوٹا دیں تو چھٹکارا ہوسکتاہے، اللہ کے رسول نے ان سے پوچھاکہ تم کیا کہتی ہو، انھوں نے کہا بالکل آمادہ ہوں بلکہ کچھ اور کا مطالبہ ہوتو اس کے لیے بھی تیار ہوں، اللہ کے رسول نے یہ سن کر دونوں کے درمیان تفریق کرادی۔(تفسیر ابن کثیر 340/1)
دوسری بیوی نے ان الفاظ میں اپنی بے زاری کا اظہار کیا:
یا رسول اللہ لو لا مخافۃ اللہ اذا دخل علی بصقت فی وجھہ فقال رسول اللہ ﷺ اتردین علیہ حدیقتہ؟ قال نعم فردت علیہ حدیقتہ قال ففرق بینھما رسول اللہ ﷺ(تفسیر ابن کثیر 341/1)
یارسول اللہ! اگر اللہ کا ڈر نہ ہو تا تو جب وہ میرے پاس آتے تو میں ان کے چہرے پر تھوک دیتی۔ اللہ کے رسول نے کہا: کیا تم ان کے باغ کو واپس کرسکتی ہو ؟ انھوں نے کہا : بالکل۔ اور باغ واپس کردیا ، راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے دونوں کے درمیان تفریق کردی۔
خلع کے لیے قاضی کا یہ جاننا کافی ہے کہ عورت کے دل میں شوہر کی طرف سے نفرت جڑ پکڑ چکی ہے اور اب نباہ مشکل ہے اور دونون کو ایک ساتھ رکھنے کی صورت میں حدوداللہ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ، یہ جاننے کے لیے قاضی اگر کوئی تدبیر اختیار کرنا چاہے تو کرسکتاہے، جیساکہ حضرت عمرؓ کے متعلق منقول ہے کہ ایک خاتون نے ان کے پاس آکر اپنے شوہر کی شکایت کی اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا، حضرت عمر نے اسے نصیحت کی اور شوہر کے ساتھ اچھی طرح رہنے کا مشورہ دیا جسے اس نے قبول نہیں کیا، جس پر انھوں نے اسے ایک ایسی کوٹھری میں بند کردی جس میں کوڑا کباڑا جمع تھا، تین دن قید رکھنے کے بعد اسے نکالا اور پوچھا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا قیدخانہ کی ان تین راتوں کے علاوہ مجھے کبھی راحت نصیب نہیں ہوئی تھی ، اس نفرت و کراہت کو دیکھ کر حضرت عمرؓ نے اس کے شوہر سے کہا: تیرا ناس ہو اسے خلع دے دے۔(حوالہ مذکورہ)
نفرت و کراہت کے اسباب کا کھوج لگانا قاضی کے لیے ضروری نہیں ہے ، اس لیے کہ بہت سی ایسی وجہیں ہوسکتی ہیں جو عورت کے لیے بے زاری کا سبب ہوں جسے بیان نہیں کیاجاسکتاہے اور اگر بیان کیاجائے تو دوسروں کی نگاہ میں وہ نفرت کے لیے کافی نہ ہو، اس لیے قاضی کا کام صرف یہ دیکھنا ہے کہ نفرت پیدا ہوچکی ہے ، اور اس کی وجہ سے ساتھ رکھنے کی صورت میں حدود اللہ کی پامالی کا اندیشہ ہے ۔
اور اگر قاضی یہ محسوس کرے کہ ان دونوں کے درمیان اختلاف ختم کیا جاسکتا ہے اور نباہ ممکن ہے تو پھر ان کے رشتہ داروں، پڑوسیوں یا دوسرے لوگوں کو درمیان میں ڈال کر مصالحت کی کوشش کرے، اگر صلح کی شکل پیدا ہوجائے تو یہی مطلوب ہے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو مصالحت کارو ں کے مہیا کردہ بیانات کو سامنے رکھ کر قاضی دونوں کے درمیان تفریق کردے۔(الروضۃ الندیۃ450دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
بہتر یہ ہے کہ ان میں سے ایک مرد کا رشتہ دار ہو اور دوسرا عورت سے متعلق ہو کیونکہ غیر کے مقابلہ میں اپنوں سے اس بات کی زیادہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اس رشتہ کی اہمیت اور اس کی نزاکت کو پیش نظر رکھیں گے اور ہر ممکن مصالحت کی کوشش کریںگے، اللہ کا ارشادہے:
وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکما من أھلہ وحکما من اھلھا ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما ، ان اللہ کان علیما خبیرا۔
اور اگر تمہیں دونون کے درمیان کشمکش کا علم ہو تو تم ایک حکم مرد کے خاندان سے اور ایک حکم عورت کے خاندان سے مقرر کردو، اگر ان دونوں کی نیت اصلاح حال کی ہوگی تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا، بلاشبہ اللہ بڑا علم رکھنے والا اور ہر طرح باخبر ہے۔(سورۃ النساء:35)
شقاق کی تعریف:
اس آیت میں مذکور لفظ ’’شقاق‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ایسی مخالفت اور ضد پیدا ہوجائے کہ باہم مصالحت دشوار ہوجائے۔ علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
الشقاق المخالفۃ وکونک فی شق غیر شق صاحبک۔
’’شقاق‘‘ اختلاف کا نام ہے ،اور یہ کہ تم ایک کنارے پر ہو اور تمہارا ساتھی دوسرے کنارے پر۔(المفردات /264)
علامہ شامی نے لکھا ہے:
اختلاف اور جھگڑے کا نام شقاق ہے۔
(الشقاق وھو الاختلاف والتخاصم . رد المحتار 87/5، المغنی263/10)
رشتوں میں تلخی اور مزاج میں اختلاف کی وجہ سے کشمکش اور تناؤ کی کیفیت پیدا ہوجائے جس کی وجہ سے دونوں یا ان میں سے کوئی ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ حقوق اور ذمہ داریوں میں کوتاہی کر رہا ہو اور حدوداللہ کی پامالی کا خطرہ ہو تو اس کیفیت کو ’’شقاق‘‘ کہاجائے گا۔(دیکھئے جامع البیان للطبری73/4)
شقاق کی صورت میں حکمین کے اختیارات:
حکمین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح صورت حال کا پتہ لگائیں، ظالم و مظلوم کی شناخت کریں، ظالم کو ظلم سے روکیں اور مظلوم کی فریاد رسی کریں، اور دونوں کے درمیان ہرممکن طریقے سے مصالحت کرانے اور شقاق کو وفاق سے بدلنے کی کوشش کریں لیکن اگر ان کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی ہے اور دونوں میں موافقت کی کوئی صورت نہیں نکلتی ہے اور اندیشہ ہے کہ ساتھ رہنے کی صورت میں لڑائی، جھگڑے کا ماحول بنارہے گا اور دونوں اللہ کے متعین کردہ حدود پر قائم نہیں رہیں گے اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کریںگے تو کیا ایسی حالت میں حکمین دونوں کے درمیان تفریق کراسکتے ہیں یا نہیں؟
حضرت عطاء اور حسن بصری فرماتے ہیں کہ حکمین کا کام صرف دونوں کے درمیان مصالحت کے لیے کوشش کرنا ہے، اس سے زیادہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے ، الا یہ کہ میاں بیوی نے خوش دلی سے انھیں اس رشتہ کو باقی رکھنے اور ختم کرنے کا اختیار دیا ہو، امام ابوحنیفہ بھی اسی کے قائل ہیں، امام شافعی اور احمدبن حنبل سے ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے ، اس نظریہ کے مطابق حکمین کی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے اور انھیں حدود میں رہ کر اقدام کرسکتے ہیں جو میاں بیوی میں سے ہر ایک نے ان کے لیے متعین کردئے ہیں اس کے برخلاف حضرت علی، ابن عباس، شعبی، نخعی ، سعید بن جبیر ، اوزاعی ، اسحاق راہویہ اور امام مالک فرماتے ہیں کہ حکمین کو میاں بیوی کی مرضی کے بغیر بھی ان دونوں کے درمیان تفریق کا حق حاصل ہے ، امام شافعی اور احمدبن حنبل سے بھی ایک قول اسی کے موافق منقول ہے(المغنی 263/10، زاد المعاد190/5) اور علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہی جمہور علماء کی رائے ہے. (تفسیر ابن کثیر 603/1)شوافع اور حنابلہ کی ایک بڑی تعداد نے اسی کو ترجیح دی ہے (زاد المحتاج333/3 ،الانصاف482/21) اس نقطہ نظر کے مطابق حکمین مکمل طور پر بااختیار ہوتے ہیں اور انھیں کوئی بھی فیصلہ لینے کے لیے کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے اور میاں بیوی کے نہ چاہتے ہوئے بھی مہر کی واپسی کے ساتھ یا اس کے بغیر انھیں تفریق کا اختیار ہے۔
حکمین کو وکیل قرار دینے والوں کے دلائل:
جولوگ حکمین کو میاں بیوی کا وکیل اور انھیں ان کی مرضی کا پابند قرار دیتے ہیں
ان کے دلائل یہ ہیں:
1-رشتہ نکاح کو باقی رکھنے اور ختم کرنے کا کلی اختیار شوہر کے ہاتھ میں ہے ، لہٰذا اس کی مرضی کے بغیر اس رشتہ کو ختم نہیں کیاجاسکتاہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم الا ان یعفون او یعفو الذی بیدہ عقدۃ النکاح۔
اگر تم نے انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی ہو اور مہر متعین کرچکے ہو تو جتنا تم متعین کرچکے ہو اس کا آدھا مہر واجب ہے، مگریہ کہ وہ عورتیں خود معاف کردیں یا وہ معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔(سورۃ البقرہ:237)
اس آیت میں مذکور ’’بیدہ عقدۃ النکاح‘‘ سے مراد شوہر ہے ، جیساکہ خود حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے ، عمرو بن شعیب کی سند سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
ولی عقدۃ النکاح الزوج.
نکاح کی گرہ شوہر کے ہاتھ میں ہے۔
(دیکھئے تفسیر قرطبی 206/3)
حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی ایک مرفوع حدیث اسی معنی میں منقول ہے جس کی سند حسن ہے ۔( دیکھئے روح المعانی 154/2) امام طبری وغیرہ نے بھی اسی تفسیر کو صحیح قرار دیاہے۔( تفسیر طبری 318/2)
اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مہر مقرر ہونے کی صورت میں اگر شوہر ہم بستری سے پہلے بیوی کو طلاق دے دے تو مقررہ مہر کا آدھا حصہ واجب ہے ، البتہ دو صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں، ایک یہ کہ عورت اپنے حق سے بخوشی دست بردار ہوجائے اور آدھا مہر بھی
نہ لے، دوسری صورت یہ کہ شوہر فیاضی سے کام لے اور جو مہر وہ دے چکا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے اور جو آدھا اسے واپس ملنا تھا ، اس سے بھی دستکش ہوجائے۔ اور جب نکاح کی گرہ شوہر کے ہاتھ میں ہے تو وہی اس کے باقی رکھنے اور کھول دینے کا اختیار رکھتاہے اور دوسرے کو اس کی مرضی کے بغیر دخل اندازی کا حق حاصل نہیں ہے۔
2-حضرت عبیدہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے پاس میاں بیوی اپنا مسئلہ لے کر حاضر ہوئے ، دونوں کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی ، ان لوگوں نے مرد و عورت کی طرف سے ایک ایک حکم متعین کیا، حضرت علیؓ نے حکمین کو مخاطب کرکے فرمایاکہ تم جانتے ہوکہ تمہاری ذمہ داری کیاہے؟ اگر ان دونوں میں مصالحت مناسب سمجھو تو مصالحت کرادو اور اگر تفریق مناسب سمجھو تو دونوں کو الگ الگ کردو، عورت نے کہا کہ میں اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں میرے موافق ہو یا میرے خلاف، شوہر نے کہا کہ علاحدگی مجھے گوارا نہیں ہے ، حضرت علیؓ نے کہا: اللہ کی قسم تم جھوٹے ہو تم یہاں سے ہٹ نہیں سکتے ہو جب تک کہ اللہ کے فیصلہ پر راضی نہ ہوجاؤ، چاہے وہ تمہارے موافق ہو یا تمہارے خلاف۔(تفسیر قرطبی 127/5، وقال ھذا اسناد ثابت صحیح)
اگر حکمین کو علاحدگی کا اختیار ہوتا تو حضرت علیؓ کا شوہر پر علاحدگی کے لیے وکیل بنانے پر دباؤ ڈالنا بے معنی ہوتا، شوہر راضی ہو یا ناراض وہ حکمین کو جدائیگی کے لیے کہہ دیتے، شوہر کو مجبور کرنے کا مطلب ہے کہ اس کی رضامندی کے بغیر تفریق نہیں ہوسکتی ہے۔(دیکھئے احکام القرآن للجصاص 192/2)
3-اگر شوہر قاضی کے پاس آکر بیوی کے ساتھ بدسلوکی کا اعتراف کرے تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں حکم بنانے سے پہلے قاضی کو علاحدگی کا اختیار حاصل نہیں ہے ، اسی طرح سے اگر عورت آکر شوہر کی نافرمانی کا اقرار کرے تو قاضی اسے خلع لینے اور مہر واپس کرنے پر مجبور نہیں کرسکتاہے، تو جس طرح سے حکم مقرر کرنے سے پہلے شوہر کی مرضی کے بغیر علاحدگی اور عورت کی رضامندی کے بغیر مہر واپس نہیں لیا جاسکتا ہے، اسی طرح سے حکم مقرر کرنے کے بعد بھی ایسانہیں کیاجاسکتاہے اور جب قاضی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے تو اس کی طرف سے مقرر کرہ حکمین کو یہ اختیار کیسے حاصل ہوگا۔(دیکھئے احکام القرآن للجصاص 192/2)
4-شوہر اپنی بیوی سے فائدہ اٹھانے اور عورت اس کے دئے ہوئے مہر کا مالک ہوتی ہے اور کسی حاکم اور قاضی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کے مال کو اس کی مرضی کے بغیر دوسرے کے حوالے کردے، کیونکہ خوش دلی کے بغیر دوسرے کے مال کو لینا باطل اور حرام ہے ، جس کی کتاب و سنت میں سخت ممانعت آئی ہے ، لہٰذا عورت کی مرضی کے خلاف مہر واپس لینا اور شوہر کی اجات کے بغیر اس کے فائدہ اٹھانے کے حق کو ختم کرنا جائز نہیں ہے ۔(احکام القرآن للجصاص 192/2)
5-قرآن کی کسی آیت اور رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ حکمین یا قاضی کو اس صورت میں علاحدگی کا حق ہے۔ (لیس فی الآیۃ ولافی شیء من السنن ان للحکمین ان یفرقا وان ذالک للحاکم۔ المحلی 87/10)
قرآن میں صراحت ہے کہ حکمین کا کام دونوں کے درمیان مصالحت اور موافقت پیدا کرنا ہے ’’ان یریدا اصلاحا‘‘ علاحدگی کے اختیار کا کہیں ذکر نہیں ہے(کتاب الام 194/5) حکمین کو صرف اس لیے مقرر کیاجاتاہے کہ وہ ان دونوں میں سے ظالم کو سمجھا بجھا کر ظلم سے باز رکھیں اور حاکم کو صورت حال سے باخبر کریں تاکہ حکمین کی بات نہ ماننے پر وہ بزور قوت ظلم کو روک دے۔(احکام القرآن للجصاص 193/2)
6-اگر میاں بیوی ان حکمین کو مکمل بااختیار وکیل بناتے ہیں تو ایسی صورت میں علاحدگی یا مصالحت ان کی صواب دید پر مبنی ہوتی ہے اور وہ اپنی رائے کے مطابق
فیصلہ کرتے ہیں ، اس لیے ان کو حکم کہاجاتاہے ۔
واضح رہے کہ علامہ قرطبی اور علامہ عینی نے لکھا ہے کہ حضرت عطاء، ابوثور ، حسن بصری اور علماء کوفہ کے نزدیک حکمین امیر اور حاکم کے نمائندے ہوتے ہیں اور انھیں علاحدگی کا اختیار نہیں ہے ، البتہ امیر اور امام علاحدگی کراسکتا ہے یا ان حکمین کو یہ اختیار دے سکتاہے ، اما شافعی سے بھی ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے ۔(وقال قوم لیس لھما الطلاق ما لم یوطھما الزوج فی ذالک ولیعرفا الامام وھذا بناء علی انھما رسولان شاہدان ثم الامام یفرق ان اراد او یامر الحکم بالتفریق وھذا احد قولی الشافعی وبہ قال الکوفیون وھو قول عطاء وابن زید والحسن وبہ قال ابوثور ، تفسیر قرطبی 126/5، وقال الکوفیون والشافعی واحمد یحتاجان الی الاذن لان الطلاق بید الزوج فان اذن فی ذالک والا فالحاکم طلق علیہ ، عمدۃ القاری 280/14)
حکمین کو بااختیار قرار دینے والوں کے دلائل:
جولوگ حکمین کو میاں بیوی کی رضامندی کے بغیر بھی تفریق کا اختیار دیتے ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:
1- وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکما من أھلہ وحکما من اھلھا ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما ، ان اللہ کان علیما خبیرا ۔
اور اگر تمہیں دونوں کے درمیان کشمکش کا علم ہو تو تم ایک حکم مرد کے خاندان سے اور ایک حکم عورت کے خاندان سے مقرر کردو، اگر ان دونوں کی نیت اصلاح حال کی ہوگی تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا، بلاشبہ اللہ بڑا علم رکھنے والا اور ہر طرح باخبر ہے۔(سورۃ النساء :35)
اس آیت میں حاکم اور قاضی کو مخاطب کرکے کہاگیا ہے کہ وہ زوجین کے درمیان اختلاف کی صورت میں دونوں کی طرف سے ایک نمائندہ متعین کریں۔(قال ابن بطال اجمع العلماء علی ان المخاطب بقولہ تعالیٰ ان خفتم شقاق بینھما الحکام۔ فتح الباری3774/3 ، اوجز المسالک 362/11) اور اس نمائندہ کو حکم کہا گیا ہے، جس کے معنی فیصلہ کرنے والے کے ہیں، جس سے معلوم ہوتاہے کہ رشتہ نکاح کو باقی رکھے اور ختم کرنے کا فیصلہ ان کے اختیار میں ہے ، اگر ان کی حیثیت محض وکیل اور ناصح کی ہوتی تو یہ لفظ استعمال نہ کیاجاتا، اس لیے کہ قرآن کی اصطلاح میں اور خاص و عام کے عرف میں کہیں بھی وکیل کے ’’حکم‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے، نیز حکم مقرر کرنے کا اختیار قاضی اور حاکم کو دیاگیاہے، اگر یہ مرد و عورت کے وکیل ہوتے تو وہ دونوں خود ہی اپنا وکیل مقرر کرتے، اسے قاضی کے حوالے نہ کیاجاتا۔
علاوہ ازیں ان حکمین کے متعلق کہاگیا ہے کہ اگر وہ مصالحت کا ارادہ کریں۔ (ان یریدا اصلاحا) ان کی طرف ارادہ کی نسبت اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی حیثیت وکیل کی نہیں ہے ، اس لیے کہ وکیل اپنا ارادہ و اختیار نہیں رکھتا بلکہ وہ موکل کے ارادہ و اختیار کا پابند ہوتاہے۔(دیکھئے زاد المعاد 190/5)
میاں بیوی کے درمیان حد سے گذرے ہوئے اختلاف کو ختم کرنے کے لیے ’’اصلاح‘‘ کا لفظ استعمال کیاگیاہے، یہ بڑا جامع لفظ ہے اور یکجائی اور جدائی دونوں کو شامل ہے یعنی اس اختلاف کی اصلاح کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دونوں کے درمیان اتفاق اور الفت و محبت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور جو رشتہ ٹوٹنے کے کگار پر ہے اسے جوڑ دیاجائے اور دوسری شکل یہ ہے کہ ان دونوں کو الگ کرکے اختلاف ونزاع کو ختم کردیاجائے، اس لیے کہ ساتھ رکھنے کی صورت میں مصالحت نہیں ہوسکتی ہے۔(ان یریدا ای الحکمان اصلاحاً ای قطعا للخصومۃ وھذا شامل للصلح والفراق ۔اوجز المسالک 263/11)
2-حضرت عثمان کے عہد خلافت میں حضرت عقیل ابن ابی طالب اور ان کی
بیوی فاطمہ بنت عقبہ میں اختلاف ہوا، فاطمہ نے حضرت عثمان سے شکایت کی اور آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت معاویہ کو حکم بناکر بھیجا اور کہا:
ان رأیتما ان تجمعا جمعتما وان رأیتما ان تفرقا فرقتما ۔
اگر تم دونوں انھیں ایک ساتھ رکھنا چاہو تو ایک ساتھ کردو اور اگر الگ کرانا چاہو تو الگ کردو۔
اسی واقعہ کے بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے کہاکہ میں دونون کو الگ الگ کرکے رہوں گا اور حضرت معاویہ نے کہا عبد مناف کے دو بزرگوں کے درمیان میں تفریق نہیں کروں گا۔(دیکھئے تفسیر ابن کثیر 603/1، زاد المعاد 191/5، زاد المعاد کے محقق نے لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں)
3-حضرت علیؓ کے دورمیں بھی اس طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تو انھوں نے بھی حکمین کو رشتہ باقی رکھنے اور ختم کرنے دونوں کا اختیار دیا ۔( علیکما ان رأیتما ان تفرقا فرقتما وان رأیتما ان تجمعا جمعتما. تفسیر قرطبی 127/5، زاد المعاد 191/5، قال محققہ واسنادہ صحیح)
یہ دونوں واقعات اس بات کے لیے واضح دلیل ہیں کہ حکمین مکمل بااختیار ہوتے ہیں اور تفریق کے لیے انھیں کسی کی مرضی اور اجازت کی ضرورت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؓ کے دور کے واقعہ میں جب شوہر نے حکمین کی اس حیثیت کا انکار کیا تو انھوں نے دباؤ ڈال کر اس سے ان کی اس حیثیت کو منوایا ، اگر تفریق کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہوتی تو دباؤ ڈالنا درست نہ ہوتا، اس لیے کہ جبر اور دباؤ کے ساتھ کوئی کام کرنے میں رضامندی شامل نہیں ہوتی ہے۔
4-الفت و محبت کے ساتھ رہنا نکاح کے اہم مقاصدمیں سے ہے اور جب میاں بیوی کا اختلاف گھر کے آنگن سے نکل کر قاضی کی عدالت تک آجائے اور لڑائی، جھگڑے کو ختم کرنے کی کوشش ناکام ہوجائے تو بہتر یہی ہے کہ دونوں کو الگ کردیاجائے تاکہ یہ دونوں اور ان کے متعلقین سکون و اطمینان کے ساتھ رہ سکیں اور ہرروز کی لڑائی جھگڑے سے نجات پاسکیں جیسے کہ شوہر کے نامرد ہونے کی صورت میں قاضی کو تفریق کااختیار ہے، جس طرح سے نامردی کی صورت میں نکاح کا ایک مقصد فوت ہورہاہے ، اسی طرح سے حد سے گذرے ہوئے اختلاف کی شکل میں بھی نکاح کا مقصد باقی نہیں رہا، اس لیے پہلی صورت کی طرح دوسری صورت میں بھی حکمین کو تفریق کا اختیار ہوناچاہیے۔(دیکھئے احکام القرآن لابن العربی 425/1، فتح الباری 3774/1)
حاصل بحث:
1-نکاح ایک پاکیزہ اور مضبوط بندھن ہے ، بلاوجہ اسے کمزور کرنے اور توڑنے کی کوشش غیر اخلاقی اور سخت ناپسندیدہ ہے۔
2-عصمت و عفت کی حفاظت اور الفت و محبت اور سکون و طمانینت نکاح کے دو اہم مقاصد ہیں، اگر ان مقاصد کی پامالی کا اندیشہ ہو تو پھر یکجائی سے جدائی بہتر ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص چار ماہ تک بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھالے اور اس مدت میں اپنی بیوی کے پاس نہ جائے تو خطرہ ہے کہ عورت فطری تقاضوں کی وجہ سے حدود اللہ کو توڑنے پر مجبور ہوجائے ، اس لیے اس مدت کے گذرنے کے بعد ازخود نکاح کا رشتہ ٹوٹ جائے گا اور زوجین کے درمیان اختلاف و نزاع کی صورت میں قاضی کو مداخلت کا حکم دیاگیاہے کیونکہ حدودالہ کی حفاظت ، رشتۂ نکاح کو باقی رکھنے سے زیادہ اہم ہے اور اس کے لیے اس رشتہ کی قربانی گوارا کرلی جائے گی۔
3-شوہر اگر محسوس کرتاہے کہ اس رشتہ کو باقی رکھتے ہوئے حدوداللہ کی حفاظت دشوار ہے تو اسے طلاق کے ذریعہ ختم کردینے کی اجازت دی گئی ہے ، البتہ اس صورت میں اسے دئے ہوئے مہر سے دست بردار ہونا پڑے گا اور اگریہی چیز عورت محسوس کرتی ہے تو اسے خلع کی شکل میں ایک قانونی حق فراہم کیاگیاہے کہ وہ شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے ، اگر شوہر اس پراضی ہے تو اسے گھر کے اندر ہی طے کرلینا زیادہ بہتر ہے، قاضی کے پاس جانا ضروری نہیں ہے ۔ لیکن اگرشوہر راضی نہ ہو تو پھر قاضی کے پاس جائے اور اگر قاضی کو معلوم ہوکہ اس رشتہ کو برقرار رکھتے ہوئے حدوداللہ کی پامالی کا اندیشہ ہے تو اسے عورت کے مطالبہ پر اس رشتہ کو ختم کردینا چاہئے، اس کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ عورت اس سے بے زار ہے اور اس کے ساتھ رہنے کے تیار نہیں ہے ۔ بے زاری کی وجہ اور اسباب کا پتہ لگانا ضروری نہیں ہے۔
اور اگر اسے امید ہوکہ ان کے درمیان کے اختلاف کو ختم کیاجاسکتاہے اور اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچایاجاسکتاہے تو وہ دونوں کے خاندانوں ، پڑوسیوں یا دوسرے نیک اور معاملہ فہم لوگوں کے ذریعہ صلح کی کوشش کرے اور اگر اس کی کوشش میں ناکامی ہو تو پھر ان مصالحت کاروں کے ذریعہ ان دونوں کو جدا کردینا چاہئے جیساکہ امام مالک اور بعض دوسرے فقہاء کا نقطہ نظر ہے ، یا قاضی مصالحت کاروں کے بیان کی روشنی میں خود ہی اس رشتہ کو ختم کردے، اس لیے کہ جب قاضی کے ذریعہ بھیجے ہوئے حکمین کو یہ حق حاصل ہے تو قاضی کو بدرجہ اولیٰ یہ حق حاصل ہوگا۔
4-یہ صحیح ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں ہے اور کوئی اس سے اس اختیار کو چھین نہیں سکتاہے، لیکن یہ بھی انصاف اور عدل کے خلاف ہے کہ شوہر تو اس درجہ باختیار ہوکہ وہ جب چاہے بے سبب اس رشتہ کو توڑدے اور عورت کو اس درجہ بے بس بنادیا جائے کہ وہ کسی بھی طرح سے ایسے شخص سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتی ہے جس سے اسے شدید نفرت پیدا ہوچکی ہے اور اس کی وجہ سے حدوداللہ متاثر ہو رہے ہوں اور سکون و اطمینان رخصت ہوجائے اور عصمت و عفت کاجنازہ نکل جائے۔ اسلام میں اس طرح سے کسی کو مطلق حق اور اختیار نہیں دیاگیاہے بلکہ تمام حقوق اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ ان کے استعمال میں ظلم و جور اور حدوداللہ کے ٹوٹنے کا اندیشہ نہ ہو ۔
5- اور قاضی اسی لیے ہوتاہے کہ وہ حدود اللہ کی نگہداشت کرے اور اسے پامالی سے بچائے اور جہاں کہیں اس کا اندیشہ ہو وہاں از خود مداخلت کرے اور یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی کے متعدد معاملات میں تمام فقہاء کے نزدیک قاضی کو تفریق اور فسخ نکاح کا حق حاصل ہے۔
شائع شدہ:مجلہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ ۔جنوری 2013ء