وارث کے لیے وصیت اور
غیرمسلم کا مسلم وارث۔

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

اسلام سے پہلے عربوں میں جو خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوگئی تھیں، ان میں ایک بڑی بیماری مالی امور سے متعلق تھی، جس نے تپ اور دق کی طرح پورے معاشرہ کو کھوکھلا کر رکھاتھا، باطل طریقے سے دوسروں کے مال کو ہڑپ لینا معمول کا کام تھا، یہاں تک کہ قریبی رشتہ دار‌ تک اس سے محفوظ نہیں تھے اور وراثت کی تقسیم کے وقت زور آور کے لئے کمزوروں کاحق مار لینا ایک عام بات تھی۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
’’وتأکلون التراث أکلاً لمّاً‘‘۔
’’اور تم میراث کو سمیٹ کر کھا جاتے ہو‘‘۔(سورۃ الفجر:19)
ایسے ماحول اور سماج میں یہ حکم دیا گیاکہ قریبی رشتہ داروں کے حقوق کی حفاظت کے لئے زندگی کے آخری لمحے میں ان کے لئے وصیت کردینا چاہئے کیونکہ عام طور پر وصیت کا لحاظ رکھا جاتا تھا۔(سورۃ البقرہ:180)لیکن جب وراثت کے سلسلہ میں اللہ کاحکم اور اس کی وصیت نازل ہوگئی تو پھر ان لوگوں کے لئے وصیت کی ضرورت باقی نہیں رہی جو میراث کے حقدار ہوتے ہیں، اسی حقیقت کو نبی ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایاہے :
’’ان اللہ قد أعطی کل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث‘‘۔(رواہ ابوداؤدوالترمذی وصححہ عن عمروبن خارجہ وعن ابی امامہ مرفوعا ، نیل الاوطار: 1251/2ط۔ دارالمعرفۃ بیروت)
’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے اس لئے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے‘‘۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے :
’’ لا یجوز لوارث وصیۃ الا أن یشأالورثۃ‘‘ (رواہ الدارقطنی ۔نیل الاوطار: 1251/2قال الذھبی اسنادہ جید وقال ابن حجر رجالہ لا بأس بھم ۔ اعلاء السنن: 301/18)
’’وارث کے لئے کسی طرح کی وصیت جائز نہیں ہے مگر یہ کہ دوسرے وارثین اسے پسند کریں‘‘۔
اس لئے کہ وارثوں کے حقو ق کی حفاظت ہی کے لئے میراث کی آیت نازل ہوئی تھی، لہٰذا کوئی شخص وصیت کے ذریعہ ان کے حق کو چھین نہیں سکتاہے، ہاں اگر صاحب حق ، خود اپنے حق سے دست بردار ہونے کے لئے آمادہ ہے تو اس کی اجازت ہے۔لیکن اگر کسی  وصیت کا مقصد میراث کے حکم کا نفاذ اور اس کی تائید و تاکید ہے تو وہ یقینا درست بلکہ قابل ستائش ہے،اس لئے جن ملکوں میں اسلام کا قانون میراث نافذ نہیں ہے یا شریعت کے مطابق وراثت تقسیم کرنے میں ملکی قانون رکاوٹ ہے تو وارثوں کے حق کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے مورث کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ  وفات سے پہلے وصیت نامہ تیار کردے جس میں شرعی طریقے کے مطابق وارثوں کو حصہ  دینے کی وصیت کی گئی ہو۔
اس طرح کی وصیت لازم اور واجب ہے ،کیونکہ وارثوں کے حقوق کے تحفظ ہی کے لئے آیت وراثت کے نزول سے پہلے وصیت کو ضروری قرار دیا گیا تھا، اس لئے جس معاشرہ میں بھی وارثوں کو ان کے حق سے محروم رکھا جارہا ہو وہاں وصیت کے ذریعہ اس کے نفاذ کو یقینی  بنانا ضروری ہوگا۔(قیل الخطاب لذوی الاولاد علی معنی یوصیکم فی توریثھم اذا متم ۔ روح المعانی : 216/4 ) کیونکہ یہ ضابطہ اور اصول ہے کہ
’’ ما کان وسیلۃ الی الواجب فھو واجب’’۔
’’واجب کا ذریعہ بھی واجب ہوتاہے‘‘۔(الموسوعۃ الفقھیۃ: 205/9)
علاوہ ازیں مورث کے قبضہ میں موجود مال و جائداد ایک طرح سے امانت ہے، خصوصاً زندگی کے آخری مرحلے میں اس سے وارثوں کاحق متعلق ہوجاتا ہے، اور اسی لئے تہائی سے زیادہ کی وصیت کے لئے وارثوں کی رضامندی درکار ہوتی ہے اور امانت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
’’ان اللہ یأمرکم أن تؤدوا الأمانات الی أھلھا‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیںکہ امانتیں، ان کے اہل کے حوالے کردو‘‘۔(سورۃ النساء:58)
اوراس طرح کی وصیت مذکورہ حدیثوں کے خلاف نہیں ہوگی بلکہ اس کے مقصد کی تکمیل ہوگی کیونکہ ان روایتوں کا مصداق صرف وہ وصیت ہے جس کے ذریعہ دوسرے وارثوں کی حق تلفی ہورہی ہو، ایسی وصیت اس کے دائرے میں ہرگز نہیں آئے گی جس کا مقصد تمام وارثوں کو ان کا حق دلانا ہو بلکہ جن جگہوں پر اسلام کا قانون میراث جاری نہ ہو وہاں اس کے نفاذ کے لئے وصیت ایک بہترین ، کم خرچ اور آسان راستہ ہے۔
اور چونکہ اس وصیت کے ذریعہ کسی وارث کی حق تلفی نہیں ہوتی ہے اس لئے ان کی طرف سے اجازت اور رضامندی کی ضرورت نہیں ہے،لیکن یہ اس صورت میں ہے جبکہ اجمالی طور پر شریعت کے مطابق حصہ تقسیم کرنے کی وصیت کی گئی ہے مثلاً وصیت میں مذکور ہوکہ بیٹے کو دو تہائی دے دیاجائے اور بیٹی کو ایک تہائی، لیکن اگر تفصیلی تقسیم ہے کہ بیٹے کے حوالے کھیت کردیاجائے جس کی مالیت دوتہائی کے بقدر ہے اور بیٹی کے حصے میں مکان دے دیاجائے جس کی مالیت ایک تہائی کے بقدر ہے تو اس صورت میں وارثوں کی خوشنودی ضروری ہوگی، چنانچہ علامہ زحیلی لکھتے ہیں:
’’کچھ لوگ وصیت کے ذریعہ، وارثوں کے درمیان ان کے حصے کے بقدر ترکہ کو تقسیم کردیتے ہیں تاکہ بٹوارے کے وقت ان کے درمیان اختلاف اور نزاع پیدا نہ ہو، اور کرایہ پر لگائے یا باری مقرر کئے بغیر ہر شخص اپنے حصے سے فائدہ اٹھائے، کیا اس طرح کی وصیت لازم ہوگی؟جمہور فقہاء کے نزدیک یہ وصیت وارثوں کے لئے لازم نہیں ہوگی، بلکہ انھیں حق ہے کہ اسے قبول کریں یاردکردیں‘‘۔(الفقہ الاسلامی وأدلتہ: 77535/10ط۔ دارالفکر المعاصر، بیروت)
اس کے برخلاف بعض شافعی اور حنبلی علماء کی رائے ہے کہ مورث کی طرف سے یہ تقسیم صحیح ہے اور وارثوں پر اس کی پابندی لازم ہے، بشرطیکہ تقسیم عدل و انصاف پر مبنی ہے۔
جن ملکوں میں اسلام کا نظام میراث نافذ نہیں ہے وہاں وصیت کے علاوہ ’’ہبہ‘‘کا طریقہ بھی اپنایا جاسکتا ہے کہ زندگی ہی میں مال و جائداد کو وارثوں کے درمیان تقسیم کرکے اسے ان کے قبضہ میں دے دیاجائے۔
چونکہ یہ ہبہ ہے اس لئے لڑکا اور لڑکی کے درمیان برابری کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا اور میراث کے ضابطہ کے مطابق لڑکے کو دوہرا اور لڑکی کو اکہرا نہیں دیاجائے گا۔ جمہور اسی کے قائل ہیں۔ اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ:
’’سوّوا بین أولادکم فی العطیۃ‘‘ ’
’تحفہ دینے میں اپنی اولاد کے درمیان برابری کالحاظ رکھو‘‘۔(السنن الکبریٰ للبیہقی: 177/6 صحیح بخاری وغیرہ میں ایک قصے کے پس منظر میں روایت کے الفاظ یہ ہیں:
فاتقوا اللہ واعدلوا بین أولادکم۔
اللہ سے ڈرو اور اولاد کے درمیان عدل کرو۔
( بخاری کتاب الھبۃ:206/3،صحیح مسلم)
اورامام احمدبن حنبل اور امام محمد کے نزدیک اس میں میراث کے ضابطہ کا خیال رکھا جائے گا،کیونکہ یہ ایک طرح سے میراث کی تقسیم ہے ، اس لئے اس پر میراث کا حکم جاری ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم سے زیادہ عادلانہ اور منصفانہ تقسیم اور کیا ہوسکتی ہے ؟ چنانچہ علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
’’ لنا ان اللہ تعالیٰ قسم بینھم فجعل للذکر مثل  حظ الأنثی وأولی ما اقتدی بقسمۃ اللہ‘‘.
’’ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکے اور لڑکی کے درمیان وراثت کی تقسیم کرتے ہوئے لڑکے کو لڑکی کے حصے کا دہرا عنایت کیا ہے ، لہٰذا ہبہ کرتے ہوئے بھی اللہ کی تقسیم کی پیرو ی زیادہ بہترہے‘‘۔ (المغنی: 259/8)
مولانا محمدتقی عثمانی نے زندگی میں وراثت کی تقسیم کے مسئلے میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے جیساکہ وہ لکھتے ہیں:
’’زندگی میں ہبہ کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کے درمیان مساوات قائم رکھنے کے سلسلہ میں جمہور کی رائے زیادہ قوی اور دلیل کے اعتبار سے راجح ہے ، لیکن خیال ہوتا ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جبکہ عطیہ اور تحفہ دینا مقصود ہو لیکن اگر مقصد اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان مال و جائداد کو تقسیم کرنا ہے تاکہ اس کی وفات کے بعد اس سلسلے میں اختلاف اور نزاع پیدا نہ ہو تو اگرچہ فقہی اصطلاح میں یہ ہبہ ہے، لیکن حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے موت سے پہلے ہی وراثت کی تقسیم ہے، لہٰذا اس کے پیش نظر اس میں وراثت کا طریقہ اپنانا چاہئے، اس لئے اس صورت میں اگرکوئی امام احمد اور امام محمدبن حسن کی رائے پر عمل کرتے ہوئے وراثت کے ضابطے کے مطابق لڑکے کو دوہرا اور لڑکی کو اکہرا دیتا ہے تو بظاہر اس کی گنجائش ہے، مجھے اس سلسلہ میں صراحتاً کسی فقیہ کا قول نہیں ملا ہے، لیکن ایسا‌ لگتا ہے کہ یہ ان کے اصول و ضابطے سے خارج نہیں ہے‘‘۔(تکملہ فتح الملھم: 48/2)
وصیت کے لئے وارثوں کی رضامندی:
جس وصیت کا مقصد شریعت کے نظام میراث کی تنفیذ ہو اس کے لئے وارثوں کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہے ، اس لئے کہ اس کے وارثین وصیت کے بغیر ہی اس کے مستحق تھے،اور اس کے ذریعہ کسی کی حق تلفی نہیں ہورہی ہے بلکہ پہلے سے ثابت شدہ حق کی تائید و توثیق ہورہی ہے لیکن اگر اس کے ذریعہ کسی وارث کو اس کے حق سے زیادہ دیا جارہا ہو تو یہ دوسرے وارثوں کی اجازت اور مرضی پر موقوف ہوگی، اور اگر وہ مورث کی زندگی میں اس کی اجازت دے دی لیکن وفات کے بعد اس سے رجوع کرلیں تواس کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
حضرت عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، ابن سیرین، زہری، ربیعہ اور امام اوزاعی کے نزدیک انھیں اس سے رجوع کرنے کا حق نہیں ہے اور مورث کی وفات کے بعد وارثوں کی مرضی کے بغیر بھی وصیت نافذ ہوجائے گی۔
ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ دیگر وارثوں کے حق کی وجہ سے وارث کے لئے وصیت ممنوع ہے اور وصیت کرنے والے کی زندگی میں جب وہ اپنے حق سے دست بردار ہوگئے تو وصیت صحیح ہوگئی اس لئے وفات کے بعد رجوع کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
امام مالک کہتے ہیں کہ اگر وصیت کرنے والے نے صحت کی حالت میں وصیت کی ہے اور متوقع وارثوں نے رضامندی کا اظہار کردیا تو انھیں اس کی وفات کے بعد رجوع کرنے کا حق ہے، اس لئے کہ صحت کی حالت میں انسان اپنے مال کا مکمل طور پر مالک ہوتا ہے، لہٰذا اس وقت دوسروں کی اجازت ایک ایسے مال سے متعلق ہے جس سے ان کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں اور اگروہ مرض موت میں وصیت کرتا ہے اور وارثوں نے بخوشی اس کی اجازت دے دی تو اس کے مرنے کے بعد اس اجازت سے پھرجانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں انھوں نے ایک ایسے مال سے دست برداری اختیار کی ہے جس کا وہ ایک طرح سے مالک بن چکے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ،قاضی شریح، امام ابوحنیفہ، شافعی اور امام احمدبن حنبل کے نزدیک مورث کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو اس طرح کی وصیت سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے جسے وہ اس کی زندگی میں منظور کرچکے ہیں، اس لئے کہ ان کی منظوری ایک ایسے مال سے متعلق ہے جس کے وہ مالک نہیں تھے ، کیونکہ ترکہ میں ان کی ملکیت مورث کی وفات کے بعد ثابت ہوتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوسکتاہے کہ جس وارث نے اجازت دی ہے وہ مورث سے پہلے ہی انتقال کرجائے اور وہ وارث نہ بن سکے اور اس کی جگہ دوسرا کوئی وارث بن جائے، اس وقت یہ اجازت ایسے شخص کی طرف سے ہوگی جسے اس کا حق ہی نہیں تھا ، علاوہ ازیں حدیث میں کہا گیا ہے :
لا یجوز لوارث وصیۃ الا أن یشأالورثۃ۔
وارث کے لئے وصیت نہیں ہے الا یہ کہ دوسرے ورثہ اجازت دے دیں ۔اعلاء السنن: 301/18)
اور مورث کی زندگی میں یہ وارث نہیں ہیں، یہ نام تو ان کو اس کے انتقال کے بعد ملتاہے، اس لئے مرنے کے بعد ہی ان کی اجازت معتبر ہوگی۔(الجامع لاحکام القرآن: 176/2 اعلاء السنن: 302/18)
دلیل کے اعتبار سے یہی رائے زیادہ قوی ہے۔
وصیت میں اجازت سے متعلق یہ پوری بحث اس وقت ہے جبکہ کوئی نسبی وارث موجود ہو لیکن اگر دور اور قریب کے کسی نسبی وارث کا وجود نہیں ہے اور اس کا امکان ہے   کہ وصیت نہ کرنے کی صورت میں اس کے مال و جائداد کا ایک حصہ حکومت کے قبضہ میں چلاجائے گا تو ایسی صورت میں وصیت بغیرکسی تفصیل کے درست ہے جیسے کہ صرف میاں بیوی باحیات ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی وفات کے بعد زندہ رہ جانے والے کو اس کا حصہ دینے کے بعد ضابطے کے مطابق بقیہ مال پر حکومت قبضہ کر لے گی، چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب رد المحتار میں ہے کہ:
’’حتی لو أوصی لزوجتہ أو ھی لہ ولم یکن ثمۃ  وارث آخر تصحّ الوصیۃ‘‘
’’یہاں تک کہ اگر شوہر اپنی بیوی کے لئے یا بیوی اپنے شوہر کے لئے وصیت کرے اور دوسرا کوئی وارث نہ ہو تو وصیت صحیح ہے‘‘۔(ردالمحتار:347/10ط۔ مکتبہ زکریا، دیوبند)
اور علامہ شامی نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ حدیث میں کہا گیاکہ وارث کے لئے وصیت نہیں ہے مگریہ کہ دوسرے وارثین چاہیں، ظاہرہے کہ وارثوں کی مرضی کا مسئلہ اسی وقت آئے گا جبکہ دوسرے وارثین موجود ہوں۔(حوالہ مذکور: 346/10)
بلکہ بعض لوگوں نے لکھاہے کہ چونکہ موجودہ زمانہ میں بیت المال کا نظام صحیح طریقے پر موجود نہیں ہے، اس لئے وصیت کے بغیر بھی میاں بیوی میں سے ہرایک کو اس کا مقررہ حصہ دینے کے بعد بچا ہوا حصہ بھی انھیں کے حوالے کردیاجائے گا، متاخرین حنفیہ کا یہی فتویٰ ہے۔(حوالہ مذکور: 556/10کتاب الفرائض)

غیرمسلم کا مسلم وارث:

تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ کافر خواہ ذمی ہو یا حربی کسی مسلم کا وارث نہیں ہوسکتا ہے۔(بدایۃ المجتہد:357/2)، لیکن مسلم کسی کافر کا وارث ہوسکتاہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ اکثر صحابہ کرام اور جمہور فقہاء و محدثین کے نزدیک مسلم، کسی کافر کا وارث نہیں ہوسکتاہے، اس کے برخلاف حضرت معاذ بن جبل اور حضرت معاویہ کے متعلق منقول ہے کہ انھوں نے مسلم کو کافر کا وارث قرار دیا ۔ محمدبن حنفیہ، علی بن حسین، سعید بن مسیب اور عبداللہ بن معقل اسی کے قائل ہیں اور بعد کے لوگوں میں علامہ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد علامہ ابن قیم کی یہی رائے ہے(المغنی: 154/9احکام اہل الذمہ لابن القیم:462/2) ان کے دلائل یہ ہیں۔
1۔ امام احمد اور ابوداؤد نے نقل کیاہے کہ ایک یہودی کے مرنے پر اس کے دو بھائی جن میں ایک مسلم اور دوسرا یہودی تھا ،یحییٰ بن یعمر کے پاس وراثت کا مسئلہ لے کر آئے، انہوں نے مسلم کو بھی اس کے ساتھ وارث قراردیا اور فرمایاکہ مجھ سے ابوالاسود نے اور ان سے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ حضرت معاذ نے کہاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے :
’’ الاسلام یزید ولا ینقص‘‘ (سنن ابوداؤدکتاب الفرائض: 518 قال الالبانی ضعیف، ط۔ مکتبہ المعارف، الریاض۔ مسند احمد:190/15)
’’اسلام بڑھتا ہے، گھٹتا نہیں ہے‘‘۔
اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ یحییٰ بن یعمر، ابو اسود سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ یمن میں تھے کہ ان کے پاس ایک یہودی کے ترکہ کا معاملہ آیا جس نے ایک مسلم بھائی کو چھوڑا تھا، حضرت معاذ نے کہاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے :
’’ان الاسلام یزید و لاینقص”۔ (مسنداحمد : 190/15 سنن البیہقی: 337/9)
مذکورہ روایت کی پہلی سند ایک راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، دوسری سند میں کوئی مجہول راوی نہیں ہے البتہ ابو اسود کسی واسطے کے بغیر براہ راست اسے حضرت معاذؓ سے نقل کرتے ہیں اور ان کے متعلق عام طورپر محدثین کی رائے یہ ہے کہ حضرت معاذؓ سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے ، اس طرح سے سند کی درمیانی کڑی غائب ہے اور حدیث منقطع ہے لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ ابو اسود کا حضرت معاذ سے سماع ممکن ہے اور یہی وجہ ہے کہ محدث حاکم نے اسے صحیح قرار دیاہے، اور علامہ ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔(فتح الباری: 51/12المستدرک:619/2)
اس حدیث سے استدلال کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام، کسی مسلم کے حق میں اضافہ کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس میں کسی کمی کا سبب نہیں بنتا ہے، چونکہ وہ حالت کفر میں اپنے کسی کافر رشتہ دار کی وراثت کا حقدار ہوسکتاہے ، اس لئے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی وہ اس کا مستحق ہوگا اور اگر ایسا نہ ہو تو اسلام اس کے حق میں کمی کا سبب بن رہاہے جو مذکورہ حدیث کے برخلاف ہے۔
2۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے:
’’ الاسلام یعلو و لایعلی علیہ‘‘
’’اسلام غالب ہوتاہے اور کوئی اسے مغلوب نہیں کرسکتاہے‘‘۔(صحیح بخاری:266 تعلیقا۔کتاب الجنائز۔ سنن دارقطنی:252/3)
حدیث کی سند پرکچھ لوگوں نے کلام کیاہے لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیاہے۔(فتح الباری: 220/3 ۔ارواء الغلیل: 106/5)
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام تمام ادیان پر غالب اور ان سے بلند ہے، اور اس کی سربلندی کا تقاضا ہے کہ مسلم کو کافر پر ولایت حاصل ہو اور وراثت بھی ایک طرح سے ولایت ہے، اس لئے مسلم کافر کا وارث ہوگا اور کافر کسی مسلم کا وارث نہیں ہوگا کیونکہ اسے کسی مسلم پر کسی طرح کی ولایت حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
’’ولن یجعل اللہ  للکافرین علی المؤمنین سبیلاً‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں پر کافروں کو ہرگز غلبہ نہ دے گا‘‘۔(سورۃ النساء:56)
3۔سنت متواترہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ منافقوں کے ساتھ ظاہری احکام میں مسلمانوں جیسا برتاؤ کیا کرتے تھے اور مسلمان ان کے اور وہ مسلمانوں کے وارث ہوتے تھے ، عبداللہ بن ابی کے نفاق کے بارے میں خود قرآن نے گواہی دی اور اس کے جنازہ کی نماز اور اس کے لئے استغفار سے منع کیا گیا لیکن ان سب کے باوجود اس کے ترکہ میں سے اس کے مسلم وارثوں کو حصہ ملا اور کسی بھی منافق کے ترکہ کو حکومت کی تحویل میں نہیں لیا گیا بلکہ ان کے وارثوں کے حوالے کردیا گیا، جس سے معلوم ہوتاہے کہ وراثت کا مدار ظاہری نصرت و حمایت پر ہے، دلی ایمان اور باطنی ولایت پرنہیں ہے۔(احکام اہل الذمۃ: 463/2 )
4۔امام شعبی سے منقول ہے کہ ایک شخص حضرت معاویہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ اسلام مجھے نفع پہنچائے گا یا نقصان؟ انھوں نے جواب دیاکہ اسلام نفع پہنچاتا ہے۔ اس نے کہاکہ میرے عیسائی باپ کی وفات ہوگئی ہے اور میں نے اسلام قبول کرلیا تھا، میرے عیسائی بھائی کہتے ہیں کہ تمہارے لئے باپ کی وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ہے، حضرت معاویہؓ نے اس کے بھائیوں کو بلاکر حکم دیاکہ وراثت میں سے اسے بھی سب بھائیوں کے برابر حصہ دو اوراس کے بعد انہوںنے قاضی شریح وغیرہ کو حکم دیاکہ وہ اسی کے مطابق فیصلہ کریں۔ چنانچہ وہ اس طرح کے فیصلے کے بعد کہا کرتے تھے:
’’ھذا قضاء أمیر المؤمنین معاویۃ‘‘(سنن سعیدبن منصور: 67/1)
’’ یہ معاویہؓ امیرالمومنین کا فیصلہ ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن معقل کہا کرتے تھے کہ صحابہ کرام کے فیصلوں کے بعد کوئی ایسا فیصلہ میری نظرسے نہیں گذرا جو حضرت معاویہ کے فیصلے سے بہتر ہو۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ  ہم اہل کتاب کے وارث ہوں گے لیکن وہ ہمارے وارث نہیں ہونگے جیسے کہ ہمارے لئے ان کی عورتوں سے نکاح جائز ہے لیکن ہماری عورتوں سے ان کے لئے نکاح درست نہیں ہے۔(سنن سعید:67/1،مصنف ابن ابی شیبہ: 287/6)
5۔حضرت معاذ بن جبل کے متعلق گذرچکا ہے کہ انھوں نے مسلمان کو یہودی کا وارث قرار دیا۔
6۔شریعت نے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دیاہے اور اہل کتاب کے لئے مسلمان عورتوں سے نکاح درست نہیں ہے ، اس پر قیاس کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان کے وارث ہوسکتے ہیں، لیکن وہ مسلمانوں کے وارث نہیں ہوں گے۔
7۔علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ مسلم کو کافر کا وارث قرار دینا شریعت کے مقاصد اور اصول کے مطابق ہے اس لئے کہ مسلمانوں کا ذمی کافروں پر احسان اور حق ہے کہ وہ ان کے مال اور جان کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کی جانب سے دفاع اور ان کے قیدیوں کا فدیہ اداکرتے ہیں، لہٰذا یہ کافر وارثوں سے زیادہ وراثت کے حقدار ہیں۔
8۔علامہ ابن قیم لکھتے ہیں کہ مسلمان کو کافر کا وارث قرار دینے میں مصلحت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی ترغیب ہوگی کہ انھیں اطمینان ہوگا کہ وہ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں کی وراثت سے محروم نہیں ہوں گے، ہم نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھاہے کہ وہ صرف اس وجہ سے اسلام میں داخل نہیں ہوتے ہیں کہ انھیں معلوم ہوتاہے کہ وہ اس صورت میں وراثت سے محروم ہوجائیں گے۔
اور جو لوگ اسلام قبول کرچکے ہیں ان کی دلجوئی ہوگی اور اسلام پر ثابت قدمی کے سلسلہ میں ان کا تعاون ہوگا، اس مقصد کے لئے رسول اللہ ﷺ بسااوقات کافروں کو بھی ہدیہ اور تحفہ دیا کرتے تھے۔
اور اس مصلحت کی وجہ سے اس حدیث میں تخصیص پیدا کردی جائے گی جس میں کہاگیا ہے کہ مسلم کسی کافر کا وارث نہیں ہوسکتاہے کہ اس سے مراد کافر حربی ہے، کیونکہ اس سے کم تر مصلحت کی بنیاد پر حدیثوں میں تخصیص کی متعدد مثالیں موجودہیں جیساکہ اسی طرح کی تخصیص حنفیہ اس حدیث میں کرتے ہیں جس میں کہاگیا ہے کہ مسلمان کو کسی کافر(حربی) کے بدلے قتل نہیں کیاجائے گا یعنی اگر کافر ذمی ہوتو اس کے قصاص میں مسلمان کو قتل کیاجاسکتاہے۔(احکام اہل الذمہ:264/2)
جمہور کے دلائل:
جولوگ اس کے قائل ہیں کہ مسلمان کسی بھی طرح کے کافر کا وارث نہیں ہوگا ،  ان کے دلائل یہ ہیں:
1۔حضرت اسامہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ لایرث الکافر المسلم ولا المسلم الکافر‘‘
’’کافر مسلمان کا اور مسلمان، کافر کا وارث نہیں ہوگا‘‘۔(صحیح بخاری:1421صحیح مسلم: 627)
یہ حدیث بالکل عام ہے اور حربی و ذمی ہر طرح کے کافر کو شامل ہے اور کسی واضح دلیل کے بغیر اسے خاص کرنا درست نہیں ہے اور اس سلسلہ میں خاص کرنے والی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، علاوہ ازیں حدیث میں دو جگہ کافر کا لفظ استعمال ہوا ہے، ایک جگہ اسے خاص کرکے حربی کافر مراد لینا اور دوسری جگہ عام رکھنا غیر معقول ہے۔
2۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’ لایرث المسلم النصرانی الا أن یکون عبدہ أوأمتہ‘‘
’’مسلم، نصرانی کا وارث نہیں ہوسکتاہے، مگر یہ کہ وہ نصرانی کسی مسلمان کا غلام یاباندی ہو‘‘۔(سنن الدارقطنی:74/4حدیث صحیح ہے، التعلیق المغنی علی الدارقطنی:131/5)
3۔انہیں سے منقول ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایاکہ نہ ہم اہل کتاب کے وارث ہونگے اور نہ وہ ہمارے،الا یہ کہ کسی مسلمان کا غلام یا باندی اہل کتاب میں سے ہواور ان کی عورتیں ہمارے لئے حلال ہیں لیکن ہماری عورتیں ان کے لئے حلال نہیں۔(لانرث أھل الکتاب ولایرثونا الا أن یرث الرجل عبدہ أو أمتہ وتحل لنا نساء ھم ولا تحل لھم نساء نا ، سنن الدارقطنی:132/5سنن الدارمی/ 422)
ان دونوں حدیثوں میں عمومی طور پر وراثت کی نفی کی گئی ہے اور صرف غلام اور باندی کا استثناء کیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان حق ولاء(غلام یا باندی کی وفات کے بعد اگراس کا کوئی نسبی رشتہ دار نہ ہو تو اسے آزاد کرنے والا اس کے ترکہ کا مالک ہوتا ہے، اسی آزاد کرنے کے حق کو ولاء کہاجاتاہے)کی وجہ سے ان کا وارث ہوسکتا ہے،کیونکہ حدیث میں ہے :
الولاء لمن اعتق ۔
ولاء اس کے لئے ہے جو آزاد کرے (بخاری: ‌1419، مسلم: 580)
4۔حضرت عمروبن شعیب کی سند سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’لایتوارث أھل ملتین شتی‘‘
’’دو مختلف مذہب کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے‘‘۔(ابوداؤد: 518قال الالبانی حسن صحیح، ترمذی: 476 ، ابن ماجہ: 464)
5۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاکہ ایک مذہب والے دوسرے مذہب والے کے وارث نہیں ہوں گے۔(لاترث ملۃ من ملۃ، سنن الدارقطنی:121/5)
اس طرح کی روایت حضرت اسامہؓ سے بھی منقول ہے۔(لاتتوارث الملتان المختلفتان۔ مصنف ابن ابی شیبۃ: 286/6)
ان تمام حدیثوں سے معلوم ہوتاہے کہ اختلاف دین وراثت کے لئے مانع ہے، اسلام اور کفر دو الگ الگ دین ہیں۔ لہٰذا دونوں کے ماننے والوں کے درمیان وراثت جاری نہیں ہوگی۔
6۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں:
’’لانرث أھل الملل ولا یرثوننا‘‘
’’دوسرے ملت والوں کے نہ ہم وارث ہوں گے اور نہ وہ ہمارے‘‘۔(سنن سعید بن منصور :66/1)
7۔محمدبن اشعث نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیاکہ ان کی نصرانی یا یہودی پھوپھی کی وفات ہوگئی ہے ، اس کا وارث کون ہوگا؟ انھوں نے جواب دیا کہ اس کے ہم مذہب رشتہ دار، پھر انھوں نے حضرت عثمان سے یہی سوال کیا ، انھوں نے کہاکہ کیا تم عمر کی بات بھول گئے؟ اس کے مذہب کے  لوگ اس کے وارث ہوں گے۔(الموطا23/2سنن سعید66/1)
8۔امام زہری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اور حضرت ابوبکر و عمرؓ کے زمانے میں مسلمان ، کسی کافر کا وارث نہیں ہوتاتھا، اور نہ ہی کافر کسی مسلمان کا۔ جب حضرت معاویہؓ کی حکومت آئی تو انھوں نے مسلم کو کافر کا وارث قرار دیا اور ان کے بعد کے حکمراں کا اسی پر عمل رہا، لیکن جب حضرت عمربن عبدالعزیز کی خلافت کا زمانہ آیا تو انھوں نے پہلی سنت کو دوبارہ جاری کردیا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ:287/6)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ خلفاء راشدین کے دور میں تمام صحابہ کرام کا اس پر اتفاق اور اجماع تھاکہ جس طرح سے کافر کسی مسلم کا وارث نہیں ہوسکتاہے، اسی طرح سے مسلمان بھی کسی کافر کا وارث نہیں ہوسکتا ہے اور اس اجماع کے بعد کسی انفرادی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور مخالف اجماع ہونے کی وجہ سے وہ اعتماد کے لائق نہیں ہے۔
9۔وراثت کی بنیاد ولایت پر ہے اور مسلم و کافر کے درمیان ولایت کا رشتہ نہیں ہے، اور مسلمانوں کو منافقوں کا وارث قرار دینے کی وجہ ظاہری حمایت و نصرت نہیں بلکہ اسلام کا اظہار ہے اور اسی بنیاد پر ان کیساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیاجاتاہے، یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کا وارث بھی ہوتاہے، حالانکہ کوئی ذمی کسی بھی حال میں بہ اتفاق، کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتاہے، اگرچہ وہ مسلم فوج میں شامل ہوکر مسلمانوں کی طرف سے دفاع کرے ، اگر وراثت کی وجہ حمایت و نصرت ہوتی تو اس صورت میں اسے مسلم کا وارث قرار دینا چاہئے، لیکن کوئی اس کا قائل نہیں ہے۔
10۔علامہ ظفر احمد عثمانی نے حضرت معاویہؓ اور حضرت معاذ کے طرز عمل کی یہ تاویل کی ہے ، جب کسی کافر کا کوئی ہم مذہب وارث نہیں ہو،تو اس کا ترکہ حکومت کی تحویل میں چلا جاتا ہے اور مسلم حکمراں کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے اپنی صواب دید پر جہاں چاہے خرچ کرے، حضرت معاویہ اور حضرت معاذ بن جبل نے اسے اس کے قریبی مسلم رشتہ دار کے حوالے کرنا زیادہ مناسب سمجھا، کیونکہ اس طرح سے اسلا م میں داخل ہونے والوں کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی ہوگی، ان لوگوں کا یہ فیصلہ اسی مقصد سے تھا تقسیم وراثت کے قبیل سے نہیں تھا لیکن ایک زمانہ گذرنے کے بعد جب لوگ اسے وراثت کا معاملہ سمجھنے لگے تو حضرت عمربن عبدالعزیز نے اسے ختم کردیا۔(اعلاء السنن:337/18) لیکن یہ تاویل حقیقت کے برخلاف ہے، جیساکہ حضرت معاویہؓ کے واقعہ میں گزرچکا ہے کہ انھوں نے اس طرح کا فیصلہ اس وقت کیا تھا جب کہ اس کے غیرمسلم وارث موجود تھے۔

حقیقت حال:

مسلم کو کافر کا وارث قرار نہ دینے سے متعلق روایتیں صریح، صحیح اور خاص ہیں اور اس کے برخلاف روایتیں وراثت سے غیر متعلق ، غیرواضح اور عام ہیں، لہٰذا وہ دلیل نہیں بن سکتی ہیں، اگر انھیں صحیح مان لیاجائے تو وراثت سے متعلق مخصوص روایتوں کے ذریعہ ان میں تخصیص پیدا کردی جائے گی۔
اور اس سلسلہ میں ذکر کردہ قیاس اور مصلحت بھی لائق اعتبار نہیں،کیونکہ وراثت اور نکاح میں بڑا فرق ہے، دوسرے یہ کہ حدیث کی موجودگی میں قیاس و مصلحت قابل رد ہے،اور آغاز اسلام میں اس کی زیادہ ضرورت تھی کہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے اسلام قبول کرنے والوں کو کافروں کا وارث قرار دیاجائے، لیکن اس طرح کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ اس کے برعکس حکم دیا گیا کہ کافر کسی مسلم کا اور مسلم کسی کافر کا وارث نہیں ہوسکتا ہے، اس لئے اس سلسلہ میں جمہور کی رائے زیادہ صحیح ہے۔
لیکن اس مسئلہ پر ایک دوسری حیثیت سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اس لئے کہ یہ تمام اختلاف ذمی تک محدود ہے، غیرمسلم مملکت کے شہریوں میں بہ اتفاق، مسلم و کافر کے درمیان وراثت جاری نہیں ہوگی اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کوئی مسلم ملک ایسا نہیں ہے جہاں غیر مسلم ذمیوں کی حیثیت سے رہ رہے ہوں ، بلکہ خود مسلمان، ذمیوں کی طرح غیرمسلم اکثریتی ملکوں میں زندگی گذار رہے ہیں، جہاں کے قانون کے رو سے انھیں بھی غیرمسلم مورث کے مال و جائداد میں سے حصہ ملتاہے تو کیا ان کے لئے حکومت کی طرف سے ملے ہوئے مال کو لینا جائز ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ غیراسلامی ملکوں کا مال اصلاً مباح ہے، البتہ اسے دھوکہ، خیانت اور چوری سے لینا جائز نہیں ہے ، کیونکہ یہ امان اور عہد کی خلاف ورزی ہے اور معاہدہ اور قانون کے مطابق مل رہاہے تو اس کا لینا درست ہے ، خواہ اس کے حصول کا طریقہ کچھ ہو اس لئے کہ ان ملکوں میں مالک ہونے کے سلسلہ میں طریقہ حصول موثر نہیں بلکہ قانونی طریقے پر مال مباح پر قبضہ کا پایا جانا ہے۔
اس اصول اور ضابطے کی روشنی میں غیر مسلم ملکوں کے مسلمان شہریوں کے لئے وہاں کے قانون کے اعتبار سے جوکچھ حاصل ہو اس کا لینا ان کے لیے درست ہے، جس میں غیرمسلم مورث کا چھوڑا ہوا مال و جائداد بھی شامل ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے