سنت زوال:
ولی اللہ مجید قاسمی
جس طرح آدھی رات گذرجانے کے بعد حق سبحانہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے، ایسے ہی دن ڈھلنے کے بعد آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، یہ دونوں اوقات قربت و رحمت کی مخصوص گھڑیاں ہیں، اس لئے ان گھڑیوں میں نماز میں مشغول رہنے کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے :
ان رسول اللہ ﷺ یصلی اربعا بعد ان تزول الشمس فقال انھا ساعۃ تفتح فیھا ابواب السماء واحب ان یصعد لی عمل صالح (جامع ترمذی108/1 وحسنہ )
اللہ کے رسول ﷺ سورج ڈھل جانے کے بعد چار رکعت پڑھا کرتے اور کہتے کہ یہ ایک ایسی گھڑی ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ،میں پسند کرتا ہوں اس وقت میرا کوئی نیک عمل آسمان پر جائے۔
اس وقت نماز پڑھنے کا ثواب رات میں نماز پڑھنے کے بقدر ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد نماز تہجد کی نماز کی طرح ہے۔ (صلوۃ الھجیر مثل صلوۃ اللیل .رواہ الطبرانی ،رجالہ موثوقون. مجمع الزوائد 221/2)
حضرت عبداللہ بن مسعود زوال کے بعد آٹھ رکعت پڑھا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ آٹھ رکعت رات میں اٹھ رکعت پڑھنے کے برابر ہیں۔ (انھن یعدلن بمثلھن من قیام اللیل.زادالمعاد 102/1)
ان چار رکعتوں کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا خیال ہے کہ یہ ظہر سے پہلے کی سنت ہے،شوافع کے یہاں اس سے مراد سنت زوال ہے۔(معارف السنن ) شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اسی کو ترجیح دی ہے وہ کہتے ہیں : مختار یہی ہے کہ یہ چار رکعت سنت موکدہ کے علاوہ ہے۔(اشعتہ اللمعات ؍ 459) مولانا رشید احمد گنگوہی کا رجحان بھی اسی جانب ہے وہ لکھتے ہیں: حق یہ ہے کہ یہ سنت ظہر کے سوا ہے … اسی لئے کہ ہمارے یہاں سنت، فرض سے متصل پڑھنے کا حکم ہے، اور ہمیں گرمی میں تاخیر ظہر کا حکم دیا گیا ہے تو یہ دونوں ایک کیسے ہوسکتے ہیں؟ جب کہ ان دونوں کے درمیان ایک دراز فاصلہ اورطویل وقت ہے۔ (قال بعضھم ھذہ سنۃ الظھر والحق انھا غیرھا اما عندالشافعیۃ فظاھر لانھم قائلون بان سنۃ الظہر رکعتان وعندہ اربع بتسلیمۃ، واما عندنا فلماوردمن اتصال السنن بالفرائض اذھوالاصل وامرنا بتاخیر الظھر فی الصیف فکیف یکونان واحداً وبینھما بون بعید ووقت مدید (الکوکب الدری 193/1)
____________________٭٭٭٭___________________