سواری پر نفل
سفر کی سہولیات میں سے ایک سہولت یہ بھی ہے کہ سواری پرکسی عذر کے بغیر بھی سنت و نفل جائز ہے گو وہ سنت فجر ہی کیوں نہ ہو۔(مراقی الفلاح ؍ 268)
یہ بھی ضروری نہیں کہ رخ قبلہ کی جانب ہو بلکہ جس جانب بھی سواری کا رخ ہو اس طرف منہ کرکے نماز ادا کرنا درست ہے۔(کان النبی ﷺ یصلی فی السفر علی راحلتہ حیث توجہت ۔صحیح بخاری و مسلم ۔ نیل الاوطار 220/3)۔
البتہ مستحب ہے کہ نماز شروع کرتے وقت قبلہ رو ہوجائے۔(ردالمحتار 517/1)
حضرت انس فرماتے ہیں :
ان رسول اللہ ﷺ کان اذا سافر فأراد ان یتطوع استقبل بناقتہ القبلۃ فکبر ثم صلی حیث وجہ رکابہ ۔
رسول اللہ ﷺ جب سفر میں نفل پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی کو قبلہ کی طرف پھیر دیتے‘ پھر تکبیر کہتے پھر جس جانب بھی سواری کا رخ ہوتا‘ اسی طرف نماز پڑھتے۔(رواہ ابو داود وسکت عنہ 173/1 واسنادہ حسن کما قال النووی فی المجموع 234/3 والحافظ فی بلوغ المرام 189/1 وصححہ ابن السکن کما فی التلخیص 213/3)
اس کی صحت اور درستگی کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ سفر شرعی(48 میل) ہو بلکہ صرف آبادی سے نکلنے کے بعد جہاں سے کسی مسافر کے لئے قصر درست ہے وہاں سے سواری پر یہ سنت درست ہے بلکہ امام ابو یوسف توآبادی میں بھی جائز قراردیتے ہیں حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔(فتح القدیر 404/1)
اونٹ اور گھوڑے ہی کے حکم میں جدید دور کی وہ دو پہیہ سواریاں بھی ہیں جو انجن سے چلتی ہیں ۔وہ سواریاں جنہیں خود چلانا پڑتا ہے مثلاً سائیکل اور رکشا تو ان پر نفل نماز درست نہیں۔ابن نجیم مصری لکھتے ہیں کہ سواری پر نفل اسی وقت جائز ہے جبکہ وہ ٹہری ہوئی ہو یا خود بخود چلے اگر وہ سوار کے چلانے سے چل رہی ہوتو اس پر کوئی بھی نماز درست نہیں خواہ نفل ہو یا فرض۔ (البحرالرائق 64/2)
چار پہیہ والی سواریوں پر نفل قبلہ روہو تو درست ہے لیکن قبلہ کے علاوہ کسی اور طرف رخ کرکے درست نہیں البتہ ڈرائیور کے لئے اجازت ہے۔ علامہ عینی کشتی پر نماز کے سلسلہ میں رقم طراز ہیں۔
کشتی کا سوار جانور پر سوار کی طرح نہیں ہے؛اس کے لئے وہ استقبال قبلہ پر قادر ہے خواہ کشتی چل رہی ہو یا ٹھہری ہوئی ہو‘رافعی کہتے ہیں کہ کہاگیا ہے کہ ملاح کے لئے جائز ہے۔ نووی کی تحقیق بھی یہی ہے کہ ملاح کے لئے چلانے کی حالت میں درست ہے۔ (عمدۃ القاری 138/7)
ٹرین اور بس وغیرہ میں چونکہ استقبال قبلہ کی قدرت ہوتی ہے؛ اس لئے دوسری سمت رخ کرکے نماز درست نہیں کیونکہ ٹرین وغیرہ جانور کے سواری کے حکم میں نہیں بلکہ کشتی اور پانی کے جہاز کی طرح ہے۔( وان الصلاۃ فی القطار السائرۃ کالصلوۃ فی السفینۃ .معارف السنن 394/3)
کیفیت :
سواری پر نماز سر کے اشارہ سے پڑھی جائے گی۔ حدیث میں آپ ﷺ کا عمل اسی طرح منقول ہے۔(عن عامر بن ربیعہ قال رایت رسول اللہ ﷺ وھوعلی راحلتہ یسبح یومی براسہ ۔ متفق علیہ۔ دیکھئے : نیل الاوطار 144/2)
سجدہ کا اشارہ رکوع سے قدرے پست ہوگا۔ عام نمازوں کی طرح رکوع اور سجدہ نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اس طرح سے پڑھ لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ لیکن جانور کی پشت یا پیٹ پر سجدہ کی صورت میں اگر وہ نجس ہوتو نماز صحیح نہ ہوگی۔(حاشیہ طحطاوی 267) اس کے برخلاف اشارہ کرنے میں اگر جانور کی پشت، پیٹ یا پائیدان ناپاک بھی ہوتو بھی نماز ہوجائے گی۔ (ردالمحتار 517/1)
نفل سواری پر شروع کرکے زمین پر اترکر مکمل کرنا درست ہے بشرطیکہ اترنے میں ’’عمل کثیر‘‘ کا ارتکاب نہ ہو ،’’ عمل کثیر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اترنے میں دونوں ہاتھ استعمال نہ کرے بلکہ پیر موڑ کر دوسری سمت کود جائے لیکن زمین پر نماز شروع کرکے سواری پر مکمل کرنا جائز نہیں۔ (ردالمحتار 517/1)
آبادی سے باہر سواری پر نفل پڑھنا شروع کیا اور ابھی نماز مکمل نہیں ہوئی کہ آبادی میں پہونچ گیا تو اسی سواری پر بیٹھے بیٹھے نماز مکمل کرلینا چاہئیے، اترنے کی ضرورت نہیں۔