بسم الله الرحمن الرحيم.

لباس اور زینت سے متعلق نئے مسائل:

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

8- سر کے بال کو مونڈنا اور کٹوانا:

عورتوں کے لیے بال صنفی پہچان کا ذریعہ اور حسن و زیبائش کی علامت ہے اس لیے اس کے حق میں بال مونڈنا ممنوع ہے (1) چنانچہ حج کے موقع پر مردوں کے لیے بال منڈانے کو پسند کیا گیا ہے لیکن عورتوں کو اس سے منع کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ عام حالات میں بدرجہ اولی اس کی ممانعت ہوگی حضرت علی سے روایت ہے :
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تحلق المراة راسها (جامع ترمزي:914 سنن نسائي:5049 وعن ابن عباس مرفوعا ليس على النساء الحلق انما على النساء التقصير. اخرجه ابو داؤد والدار قطني والطبراني وقد قوى اسناده البخاري في التاريخ و ابو حاتم في العلل وحسنه الحافظ. تحفة الاحوذى)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو سر منڈانے سے منع فرمایا ہے.
نیز اس کے لیے اس طرح سے بال کٹوانا بھی ممنوع ہے جس سے مردوں کے ساتھ مشابہت ہو جائے .(2)
اس لیے کہ حدیث میں ان عورتوں پر لعنت کی گئی ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں۔
نیز مرد و عورت دونوں کو بالوں کی تراش و خراش میں غیر قوموں اور فاسق و فاجر کی مشابہت سے بچنا چاہیے خصوصا آج کل بالوں کا جو فیشن رائج ہے اس سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا چاہیے جس میں سر کے کچھ حصے کے بال کو مونڈ دیا جاتا ہے اور کچھ کو باقی رکھا جاتا ہے یا بالوں کے کچھ حصوں کو کاٹ کر لکیریں بنا دی جاتی ہیں کیونکہ یہ "قزع” کے حکم میں شامل ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے :
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن القزع(صحيح بخارى:5921، صحيح مسلم:2120 غيره)
رسول اللہ ﷺ نے قزع سے منع فرمایا ہے۔
حدیث کے راوی حضرت نافع کہتے ہیں کہ”قزع” یہ ہے کہ
بچے کے سر کا بعض حصہ مونڈ دیا جائے اور بعض کو چھوڑ دیا جائے ۔ (يحلق بعض راس الصبي ويترك البعض .صحيح مسلم:2120)

(1)ولو حلقت المراۃ راسها فان فعلت لوجع اصابها لا باس به وان فعلت ذلك تشبها بالرجل فهو مكروه (الهندية 5/350
(2)قطعت شعر راسها اثمت ولعنت زاد في البزازية: وان باذن الزوج لانه لا طاعة لمخلوق في معصيۃ الخالق ولذا يحرم على الرجل قطع لحيته والمعنى المؤثر التشبه بالرجال. ردالمحتار 9/583

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے