بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دعا اور تعویذ کی شرعی حیثیت
ولی اللہ مجید قاسمی
رب کائنات بے پایاں قدرت و طاقت کا مالک اور بے انتہاء مہربان اور نہایت رحم و کرم والا ہے، وہ ہر چیز کا مالک و مختار ہے اور پوری کائنات اس کی محتاج اور دست نگر ہے، سبب اور تاثیر اسی کی دست قدرت کا نتیجہ ہے اور اسی کے ساتھ اس کا کوئی کام حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا ہے، خود اس کی طرف سے یہ اعلان ہے :
و ان يمسك الله بضر فلا كاشف له إلا هو و ان يردك بخير فلا راد لفضله يصيب به من يشاء من عباده و هو الغفور الرحيم .(یونس : 107)
اور اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی تکلیف پہنچا دے، تو اس کے سوا کوئی نہیں ہے، جو اسے دور کر دے اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی پہنچانے کا ارادہ کر لے تو کوئی نہیں ہے، جو اس کے فضل کا رخ پھیر دے، وہ اپنا فضل بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، پہونچا دیتا ہے اور وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے ۔
اسی حقیقت کو اس کے آخری پیغمبرﷺ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
واعلم ان الامة لو اجتمعت على ان ينفعونك بشئ لم ينفعونك الا بشئ قد كتبه الله لك ولو اجتمعوا على ان يضروك بشئ لم يضروك الا بشئ قد كتبه الله عليك. (جامع ترمذی :2516.مسند احمد:2669)
اور یہ جان لو کہ پوری دنیا کے لوگ مل کر اگر تمہیں کوئی فائدہ پہنچانا چاہیں، تو وہ تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے جو اللہ تعالی نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے اور اگر سب مل کر تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں، تو بھی کچھ نہیں کر سکتے، سوائے اس کے جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے ۔
دوا، علاج، جھاڑ پھونک اور تعویذ بھی ایک ظاہری سبب اور تدبیر ہے، جس میں اثر پیدا کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے، اگر وہ چاہے گا تو ایک معمولی تدبیر بھی کارگر ہو جائے گی اور لاعلاج مریض بھی شفایاب ہو جائے گا اور اگر وہ نہ چاہے تو معمولی مرض میں بھی دنیا بھر کے علاج اور دوا سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
اس لیے ہر شخص کو خصوصاً مریض کو اللہ سے اپنے تعلق کو استوار اور مضبوط کرنا چاہیے اور یہ تعلق خود ایک بہت بڑا علاج ہے، اس سے محسوس ہوگا کہ اللہ تعالی ہر لمحہ اس کے ساتھ ہیں اور وہ اس کے ہر دکھ، درد اور مصیبت سے باخبر ہیں اور وہ سراپا مہربان ہیں اور ان کا کوئی کام حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ۔
اللہ کی قدرت و حکمت، لطف و عنایت، مشکل کشائی اور حاجت روائی کے استحضار سے لاچاری، بے کسی اور مایوسی کا شکار نہیں ہوگا اور اس کے نتیجے میں مرض سے مقابلے کا عزم و حوصلہ اور صلاحیت پیدا ہو جائے گی ۔
رقیہ کا ثبوت :
مرض سے شفایابی کا ایک طریقہ جھاڑ پھونک وغیرہ بھی ہے اور اس طریقے کی افادیت کتاب و سنت سے ثابت ہے اور تمام فقہاء اس کے جواز پر متفق ہیں ۔
قرآن کا ایک نسخہ شفاء :
قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس سے تعلق کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، وہ قلبی اور روحانی امراض کے لیے بھی شفاء ہے اور ظاہری و جسمانی امراض کے لیے بھی، ارشاد ربانی ہے :
وننزل القرآن ما هو شفاء و رحمۃ للمؤمنين ولا يزيد الظالمين الا خسارا . (بنی اسرائیل: 82)
اور ہم وہ قرآن نازل کر رہے ہیں، جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت کا سامان ہے، البتہ ظالموں کے حصے میں اس سے نقصان کے سوا کسی اور چیز کا اضافہ نہیں ہوتا ۔
اس آیت کی تفسیر میں امام رازی لکھتے ہیں کہ قرآن روحانی امراض کے لیے بھی شفا ہے اور جسمانی امراض کے لیے بھی ۔ روحانی امراض کے لیے شفا ہونا تو ظاہر ہے، اس لیے کہ روحانی بیماریاں دو طرح کی ہوتی ہیں، باطل عقیدہ اور خراب اخلاق، قرآن میں ان دونوں روحانی بیماریوں کا علاج موجود ہے، رہا جسمانی علاج تو اس کی تلاوت کی برکت سے بہت سے امراض دور ہو جاتے ہیں، کیوں کہ قرآن عظیم اللہ کے ذکر اور اس کی کبریائی کے اعلان و اظہار اور مقرب فرشتوں کی عظمت اور سرکش شیاطین کی ذلت و حقارت کے بیان پر مشتمل ہے، جس کی تلاوت سے بدرجہ اولی دین و دنیا کا نفع وابستہ ہے (تفسیر کبیر 34/22۔باختصار، نیز دیکھئے:تفسیر مظہری 483/5)
علامہ ابن قیم اس نقطۂ نظر کے پرجوش حامیوں میں سے ہیں، وہ کہتے ہیں :
محدث ابن ماجہ نے حضرت علی کے واسطے سے یہ حدیث نقل کی ہے:
خیر الدواء القرآن۔
بہترین دواء قرآن ہے۔
(ابن ماجہ 3501، کتاب الطب، حدیث ضعیف ہے)
اور کسے معلوم نہیں ہے کہ بعض کلام کے مخصوص فوائد اور مجرب منافع ہوتے ہیں، پھر رب العالمین کے کلام کے بارے میں کیا کہنا ؟ جس کی فضیلت اور برتری دیگر کلاموں پر ایسے ہی ہے جیسے کہ اللہ کی برتری اپنی مخلوق پر، قرآن شفاء کامل، مکمل حفاظت، منارۂ نور اور رحمت عام ہے، اگر اسے پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو اس کی عظمت و جلال کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہو جاتا ۔ (زاد المعاد 176/4)
نیز وہ لکھتے ہیں :
جسم اور دل کی تمام بیماریوں اور دنیا و آخرت کے تمام دکھوں کے لیے قرآن شفاء تام ہے، لیکن ہر شخص اس سے شفا حاصل کرنے کا اہل نہیں ہے اور نہ ہی ہر شخص کو اس کی توفیق ہوتی ہے اور اگر مریض قرآنی علاج کا صحیح طریقہ جانتا ہو اور سچے دل، پورے یقین، جذبۂ خالص، پختہ اعتقاد اور دیگر تمام شرطوں کے ساتھ علاج کرے، تو پھر مرض اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا ہے اور آسمان و زمین کے پروردگار کے کلام کے مقابلے میں بیماری کیسے ٹھہر سکتی ہے؟ حالاں کہ اس کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو وہ چکنا چور ہو جاتا، زمین پر اتارا جاتا تو وہ پھٹ جاتی، لہٰذا دنیا میں کوئی ایسی جسمانی اور قلبی بیماری نہیں ہے، جس کے سبب اور علاج کی طرف قرآن نے رہنمائی نہ کی ہو اور اس سے بچنے کی راہ نہ بتلائی ہو، لیکن اس سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب کی سمجھ عطا فرمائی ہو (زاد المعاد 352/4)
اور حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا :
اقروا سورۃ البقرۃ فان اخذھا برکۃ و ترکھا حسرۃ و لا تستطیعھا البطلۃ. (صحیح مسلم :804)
سورہ بقرہ پڑھا کرو، کیوں کہ اس کا پڑھنا برکت ہے اور نہ پڑھنا حسرت ہے اور کوئی جادوگر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے ۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
علیکم بالشفاءین العسل و القرآن. (سنن ابن ماجہ: 3452، فی الزوائد اسنادہ صحیح، رجالہ شتات)
شفاء کی دو چیزوں کو لازم پکڑلو، شہد اور قرآن ۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا :
فی فاتحۃ الکتاب شفاء من کل داء. (سنن دارمی: 3413، اسنادہ صحیح غیر انہ مرسل)
سورہ فاتحہ میں ہر بیماری سے شفاء ہے ۔
اور حضرت عمرہ بنت عبد الرحمٰن کہتی ہیں :
ان ابا بکر دخل علی عائشۃ و ھی تشتکی و یھودیۃ ترقیھا فقال ابو بکر ارقیھا بکتاب اللہ . (المؤطاء :2717)
حضرت ابو بکر حضرت عائشہ کے پاس گئے وہ اس وقت بیمار تھیں، دیکھا کہ ایک یہودی عورت کچھ پڑھ کر دم کررہی ہے، تو فرمایا : اس پر اللہ کی کتاب سے پڑھ کر پھونکو۔
یہودیوں نے رسول اکرم ﷺ پر جادو کر دیا تھا، جس کے لیے بطور علاج سورہ فلق اور سورہ ناس نازل کی گئی، رسول اکرم ﷺ پر جادو کیا جانا متواتر روایتوں سے ثابت ہے؛ نیز مذکورہ دونوں سورتوں کو بطور رقیہ پڑھنا بھی صحیح حدیثوں میں مذکور ہے، البتہ مذکورہ دونوں سورتیں جادو کے توڑ کے لئے نازل ہوئیں یا نہیں؟ اس سے متعلق احادیث ضعیف ہیں، (دیکھیے تفسیر ابن کثیر579/4)
اور بعض صحابہ کرام نے ایک شخص پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، جسے سانپ نے کاٹ لیا تھا اور وہ اس کی وجہ سے شفاء پا گیا، اللہ کے حبیب ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا : "مایدریک انھا رقیۃ؟” تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سوره فاتحہ رقیہ کے لیے بھی ہے ؟(صحیح بخاری : 2276، صحیح مسلم: 2201وغیرہ) اس طرح سے آپ ﷺ نے ان کے عمل کی تائید فرمائی۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ایک بار آنحضرتﷺ کی انگلی پر سجدے کی حالت میں بچھو نے ڈنک مار دیا، سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ نے نمک اور پانی منگایا اور اسے ڈنک کی جگہ پر لگاتے رہے اور سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ڈنک کا اثر ختم ہو گیا (زاد المعاد 180/4)
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کی آیات میں جسمانی امراض سے شفاء کی بھی صلاحیت ہے ۔
احادیث نبویہ :
"رقیہ” کے جواز کے معاملے میں قرآن سے استدلال کے سلسلے میں اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن جہاں تک احادیث کا تعلق ہے، تو وہ بالکل واضح اور صریح اور بہت سے صحابۂ کرام سے منقول ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں :
1 ۔ عن عائشۃ قالت : امرنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یسترقی من العین (صحیح بخاری: 5738، صحیح مسلم: 2195)
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول ﷺ نے مجھے نظر بد سے جھاڑ پھونک کرانے کا حکم دیا ۔
2۔ عن ام سلمۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رای فی بیتھا جاریۃ فی وجھھا سفعۃ فقال استرقوا لھا فان بھا النظرۃ . (صحیح بخاری :5739، صحیح مسلم :2197)
حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے گھر ایک لڑکی کو دیکھا، جس کے چہرے پر زردی چھائی ہوتی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے جھاڑ پھونک کراؤ، کیونکہ اسے نظر لگ گئی ہے ۔
3 ۔ عن عوف بن مالک قال نرقی فی الجاھلیۃ فقلنا : یا رسول اللہ ! کیف تری فی ذالک؟ فقال اعرضوا علی رقاکم لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک. (صحیح مسلم: 2200، سنن ابو داؤد :3886)
حضرت عوف بن مالک کہتے ہیں کہ ہم زمانۂ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے، ہم نے رسول ﷺ سے عرض کیا کہ اس معاملے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ارشاد ہوا اپنا رقیہ پڑھ کے سناؤ، پھر آپ نے فرمایا : جس رقیہ میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
4 ۔ عن جابر قال : نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الرقی فجاء آل عمروبن حزم الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالوا: یا رسول اللہ ! انہ کانت عندنا رقیۃ نرقی بھا من العقرب، و انک نھیت عن الرقی ، قال فعرضوھا علیہ، فقال ما اری باسا، من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ . (صحیح مسلم: 2199، مسند احمد :14382)
حضرت جابر سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رقیہ سے منع فرما دیا، تو آل عمروبن حزم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہمارے پاس ایک منتر ہے، جس سے ہم بچھو کا ڈنک جھاڑا کرتے تھے اور آپ نے منتر پھونکنے سے منع فرما دیا ہے، آنحضرتﷺ نے فرمایا : اسے سناؤ، سننے کے بعد آپ نے فرمایا : اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، جو کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہے، تو اسے پہنچانا چاہیے ۔
5۔ عن الشفاء بنت عبد اللہ قالت : دخل علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و انا عند حفصۃ فقال لی: الاتعلمین ھذہ رقیۃ النملۃ کما علمتیھا الکتابۃ . (سنن ابو داؤد 3887، مسند احمد 27095، حاکم و صححہ، عون المعبود 373/10)
حضرت شفا بنت عبداللہ کہتی ہیں کہ وہ حضرت حفصہ کے پاس تھیں، اتنے میں رسول ﷺ تشریف لائے اور مجھ سے کہا : حفصہ کو پہلو کی پھنسی جھاڑنے والی دعا کیوں نہیں سکھا دیتی، جیسا کہ تم نے انہیں لکھنا سکھا دیا ہے ۔
علامہ ابن قیم نے خلال کے واسطے سے مذکورہ روایات کو اس طرح سے نقل کیا ہے کہ شفا بن عبداللہ زمانہ جاہلیت میں پہلو کی پھنسی جھاڑا کرتی تھیں، وہ مکہ میں آنحضرتﷺ سے بیعت ہو چکی تھیں اور ہجرت کر کے مدینہ پہنچیں، انہوں نے آنحضرت سے پہلو کی پھنسی کے اس رقیہ کے بارے میں دریافت کیا اور انہوں نے آنحضورﷺ کو جو رقیہ سنایا تھا، اس کے الفاظ یہ تھے :
بسم اللہ ضلت حتی تعود من افواھھا و لا تضر احداً، اللھم اکشف الباس رب الناس . (زاد المعاد 184/4)
6۔ عن عثمان بن ابی العاص الثقفی ، انہ شکا الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجعا یجدہ فی جسدہ منذ اسلم، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضع یدک علی الذی تالم من جسدک و قل : بسم اللہ ثلاثا، و قل سبع مرات: اعوذ باللہ و قدرتہ من شر ما اجد واحاذر. (صحیح مسلم: 2202)
حضرت عثمان بن ابی العاص کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول ﷺ سے عرض کیا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد سے ان کے جسم میں درد کی شکایت رہتی ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: درد کی جگہ پر اپنے ہاتھ کو رکھو اور تین مرتبہ بسم اللہ کہو اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھو ۔
"اعوذباللہ وقدرتہ من شر ما اجدوا حاذر”
بعض روایتوں میں یہ اضافہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی وجہ سے میری تکلیف ختم کردی اور اس کے بعد سے میں اپنے گھر والوں کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیتا ہوں (سنن ابو داؤد :3891، جامع ترمذی: 2080، مؤطا امام مالک: 2715.وغیرہ)
7 ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو رسول ﷺ اس کے جسم پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے :
اذھب الباس رب الناس، و اشف، انت الشافی، لا شفاء الا شفاءک، شفاء لا یغادر سقما. (صحیح بخاری: 5743، صحیح مسلم: 2191)
8 ۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ جب کوئی بیمار ہوتا یا کسی کو پھوڑا یا زخم ہوتا تو نبیﷺ اپنی شہادت کی انگلی میں لعاب دہن لگا کر اسے زمین پر رکھتے اور پھر اسے درد کی جگہ پر پھیرتے ہوئے یہ دعا پڑھتے :
بسم اللہ تربۃ ارضنا بریقہ بعضنا یشفی سقیمنا باذن ربنا . (صحیح مسلم:2194، صحیح بخاری:5746 )
علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جھاڑ پھونک ہر طرح کی تکلیف اور بیماری میں جائز ہے (فتح الباری:256/10)
لعاب دہن اور مٹی لگانے کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ بیضاوی کہتے ہیں کہ طبی تحقیق سے ثابت ہے کہ مزاج کی پختگی اور تعدیل میں لعاب اثر انداز ہوتا ہے اور ایسے ہی وطن کی مٹی بھی مزاج کی حفاظت اور دفع ضرر میں مؤثر ہوتی ہے (فتح الباری 256/18)
اور علامہ ابن قیم کی تفصیلی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ مٹی کا مزاج سرد اور خشک ہے اور پھوڑا عام طور پر گرمی کی وجہ سے نکلتا ہے، اس طرح سے مٹی کی ٹھنڈک اس کی گرمی کو دور کر دیتی ہے؛ نیز زخم میں خراب رطوبت کی کثرت ہوتی ہے، جسے مٹی جذب کر لیتی ہے اور جب عام مٹی کا یہ حال ہے، تو پھر روئے زمین کی سب سے پاکیزہ اور بابرکت مٹی کا کیا کہنا؟ خصوصاً جب کہ اس میں نبی اکرم ﷺ کا لعاب مبارک ملا ہوا ہو اور اللہ کے نام سے دم کیا جائے (زاد المعاد 186/4)
9 ۔ یزید بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت سلمہ کی پنڈلی پر مار کے نشانات ہیں، میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ غزوہ خیبر کے موقع پر چوٹ لگ گئی تھی، میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے تین مرتبہ دم کیا پھر اس کے بعد مجھے اس میں کسی تکلیف کی شکایت نہیں ہوئی (صحیح بخاری 4206 باب غزوہ خیبر)
10۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بستر پر تشریف لے آتے، تو سورہ اخلاص، فلق اور ناس پڑھ کر اپنے ہاتھ پر پھونکتے، پھر اسے اپنے چہرے اور جسم پر جہاں تک ہاتھ پہنچتا پھیرتے اور جب آپ بیمار ہوتے تو مجھے حکم دیتے کہ میں پڑھ کر دم کروں ( صحیح بخاری:5748)
11 ۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے نبیﷺ کے پاس حضرت جبرئیل آئے،اور کہا : آپ بیمار ہیں ؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا : ہاں تو جبرئیل امین نے یہ دعا پڑھی :
بسم اللہ ارقیک ، من کل شئی یوذیک، من شر کل نفس او عین حاسد اللہ یشفیک، باسم اللہ ارقیک. (صحیح مسلم: 2186، جامع ترمذی : 972وغیرہ)
12۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ درج ذیل الفاظ کے ذریعے حضرت حسن و حسین کو اللہ کی پناہ میں دیا کرتے تھے :
اعیذ کما بکلمات اللہ التامۃ من کل شیطان و ھامۃ و من کل عین لامۃ.
اور آنحضرت فرماتے تھے کہ تمہارے باپ (حضرت ابراہیم) ان الفاظ کے ذریعے حضرت اسماعیل اور اسحاق کو اللہ کی پناہ میں دیا کرتے تھے (سنن ابو داؤد: 4737، جامع ترمذی: 2060. وقال حسن صحیح، صحیح بخاری: 3371)
مذکورہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا پڑھ کر کسی مریض پر دم کرنا نبیﷺ سے ثابت ہے، اس لیے جھاڑ پھونک کرنا جائز ہے ۔
ممانعت سے متعلق احادیث :
لیکن بعض روایتیں ایسی بھی ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ جھاڑ پھونک کرنا شرک ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
ان الرقی و التمائم و التولۃ شرک. (سنن ابو داؤد: 3883، سنن ابن ماجہ: 3530، مسند احمد: 3615)
جھاڑ پھونک کرنا تعویذ اور جادوئی گنڈا پہننا شرک ہے۔
اس حدیث کی تاویل کے لیے کسی شرح کی ورق گردانی کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ خود اسی حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ کس قسم کا رقیہ شرک ہے؟ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنی رفیقۂ حیات کو جب مذکورہ حدیث سنائی تو انہوں نے کہا آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ میری آنکھ میں شدید درد ہوتا تھا اور میں فلاں یہودی کے پاس جاتی، وہ کچھ پڑھ کر دم کردیتا تو مجھے سکون مل جاتا، حضرت عبداللہ نے کہا : وہ شیطان کی حرکت تھی، وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ میں کچوکے لگا دیتا تھا اور جب اس پر دم کیا جاتا تو باز آ جاتا، تمہارے لیے تو وہی کافی ہے، جو اللہ کے رسولﷺ سے منقول ہے آپﷺ یہ دعا پڑھتے تھے :
اذھب الباس رب الناس، و اشف، انت الشافی، لا شفاء الا شفاءک، شفاء لا یغادر سقما.(سنن ابو داؤد: 3883، سنن ابن ماجہ: 3530، مسند احمد :3615)
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی رقیہ ممنوع ہے، جس میں شرکیہ الفاظ ہوں اور جس میں غیر اللہ سے مدد چاہی گئی ہو اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر دم کرنا جائز ہے، جیسا کہ حدیث کے آخری حصے میں اس کی صراحت ہے اور اس سے زیادہ وضاحت حضرت عوف بن مالک سے منقول روایت میں ہے وہ کہتے ہیں :
کنا نرقی فی الجاھلیۃ فقلنا یا رسول اللہ کیف تری فی ذلک؟ فقال اعرضوا علی رقاکم، لا باس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک. (صحیح مسلم 2200، سنن ابو داؤد 3886)
ہم زمانۂ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے، ہم نے اللہ کے رسول سے دریافت کیا کہ اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : اپنا رقیہ مجھے سناؤ، پھر آپ نے فرمایا : جس رقیہ میں شرک نہ ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ دیگر مشرک قوموں کی طرح اہل عرب میں بھی منتر اور فسوں کا بڑا رواج تھا، جس میں مشرکانہ الفاظ ہوا کرتے تھے، بتوں اور شیطانوں سے مدد کی درخواست ہوتی تھی یا یہ عقیدہ ہوتا کہ جھاڑ پھونک میں بذات خود مرض دور کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ شرک ہے، اس لیے جھاڑ پھونک سے منع کیا گیا اور اس کی جگہ پر ایسی دعائیں سکھائی گئیں، جو بندگی، تسلیم و رضا، اللہ پر اعتماد اور وحدانیت پرمشتمل تھیں، چناں چہ علامہ شوکانی لکھتے ہیں :
رقیہ، تعویز اور جادوئی گنڈے کو شرک کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ یہ چیزیں بذات خود اثر انداز ہوتی ہیں (نیل الاوطار 213/8)
اور "عون المعبود” میں قاضی عیاض کے حوالے سے مذکور ہے کہ:
مذکورہ تینوں چیزوں کو شرک اس لیے کہا گیا کہ اس دور میں زمانۂ جاہلیت کے رقیہ کا رواج تھا، جس میں شرکیہ الفاظ ہوا کرتے تھے، یا ان کے بذات خود مؤثر ہونے کا عقیدہ رکھا جاتا تھا (عون المعبود 367/10)
، علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:
انما نھی عن الرقی التی تتضمن الشرک و تعظیم غیر اللہ کغالب رقی اصل الشرک( تھذیب سنن داؤد 638/2)
اس رقیہ سے منع کیا گیا جس میں شرکیہ الفاظ شامل ہوں یا وہ غیر اللہ کی تعظیم پر مشتمل ہوں۔جیسے کہ مشرکوں کے رقیہ میں زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے۔
اور ابن اثیر جزری کہتے ہیں :
دونوں طرح کی احادیث میں موافقت کی صورت یہ ہے کہ اس رقیہ کو مکروہ کہا جائے، جو عربی زبان میں نہ ہو اور نہ اللہ کے اسم و صفت اور کلام کے ذریعہ ہو اور جس میں یہ اعتقاد رکھا جائے کہ رقیہ سے یقینی طور پر فائدہ ہوتا ہے اور پھر اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہے، اسی قسم کے رقیہ کے بارے میں حدیث میں کہا گیا ہے کہ جو جھاڑ پھونک کرائے وہ توکل کرنے والا نہیں ہے اور جو رقیہ اس کے برخلاف ہو وہ مکروہ نہیں ہے، جیسے کہ قرآنی آیات، اللہ کے اسماء صفات اور احادیث میں مذکور دعاؤں کے ذریعے جھاڑ پھوک کرنا اور اسی بنیاد پر قرآنی آیات کے ذریعے دم کرنے اور اس پر اجرت لینے والے صحابی سے نبیﷺ نے فرمایا: وہ اجرت ناجائز ہے، جو کسی باطل رقیہ پر لی جائے اور تم نے تو ایک جائز رقیہ پر اجرت لی ہے (النھایۃ 255/2، نیز دیکھیے تفسیر قرطبی 220/10، فتح الباری 240/10)
حاصل یہ ہے کہ حدیث میں اسی رقیہ کو شرک کہا گیا ہے، جس میں شرکیہ الفاظ ہوں یا اسے بذات خود مؤثر سمجھا جائے اور جس میں مذکورہ چیزیں نہ ہوں تو وہ جائز ہے اور اس کے جواز پر تمام علماء کا اتفاق ہے، "وقد اجمع العلماء علی جواز الرقی” (فتح الباری 240/10)
جھاڑ پھونک توکل کے خلاف ہے ؟
حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
من اکتوی او استرقی فقد بری من التوکل .
جو کوئی زخم کو داغے یا جھاڑ پھونک کرائے تو وہ توکل سے بری ہے (جامع ترمذی: 2055، و قال حسن صحیح، سنن ابن ماجہ: 3489، مسند احمد: 18180)
اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے منقول ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
یدخل الجنۃ من امتی سبعون الفا بغیر حساب ھم الذین لا یسترقون و لا یتطیرون و علی ربھم یتوکلون .
میری امت میں سے ستر ہزار لوگ کسی حساب و کتاب کے بغیر جنت میں داخل ہو جائیں گے، وہ نہ تو جھاڑ پھونک کراتے ہوں گے اور نہ بد فالی لیتے ہوں گے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہوں گے (صحیح بخاری: 6472، صحیح مسلم :218 وغیرہ)
مذکورہ دونوں حدیثوں میں بہ صراحت کہا گیا ہے کہ جھاڑ پھونک کرانا توکل کے خلاف ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس سے بچا جائے۔
ان احادیث کی تاویل میں دو طریقے اختیار کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ واقعی جھاڑ پھونک کرانا توکل کے خلاف ہے، جیسا کہ حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ مرض ختم کرنے کے اسباب تین طرح کے ہیں، ایک وہ جن سے فائدہ یقینی ہو، دوسرے وہ جن سے مرض زائل ہونے کا ظن غالب ہو، تیسرے وہ جن سے مرض کا زائل ہونا موہوم ہو، جیسے کہ جھاڑ پھونک کرنا اور زخم داغنا ابتدا کی دونوں قسموں کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، البتہ تیسری قسم کو اختیار کرنا توکل کے خلاف ہے (دیکھئے: فتاوی ہندیہ 355/5)
واضح رہے کہ جھاڑ پھونک موہوم اسباب میں سے ہے، لیکن اس سے وہ کلمات مستثنی ہیں، جن کی تاثیر احادیث سے ثابت ہے، کیوں کہ عام طور پر وہ دعا میں شامل ہیں، جسے خود ضرورت مند پڑھتا اور اللہ سے دعا کرتا ہے اور کبھی دوسرا بھی اس پر پڑھ کر پھونک دیتا ہے، نیز جب اس کی تاثیر حدیث سے ثابت ہو تو دوسرے درجے کے اسباب میں داخل ہے، یعنی جس سے فائدہ ہونے کا ظن غالب ہو (دیکھئے: تعویذات و عملیات کی شرعی حیثیت/12 از مولانا اعجاز احمد اعظمی رح)
دوسری تاویل یہ ہے کہ جھاڑ پھونک کرانا خلاف توکل ان لوگوں کے لئے ہے، جو اسباب کے اختیار کرنے میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور اسی پر اعتماد کر کے بیٹھ جاتے ہیں، حدیث کے آخری ٹکڑے سے اس تاویل کی تائید ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں، یعنی اسباب اختیار کرتے ہیں، لیکن اس پر اعتماد نہیں کرتے،بلکہ ان کی نظر پروردگار پر ٹکی رہتی ہے۔اس کے برخلاف بعض لوگ اسباب کے اختیار کرنے میں اس درجہ منہمک ہو جاتے ہیں کہ ان کی نگاہ رب الاسباب سے ہٹ جاتی ہے، چنانچہ مشہور محدث علامہ عبدالرحٰمن مبارک پوری لکھتے ہیں :
یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے، جو اللہ کو چھوڑ کر جھانک پھونک پر تکیہ کر بیٹھیں (تحفۃ الاحوذی 164/3)
اور حضرت تھانوی کہتے ہیں :
اگر عملیات پر جازم اعتقاد ہو کہ ضرور اس میں فلاں تاثیر ہے اور اسی پر نظر اور کامل اعتماد ہو جائے تو بھی ناجائز ہے ۔۔۔ اور یقینی بات ہے کہ آج کل اکثر عوام عملیات کو ایسا مؤثر سمجھتے ہیں کہ حق تعالیٰ سے بھی غافل اور بے فکر ہو جاتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھے رہتے ہیں (التقی فی احکام الرقی /15)
حقیقت یہی ہے کہ جھاڑ پھونک وغیرہ پر مکمل طور پر بھروسہ کر لینا اور یہ سمجھ لینا کہ اس سے ضرور فائدہ ہوگا توکل کے خلاف ہے، کیونکہ یہ بھی محض ایک تدبیر اور علاج ہے، جس کا مفید ہونا یا نہ ہونا اللہ کی مشیت پر موقوف ہے،
رقیہ تمام امراض میں جائز ہے :
جمہور کے نزدیک رقیہ تمام بیماریوں میں جائز ہے اور اس کے برخلاف بعض لوگوں کے نزدیک صرف نظر بد، زہریلے جانور کے کاٹنے یا ڈنک مار نے اور پھوڑے پھنسی میں جائز ہے، کیونکہ حضرت انس سے روایت ہے کہ :
رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الرقیۃ من العین و الحمۃ و النملۃ.
رسول اللہﷺ نے نظر بد، زہریلے جانور کے ڈنک مار نے اور پہلو کی پھنسی میں رقیہ کی رخصت دی ہے (صحیح مسلم 2196جامع ترمذی 2056 وغیرہ)
اور حضرت عمران بن حصین سے منقول ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :
لا رقیۃ الا من عین او حمۃ .
جھاڑ پھونک صرف نظر بد اور زہریلے جانور کے ڈنک مارنے میں ہے ۔
(سنن ابو داؤد 3884، نیز دیکھیے صحیح بخاری 5705، صحیح مسلم 220)
پہلی حدیث کی تاویل کرتے ہوئے امام نووی لکھتے ہیں :
حدیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ رقیہ کا جواز ان تینوں کے ساتھ خاص ہے، بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ رسول ﷺ سے مذکورہ تینوں چیزوں کے بارے میں دریافت کیا گیا ہے، تو آپ نے ان میں جھاڑ پھونک کی اجازت دی اور اگر اس کے علاوہ دیگر چیزوں کے بارے میں بھی معلوم کیا جاتا تو آپ اجازت مرحمت فرماتے اور خود آنحضرتﷺ سے ان تین کے علاوہ میں رقیہ کرنا ثابت ہے (شرح صحیح مسلم للنووی )
اور علامہ عبد الرحمٰن مبارک پوری لکھتے ہیں:
رخصت کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ممانعت تھی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ رسول ﷺ نے پہلے جھاڑ پھونک کی ممانعت کر دی تھی، کیونکہ ممکن تھا کہ اس میں زمانۂ جاہلیت میں رائج جھاڑ پھونک کے الفاظ ملا دیئے جائیں اور ممانعت کے نتیجے میں لوگ جھاڑ پھونک سے رک گئے اور پھر آپ نے اس کی اجازت دے دی، جب کہ وہ جاہلیت کے الفاظ سے خالی ہوں (تحفۃ الاحوذی 164/3)
غرضیکہ اسلام کے ابتدائی دور میں اس خطرے کی وجہ سے جھاڑ پھونک کی ممانعت کر دی گئی تھی کہ کہیں اس میں شرکیہ الفاظ کی ملاوٹ نہ کر دی جائے، لیکن جب کھرا کھوٹا بھری دوپہر کی طرح عیاں ہو گیا اور شرک کے داخل ہونے کے ہر روزن کو بند کر دیا گیا اور ذہنوں میں شرک کی قباحت و شناعت جاگزیں ہو گئی، تو پھر جھاڑ پھونک کی اجازت دے دی گئی ۔
اور دوسری حدیث کے متعلق علامہ ابن قیم کہتے ہیں:
حدیث کا مقصد نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹنے کے علاوہ میں رقیہ کی نفی نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ ان دو چیزوں میں رقیہ زیادہ مفید اور اثر انداز ہوتا ہے، خود حدیث کا سیاق اس پر دلالت کر رہا ہے کہ حضرت سہل بن حنیف کو نظر بد لگ گئی تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ جھاڑ پھونک میں کچھ خیر ہے؟ نبیﷺ نے فرمایا: رقیہ نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹنے ہی میں ہے (زاد المعاد 175/4)
اور ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
رقیہ کو ان دو میں محدود کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جن چیزوں میں جھاڑ پھونک کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی اصل اور جڑ یہی دو چیزیں ہیں، لہٰذا نظر بد کے ساتھ شیطان لگ جانے یا شیطانی اثرات کی وجہ سے خبطی ہو جانے کو لاحق کر دیا جائے گا، کیوں کہ نظربد کی طرح سے یہ دونوں چیزیں بھی شیطانی اثرات کا نتیجہ ہیں اور زہریلے جانور کے کاٹنے کے ساتھ ان تمام امراض کو لاحق کر دیا جائے گا، جو جسم میں زہریلے مادے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔۔۔ اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مذکورہ حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ دیگر چیزوں کی بہ نسبت ان دو امراض میں رقیہ زیادہ اثر انداز ہوتا ہے اور یہ ایسے ہی ہے، جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ تلوار تو صرف "ذوالفقار” ہے (فتح الباری 240/10)
علامہ طیبی، ملا علی قاری، شمس الحق عظیم آبادی اور دوسرے شارحین حدیث نے یہی تاویل ذکر کی ہے (دیکھیے شرح طیبی 304/8، مرقات 363/8، عون المعبود 369/10)
اور حقیقت بھی یہی ہے، کیونکہ نبیﷺ سے ان دو کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی رقیہ کرنا ثابت ہے (دیکھیے صحیح بخاری 5743 وغیرہ)
تعویذ پہننا :
قرآنی آیات، اللہ کے اسماء و صفات اور حدیث میں مذکور دعاؤں اور جائز کلمات کو لکھ کر گلے میں لٹکانے یا بازو وغیرہ پر باندھنے کے مسئلے میں صحابۂ کرام، تابعین، اور فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو اسے جائز کہتے ہیں اور حضرت عائشہ سے منقول روایت سے بھی بظاہر جواز معلوم ہوتا ہے، مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب اور حضرت عطاء اسی کے قائل ہیں اور ابن سیرین کہتے ہیں کہ بچہ ہو یا جوان سب کے لیے تعویذ پہننا جائز ہے (دیکھیے شرح السنۃ 115/7، تفسیر قرطبی 319/10) امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی اسی کے قائل ہیں اور امام احمد سے بھی ایک قول جواز کا منقول ہے (الموسوعۃ الفقھیۃ 30/14) اور ابن قیم کہتے ہیں کہ امام احمد کے یہاں اس معاملے میں شدت نہیں تھی اور انہوں نے گھبراہٹ، بخار اور وضع حمل میں سہولت کے لیے تعویذ لکھی ہے اور خود ابن قیم کا رجحان بھی جواز کی طرف ہے (زاد المعاد 357/4)
اور مشہور اہل حدیث عالم مولانا نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں :
تعویذ لکھ کر گلے میں پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بعض تابعین کا اس میں اختلاف ہے، مگر زیادہ مشہور اور زیادہ صحیح جائز ہونا ہے ۔
شارح ترمذی مولانا عبدالرحٰمن مبارک پوری اور شارح ابو داؤد مولانا عظیم آبادی بھی جواز کے قائل ہیں (فتاویٰ نذیریہ 298/3.عون المعبود 350/18) بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ فقہاء و محدثین کی اکثریت اسے جائز خیال کرتی ہے اور ہر دور میں اسی پر عمل رہا ہے ۔ و ھو الذی علیہ الناس قدیما و حدیثا فی سائر الاحصار (روح المعانی 146/15)
جائز کہنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ بعض صحابۂ کرام سے ایسا کرنا ثابت ہے، چناں چہ عمرو بن شعیب کی سند سے منقول ہیں کہ رسولﷺ گھبراہٹ اور بے چینی دور کرنے کے لیے یہ دعا سکھاتے تھے:
اعوذ بکلمات اللہ التامۃ من غضبہ و شر عبادہ و من ھمزات الشیاطین و ان یحضرون.
اور حضرت عبداللہ بن عمرو اپنے باشعور بچوں کو یہ دعا یاد کرا دیتے اور چھوٹے بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں پہنا دیتے۔ (سنن ابو داؤد 3893، ترمذی 3528. و حسنہ)
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ کسی مرض میں مبتلا ہو جانے کے بعد اس سے شفایابی کے لیے تعویذ باندھنا جائز ہے (تفسیر قرطبی 219/10)
دوسری دلیل یہ ہے کہ کتاب و سنت میں تعویذ پہننے کی ممانعت مذکور نہیں ہے اور تعویذ، گنڈے کا تعلق عبادات سے نہیں ہے کہ اس کے ہر ہر فرد کے ثبوت کے لیے قرآن و حدیث سے دلیل پیش کرنا ضروری ہو، بلکہ ان کا تعلق دنیاوی تدبیر اور علاج سے ہے، جو اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہے اور اس میں صرف اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس میں کوئی ناجائز چیز شامل نہ ہو، چنانچہ دوا علاج کے بہت سے ایسے طریقے وجود میں آچکے ہیں، جو عہد نبوی میں موجود نہیں تھے اور کوئی بھی انہیں اسی بنیاد پر ناجائز نہیں کہتا ہے کہ قرآن و حدیث میں ان کا ذکر نہیں ہے، اسی طرح سے تعویذ بھی علاج کا ایک طریقہ ہے، اس لیے اس میں صرف یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس میں کوئی غلط چیز شامل نہ ہو، اور نہ اس سے کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ ہو اور نہ اس کو بذات خود مؤثر سمجھا جائے، اگر کسی کو اصرار ہو کہ جھاڑ پھونک کا صرف وہی طریقہ جائز ہے، جو براہ راست رسول ﷺ سے ثابت ہے تو اسے اس پر بھی اصرار کرنا چاہیے کہ دوا، علاج صرف وہی جائز ہے، جو رسول ﷺ سے ثابت ہو یا وہ ثابت کریں کہ جھاڑ پھونک اور تعویذ وغیرہ کا تعلق عبادات سے ہے (دیکھیے عملیات و تعویذات/14-15)
جواز کے قائلین حدیث میں مذکور "تمیمہ” کے لفظ کی تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد مشرکانہ تعویذ ہے، جس کی تفصیل تمیمہ کے عنوان میں ذکر کی جائے گی اور جب دو چیزوں کی حقیقت الگ الگ ہے، تو محض ظاہری مشابہت کی وجہ سے یکساں حکم لگانا درست نہیں ہے، جیسا کہ المونیم بھی چاندی کی طرح سفید ہوتا ہے، مگر ظاہری مشابہت کی وجہ سے اسے چاندی کی طرح حرام قرار نہیں دیا جاتا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود اور ابن عباس کے نزدیک قرآنی آیت وغیرہ کی تعویذ بھی ممنوع ہے اور حضرت حذیفہ، عقبہ بن عامر اور ابن حکیم رضی اللہ عنہم کے کلام سے بھی بظاہر عدم جواز معلوم ہوتا ہے ۔ اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی نقطۂ نظر ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود کے تمام شاگرد اسے مکروہ کہتے تھے، ابراہیم نخعی کہتے ہیں :
کانوا یعنی اصحاب ابن مسعود یکرھون التمائم کلھا من القرآن وغیرہ .
ابن مسعود کے شاگرد قرآن اور غیر قرآن ہر طرح کی تعویذ کو مکروہ سمجھتے تھے ۔
اور امام احمد بن حنبل سے بھی ایک قول کراہت کا منقول ہے، جس پر متاخرین حنابلہ کا فتوی ہے (دیکھیے الموسوعۃ الفقھیۃ 33/13) ان کے دلائل یہ ہیں :
1 ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا :
ان الرقی و التمائم و التولۃ شرک. (سنن ابو داؤد ،3883 سنن ابن ماجہ:3530)
جھاڑ پھونک، تعویذ اور تعویذ محبت شرک ہے ۔
مذکورہ حدیث عام ہے، جس کے مطابق ہر طرح کا رقیہ اور تعویذ شرک ہے، البتہ دوسری حدیثوں میں ایسے رقیہ کی اجازت دی گئی ہے، جس میں شرکیہ کلام نہ ہوں، غرضیکہ رقیہ کا استثناء صحیح حدیث سے ثابت ہے، لیکن تعویذ کا استثناء کسی حدیث میں مذکور نہیں ہے، لہٰذا اس معاملے میں حدیث اپنی عمومیت پر برقرار رہے گی، کیونکہ اصل یہی ہے کہ عام کو اپنی عمومیت پر باقی رکھا جائے الا یہ کہ تخصیص کے لیے کوئی شرعی دلیل موجود ہو اورتعویذ کی تخصیص کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے ۔
2 ۔ حضرت عبداللہ بن حکیم سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
من تعلق شئیا و کل الیہ.
جو کوئی کسی چیز کو لٹکائے تو اسے اسی کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔
(جامع ترمذی: 2072، مسند احمد:18781 )
حدیث کے ایک راوی محمد بن عبد الرحمٰن بن ابی لیلی کو حافظہ کی خرابی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہے (دیکھیے التقریب /871.رقم 6121)
یہ حدیث بھی عام ہے اور ہر طرح کی تعویذ کو شامل ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ تعویذ پہننے والے کے ساتھ اللہ کی مدد نہیں ہوگی، بلکہ اس کا معاملہ اسی تعویذ کے حوالے کر دیا جائے اور ظاہر ہے کہ جسے اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کے حوالے کر دیا جائے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا ۔
3 ۔ حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
من تعلق تمیمۃ فلا اتم اللہ لہ و من تعلق ودعۃ فلا ودع اللہ لہ . مسند احمد 17404, سند ضعیف ہے، (دیکھیے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ: 1266)
جو کوئی تمیمہ پہنے تو اللہ تعالی اس کا کام پورا نہ کرے اور جو کوئی سمندری کوڑی پہنے تو اللہ تعالی اسے آرام نہ دے ۔
4 ۔ قرآنی تعویذ کی اجازت دینے میں خطرہ ہے کہ عام لوگ اسے محض اسباب کے درجے میں نہیں رکھیں گے، بلکہ یقین کرنے لگیں گے کہ اس میں بذات خود نفع و ضرر کی صلاحیت ہے اور وہ بذات خود مؤثر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ شرک تک پہنچانے والا ہے، اس لیے عام لوگوں کے عقیدے کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس پر مکمل پابندی لگا دی جائے ۔
واضح رہے گی پوری بحث جواز اور عدم جواز سے متعلق ہے اور افضل اور بہتر یہی ہے کہ تعویذ پہننے سے احتراز کیا جائے، کیونکہ رسول ﷺ سے قرآنی تعویذ کی اجازت منقول نہیں ہے، حضرت تھانوی لکھتے ہیں :
چونکہ تعویذ لکھنے کا طریقہ حضور ﷺ سے کہیں ثابت نہیں ہے، البتہ آپ کا معمول تھا کہ آپ پڑھ کر دم کر دیا کرتے تھے (اشرف العلوم /26)
نیز تعویذ کا تعلق موہوم اسباب میں سے ہے، اس لیے خلاف توکل ہونے کی وجہ سے اس سے بچنا چاہیے اور عوام کا اعتقاد بھی اس کے تعلق سے نہایت خراب ہے، اس لیے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے، موقع کی مناسبت سے حضرت تھانوی اور مولانا اعجاز احمد اعظمی کی اس سے متعلق بعض عبارتیں نقل کی جا رہی ہیں، حضرت تھانوی لکھتے ہیں :
آج کل لوگ اپنے مقاصد میں اور دفع امراض و مصائب میں تعویذ، گنڈے وغیرہ کی تو بڑی قدر کرتے ہیں، اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں اور جو اصل تدبیر ہے، یعنی اللہ سے دعا اس میں غفلت برتتے ہیں، میرا تجربہ ہے کہ کوئی نقش و تعویذ دعا کے برابر نہیں ہے، ہاں دعا کو دعا کی طرح مانگا جائے اور مواقع قبول سے پرہیز کیا جائے (مجالس حکیم الامت/ 122)
عملیات اور تعویذ گنڈوں کی بات اور دعا کی شان، دونوں کا حال الگ الگ ہے اور وہ یہ ہے کہ عملیات میں ایک شان دعوے کی ہوتی ہے اور دعا میں احتیاج اور نیازمندی کی شان ہوتی ہے، حق تعالی چاہیں گے تو یہ کام ہوگا، عملیات میں یہ نیاز و اعتقاد نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس پر نظر رہتی ہے، جو ہم پڑھ رہے ہیں، اس کا خاصہ ہے کہ کام ہو جائے، یہ کتنا بڑا فرق ہے، دعا میں اور عملیات میں، دعا کے مقابلے میں عملیات کا درجہ بہت کم ہے، مگر باوجود اس کے دعا کو لوگوں نے بالکل ہی چھوڑ دیا ہے اور عملیات کے پیچھے پڑ گئے ہیں (الافاضات 290/1)
اکثر عوام عملیات و تعویذات کو ایسا مؤثر سمجھتے ہیں کہ اس کے خلاف کا احتمال نہیں ہوتا ہے، اس لیے عامل کو تعویذ دینے والے کو چاہیے کہ کہہ دے کہ دیکھو یہ (تعویذ یا عمل) مثل دوا طبی کے ہے، مؤثر حقیقی نہیں ہے اور نہ اس پر اثر مرتب ہونے کا حتمی وعدہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے اور نہ اللہ کے کلام کا یہ اثر ہے (مجالس حکیم الامت /122)
عوام عملیات (اورتعویذات وغیرہ) کو تدبیر ظاہری خیال کر کے نہیں کرتے، بلکہ سماوی اور ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عملیات اور تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں، حالاں کہ عملیات، تعویز گنڈے وغیرہ بھی مثل دوا طبی اسباب و تدابیر ظاہرہ کی قسم سے ہیں، (کوئی آسمانی اور ملکوتی چیز نہیں) بس جس طرح سے دوا سے کبھی فائدہ ہوتا ہے، کبھی نہیں، لیکن پھر بھی دونوں برابر نہیں، بلکہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے، دوا میں فتنہ نہیں (حسن العزیز396/3)
اور مولانا اعجاز احمد اعظمی لکھتے ہیں :
اثبات کا غلو یہ ہے کہ لوگ ان تعویذات و عملیات پر قطعی یقین کر لیتے ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے اسبابِ واقعیہ کو لائق اعتناء نہیں سمجھتے ہیں یا ان سے بڑھ کر انہی کو سمجھتے ہیں، جہاں کوئی بیماری لمبی ہوئی یا اس کے اسباب کی شناخت میں دقت ہوئی، بس جھاڑ پھونک اور عاملوں کے پاس بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی ہے، یہ غلو، نفی کے غلو سے بڑھا ہوا ہے اور اس سے زیادہ مضر ہے، ہمارے اس مضمون کا موضوع اسی غلو کی اصلاح ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ تعویذات و عملیات کو ان کے درجے سے آگے بڑھا دیا گیا ہے، ان کی حیثیت واضح کی جا چکی ہے، ہم بتا چکے ہیں کہ یہ امور اسباب وہمیہ میں سے ہیں، جن کا ترک ان کے اخذ سے اولی ہے؛ نیز یہ کہ یہ چیزیں مخل توکل ہیں۔
تعویذات کے سلسلے میں لوگوں کے عقائد بہت بگڑے ہوئے ہیں، اگر اہل حاجت سے کوئی تعویذ لکھنے والا کہہ دے کہ خود دعا کرو اور میں بھی دعا کرتا ہوں، تو انہیں اطمینان نہیں ہوتا ہے، جب تک کچھ لکھ کر نہ دے دیا جائے، مزید ستم یہ ہے کہ ہر تعویذ کو یہ اللہ کے بندے اللہ کا کلام سمجھتے ہیں اور بہت سے تعویذ کا دھندا کرنے والے یہی باور کراتے ہیں، حالاں کہ تعویذ میں کبھی اعداد کے نقوش ہوتے ہیں، کبھی کچھ اور کلمات ہوتے ہیں، ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ اللہ کا کلام ہے، محض گمراہی ہے ۔
نفی کا غلو یہ ہے کہ بعض لوگ منصوص رقیوں کے علاوہ تمام تعویذات کو ناجائز اور حرام قرار دیتے ہیں، جن حضرات نے نفی کا یہ پہلو اختیار کیا ہے، وہ احتیاط کی راہ چلے ہیں، کیونکہ بلا شبہ اس راہ سے بہت سی گمراہیاں طبیعتوں میں پختہ ہوتی ہیں، توہمات بڑھ جاتے ہیں، باہم بدگمانیاں اور رنجشیں اس سے پیدا ہو جاتی ہیں، بسا اوقات آدمی مشرکانہ اعمال و اقوال میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ شریعت حقہ اسلامیہ نے تعویذ گنڈوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے، بلکہ اگر کچھ ہے تو اس کی بے وقعتی معلوم ہوتی ہے، البتہ بعض مواقع پر اس کا ثبوت موجود ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصلًا یہ چیز حد جواز میں ہے، لیکن اس سے اجتناب ہی بہتر ہے (دیکھئے: تعویذات وعملیات 16.21.13)
تمیمہ :
اسلام سے پہلے عربوں میں نظر بد سے بچنے کے لیے دھاگا، منکا اور مالا وغیرہ کے پہننے کا رواج تھا، جنہیں وہ تمیمہ کہتے تھے، چناں چہ ابن اثیر لکھتے ہیں :
و ھی خرزات کانت العرب تعلقھا علی اولادھم یتقون بھا العین فی زعمھم فابطلھا الاسلام (النہایہ 197/1)
تمیمہ سوراخ دار دانے یا سمندری گھونکچی کو کہتے ہیں، جنہیں عرب کے لوگ نظر بد سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کو پہنا دیا کرتے تھے اور اسلام نے اسے باطل قرار دیا ۔
ابن منظور، مجدالدین فیروزہ آبادی، مرتضی زبیدی اور دوسرے ماہرین لغت نے تمیمہ کی یہی حقیقت بیان کی ہے (دیکھیے لسان العرب 70/12، القاموس/1400 ، تاج العروس 213/8، نیل الاوطار 212/8)
چوں کہ اس سے مشرکانہ عقیدہ وابستہ تھا، اس لئے حدیث میں اسے شرک کہا گیا ہے، خود حدیث کے پس منظر میں اس کی صراحت موجود ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ حضرت زینب کہتی ہیں :
فمسنی فوجد مس خیط فقال ما ھذا فقلت رقی لی فیہ من الحمرۃ فجذبہ و قطعہ فرمی بہ و قال لقد اصبح آل عبد اللہ اغنیا عن الشرک سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان الرقی و التمائم و التولۃ شرک،(دیکھئے :سنن ابن ماجہ:3530.مسند احمد3615،
ابن مسعود نے مجھے ہاتھ لگایا تو میرے گردن میں ایک دھاگا پایا، پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا اس میں چیچک ختم کرنے کے لیے دم کیا گیا ہے، انہوں نے اسے کھینچ کر توڑ دیا اور پھینک دیا اور پھر کہنے لگے عبداللہ کے گھر والے شرک سے بے نیاز ہو چکے ہیں، میں نے رسول ﷺ سے سنا ہے کہ جھاڑ پھونک ،مالا منکا اور جادوئی تعویذ محبت شرک ہے ۔
ایک روایت میں ہے : دخل عبد اللہ بن مسعود علی امراتہ فرای خرزا من الحمرۃ(سلسلۃ الصحیحہ648/331)
اور حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے :
ان رسول اللہ صلی الله عليه وسلم أقبل اليه رھط فبايع تسعة وامسك عن واحد فقالوا: يا رسول الله بایعت تسعة وتركت هذا ؟ قال : ان عليه تميمة فادخل یدہ فقطعها فبايعه وقال من علق تميمة فقد اشرک. (مسند احمد17422)
رسول ﷺ کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر ہوئے، آپ نے ان میں سے نو لوگوں سے بیعت کرلی اور ایک شخص سے بیعت کرنے سے ہاتھ روک لیا، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے نو لوگوں سے بیعت کرلی اور اسے چھوڑ دیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تمیمہ پہنے ہوئے ہے، پھر اسے اپنے ہاتھ سے توڑ کر اس سے بیعت کرلی اور فرمایا : جس نے تمیمہ پہنا، اس نے شرک کیا ۔
مذکورہ دونوں احادیث کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ تمیمہ سے مراد زمانۂ جاہلیت کا مالا اور گنڈا ہے، جس سے مشرکانہ عقیدہ وابستہ تھا، یا شرکیہ کلمات اس پر دم کئے جاتے تھے، چناں چہ قاضی عیاض لکھتے ہیں :
واطلق عليها الشرك لان المتعارف منها فى عھدہ ما کان معہودا في الجاهلية وكان مشتملا على ما يتضمن الشرك… (عون المعبود 367/10)
تمیمہ وغیرہ کو شرک اس لئے کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے عہد میں زمانۂ جاہلیت کے جھاڑ پھونک اور تعویذ کا رواج تھا اور وہ شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوا کرتے تھے ۔
اور علام شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں :
والمراد من التميمة ما کان من تمائم الجاهلية ورقاها فان القسم الذي يختص باسماء الله وكلماته غير داخل في جملته (عون المعبود 350/10)
تمیمہ سے مراد زمانۂ جاہلیت کا تمیمہ اور جھاڑ پھونک ہے اور جس تعویذ میں اللہ کے اسماء اور اس کے کلمات ہوں، وہ اس میں داخل نہیں ہے ۔
اور مشہور محدث علامہ سندھی لکھتے ہیں :
و المراد تمائم الجاهلية مثل الخرزات واظفار السباع وعظامها، اما ما يكون بالقرآن واسماء الالهية فهو خارج عن هذا الحكم بل هو جائز . (عون المعبود 350/10)
اس سے مراد زمانۂ جاہلیت کا تمیمہ ہے، جیسے گھونکچی ، کوڑی، درندوں کا ناخن اور ان کی ہڈی ، رہی وہ تعویذ جس میں قرآن یا اللہ کے نام لکھے ہوں، تو اس حکم سے خارج بلکہ جائز ہے ۔
عام طور پر مشرک قوموں میں یہ بگاڑ پایا جاتا ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ بہت سی چیزوں کو نفع و ضرر کا مالک سمجتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان میں بذات خود نفع و ضرر پہونچانے کی صلاحیت ہے، چنانچہ منتر اور تعویذ گنڈوں کے سلسلے میں بھی ان کا یہی عقیدہ تھا، اس بنیاد پر بھی انہیں شرک کہا گیا چناں چہ علامہ شوکانی لکھتے ہیں :
جعل هذه الثلاثة من الشرک لاعتقادهم ان ذالک یوثر بنفیسہ (نیل الاوطار 212/8)
مذکورہ تین چیزوں کو شرک اس لیے کہا گیا ہے کہ اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ یہ چیزیں بذات خود اثر انداز ہوتی ہیں ۔
علامہ خطابی اور ابن حجر عسقلانی نے بھی ان چیزوں کو شرک کہنے کی یہی وجہ بیان کی ہے (دیکھیے عون المعبود 351/10، فتح الباری 241/10)
اور درج ذیل احادیث میں ان کے اسی عقیدے کی طرف اشارہ ہے، حضرت عبداللہ بن حکیم سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
من تعلق شئیا و کل الیہ (جامع ترمذی: 2072)
جس نے کسی چیز کو لٹکایا تو وہ اسی کے حوالے کر دیا گیا ۔
اور حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا :
من تعلق تمیمۃ فلا اتم اللہ لہ و من تعلق ودعۃ فلا ودع اللہ لہ (مسند احمد 17404)
جو کوئی تمیمہ پہنے تو اللہ تعالیٰ اس کا کام پورا نہ کرے اور جو کوئی سمندری کوڑی پہنے تو اللہ اسے آرام نہ دے ۔
پہلی حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ طیبی کہتے ہیں :
من تمسک بشئی من المداواۃ و اعتقد ان الشفاء منہ لا من اللہ لم یشفہ اللہ بل وکل شفاءہ الی ذالک و حینئذ لا یحصل شفاءہ لان الاشیاء لا تضر الا باذن اللہ (شرح طیبی304/8)
جو شخص دوا علاج کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ شفاء خود اس کے اندر ہے، اللہ کی طرف سے نہیں، تو اللہ تعالی اس سے اس بیماری سے شفاء نہیں دیں گے اور پھر وہ شفا نہیں پا سکے گا، اس لیے کہ کوئی بھی چیز صرف اللہ کی اجازت سے نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اور ملا علی قاری ابن اثیر کے حوالے سے لکھتے ہیں :
من علق علی نفسہ شئیا من التعاویذ و التمائم و اشباھھما معتقدا انھا تجلب نفعا او تدفع عنہ ضررا وکل الیہ (مرقات363/8)
جو کوئی تعویذ اور تمیمہ وغیرہ پہنے اور یہ اعتقاد رکھے کہ وہ اسے نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہے، تو اسے اسی کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔
تمیمہ کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ عربی لفظ ” تم "سے بنایا گیا ہے، جس کے معنی ہیں پورا ہونا اور اس اعتبار سے تمیمہ کا مفہوم ہوگا کام بنانے والا، کام کو مکمل کرنے والا اور مشرکین عرب نے اپنے عقیدے کے پس منظر میں اس کا یہ نام رکھا تھا، کانو یعتقدون انھا تمام الدواء و الشفاء (عون المعبود 350/10) اور ان کے اسی اعتقاد کی بنیاد پر دوسری حدیث میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی تمیمہ لٹکائے تو اللہ تعالیٰ اس کا کام پورا نہ کرے، چنانچہ علامہ شوکانی دوسری حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
فیہ الدعا علی من اعتقد فی التمائم و علقھا لضد قصدہ و ھو عدم التمام لما قصدہ من التعلیق(نیل الاوطار212/8
جو شخص تمیمہ کو کام کی تکمیل عقیدہ سے پہنے، حدیث میں اس کے لیے بددعا ہے، کہ اللہ تعالی اس کے مقصد کے برخلاف کرے اور اس کا کام پورا نہ ہو ۔
حاصل یہ ہے کہ تمیمہ سے مراد سوراخ دار دانہ اور سمندری گھونگچی وغیرہ ہے اور ظاہر ہے کہ اسے کسی فائدہ یا نقصان کو وابستہ کرنا اوہام و خرافات کے قبیل سے ہے، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، نیز کسی چیز کو لکھ کر پہننا جیسے عرف عام میں تعویذ کہا جاتا ہے، تمیمہ کے مفہوم میں شامل نہیں ہے، چنانچہ "المغرب” نامی کتاب میں ہے :
و بعضھم یتوھم ان المعاذات ھی التمائم و لیس کذالک، انما التمیمۃ الخرزۃ و لا باس بالمعاذات اذا کتب فیہ القرآن او اسماء اللہ تعالیٰ. (رد المحتار 523/9)
بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ تعویذ تمیمہ ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، تمیمہ تو منکا کو کہا جاتا ہے اور تعویذ میں کوئی حرج نہیں ہے، جب کہ اس میں قرآن یا اللہ کے نام لکھے جائیں ۔
تِوَلہ :
ایک طرح کی جادوئی تعویذ ہے، جس کے ذریعے بیوی شوہر کو اپنی طرف مائل کرتی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :
شئی یصنعہ النساء یتحببن الی ازواجھن یعنی من السحر . (نیل الاوطار 212/8)
عورتیں جادوئی عمل کر کے اپنے شوہروں کو اپنی طرف مائل کیا کرتی تھیں ۔
چونکہ یہ تعویذ جادوئی اور شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوتی تھی، اس لیے حدیث میں اسے شرک کہا گیا ہے، لہٰذا اگر کوئی عورت قرآنی تعویذ کے ذریعے اپنے شوہر کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتی ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیوں کہ میاں بیوی کے درمیان الفت و محبت مطلوب اور محمود ہے ۔
حلقہ (کڑا اور چھلہ )
حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں :
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رای رجلا فی یدہ حلقۃ من صفر فقال : ما ھذہ الحلقۃ ؟ قال : ھذہ من الواھنہ، قال انزعھا فانھا لا تزیدک الا وھنا . (ابن ماجہ 3531، مسند احمد 20000، حدیث ضعیف ہے، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ: 1029)
نبی ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا کڑا دیکھا، تو پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا بازو کے درد کو دور کرنے کے لیے ہے، آپ نے فرمایا : اسے اتار دو، کیوں کہ یہ تمہاری کمزوری اور مرض میں اضافہ ہی کرے گا ۔
ظاہر ہے کہ کڑا اور چھلا پہننا بھی تمیمہ کی طرح سے توہمات اور خرافات میں شامل ہے اور ایسی چیز سے نفع و ضرر کو وابستہ کرنا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے نفع و نقصان کا ذریعہ اور سبب نہیں بنایا ہے اور ایمان کا تقاضا ہے کہ صرف انہی چیزوں کے ذریعے نفع و نقصان کا تصور ہو، جسے اللہ تعالی نے اس کے لیے سبب قرار دیا ہے ۔
رتیمہ ( گنڈا )
بعض لوگ یاد دہانی کے لیے اپنی انگلی یا ہاتھ میں دھاگا باندھ لیتے ہیں، تاکہ اسے دیکھ کر وہ کام یاد آ جائے جسے وہ کرنا چاہتا ہیں، ظاہر ہے کہ ایک جائز مقصد کے لیے صحیح ذریعہ اختیار کیا جا رہا ہے، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
لانھا تفعل لحاجۃ فلیس بعبث لما فیہ من الغرض الصحیح و ھو التذکر عند النسیان (الموسوعۃ الفقھیۃ 25/13)
اور اگر دھاگے کو ہاتھ یا گردن میں اس مقصد سے باندھا جائے کہ یہ بذات خود نقصان یا نظر بد کو دور کر سکتا ہے، تو وہ تمیمہ کے حکم میں داخل ہے اور اسی بنیاد پر بعض لوگوں نے اسے کفر قرار دیا ہے،
اما حکم الرتیمہ بمعنی انھا خیط کان یربط فی العنق او فی الید فی الجاھلیۃ لدفع الضرر بزعمھم فھو منھی عنہ لانہ من جنس التمائم المحرمۃ و ذکر فی حدود الایمان انہ کفر (الموسوعۃ الفقہیہ 26/13.نیز دیکھیے رد المحتار 532/9)
اور موسوعہ فقیہ میں ہے کہ کوڑی، دھاگا اور ہڈی وغیرہ باندھنا حرام ہے (الموسوعۃ 32/13)
ٹیکہ لگانا :
ابن قیم نے لکھا ہے کہ نظر بد دور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جس پر نظر لگنے کا اندیشہ ہو، تو اس کی خوبیاں چھپا دی جائیں، جیسے کہ خوبصورت بچے کی تھوڑی پر کالکھ لگا دی جائے، چناں چہ حضرت عثمان سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک خوبصورت بچے کو دیکھا، تو فرمایا : اس کی تھوڑی پر کاجل لگا دو، تاکہ اسے نظر نہ لگے دسموا نونتہ لئلا تصیبہ العین .(زاد المعاد 173/4 نیز دیکھے الآداب الشرعیۃ 186/3)
بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ کھیتی وغیرہ کو نظر بد سے بچانے، جانور کی کھوپڑی یا مٹی کی دیگچی وغیرہ لگا دینا چاہیے، کیوں کہ بلند ہونے کی وجہ سے دیکھنے والے کی نگاہ سب سے پہلے اسی پر پڑےگی اور اس کے بعد کھیتی پر نظر پڑنے کی وجہ سے چشم بد کا اندیشہ نہیں رہے گا (رد المحتار 523/9)
اور اس سے متعلق یہ حدیث نقل کی جاتی ہے :
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امر بتلک الجماجم تجعل فی الزرع من اجل العین . (کتاب المراسیل لابی داؤد حدیث 542. السنن الکبری للبیہقی 138/6)
اللہ کے رسول ﷺ سے کھیتی کو نظر بد سے بچانے کے لیے اس میں کھوپڑی لگانے کا حکم دیا،
مگر حدیث ضعیف اور ناقابل استدلال ہے ۔
نشرۃ (تعویذ دھوکر پلانا یا چھڑکنا )
رقیہ کی ایک قسم نشرہ ہے، جو جادو یا جنات کے اثر کو دور کرنے والے منتر کو کہا جاتا ہے (دیکھیے النھایۃ54/5 ، لسان العرب 29/5، الصحاح 828/2، القاموس621، الموسوعۃ الفقھیۃ 23/13) چوں کہ اس منتر میں شرکیہ کلمات ہوتے ہیں، اس لیے حدیث میں اسے شیطانی عمل کہا گیا ہے، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے :
سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النشرۃ ، فقال : ھو من عمل الشیطٰن .(سنن ابو داؤد 3868،سنن ابن ماجہ 14135)
رسول ﷺ سے نشر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ شیطانی کام ہے ۔
مذکورہ حدیث کی شرح میں صاحب فتح الودود نے لکھا ہے :
لعلہ کان مشتملا علی اسماء الشیاطین او کان بلسان غیر معلوم فلذالک جاء انہ سحر سمی نشرۃ لانتشار الداء و انکشاف البلاء . (عون المعبود 349/10)
شاید وہ شیاطین کے ناموں پر مشتمل تھا یا ایسی زبان میں تھا، جس کا مفہوم معلوم نہیں تھا، اسی لیے اسے سحر کہا گیا ہے اور اسے نشرہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سے بیماری منتشر اور مصیبت ختم ہو جاتی ہے ۔
اور مولانا شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں :
ھو من عمل الشیطٰن ای من النوع الذی کان اھل الجاھلیۃ یعالجون بہ یعتقدون فیہ اما ما کان من الآیات القرآنیۃ و الاسماء و الصفات الربانیۃ و الدعوات الماثورۃ النبویہ فلا باس بہ . (عون المعبود 349/10، نیز دیکھیے: شرح طیبی32/8.مرقات360/8 )
وہ شیطانی عمل ہے، یعنی اس قسم میں شامل ہے جس کے ذریعے جاہلیت کے لوگ علاج کرتے تھے اور اس سے غلط عقیدہ وابستہ کیے ہوئے تھے، اگر قرآنی آیت، اللہ کے اسماء و صفات اور حدیث میں منقول دعاؤں کے ذریعے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
اور بعد میں نشرہ کا لفظ قرآنی آیت وغیرہ کو لکھ کر مریض کو پلانے یا اس پر چھڑکنے کے لیے استعمال ہونے لگا۔
پانی پر دم کر کے مریض پر چھڑکنا، پلانا یا تعویذ دھو کر مریض پر چھڑکنا یا پلانا رسول ﷺ سے ثابت نہیں ہے، البتہ آنحضور ﷺ کا لعاب دہن ملا کر مریض پر چھڑکنا اور پلانا حدیث میں مذکور ہے، روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ حضرت ثابت بن قیس کی عیادت کے لیے گئے اور ان کے پاس آپ نے یہ دعا پڑھی :
اکشف الباس، رب الناس، عن ثابت بن قیس بن شماس .
پھر آپ نے مدینہ کی ایک وادی بطحان کی مٹی لی، اسے ایک پیالے میں رکھا اور اس کے بعد اپنے منہ میں پانی لے کر، اس مٹی پر ڈال دیا اور پانی و مٹی کے آمیزے کو حضرت ثابت پر چھڑک دیا (سنن ابو داؤد :3885 و صححہ ابن حبان: 6069)
اور محدث ابن ماجہ نے نقل کیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک گونگے بچے کے لیے پانی منگایا اور اس پانی میں اپنا ہاتھ دھویا اور کلی کیا اور پھر حکم دیا کہ اس بچے کو پلاؤ، اس پر چھڑکو اور اللہ سے شفایابی کی دعا کرو اور اس عمل کی وجہ سے بچے کو قوت گویائی مل گئی، حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
و ان بہ بلاء لا یتکلم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایتونی بشئی من الماء فاتی بہ فغسل یدیہ و مضمض فاہ ثم اعطاھا فقال اسقیہ منہ و صبی علیہ منہ استشفی اللہ ۔۔۔ (سنن ابن ماجہ: 3532، حدیث ضعیف ہے)
مذکورہ روایتوں کے پیش نظر فقہاء نے لکھا ہے کہ قرآنی الفاظ وغیرہ کو دھو کر پلانا بھی ایک علاج اور تدبیر ہے اور آنحضورﷺ کے وضو کے پانی کی طرح وہ بھی باعث برکت اور شفا کا ذریعہ ہے،
و النشرۃ من جنس الطب فھی غسالۃ شئی لہ فضل کفضل وضوء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الموسوعۃ الفقھیۃ 25/13)
اور حضرت عائشہ سے متعلق منقول ہے کہ وہ سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھ کر پانی پر دم کرتیں اور پھر حکم دیتیں کہ اسے مریض پر چھڑک دو اور حضرت عبداللہ بن عباس کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کی آیت لکھ کر اور پھر اسے دھو کر ایک عورت کو پلانے کا حکم دیا جسے وضع حمل میں پریشانی ہو رہی تھی۔ اور مشہور تابعی اور ابن عباس کے شاگرد مجاہد کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ قرآن لکھا جائے اور پھر اسے دھو کر مریض کو پلا دیا جائے ۔اور ایوب کہتے ہیں کہ میں نے ابو قلابہ کو دیکھا کہ انہوں نے قرآنی آیت لکھی اور پھر اسے دھو کر ایک شخص کو پلا دیا، جو درد میں مبتلا تھا اور سعید بن مسیب سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے اور جس سے لوگوں کو فائدہ ہو، اس سے منع نہیں کرنا چاہیے ۔ لا باس بہ و ما ینفع لم ینہ عنہ (تفسیر قرطبی 319/10)
حنفیہ، شافعیہ، حنابلہ اور مالکیہ میں سے عبدالسلام کے علاوہ تمام لوگ اسی کے قائل ہیں، اس کے برخلاف حسن بصری، ابراہیم نخعی، ابن جوزی اور عبدالسلام مالکی اس کے عدم جواز کے قائل ہیں (الموسوعۃ الفقھیۃ 25/13)
ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں سے نشرہ کی ممانعت منقول ہے، ان کے نزدیک اس سے مراد زمانہ جاہلیت کا نشرہ ہے، چناں چہ ابن جوزی کہتے ہیں :
النشرۃ حل السحر عن المسحور و لا یکاد یقدر علیہ الامن یعرف السحر .
اور حسن بصری کہتے ہیں : لا یطلق السحر الا ساحر الا انہ لا یجوز ذالک (الاداب الشرعیۃ لابن المفلح 191/3)
ودعہ :
سمندری کوڑی اور گھونگچی وغیرہ کو "ودعہ” کہا جاتا ہے اور معنی و مقصد کے اعتبار سے تمیمہ اور ودعہ ایک ہے، جسے نظر بد وغیرہ کو دور کرنے کے لیے پہنا جاتا تھا اور اس سے متعلق حدیث گذر چکی ہے دیکھے( الموسوعۃ الفقھیۃ 22/13)
جھاڑ پھونک اور تعویذ وغیرہ کے جواز کی شرائط :
رقیہ، تعویز اور نشرہ وغیرہ کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں اور ان کلمات کے معنی اور مفہوم معلوم اور واضح ہوں، نیز اعتقاد رکھا جائے، یہ چیزیں محض اسباب کے درجے میں ہیں اور بذات خود اثر انداز نہیں ہوتی ہیں اور شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔
چنانچہ امام بغوی کہتے ہیں "رقیہ” کی وہ قسم ناجائز ہے، جس میں شرکیہ الفاظ ہوں اور شیطانوں سے مدد چاہی گئی ہو اور جو عربی زبان میں نہ ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا مطلب کیا ہے (شرح السنۃ 159/12)
اور علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ "رقیہ” کی تین قسمیں ہیں، ایک وہ رقیہ جسے زمانۂ جاہلیت میں استعمال کیا جاتا تھا، جس کا مطلب معلوم نہیں تھا، اس سے بچنا واجب ہے، کیونکہ امکان ہے کہ اس میں شرکیہ الفاظ ہوں یا ایسے جملے ہوں، جو شرک تک پہنچانے والے ہوں، دوسری قسم وہ رقیہ ہے، جس میں اللہ کا کلام یا اس کے نام ہوں، اس طرح کا رقیہ جائز ہے اور اگر حدیث میں مذکور الفاظ کے ذریعے ہو تو مستحب ہے، تیسری قسم وہ ہے، جس میں فرشتوں، بزرگان دین یا اللہ کے کسی عظیم مخلوق جیسے عرش وغیرہ کا نام لیا جائے، اس قسم سے نہ تو بچنا واجب ہے اور نہ ہی یہ دوسری قسم میں شامل ہے، اس لیے اسے ترک کر دینا بہتر ہے، الا یہ کہ نام لینے کا باعث ان کی عظمت ہو تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے (فتح الباری 241/10)
غرضیکہ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ رقیہ کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ اس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں، نیز عربی زبان میں ہو، تاکہ اس کا مفہوم معلوم ہو سکے اور اگر عربی کے علاوہ دوسری زبان میں ہو، تو اس کا معنی اور مطلب معلوم ہونا لازم ہے، کیوں کہ معنی اور مطلب معلوم نہ ہونے کی صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ اس میں ناجائز اور حرام کلمات ہوں، چناںچہ دردیر مالکی کہتے ہیں :
لا یرقی بالاسماء التی لم یعرف معناہ قال مالک : ما یدریک لعلھا کفر . (الشرح الصغیر769/4)
ایسے ناموں سے جھاڑ پھونک نہیں کیا جائے گا، جس کا معنی معلوم نہ ہو، امام مالک نے کہا کہ تجھے کیا معلوم ؟ ہو سکتا ہے کہ وہ کفریہ کلمات ہوں ۔
اور علامہ شامی لکھتے ہیں :
و انما تکرہ العوذۃ اذا کانت لغیر لسان العرب ولا یدری ما ھو و لعلہ یدخلہ سحر او کفر اور غیر ذالک . (رد المحتار ۵۲۳/۹)
اور تعویذ اس وقت مکروہ (تحریمی) ہے، جب کہ عربی زبان میں نہ ہو اور نہ ہی اس کا معنی معلوم ہو، جس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ اس میں جادو یا کفر یا اس کے علاؤہ دوسرے کلمات ہوں ۔
افسوس یہ ہے کہ رقیہ اور تعویذ میں شرعی حدود کی عدم رعایت بالکل عام ہے اور پڑھے لکھے اور صاحب علم حضرات بھی اس کا لحاظ نہیں رکھتے اور ایسے کلمات استعمال کرتے ہیں، جن کا مفہوم معلوم نہیں اور ایسے نقوش اور اعداد مروج ہیں، جن کے بارے میں لکھنے والے کو کوئی علم نہیں ہوتا کہ یہ کس چیز کے نقوش و اعداد ہیں اور محض کسی کتاب سے نقل کر کے دے دیا جاتا ہے، یا اس میں غیر اللہ سے مدد چاہی جاتی ہے، چنانچہ حضرت تھانوی لکھتے ہیں :
"آج کل بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں، مثلاً کسی مخلوق کی ندا ہوتی ہے، خواہ پڑھنے میں یا لکھنے میں، جیسے بعض تعویذوں میں اجب یا جبرائیل یا میکائیل ہوتا ہے، کسی عمل میں یا دردائیل یا کلکائل ہوتا ہے، یا بعضے لوگ یا شیخ عبدالقادر شیا للہ کا ورد کرتے ہیں، یا مثلاً بعضے تعویذوں میں گو ندا و دعا نہیں ہوتی ہے، بلکہ کسی بزرگ کا توسل ہوتا ہے، یا ان کے نام کی نذر و نیاز ہوتی ہے، لیکن اس کے اثر مرتب ہونے میں ان بزرگوں کا دخل بھی سمجھتے ہیں، یہ سب شرعا ممنوع و باطل ہے، ایسے ہی عوارض سے حدیثوں میں آیا ہے ان الرقی و التمائم و التولۃ شرک”۔
"اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بعضے الفاظ جن کے معنی معلوم نہ ہوں یا ایسا نقش جن میں ہندسے لکھے ہوں، لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ کس چیز کے ہندسے ہیں، ایسے نقش و تعویذ کا استعمال ناجائز ہے، جیسا کہ اکثر تعویذ لکھنے والوں کا آج کل یہی حال ہے، اس نقش کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی ہے، لیکن ویسے ہی کسی کی تقلید سے یا کسی کتاب و بیاض وغیرہ سے نقل کر کے لکھ دیتے ہیں” ۔
"اس طرح سے بعضے اعمال میں تصویریں وغیرہ بنائی جاتی ہیں، بعض قرآن الٹا پڑھتے ہیں، بعضے قرآن کے اندر اور عبارتیں اس طور سے داخل کر دیتے ہیں کہ نظم قرآن مختل ہو جاتی ہے، یہ سب حرام اور معصیت ہیں ۔(دیکھئے :التقی لأحکام الرقی5-4-14)
معوذتین کے علاؤہ دیگر آیتوں سے رقیہ :
بعض روایتوں میں ہے کہ نبیﷺ معوذات کے علاوہ دیگر چیزوں سے رقیہ کو ناپسند کیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یکرہ عشر خصال ۔۔۔ و الرقی الا بالمعوذات و عقد التمائم .
نبیﷺ دس خصلتوں کو ناپسند کیا کرتے تھے،۔۔ جھاڑ پھونک کو الا یہ کہ معوذات کے ذریعے ہو اور کوڑی باندھنے کو۔
مگر حدیث حد درجہ ضعیف اور ناقابل استدلال ہے، اس کے ایک راوی عبدالرحٰمن بن حرملہ کے بارے میں امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کی حدیث صحیح نہیں ہوتی ہے، (لا یصح حدیثہ )اور امام طبری کہتے ہیں کہ اس کے راوی کا کچھ اتا پتہ نہیں ہے، اس لیے اس سے استدلال کرنا درست نہیں ہے (الموسوعۃ الفقھیۃ 28/13) اور امام ذہبی نے حدیث کو منکر اور ابن حجر عسقلانی نے ضعیف قرار دیا ہے (المیزان 556/2.فتح الباری 195/10)
اور حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یتعوذ من الجان و عین الانسان حتی نزلت المعوذات فاخذ بها و ترک ماسواھا (نسائی 5494،ترمذی2058)
رسول ﷺ جنات اور نظر بد سے اللہ کی پناہ چاہا کرتے تھے، یہاں تک کہ معوذات نازل ہو گئیں اور اس کے نزول کے بعد صرف اسی کو پڑھتے تھے اور بقیہ چیزوں کو چھوڑ دیا ۔
لیکن اس روایت سے یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ کسی اور سے رقیہ ناجائز اور ممنوع ہے، بلکہ بس یہ ثابت ہوتا ہے کہ تعوذ کے لیے یہ دونوں سورتیں زیادہ بہتر ہیں اور خود اللہ کے رسولﷺ سے ان کے علاوہ سے تعوذ ثابت ہے اور ان دو کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ دونوں سورتیں زیادہ تر پیش آنے والی مصیبتوں، کلفتوں اور بلاؤں سے تعوذ کو شامل ہیں، کیوں کہ یہ چیزیں عام طور پر جادو، حسد، شیطان اور انسان کے شر اور ان کے وسوسے سے پیش آتی ہیں (دیکھیے الموسوعۃ الفقھیۃ 29/13)
حاصل یہ ہے کہ کسی بھی آیت سے رقیہ کرنا درست ہے اور اس کے لیے محض لفظی مناسبت اور تجربہ کافی ہے، چناں چہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے متعلق منقول ہے کہ وہ نکسیر سے افاقہ کے لیے مریض کی پیشانی پر یہ آیت لکھ دیتے تھے :
قیل یا ارض ابلعی ماءک و یا سماء اقلعی و غیض الماء و قضی الامر (سورہ ھود: 44)
حکم دیا گیا : اے زمین! اپنے پانی کو نگل جا، اے آسمان! تھم جا اور پانی گھٹ گیا اور قصہ تمام ہو گیا ۔
اور علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ اگر وضع حمل میں دشواری ہو، تو صاف برتن پر درج ذیل آیت لکھی جائے اور پھر اسے دھو کر عورت کو پلا دیا جائے اور اس کے پیٹ پر چھڑک دیا جائے :
اذا السماء انشقت و اذنت لربھا و حقت و اذا الارض مدت و القت ما فیھا و تخلت . (سورہ الانشقاق1-4)
یاد کرو جب آسمان پھٹ جائے گا اور وہ اپنے پروردگار کا حکم بجا لائے گا اور اس پر یہی لازم ہے اور جب زمین پھیلا دی جائے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہے، وہ اسے اگل دے گی اور خالی ہو جائے گی۔
اور اس کے علاوہ بھی انہوں نے امام احمد بن حنبل اور دوسرے لوگوں کے حوالے سے قرآنی آیتوں اور دیگر دعاؤں پر مشتمل متعدد تعویذیں اور رقیے لکھے ہیں (دیکھیے زادالمعاد 356/4-359)
حاصل یہ ہے کہ کسی شرعی حکم کے ثبوت کےلیے آیت کے سیاق و سباق اور منشاء مفہوم کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، لیکن رقیہ اور تعویذ میں محض لفظی رعایت کافی ہے ۔
قرآن و حدیث کے علاؤہ دیگر چیزوں کی تعویذ :
حدیث گزر چکی ہے کہ صحابہ کرام قرآن و حدیث کے کلمات کے علاوہ دیگر چیزوں کے ذریعے رقیہ کیا کرتے تھے اور آنحضور ﷺ نے یہ کہہ کر انہیں اجازت دی کہ اگر اس میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں، "لا باس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک”
اور اس حدیث کی شرح میں علامہ شوکانی لکھتے ہیں :
و فیہ دلیل علی جواز الرقی و التطبب بما لا ضرر فیہ و لا منع من جھۃ الشرع و ان کان بغیر اسماء اللہ و کلامہ لکن اذا کان مفھوما لان ما لا یفھم لا یومن ان یکون فیہ شئی من الشرک . (نیل الاوطار 214/8، نیز دیکھیے عون المعبود 273/10)
یہ حدیث اس بات کے لیے دلیل ہے کہ ایسی چیزوں سے رقیہ اور علاج کرنا جائز ہے، جس میں کوئی نقصان اور جس کی شریعت کی طرف سے کوئی ممانعت نہ ہو، اگرچہ اس میں اللہ کے ناموں اور اس کے کلام کے علاوہ ہو، لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا مطلب معلوم ہو، کیونکہ اگر مطلب معلوم نہ ہو، تو اندیشہ ہے کہ اس میں شرکیہ الفاظ ہوں ۔
پیش بندی کے لیے تعویذ :
جمہور فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ نظر بد، حسد، شیطانی اثرات اور دوسری مصیبتوں اور بلاؤں سے بچنے کے لیے ان کے پیش آنے سے پہلے رقیہ کرنا اور تعویذ پہننا جائز ہے اور خود حدیث میں اس کے جواز کی صراحت موجود ہے، حدیث گزر چکی ہے کہ رسول ﷺ سونے سے پہلے اپنے اوپر سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھ کر دم کر لیا کرتے تھے (صحیح بخاری: 6319 وغیرہ) اور حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسولﷺ حضرت حسن و حسین کو "اعوذ بکلمات اللہ التامۃ من کل شیطان و ھامۃ و من کل عین لامۃ” پڑھ کر اللہ کی پناہ میں دیا کرتے تھے (صحیح بخاری: 3371وغیرہ) اور حضرت عبداللہ بن عمرو کے متعلق منقول ہے کہ وہ اپنے بڑے بچوں کو اس طرح کے کلمات پر مشتمل دعا یاد کراتے اور چھوٹے بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے (ابو داؤد: 3893)
اس کے برخلاف بعض لوگ کہتے ہیں کہ رقیہ و تعویذ اسی وقت جائز ہے، جب کہ کوئی نظر بد یا حسد وغیرہ کا شکار یا کسی مرض میں مبتلا ہو جائے اور محض پیش بندی کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے (الموسوعۃ الفقھیۃ 123/11)
پھونکنا، تھتکارنا :
دعا پڑھ کر پھونکنا جائز ہے، متعدد احادیث میں اس کے جواز کی صراحت مذکور ہے، چنانچہ حضرت عائشہ کہتی ہیں :
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اشتکی یقرء علی نفسہ بالمعوذات و ینفث فلما اشتد و جعلہ کنت اقرء علیہ و امسح بیدہ رجاء برکتھا (صحیح بخاری: 5016)
رسولﷺ جب بیمار پڑتے، تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے اور جب آپ کی بیماری شدید ہو گئی، تو میں پڑھا کرتی اور دست مبارک سے برکت کی امید پر اسے آپ کے جسم پر پھیرتی ۔
اور امام مسلم نے روایت کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں :
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا مرض احد من اھلہ نفث علیہ بالمعوذات فلما مرض مرضہ الذی مات فیہ جعلت انفث علیہ و امسحہ بید نفسہ لانھا کانت اعظم برکۃ من یدی . (صحیح مسلم: 2192)
اللہ کے رسول ﷺ کے گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہو جاتا، تو آنحضرت معوذات پڑھ کر اس پر پھونکتے اور جب آپ مرض موت میں مبتلا ہو گئے تو میں اسے پڑھ کر آپ پر پھونکتی اور آپ کے ہاتھ کو آپ کے جسم پر پھیرتی، کیوں کہ دست مبارک میرے ہاتھ سے زیادہ بابرکت تھا ۔
اور محمد بن اشعث کہتے ہیں کہ میری آنکھ میں کچھ تکلیف تھی، تو حضرت عائشہ نے کچھ پڑھ کر دم کیا (نیل الاوطار 212/8، تفسیر قرطبی 318/10)
دم کرنے اور پھونکنے کے لیے مذکورہ احادیث میں نفث کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس کے متعلق بعض حضرات کا خیال ہے کہ نفث کے معنی اس پھونک کے ہیں جس میں تھوک کی آمیزش ہو، اگر تھوک کی مقدار کچھ زیادہ ہو، تو اسے "تفل” کہتے ہیں اور اس سے کچھ کم ہو تو اسے نفث” کہتے ہیں (النفث قذف الریق القلیل و ھو اقل من التفل مفردات القرآن للاصفھانی /645)
اور تھوک کی آمیزش بالکل نہ ہو، تو وہ "نفخ” ہے اور اگر نفث کے معنی تھوک کے ساتھ پھونک ہو، تو مذکورہ احادیث سے تھتکارنا ثابت ہے اور اگر اس کے معنی محض پھونکنا ہو، تو تھتکارنا بصراحت دوسری احادیث سے ثابت ہے، چناں چہ محمد بن حاطب کہتے ہیں :
وقعت القدر علی یدی فانطلق بی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و کان یتقل فیھا و یقول اذھب الباس رب و احسبہ قال و اشفہ انک انت الشافی (مسند احمد 18281)
میرے ہاتھ پر دیگچی گر گئی، مجھے رسول ﷺ کے پاس لے جایا گیا، آنحضور ﷺ اس پر تھتکارتے اور کہتے "اذھب الباس رب الناس” اور میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی کہا "و اشفہ انک انت الشافی”
اور ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے کسی مشرک پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، جسے کسی زہریلے جانور نے ڈنک مار دیا تھا، اور پھر آنحضور کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کے عمل کی تائید فرمائی، مذکورہ روایت کے بعض الفاظ یہ ہیں :
فجعل یقرء بام القرآن و یجمع بزاقہ و یتفل فبرء . (صحیح بخاری 5736، صحیح مسلم 2201)
وہ سورہ فاتحہ پڑھنے اور تھوک کو جمع کرکے اس پر پھونکنے لگے، جس سے وہ اچھا ہو گیا ۔
پڑھ کر پھونکنے یا پھونک کے ساتھ تھوک کی آمیزش کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے :
فائدۃ النفث بتلک الرطوبۃ او الھواء الذی ماسہ الذکر کما یتبرک بغسالۃ ما یکتب من الذکر . (فتح الباری / حدیث 5735 نیز دیکھیے : زاد المعاد 179/4)
پھونکنے یا تھتکارنے کا فائدہ اس ہوا یا رطوبت سے برکت حاصل کرنا ہے، جو اللہ کے ذکر سے مخلوط ہے، جیسے کہ ذکر و دعا کو لکھ کر اور پھر اسے دھو کر اس کے پانی سے برکت حاصل کی جاتی ہے ۔
ہندسہ اور نقش :
رقیہ اور تعویذ کے جائز ہونے کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ جو کچھ لکھا پڑھا جا رہا ہے اس کا معنی معلوم ہو، اور نقوش و اعداد کے بارے میں عام طور پر معلوم نہیں ہوتا ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔
قال القرطبی و سئل عن عبد السلام عن الحروف المقطعۃ فمنع عما لایعرف لئلا یکون فیھا کفر . (الموسوعۃ 25/13) حضرت تھانوی لکھتے ہیں:
ایسا نقش جس میں ہندسے لکھے ہوں لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ کس چیز کے ہندسے سے لکھے ہیں ایسے نقش و تعویذ کا استعمال ناجائز ہے (مقالات حکمت /73)
سعد و نحس :
دعا کی قبولیت میں وقت کو دخل ہے، ایسے ہی دنوں میں بعض کو بعض پر فضیلت ہے مگر رقیہ اور تعویذ کے فائدے کے لیے کسی وقت کو لازم سمجھ لینا غلط ہے، نیز دنوں اور اوقات کی "سعد و نحس” کے اعتبار سے تقسیم بھی نادرست ہے،حضرت تھانوی کہتے ہیں :
بعض عاملوں کو گو وہ اہل علم ہی ہوں بعضے عملیات میں دن وغیرہ کی قید کی رعایت کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
اکثر عملیات میں ساعت یا دن کی قید ہوتی ہے، جس کی رعایت بعض عامل کرتے ہیں، بعضے ماہ کے عروج و زوال کا لحاظ کرتے ہیں اور مبنی ان سب کا وہی اعتقاد تاثیر نجوم ہے، جو باطل اور معصیت ہے، سو یہ نجوم کا شعبہ ہے اور واجب الترک ہے اور یہ خیال کہ یہ عمل کی شرط ہے، یہ محض باطل ہے، میں نے ایسے اعمال میں یہ قید بالکل حذف کر دی ہے اور بفضلہ تعالی اثر میں کوئی کمی نہیں ہوئی (اغلاط العوام /98)
تعویذ پہن کر استنجاء خانے جانا :
تعویذ میں قرآنی آیت اور اللہ کے نام وغیرہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان کا احترام ضروری ہے اور ناپاکی کی حالت میں اسے پہننا یا اسے پہن کر استنجا خانے جانا درست نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اسے اتار دینا چاہیے.
لکن ینزعہ عند الخلاء و القربان. (الفتاوی السراجیۃ/75) البتہ اگر اسے کپڑے وغیرہ میں لپیٹ دیا گیا ہے، تو پھر اسے ناپاکی کی حالت میں پہننا اور پہن کر استنجا کھانے جانا درست ہے.
لا باس ان یشد الجنب و الحائض التعاویذ اذا کانت ملفوفۃ (رد المحتار 523/9، نیز دیکھیے الشرح الصغیر 769/4، نھایۃ المحتاج 127/1، کشاف القناع 135/1)
جانور کو تعویذ پہنانا
جانور کو تعویذ پہنانا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں تعویذ کی بے حرمتی ہے، نیز نجاست سے آلودہ ہونے کا خطرہ بھی ہے (الموسوعۃ الفقھیۃ 33/13) البتہ اگر موم جامہ وغیرہ میں لپیٹ دیا جائے اور نجاست لگنے سے حفاظت کی جائے، تو پھر اس کی گنجائش ہے ۔
غیر مسلم کو تعویذ دینا :
قرآنی آیت وغیرہ پڑھ کر کسی غیر مسلم پر دم کرنا پر بہ اتفاق جائز ہے، ایک موقع پر ایک صحابی نے غیر مسلم پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا، رسول ﷺ کو واقعہ کی اطلاع ملی اور آپ نے ان کے عمل کی تائید فرمائی (صحیح بخاری: 5736وغیرہ) البتہ تعویز دینے میں احتیاط کرنا چاہیے اور اگر دینا نا گزیر ہو، تو بہتر ہے کہ قرآنی آیت یا حدیث میں مذکور دعا نہ لکھے، بلکہ کوئی جائز عبارت لکھ دے . بعض لوگ غیر مسلم کی تعویذ میں فرعون، ہامان وغیرہ لکھ دیتے ہیں، ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔
غیر مسلم سے دم کرانا اور تعویذ لینا :
حنفیہ اور امام شافعی کے نزدیک یہودی اور نصرانی سے جھاڑ پھونک کرانا جائز ہے، امام مالک سے بھی ایک قول یہی منقول ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اللہ کے نام سے جھاڑ پھونک کرے اور اس کے رقیہ یا تعویذ میں شرکیہ کلمات نہ ہوں، چنانچہ امام مالک نے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ کسی یہودیہ عورت سے اپنے اوپر دم کرا رہی تھیں، اتنے میں حضرت ابوبکر آگئے اور دم کرنے والی سے کہا کہ اللہ کی کتاب کے ذریعے دم کرو، شارحین کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کے ذریعے یا ایسے کلمات کے ذریعے رقیہ کرو، جو اللہ کی کتاب کے موافق ہوں ۔
امام مالک کا دوسرا قول یہ ہے کہ اہل کتاب سے جھاڑ پھونک مکروہ ہے، کیوں کہ ان کے رقیہ کے بارے میں معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ اللہ کے ذکر پر مشتمل ہے، یا اس میں جادو یا شرکیہ کلمات ہیں (الموسوعۃ الفقھیۃ 34/13) ظاہر ہے کہ اہل کتاب کے علاوہ دوسرے غیر مسلموں کے یہاں عام طور پر منتر وغیرہ میں شرکیہ الفاظ ہوتے ہیں، نیز ان سے اس کے بارے میں معلوم کرنا بھی دشوار ہے، اس لیے غیر مسلموں سے تعویذ لینا یا دم کرانا جائز نہیں ہے، کیوں کہ رقیہ کے جواز کے لیے شرط ہے کہ اس کا مفہوم معلوم ہو اور اس میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں، حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث گزر چکی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جھاڑ پھونک، منکا، گنڈا شرک ہے، یہ حدیث سن کر ان کی اہلیہ نے کہا کہ وہ فلاں یہودی کے پاس جا کر دم کراتی تھیں، جس سے ان کی آنکھ کی تکلیف ختم ہو جاتی تھی ۔
ان کے جواب میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ :
ذاک الشیطان اذا اطعتہ ترک و اذا عصیتہ طعن باصبیعہ فی عینک . (دیکھیے سنن ابن ماجہ :3530، سنن ابو داؤد 3883)
وہ فائدہ شیطان کی وجہ سے تھا، جب تم اس کی اطاعت کرتی تھی، تو وہ تمہیں چھوڑ دیتا اور جب تم اس کی نافرمانی کرتی، تو وہ تمہاری آنکھ میں انگلی چبھودیتا ۔
خون سے تعویذ لکھنا :
بہنے والا خون کا کسی انسان کا ہو، یا کسی پاک جانور کا بہر صورت ناپاک ہے اور کسی ناپاک سے قرآنی آیت، اللہ کا نام یا دعا وغیرہ لکھنا ناجائز اور حرام ہے، چنانچہ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں :
و لا یجوز کتابتھا بدم الراعف کما یفعلہ الجھال فان الدم نجس فلا یجوز ان یکتب بہ کلام اللہ (زاد المعاد 358/4)
اور مذکورہ آیت کو نکسیر والے کے خون سے لکھنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ بعض جاہل کرتے ہیں، کیوں کہ خون ناپاک ہے، لہٰذا اس سے اللہ کے کلام کو لکھنا جائز نہیں ہے ۔
اور حضرت تھانوی لکھتے ہیں :
بعض لوگ خون سے تعویذ لکھتے ہیں اور بعضے اس کے لیے طالب سے مرغا لیتے ہیں، سو شریعت میں بہنے والا خون مثل پیشاب کے ناپاک ہے، اس سے تعویذ لکھنا کس قدر بری بات ہے۔۔۔ اور ایسا تعویذ اگر بازو پر باندھا ہو یا جیب میں پڑا ہو تو نماز بھی درست نہ ہوگی (التقی فی احکام الرقی /18)
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ایک موہوم مقصد کے لیے لوگ اللہ کے کلام کو ناپاک چیزوں سے لکھنا گوارا کر لیتے ہیں ۔
آمد و رفت کی جگہ تعویذ دفن کرنا :
علامہ شامی لکھتے ہیں کہ نیروز کے موقع سے کاغذ پر اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کا نام لکھ کر دروازے پر چپکانہ مکروہ ہے، کیوں کہ اس میں اللہ تعالی اور نبیﷺ کے نام کی اہانت اور بے حرمتی ہوتی ہے (رد المحتار 523/9)
مذکورہ عبارت کو نقل کرنے کے بعد حضرت تھانوی لکھتے ہیں:
بعضے تعویذوں کے استعمال کا طریقہ ایسا بتایا جاتا ہے، جس میں ان کی بے ادبی ہوتی ہے، روایت مذکورہ سے اس کا ممنوع ہونا ثابت ہے، مثلاً کوئی تعویذ کسی کے آنے جانے کی جگہ دفن کیا جاتا ہے، تاکہ اس کے اوپر کو آمد و رفت ہو یا کوئی تعویذ جلاتا ہے، اسی طرح اور جس طریقے سے بے حرمتی اور بے تعظیمی ہوتی ہے سب ناجائز ہے (التقی فی احکام الرقی /18)
لہٰذا آمد و رفت کی جگہوں پر تعویذ دفن کرنا ناجائز ہے، البتہ غیر آباد جگہوں پر جہاں آمد و رفت نہ ہوتی ہو،تعویذ دفن کرنا درست ہے، کیوں کہ اس میں اہانت اور بے ادبی کا پہلو نہیں.
قال صالح لابیہ یکتب شئی من القرآن فی قرطاس یدفن للآبق قال لا باس (الاداب الشرعیۃ 232/3)
دعا اور تعویذ پر اجرت
جھاڑ پھونک اور تعویز پر اجرت لینا جائز ہے، کیوں کہ اس کا تعلق عبادت سے نہیں ہے اور نہ ہی کسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی مریض یا آفت زدہ پر دم کر ے یا اسے تعویذ دے، بلکہ اس کا تعلق دوا اور علاج سے ہے (النھایۃ 654/3، الموسوعۃ الفقھیۃ 34/13)
البتہ اسے کاروبار بنا لینا اور عملیات کا ہسپتال اور دواخانہ کھول کر بیٹھ جانا شریعت کے مزاج سے میل نہیں کھاتا ہے اور اسلام ایسے مشغلے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے، یہی وجہ ہےکہ سلف کی زندگی میں اس طرح کی دکان کا ثبوت نہیں ملتا ہے ۔
افسوس کہ اکثر لوگوں نے دعا اور تعویذ کو ایک پیشہ بنا لیا ہے اور مریض اور پریشان حال سے روپیہ اہیٹھنے کے چکر میں طرح طرح کے حیلے بہانے تراشتے ہیں اور جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور ان کے مصیبت اور مجبوریوں سے بےجا فائدہ اٹھاتے ہیں، اللہ تعالی ایسے لوگوں پر رحم فرمائے اور انہیں ہدایت دے ۔
حرف آخر :
حاصل یہ ہے کہ جھاڑ پھونک کرنا جائز اور اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہے، مگر تعویذلٹکانا کسی حدیث میں مذکور نہیں ہے اور یہ دونوں موہوم اسباب میں شامل اور مقام توکل سے فروتر ہیں، الا یہ کہ کسی رقیہ کی تاثیر حدیث سے ثابت ہو تو وہ توکل کے خلاف نہیں ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ جھاڑ پھونک اورتعویذ سے اجتناب کیا جائے اور مصیبت و آفت اور بیماری و پریشانی کے وقت اعمال کی درستگی کی فکر کی جائے، توبہ و استغفار کیا جائے، حقوق کی ادائیگی اور اصلاح حال، تعلقات اور معاملات پر توجہ دی جائے اور خوف و خشیت اور تضرع و گریہ زاری کے ساتھ اللہ سے دعا مانگی جائے کہ یہی انبیاء کرام کا شیوہ اور سلف صالحین کا طریقہ ہے ۔
موجودہ زمانے میں تعویذات و عملیات کی جو شکلیں رائج ہیں، ان میں سے بیشتر معصیت اور ناجائز ہیں اور ٹھگ قسم کے عاملوں کی بھرمار ہے، جو جگہ جگہ اپنی دکان سجائے بیٹھے ہیں اور پریشان حال اور مصیبت کے مارے لوگ ان تک پہنچتے ہیں اور شک و شبہات کی پوٹری لے کر واپس ہوتے ہیں، نہ تو عامل شرعی حدود کا لحاظ رکھتا ہے اور نہ ان سے دم کرانے اور تعویذ لینے والے ۔ فالی اللہ المشتکی ۔