دارالحرب میں سود:

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

اسلامی احکام اپنے اندر آفاقیت لیے ہوئے ہوتے ہیں، وہ کسی زمان و مکان کے ساتھ خاص نہیں ہوا کرتے، خصوصی طور سے اخلاقی احکام میں یہ حیثیت نمایاں تر ہے شراب اگر عرب کے تپتے ہوئے صحرا میں حرام ہے تو ہندوستان جیسے معتدل ملک میں بھی اس کی حرمت پر کوئی چیز اثرانداز نہیں ہوگی۔ اگر زنا دارالاسلام میں جرم ہے تو دارالحرب میں بھی اس کی قباحت میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔ سود جو تمام اخلاقی برائیوں کی جڑ ہے جو ماں کے ساتھ زنا سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے ، اس میں یہ تفریق کیونکر گوارا کی جاسکتی ہے؟۔
قرآن پاک کی آیتیں، اللہ کے رسول ﷺ کے متعدد اور صریح و صحیح رواتیں، عہد نبوی کا ثابت شدہ عمل تمام اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے سود ناجائز اور حرام ہے ۔ اس میں مسلم و غیر مسلم، حربی یا ذمی کا کوئی امتیاز نہیں۔ صرف سود ہی نہیں بلکہ تمام غلط معاملات (عقودفاسدہ) مطلقاً ناجائز ہیں۔ غزوۂ خندق کا واقعہ ہے کہ ایک مشرک کی لاش خندق میں پڑی ہوئی ہے ، مشرکین کی خواہش ہوئی کہ مسلمان کچھ رقم لے کر نعش ان کے حوالے کردیں لیکن عین جنگ کے موقع پر اور شدید ضرورت کے باوجود آپﷺ نے اس قسم کے معاملات سے احتراز فرمایا۔(الخراج لابی یوسف/122)
حضرت ابوبکر صدیق نے جوا کی حرمت سے پہلے مشرکین سے ایک قمار آمیز معاملہ کیاتھا ،جیت کی رقم انھیں ایسے وقت ملی جبکہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان عارضی التواء جنگ ہوا تھا مگر حالت جنگ اب بھی باقی تھی ، رقم لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے ، آپؐ نے حکم دیا کہ اسے استعمال میں نہ لاؤ بلکہ صدقہ کردو۔ (فجاء بہ الی رسول اللہ ﷺ قال تصدق بہ .السیر الکبیر 1411/4)
ایک طرف قرآن و حدیث کی وہ تاکیدات ہیں جو مطلقاً سود کو حرام قرار دیتی ہیں ، دوسری طرف حضرت مکحول کی یہ مرسل روایت ہے:
لا ربی بین المسلم و الحربی فی دارالحرب۔
مسلمان اور حربی کے درمیان دار الحرب میں ربا نہیں ہے ۔
اس کے بارے میں حدیث کے ایک مشہور نقاد علامہ عینی حنفی کا کہنا ہے کہ
ھذا حدیث غریب لیس لہ اصل مسند (النہایۃ 65/3)
اور ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
لم یرد فی صحیح ولا فی مسند ولا فی کتاب موثوق بہ۔ (المغنی 47/4)
ان اقوال کا حاصل یہ ہے کہ یہ ایک غریب حدیث ہے جس کی کوئی اصل نہیں، کوئی ثبوت نہیں، حدیث کی کسی معتبرکتاب میں نہیں آئی ہے۔
علاوہ ازیں یہ حدیث دارالحرب میں سود کے حلال ہونے کے بارے میں صریح اور واضح بھی نہیں ہے ، جواز پر استدلال کی پوری بنیاد اس بات پر ہے کہ ’’لا ربی بین المسلم والحربی فی دارالحرب‘‘ میں لا کو نفی کے لیے مانا جائے اور یہ ترجمہ کیا جائے کہ ’’مسلم اور حربی کے درمیان دارالحرب میں سود نہیں ہوتا‘‘ لیکن اگر ’’لا‘‘ کو نفی نہیں بلکہ نہی کے معنی میں لیاجائے اور یہ مطلب لیاجائے کہ مسلم اور حربی کے درمیان دارالحرب میں بھی سود ناجائز ہے جیساکہ قرآن کریم کی اس آیت میں ’’لا‘نہی کے معنی میں ہے:
فلارفث ولافسوق ولاجدال فی الحج۔ (بقرہ:197)
پھر حج میں نہ کوئی فحش بات ہونے پائے اور نہ کوئی بے حکمی اور نہ کوئی جھگڑا۔ اس صورت میں یہ حدیث بھی جواز کے بجائے حرمت کی دلیل بن جائے گی ۔(المغنی 47/4، شرح مہذب 392/9)
اصولی اعتبار سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا ایک مختصر، مبہم، غیرواضح اور مختلف فیہ خبر واحد خدا کی کتاب اور صریح وصحیح اور مطلق احادیث کے لیے مقید بن سکتی ہے؟ حنفیہ کے یہاں اصول تو یہ ہے کہ کتاب اللہ کے کسی عمومی حکم کو خبرواحد کے ذریعہ سے خاص نہیں کیاجاسکتا۔
جہاں تک امام ابوحنیفہؒ و محمدؒ کے مسلک کی بات ہے تو وہ محض اتفاقی رخصت ہے کہ جنگ کے اضطراری حالات میں اگرکوئی سود لے لے تو اس پر مواخذہ نہیں ہوگا۔
رہا یہ مسئلہ کہ اگر مسلمان اس ملک میں سود نہ کھائیں تو وہ قلاش، دریوزہ اور بے گھر ہوکر رہ جائیں گے۔ مسلمانوں کی ترقی کا واحد راز سودکے لینے میں ہے ، اس سلسلے میں مجھے کہنے دیجئے کہ مسلمان سود کھا کر کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کی معاشی حالت سدھر سکتی ہے بلکہ وہ روز بروز پستی اور زوال ہی کی طرف بڑھتاجائے گا کیونکہ ارشادربانی ہے :
یمحق اللہ الربا و یربی الصدقات۔ (بقرہ)
اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاوا دیتاہے۔
اور اس کے فرستادہ کا اعلان ہے:
ان الربی وان کثرفان عاقبتہ تصیر الی قل (ابن ماجہ و سنن کبری، مسند احمد) سود گو زیادہ ہوجائے مگر انجام کار وہ کم ہوکر رہے گا۔
نیز فقہی بحثوں میں الجھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ مسلمان محض ایک گروہ اور جماعت کا نام ہے جو اپنے فائدے کی خاطر اپنے تمام اصولوں کو پس پشت ڈال دیتی ہے بلکہ یہ وہ ملت ہے جو دنیا میں مکارم اخلاق اور اصول کی دعوت دینے کے لیے بھیجی گئی ہے ۔ اگروہ اپنے چند ٹکوں کے فائدے کی خاطر اپنے اصولوں ہی کو قربان کرتی رہے تو پھر دوسری قوموں کو وہ اس کی دعوت کیسے دے سکتی ہے ؟ وہ کس امتیازی اصول کی بناپر دلوں کو مسخر اور روحوں کو قابو میں کرسکے گی۔ اگر وہ ایک طرف سود کی برائیاں اور قباحتیں اور شناعتیں بیان کرتی پھرے اور دوسری طرف جائز قرار دے کر خود بلاجھجک استعمال کرتی رہے ۔ اس دورنگی کو دیکھ کر کون ایسا شخص ہوگا جو اس کی دعوت پر لبیک کہے گا۔بلکہ عجب نہیں کہ اس کا یہ عمل لوگوں کے لیے اسلام سے نفرت اور دوری کا باعث بن جائے۔
٭٭٭
شائع شدہ ترجمان دار العلوم دیوبند ،دہلی،دسمبر 1994ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے