فرض و سنت کے درمیان گفتگو
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو اچانک کوئی ذمہ داری سپرد کردی جائے تو وہ اسے اچھی طرح انجام نہیں دے پاتا ہے، سنبھلتے سنبھلتے کوتاہی ہوہی جاتی ہے ۔لیکن اس ذمہ داری کے لئے پہلے سے تیار کیا جائے تو وہ اسے اچھی طرح نبھاتا ہے۔سنتوں کی ایک حیثیت فرض کے لئے تیاری کی بھی ہے کہ انسان فرض کے لئے مکمل طور سے تیار ہوجائے،ذہن ودماغ اس کی ادائیگی کے لئے یکسو ہوجائیں۔سستی وکاہلی کی جگہ چستی اور نشاط پیدا ہوجائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سنت اور فرض کے درمیان گفتگو سے منع کیاگیاہے؛ کیونکہ فضول باتوں کی وجہ سے غفلت چھا جانے کا اندیشہ ہے ۔ اور امکان ہے کہ فرض کی ادائیگی میں کمی آجائے۔
سنت کی اسی حیثیت کے پیش نظر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ‘سعید بن جبیرؓ‘عطاء بن رباح‘ سعید بن المسیبؓ وغیرہ فرض و سنت کے درمیان کلام کو مکروہ سمجھتے ہیں۔(دیکھئے: نیل الاوطار 24/3 مصنف عبدالرزاق 60/3)
یہاں تک کہ بعض فقہاء کے یہاں غیر ضروری بات چیت کرنے سے سنت ختم ہوجاتی ہے اور دوبارہ پڑھنا چاہئے۔ لیکن یہ فرض سے پہلے کی سنت سے متعلق ہے، فرض کے بعد والی سنت کا گفتگو کی وجہ سے کسی کے یہاں بھی اعادہ نہیں ہے۔( اعلاء السنن 17/7 الدر المختار مع الرد 503/1 البحر الرائق 49/2)
صحیح یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں، البتہ ثواب میں کمی ضرور ہوجائے گی۔ یہی حکم خرید وفروخت، کھانا، پینا اور ہر اس عمل کا ہے جو نمازکے منافی ہو۔
رہا رسول اللہ ﷺ کا فجر کی سنت کے بعد حضرت عائشہؓ سے گفتگو کرنا تو ہم میں سے کون آپؐ کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتا ہے؟ آپؐ کی کوئی بھی گفتگو فضول اور بے کار نہیں ہوتی تھی ،بلکہ آپؐ کے دہن مبارک سے نکلا ہوا ہر جملہ شریعت ہے، وہاں تو فضول کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ ضرورت ہوتو گفتگو کرتے۔ ("فان کان لہ حاجۃ کلمنی”.جامع ترمذی 96/1 وقال حسن صحیح)