سوال:
اگر کوئی شخص فرض نماز میں ابتدائی دو رکعت میں غلطی سے یا جان بوجھ کر سورہ فاتحہ کی ایک آیت دوبارہ پڑھ دے تو کیا اس پر سجدہ سہو واجب ہے ؟
عبدالحکیمحلیمی امبیڈکر نگر ۔
جواب:
کسی فرض و واجب کا تکرار بذات خود سجدہ سہو کا سبب نہیں ہے بلکہ وہ سجدہ سہو کا سبب اس وقت بنتا ہے جب اس کی وجہ سے کسی دوسرے واجب کی ادائیگی میں تاخیر ہو(1)
اور تاخیر اسی وقت مانی جائے گی جب کہ پہلے واجب کی تکمیل ہوچکی ہو ۔تکمیل سے پہلے جان بوجھ کر یا غلطی سے یا غلطی کی تصحیح کے لئے اس کے بعض حصے کا تکرار دوسرے واجب کی ادائیگی میں تاخیر نہیں مانی جائے گی اس لئے سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا ۔چنانچہ فقہاء حنفیہ نے لکھا ہے کہ سورہ فاتحہ مکمل ہونے یا اس کا اکثر حصہ پڑھنے کے بعد دوبارہ سورہ فاتحہ پڑھنا سجدہ سہو کو واجب کر دیتا ہے( 2)
واضح رہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مکمل سورہ فاتحہ کا پڑھنا اور صاحبین کے نزدیک اکثر حصے کا پڑھنا واجب ہے مذکورہ تفصیل اسی اختلاف پر مبنی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک پورا پڑھنے کے بعد واجب ادا ہوگا جب کہ صاحبین کے نزدیک اکثر حصہ پڑھ لینے سے واجب ادا ہو جائے گا ۔اور واجب کی تکمیل کے بعد تکرار دوسرے واجب کی تاخیر کا سبب بن رہا ہے لہذا سجدہ سہو واجب ہے ۔
سورہ فاتحہ کی تکمیل یا اکثر حصہ کے پڑھنے کے بعد کتنے حصے کے تکرار پر سجدہ سہو واجب ہوگا؟ اس کے لئے معیار ایک رکن ہے جیسا کہ علامہ طحطاوی نے لکھا ہے اور ایک رکن کی تحدید تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے سے کی گئی ہے جس میں کل بیالیس حروف ہوتے ہیں اس لئے سورہ فاتحہ مکمل ہونے یا اس کا اکثر حصہ پڑھنے کے بعد بیالیس حروف کے بقدر دوبارہ سورہ فاتحہ میں سے پڑھ دے تو سجدہ سہو واجب ہوگا ۔
چنانچہ یہی مسئلہ بعینہ تشہد کا ہے کہ اس کے ہر لفظ کو پڑھنا ضروری ہے ۔کسی ایک لفظ کے چھوڑ دینے سے تشہد ادا نہیں ہوگا اور تکرار تشہد مکروہ ہے اور اس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہے لیکن اس کے مکمل ہونے سے پہلے اس کے کسی حصے کا تکرار سجدہ سہو کا سبب نہیں ہے ۔( 3)
اس سلسلے میں بعض لوگ حاشیہ ابن عابدین کی مذکورہ ذیل (4) عبارت سے جو استدلال کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق سورہ فاتحہ کے کسی حصے کے ترک سے ہے۔ تکرار سے نہیں ہے ۔اور یہ دونوں الگ الگ مسئلے ہیں ان میں سے ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ صاحبین کے نزدیک اکثر سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اگر کسی نے اکثر کو ترک کردیا تو واجب کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہے۔اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک پورے فاتحہ کو پڑھنا واجب ہے لہذا اس کےایک آیت بلکہ ایک حرف کو بھی چھوڑدیا تو سورہ فاتحہ کو مکمل پڑھنا نہیں پایا گیا اس لئے سجدہ سہو واجب ہے ۔صاحب مجتبیٰ نے اسی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
یسجد بترک آیۃ منہا ۔(اس کے ایک آیت کے ترک سے سجدہ سہو کریگا)
اور علامہ حصکفی نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ سورہ فاتحہ کی ہر آیت واجب ہے جیسے کہ عید کی ہر تکبیر واجب ہے اور اس سے بعض ہندی علماء نے یہ سمجھا کہ چونکہ ہر آیت واجب ہے اس لئے کسی ایک آیت کے تکرار کی وجہ سے اس کے بعد والی آیت کے پڑھنے میں تاخیر ہوجائے گی لہذا ایک آیت کے تکرار سے سجدہ سہو واجب ہے ۔
لیکن یہ غلط فہمی ہے کیونکہ خود علامہ شامی نے علامہ حصکفی کے نتیجے کو قبول نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ صاحب مجتبیٰ کی عبارت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہر آیت مستقل طور پر واجب ہے صحیح نہیں ہے کیونکہ انھوں نے پورے سورہ فاتحہ کے واجب ہونے کی ایک مثال ذکر کی ہے کہ چونکہ مکمل سورہ واجب ہے اس لئے ایک آیت کے ترک پر بھی سجدہ سہو ہے اور اس سے آگے بڑھ کر علامہ شامی کہتے ہیں کہ ایک حرف کے ترک پر بھی سجدہ سہو واجب ہے کیونکہ مکمل طور پر سورہ فاتحہ پڑھنا نہیں پایا گیا ۔
چنانچہ فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے :
سوال:
اگر کوئی امام سری نماز میں سورہٴ فاتحہ میں کسی آیت کے تکرار کرنے کی عادت بنالے تو اس نماز کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں اور حوالہ ہوتو بہتر رہے گا۔
جواب نمبر: 152368
بسم الله الرحمن الرحيم
سورہ فاتحہ کی کسی ایک یا دو آیت کے تکرار سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا، اس کے بغیر نماز صحیح ہوجائے گی؛ البتہ اگر سورہ فاتحہ کے اکثر حصے کا تکرار کیا، تو سجدہ سہو واجب ہوجائے گا۔ فلو قرأہا فی رکعة من الأولیین مرتین وجب سجود السہو لتأخیر الواجب وہو السورة کما فی الذخیرة وغیرہا، وکذا لو قرأ أکثرہا ثم أعادہا کما فی الظہیریة ۔( الدر المختار مع رد المحتار : ۴۶۰/۱، واجبات الصلاة، ط: دار الفکر، بیروت )
واللہ تعالیٰ اعلم۔
سوال:
میں نے ایک مرتبہ امام صاحب کی غیر حاضری میں نماز پڑھائی تھی میں نے قعدہ اولی میں ایک مرتبہ مکمل تشہد پڑھنے کے بعد شک ہونے پر اشہد ان لا الہ سے اخیر تک پھر سے پڑھا تھا تو کیا صورت میں سجدہ سہو کرنا ضروری تھا ؟ اور میں نے سجدہ سہو نہیں کیا تھا تو اب کیا حکم ہے براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب نمبر: 602974
بسم الله الرحمن الرحیم
قعدہ اولیٰ میں تشہد کے تکرار سے سجدہٴ سہو واجب ہوتا ہے بعض حصہ کے دوبارہ پڑھنے سے سجدہٴ سہو لازم ہے یا نہیں، اس کی صراحت نہیں ملی۔ ظاہر یہ ہے کہ اس صورت میں سجدہٴ سہو نہیں، پس صورت مسئولہ میں نماز ہوگئی۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
اور مفتی محمود الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
سوال:زید نے سورہ فاتحہ مستقیم تک پڑھا،پھر اس نے صرف اھدنا الصراطالمستقیم تک دوبارہ پڑھ کر سورہ فاتحہ مکمل کرلیا تو ایسی صورت میں نماز میں کوئی خرابی ہوگی یا نہیں ؟
جواب:حامدا ومصلیا ۔عمدا اھدنا الصراطالمستقیم کو دوبارہ پڑھنا یا شک کی وجہ سے بہر صورت سجدہ سہو واجب نہیں ،نماز ہوگئی۔(فتاویٰ محمودیہ 98/7)
یہ تمام تر تفصیلات فرض کی ابتدائی دورکعتوں میں مسلسل سورہ فاتحہ کے تکرار سے متعلق ہیں اس کے برخلاف فرض کی اخیر کی دورکعت میں سورہ فاتحہ دوبارہ پڑھنے سے یا ابتدائی دو رکعت میں غیر مسلسل پڑھنے سے سجدہ سہو واجب نہیں ہے، مثلاً ایک دفعہ سورت سے پہلے پڑھی پھر دوبارہ سورت کے بعد پڑھی تو سجدہ واجب نہیں. بھول سے ایسا ہوا تو کراہت بھی نہیں ۔ جان کر کیا تومکروہ ہے ، اسی طرح سنن ونوافل اور تراویح میں سورۂ فاتحہ یا اس کے کسی جزء کے تکرار سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔(3)
(1)ولو قرء الفاتحۃ مرتین یجب علیہ السہو لتاخیر السورۃ البحر 92/2.
وان لا یوخر السورۃ عنہا (الفاتحۃ) بمقدار اداءرکن طحطاوی علی المراقی 250/.
(2)فلو قرأہا فی رکعة من الأولیین مرتین وجب سجود السہو لتأخیر الواجب وہو السورة کما فی الذخیرة وغیرہا، وکذا لو قرأ أکثرہا ثم أعادہا کما فی الظہیریة ۔( الدر المختار مع رد المحتار : 2 /152
(3)قَوْلُهُ بِتَرْكِ بَعْضِهِ كَكُلِّهِ) قَالَ فِي الْبَحْرِ: مِنْ بَابِ سُجُودِ السَّهْوِ فَإِنَّهُ يَجِبُ سُجُودُ السَّهْوِ بِتَرْكِهِ وَلَوْ قَلِيلًا فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ لِأَنَّهُ ذِكْرٌ وَاحِدٌ مَنْظُومٌ، فَتَرْكُ بَعْضِهِ كَتَرْكِ كُلِّهِ اه (رد المحتار 197/2)
(4)(وَهِيَ) عَلَى مَا ذَكَرَهُ أَرْبَعَةَ عَشَرَ (قِرَاءَةُ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ) فَيَسْجُدُ لِلسَّهْوِ بِتَرْكِ أَكْثَرِهَا لَا أَقَلِّهَا، لَكِنْ فِي الْمُجْتَبَى يَسْجُدُ بِتَرْكِ آيَةٍ مِنْهَا وَهُوَ أَوْلَى
قُلْت: وَعَلَيْهِ فَكُلُّ آيَةٍ وَاجِبَةٌ كَكُلِّ تَكْبِيرَةِ
(قَوْلُهُ عَلَى مَا ذَكَرَهُ) وَإِلَّا فَهِيَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ بِكَثِيرٍ كَمَا سَيَأْتِي بَيَانُهُ (قَوْلُهُ قِرَاءَةُ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ) هَذَا إذَا لَمْ يَخَفْ فَوْتَ الْوَقْتِ وَإِلَّا اكْتَفَى بِآيَةٍ وَاحِدَةٍ فِي جَمِيعِ الصَّلَوَاتِ وَخَصَّ الْبَزْدَوِيُّ الْفَجْرَ بِهِ كَمَا فِي الْقُنْيَةِ (قَوْلُهُ بِتَرْكِ أَكْثَرِهَا) يُفِيدُ أَنَّ الْوَاجِبَ الْأَكْثَرُ، وَلَا يَعْرَى عَنْ تَأَمُّلٍ بَحْرٌ. وَفِي الْقُهُسْتَانِيِّ أَنَّهَا بِتَمَامِهَا وَاجِبَةٌ عِنْدَهُ؛ وَأَمَّا عِنْدَهُمَا فَأَكْثَرُهَا، وَلِذَا لَا يَجِبُ السَّهْوُ بِنِسْيَانِ الْبَاقِي كَمَا فِي الزَّاهِدِيِّ، فَكَلَامُ الشَّارِحِ جَارٍ عَلَى قَوْلِهِمَا ط (قَوْلُهُ وَهُوَ أَوْلَى) لَعَلَّهُ لِلْمُوَاظَبَةِ الْمُفِيدَةِ لِلْوُجُوبِ ط (قَوْلُهُ وَعَلَيْهِ) أَيْ وَبِنَاءً عَلَى مَا فِي الْمُجْتَبَى فَكُلُّ آيَةٍ وَاجِبَةٌ، وَفِيهِ نَظَرٌ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ مَا فِي الْمُجْتَبَى مَبْنِيٌّ عَلَى قَوْلِ الْإِمَامِ بِأَنَّهَا بِتَمَامِهَا وَاجِبَةٌ وَذِكْرُ الْآيَةِ تَمْثِيلٌ لَا تَقْيِيدٌ إذْ بِتَرْكِ شَيْءٍ مِنْهَا آيَةٍ أَوْ أَقَلَّ وَلَوْ حَرْفًا لَا يَكُونُ آتِيًا بِكُلِّهَا الَّذِي هُوَ الْوَاجِبُ، كَمَا أَنَّ الْوَاجِبَ ضَمُّ ثَلَاثِ آيَاتٍ، فَلَوْ قَرَأَ دُونَهَا كَانَ تَارِكًا لِلْوَاجِبِ أَفَادَهُ الرَّحْمَتِيُّ.(رد المحتار 152/2)
(5)ولوکررھا : (أي الفاتحۃ) في الأولیین یجب علیہ سجود السہو ، بخلاف ما لو أعادھا بعد السورۃ أو کررھا في الأخریین ۔ (تبیین الحقائق373/1)
ولو قرأ الحمد فی الأخریین مرتین لا سہو علیہ۔ (بدایع الصنایع۔ 406/1)
وینبغي أن یقید ذٰلک بالفرائض؛ لأن تکرار الفاتحۃ في النوافل لم یکرہ، کما في القہستاني۔ (مجمع الأنھر 220/1)
ھذا ما عندی ۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔