قتل بہ جذبۂ رحم
ایک شخص کسی لاعلاج بیماری کی وجہ سے ناقابل برداشت تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہے ۔ سسکتے بلکتے اور ایڑیاں رگڑتے ہوئے زندگی کے دن کاٹ رہاہے یا وہ بستر پر پڑا ہوا ہے، چلنے پھرنے ، اٹھنے بیٹھنے کی سکت نہیں ہے ، ذہن ماؤف ہوچکا ہے ، پیشاب پائخانہ پر قابو نہیں ہے ، اس کی زندگی دوسروں کے لیے اور خود اس کے لیے بوجھ بن کر رہ گئی ہے یا وہ بالکل بے حس وحرکت ہوچکا ہے اور کوما(Coma)کی حالت میں پڑا ہوا ہے اور دواؤں اور آلہ تنفس (Ventilator)کے ذریعہ اسے زندہ رکھا گیا ہے اور ان تمام حالات میں مرض سے شفایابی کی کوئی امید نہ ہو، ایسی صورت میں کسی ذریعہ سے مریض کو موت کی میٹھی نیند سلا دینا (Eutanasia)آسان موت یا (Mercykilling) قتل بہ جذبہ رحم کہلاتاہے تاکہ خود اسے بھی سکون مل جائے اور تیماردار بھی اس تکلیف دہ صورت حال سے نجات پاجائے اور اس کے لیے دو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں:
1-عملی(Active)
یعنی مریض کی زندگی کا چراغ گل کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام کرنا جیسے مہلک دوا اور انجکشن کے ذریعہ اسے ختم کردینا یا آلہ تنفس کو اس سے الگ کردینا۔
2- غیر عملی (Passive)
یعنی مریض کو زندگی سے محروم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام نہ کیاجائے، البتہ اسے زندہ رکھنے کی جو تدبیر اختیار کی جانی چاہیے وہ نہ کیاجائے جیسے کینسر کا مریض کسی ایسے دوسرے مرض میں مثلاً نمونیہ میں مبتلا ہوجائے جو قابل علاج ہے لیکن اس کا علاج نہ کیاجائے تاکہ اس کی موت جلد واقع ہوسکے۔
عملی یوتھینزیا:
کائنات اور اس کی ہرچیز کا مالک اللہ ہے ، زندگی اور موت کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے ، انسان اپنے جسم اور جان کامالک نہیں ہے کہ جیسے چاہے اسے استعمال کرے بلکہ یہ دونوں چیزیں اس کے پاس امانت ہیں جن کے سلسلے میں وہ خود سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ہے اور نہ کسی تیماردار اور ڈاکٹر کو یہ حق ہے کہ وہ مریض کے جسم و جان کے رشتے کو کاٹ دے، اگر مریض اس کے لیے خود کوئی تدبیر اختیار کرتا ہے تو وہ خود کشی ہے اور اگر ڈاکٹر اور تیماردار کی طرف سے اسے انجام دیاجائے تو قتل ہے اور دونوں ہی اسلام کی نگاہ میں شدید ترین جرم ہیں۔
خودکشی:
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادہے:
ولا تلقوا بأیدیکم الی التھلکۃ وأحسنوا ان اللہ یحب المحسنین[سورۃ البقرہ:195]
اورخود کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالواور اچھے کام کرتے رہو ، یقینا اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسندکرتا ہے۔
اوراللہ کے رسول ﷺ سے منقول ہے :
کان فیمن کان قبلکم رجل بہ جرح فجزع فأخذ سکینا فحزّھا یدہ فما رقاء الدم حتی مات قال عزوجل بادرنی عبدی بنفسہ حرمت علیہ الجنۃ.(صحیح بخاری: 712، کتاب احادیث الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسرائیل ، صحیح مسلم 107/1 کتاب الایمان)
تم سے پہلے کے لوگوں میں ایک شخص زخمی ہوگیا وہ تکلیف کی شدت سے گھبرا کر چھری کے ذریعہ اپنے ہاتھ کو کاٹ دیا جس کی وجہ سے خون بہتا رہا یہاں تک کہ وہ مرگیا، اللہ عزوجل نے فرمایا میرے بندے نے جلدبازی سے کام لیا، لہٰذا میں نے اس پر جنت کوحرام کردیا۔
اور حضرت جابرؓ سے روایت ہے :
فلما ھاجر النبی ﷺ ھاجر الیہ الطفیل بن عمرو وھاجر معہ رجل من قومہ فاجتووا المدینۃ فمرض فجزع فاخذ مشاقص لہ فقطع بھا براجمہ فشخبت یداہ حتی مات فراہ الطفیل بن عمرو فی منامہ فرآہ وھیئتہ حسنۃ ورآہ مغطیا یدہ فقال لہ ما صنع بک ربک فقال غفرلی بھجرتی الی النبی ﷺ فقال ما لی اراک مغطیا یدیک قال قیل لی لن نصلح منک ما أفسدت فقصھا الطفیل علی الرسول ﷺ فقال رسول اللہ ﷺ ولیدیہ فاغفر(صحیح مسلم 109/1)
نبی ﷺ کی ہجرت کے بعد حضرت طفیل اپنی قوم کے ایک شخص کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آئے اور ناموافق آب و ہوا کی وجہ سے وہ شخص بیمار پڑگیا اور تکلیف کی شدت سے گھبرا کر چوڑے پھل والے تیر سے اپنے ہاتھ کے پوروں کو کاٹ دیا جس کی وجہ سے بے تحاشا خون بہنے لگا اور ان کی وفات ہوگئی، حضرت طفیل نے انھیں خواب میں اچھی حالت میں دیکھا، البتہ ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے تھے،انھوں نے پوچھا کہ تیرے پروردگار نے تیرے ساتھ کیا برتاؤ کیا؟ کہنے لگے نبی ﷺ کی طرف ہجرت کی وجہ سے میری مغفرت کردی گئی۔ انھوں نے کہا تمہارے ہاتھ ڈھکے ہوئے کیوں ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ مجھ سے کہاگیا کہ جسے تم نے خود خراب کیاہے ہم اسے صحیح نہیں کریں گے، حضرت طفیل نے نبی ﷺ سے خواب کے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آنحضرت ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! اس کے ہاتھوں کو بھی بخش دے۔
ان دونوں روایتوں میں صراحت ہے کہ مرض کی تکلیف اور اذیت سے گھبرا کر بھی خودکشی جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ متعدداحادیث میں عمومی طورپر خودکشی سے منع کیاگیاہے اور اس عمل پر شدید وعید سنائی گئی ہے ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
من قتل نفسہ بحدیدۃ فحدیدتہ فی یدہ یتوجا بھا فی نارجھنم خالداً مخلداً فیھا ومن شرب سما فقتل نفسہ فھو یتحساہ فی نارجھنم خالدا مخلدا فیھا ابدا ومن تردی من جبل فقتل نفسہ فھو یتردی فی نارجھنم خالداً مخلدا فیھا۔(صحیح مسلم 104/1، کتاب الایمان)
جس کسی نے چاقو کے ذریعہ خود کو ہلاک کرلیا ہے تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیش اپنے پیٹ میں چاقو مارتا رہے گا،اور جس نے زہر پی کر اپنی جان دی ہے وہ دوزخ میں ہمیشہ اسی طرح زہر پیتا رہے گا اور جس نے پہاڑ سے گرکر خودکشی کی ہے تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ اسی طرح سے خود کو پہاڑ سے گراتارہے گا۔
ان احادیث کی روشنی میں فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ سسک سسک کر زندگی گذارنا گوارا ہے لیکن کسی بھی حال میں خودکشی کی اجازت نہیں ہے ، چنانچہ شرعی احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں اور روح و مقاصد کے ماہر و شناور عزالدین بن عبدالسلام نے لکھا ہے:
لوأصابہ مرض لایطیقہ لفرط ألمہ لم یجز قتل نفسہ۔(قواعد الأحکام 85/1)
کسی بیماری کی وجہ سے تکلیف اور اذیت ناقابل برداشت ہوجائے تب بھی خودکشی صحیح نہیں ہے۔
خودکشی تو بہت بڑی بات ہے ، دنیاوی مصیبت و آزمائش اور تکلیف و پریشانی سے گھبرا کر موت کی تمنا اور خواہش سے بھی منع کیا گیا ہے، قیس بن ابی جازم کہتے ہیں کہ ہم حضرت خباب بن ارت کے پاس گئے، اس وقت لوہا گرم کرکے ان کے پیٹ میں سات مرتبہ داغا گیا تھا، کہنے لگے کہ اللہ کے رسول ﷺ موت کی دعا کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو اس شدید تکلیف کی وجہ سے میں مرنے کی دعا ضرور کرتا، روایت کے الفاظ یہ ہیں:
دخلنا علی خباب وقد اکتوی سبع کیات فی بطنہ فقال لوما ان رسول اللہ ﷺ نھانا ان ندعو بالموت لدعوت بہ۔(صحیح مسلم1586/1مع المنھاج کتاب الذکر والدعا ، صحیح بخاری /1220کتاب المرضی)
اور حضرت انس بن مالک اللہ کے رسول ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
لایتمنین أحدکم الموت من ضر أصابہ۔(صحیح بخاری /1220 و صحیح مسلم /1586)
تم میں سے کوئی کسی مصیبت اور تکلیف سے دوچار ہوکر موت کی تمنا ہرگز نہ کرے ۔
اور اس کی وجہ آنحضور ﷺ نے یہ بیان فرمائی :
ولایتمنی أحدکم الموت اما محسنا فلعلہ ان یزداد خیرا واما مسیئا فلعلہ ان یستعب (صحیح بخاری/1220)
تم میں سے کوئی مرنے کی تمنا ہرگز نہ کرے کیونکہ اگر وہ نکوکار ہے تو ہوسکتاہے کہ اسے کچھ اور نیکی کرنے کا موقع مل جائے اور اگر گنہ گار ہے تو ممکن ہے کہ آئندہ زندگی میں وہ گناہوں سے بازآجائے اور توبہ کرنے کی توفیق مل جائے۔
اسلام کی نگاہ میں یہ دنیاوی زندگی کھیل اور تماشا نہیں ہے کہ اگر دل لگے، ماحول خوشگوار ہو تو اس سے دل بہلایا جائے، ورنہ اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ اگر چاہے تو ناموافق حالات سے نبردآزما ہوتا رہے اور اگر پسند کرے تو زندگی کے اس تار کو کاٹ ڈالے، بلکہ یہ ایک سنہرا موقع اور دوبارہ ہاتھ میں نہ آنے والا چانس ہے جسے ہر حال میں اسے آخرت کے کاموں کے لیے استعمال کرنا ہے۔
مصیبت میں صبر:
زندگی ایک مسلسل ابتلاء اور آزمائش کا نام ہے ، مصیبت کی بھٹی میں ڈال کر انسان کے عزم و حوصلہ اور ثابت قدمی اور احسان شناسی کو آزمایا جاتا ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادہے:
الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم أحسن عملا۔(سورۃ الملک :2)
جس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں سے کس کا عمل بہترہے۔
مصیبتوں اور آزمائشوں میں صبر اور ثابت قدمی درحقیقت زندگی کے تقاضوں پر عمل کرنے کا نام ہے اور اس کی وجہ سے خودکشی، زندگی کے تقاضوں سے فرار اور بزدلی کا نام ہے اور یقینی طور پر پہلا شخص دنیا میں بھی مدح و ستائش کا حقدار ہے اور آخرت میں بھی بے شمار اجر و ثواب اس کے انتظار میں ہے۔ انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب[سورۃ الزمر:10]
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
عجبا لأمر المومن ان أمرہ کلہ خیر ولیس ذالک لأحدالا للمومن، ان أصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ وان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ۔(صحیح مسلم ، ریاض الصالحین/34)
مومن کا معاملہ بڑا تعجب خیز ہے ، اس کا ہر معاملہ خیر ہے اور مومن کے سوا کسی اور کو یہ حاصل نہیں ہے ، اگر اسے خوشی کا موقع میسر آجائے تو اللہ کا شکر ادا کرتاہے، جس کی وجہ سے یہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے اور اگر کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے تو صبر کرتاہے جس کی وجہ سے یہ بھی اس کے لیے خیر ثابت ہوتاہے۔
مومن ہرحال میں خوش حال ہوتا ہے، اس کی کوئی حالت بری نہیں ہے ، بشرطیکہ وہ حالات کے دھارے میں بہہ نہ جائے بلکہ مومنانہ آن اور شان کو برقرار رکھے، کسی چیز کو خیر اور شر بنانے کا اختیار اس کے ہاتھوں میں ہے اور اس کے رد عمل پر منحصر ہے، کسی خوش کن چیز کااستقبال اگروہ ناچ اور گانے سے کرتاہے، اللہ کی دی ہوئی نعمت کو پاکر غرور اور اتراہٹ میں مبتلا ہوجاتاہے تو یہ نعمت اس کے لیے شر ہے اور کسی مصیبت میں گرفتار ہونے کے باوجود صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہتاہے تو یہ مصیبت بھی اس کے لیے خیر ہے۔ نیز آپؐ کا ارشاد ہے:
ما من مسلم یصیبہ اذیً شوکۃ فما فوقھا الا کفر اللہ بھا سیئاتہ وحطت عنہ ذنوبہ کما تحط الشجرۃ ورقھا۔(متفق علیہ ریاض الصالحین /39)
جب کوئی مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتاہے ،گرچہ کانٹا چبھ جائے یا اس سے بڑی کسی تکلیف دہ چیز سے دوچار ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اسی طرح سے ختم کردیتے ہیں جیسے کہ درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
من یرد اللہ بہ خیرا یصب منہ۔(رواہ البخاری، ریاض الصالحین/40)
اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتے ہیں اسے مصیبت میں مبتلا کردیتے ہیں۔
اور حضرت جابر سے روایت ہے :
یود أھل العافیۃ یوم القیامۃ حین یعطہ أھل البلاء الثواب لوان جلودھم کانت قرضت فی الدنیا بالمقاریض(رواہ الترمذی وقال الألبانی حسن، جامع الترمذی مع التحفہ 1891/2، کتاب الزہد، ط بیت الافکار الدولیۃ)
قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو اجروثواب سے نوازا جائے گا تو عافیت میں رہنے والے خواہش کریں گے کہ کاش کہ دنیا میں ان کی کھال قینچیوں سے کاٹ دی جاتی۔
مصائب و مشکلات، بیماری اور پریشان حالی میں مبتلا ہونے کے وقت صبر کی حقیقت، اس پر بے شمار اجروثواب پیش نظر رہے اور اللہ کی رحمت اور حکمت کا استحضار رہے تو پھر کوئی مصیبت، مصیبت نہیں رہ جائے گی۔
قتل ناحق:
اگر ڈاکٹر اور تیماردار کی طرف سے یہ فعل انجام دیاجاتا ہے تو وہ قتل ناحق ہے، گرچہ مریض کی طرف سے اس کی اجازت ہو اور اسلام کی نگاہ میں کسی ایک شخص کو ناحق قتل کرنا پوری انسانیت کو ہلاک کرنے کے برابر ہے ۔ اللہ عز و جل کا ارشادہے:
من قتل نفسا بغیر نفس أو فساد فکأنما قتل الناس جمیعا ومن أحیاھا فکأنما أحیا الناس جمیعا(سورۃ المائدہ:32)
جوشخص کسی کو جان کے بدلے کے بغیر اور زمین پر کسی فساد کے بغیر مار ڈالے تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو مار ڈالا اور جس نے ایک کو بچالیا تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو بچالیا۔
اور ایسے شخص کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم ہے۔
ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاءہ جھنم خالدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ وأعد لہ عذابا عظیما۔(سورۃ النساء:93)
اور جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ پڑا رہے گا اور اللہ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس کے لیے عذاب عظیم تیار رکھے گا۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے۔
لو ان أھل السماء والارض اشترکوا فی دم مومن لاکبھم اللہ فی النار۔(جامع ترمذی مع التحفہ 1326/1کتاب الدیات، باب الحکم فی الدماء وقال الالبانی صحیح)
اگر زمین و آسمان کے سب لوگ مل کر کسی مومن کو قتل کردیں تو اللہ تعالیٰ ان میں سے ہرایک کو اوندھے منھ جہنم میں ڈھکیل دیں گے۔
ہر انسانی جان قابل احترام ہے ، اسے مارنے کے درپے ہونا حرام ہے ، ڈاکٹر کی ذمہ داری ڈوبتے ہوئے شخص کو بچانے کی کوشش کرنا ہے نہ کہ کسی مریض کو موت کے کنویں میں ڈھکیل دینا ہے، اس کی طرف سے اس طرح کی کوئی کوشش جان بوجھ کر قتل کردینے کے برابر ہے، کتاب و سنت میں ان جرائم کی وضاحت کردی گئی ہے جس کی وجہ سے کسی انسان کا خون حلال ہوجاتا ہے اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لایحل دم امرء مسلم یشھد ان لا الٰہ الا اللہ الا باحدی ثلاث النفس بالنفس والثیب الزانی والمفارق لدینہ التارک الجماعۃ(متفق علیہ)
کسی مسلمان کا خون جو لاالٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو حلال نہیں ہے سوائے تین باتوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے، اس نے ناحق کسی کو قتل کر دیا ہو، شادی شدہ ہوتے ہوئے زنا کا ارتکاب کرلیا ہو، یا دین سے مرتد ہوگیا ہو۔
ان تین صورتوں کے علاوہ کسی بھی صورت میں کسی مسلمان کو قتل کردینا حلال نہیں ہے، گرچہ مقتول کی طرف سے اس کی اجازت ہو کیونکہ جس طرح سے کسی کے لیے خودکشی جائز نہیں ہے، اسی طرح سے اسے خود کو قتل کرنے کے لیے اجازت دینا بھی حلال نہیں ہے، چنانچہ فقہاء کرام کہتے ہیں کہ اگرکوئی شخص دوسرے سے کہے کہ مجھے قتل کردو اور اسے قتل کردیا تو خون بہا واجب ہوگی۔(ردالمحتار 255/10)بلکہ اگر کوئی شخص بھوک کی وجہ سے مر رہا ہے اور دوسرا اسے پیشکش کرے کہ میرے ہاتھ کو کاٹ کر کھالو اور اپنی زندگی بچالو تو یہ حلال نہیں ہے، اس لیے کہ انسانی گوشت مجبوری کی حالت میں بھی حلال نہیں ہے۔(ایضاً،488/9)
جان کی حفاظت:
جان کی حفاظت اور اس کے لیے ضروری تدبیروں کو اختیار کرنا بھی فرض ہے، یہاں تک کہ اگر جان جانے کا خطرہ ہو تو حرام، مردار بلکہ خنزیر کھاکر بھی بھوک مٹائی جائے گی اور جان کی حفاظت کی جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
انما حرم علیکم المیتتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ ان اللہ غفور رحیم(سورۃ البقرہ/172)
تمہارے لیے حرام ہے مردار، خون ، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جسے اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیاگیا ہو ، البتہ اگر بھوک کی وجہ سے جان کا خطرہ ہوتو انھیں کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ضرورت سے زیادہ اور لذت چشی مقصود نہ ہو، بیشک اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ بھوک کی وجہ سے مرنے کے قریب ہوجائے تو مذکورہ چیزوں میں سے جو ہاتھ آجائے اسے کھاکر زندگی بچانا فرض اور ضروری ہے اوراگر ان چیزوں کے نہ کھانے کی وجہ سے مرجائے تو گنہہ گار ہوگا۔ علامہ طبری نے مشہور تابعی حضرت مسروق کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ایسا شخص جہنمی ہوگا ، گویا کہ وہ خودکشی کا مجرم ہے(تفسیرماجدی 312/1-313)اور علامہ ابوبکر جصاص حنفی فرماتے ہیں کہ مضطر کے لیے مردار کھانا فرض ہے، اگر وہ اسے نہ کھائے اور موت واقع ہوجائے تو وہ خود اپنا قاتل ہوگا۔(اکل المیتۃ فرض علی المضطر والاضطرار یزیل الحرز ومتی امتنع المضطر من اکلھا حتی مات صار قاتلا لنفسہ(احکام القرآن25/1)
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
یاعباد اللہ تداووا فان اللہ لم یضع داء الا وضع لہ دواء.(جامع ترمذی مع التحفہ 1680/2 کتاب الطب، باب ماجاء فی الدواء والحث علیہ وصححہ الالبانی)
اللہ کے بندو! دوا علاج کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری پیدا کی ہے اس کے لیے علاج بھی اتارا ہے۔
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
لکل داء دواء فاذا اصیب دواء الداء بری باذن اللہ۔(صحیح مسلم/1376، کتاب السلام، باب لکل داء دواء)
ہر مرض کے لیے علاج ہے، جب دوا مرض کو لگ جاتی ہے تو اللہ کی اجازت سےشفایابی ہوتی ہے۔
ان احادیث میں مریض، ڈاکٹر، تیماردار ہرایک کی ذمہ داری بتلائی گئی ہے کہ وہ دوا اور علاج میں اپنی آخری کوشش صرف کردیں اور کسی بھی حال میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، دوسرے یہ کہ کوئی مرض لاعلاج نہیں ہے ، اس لیے علاج کرنے والوں کے لیے یہ ضروری ہے وہ اپنی تلاش و جستجو کو جاری رکھیں ، کتنی بیماریاں لاعلاج سمجھی جاتی تھیں لیکن مسلسل کوشش کے ذریعہ ان کا علاج دریافت کرلیاگیا۔ جرمنی کے ایک ڈاکٹر نے اپنے زیر علاج کینسر میں مبتلا ایک خاتون کو اسی جذبہ رحم کے تحت موت کی نیند سلا دی اور ایک عرصہ کے بعد خود اسی نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایک ایسا مادہ دریافت کرلیا ہے جس سے کینسر کا کامیاب علاج کیاجاسکتاہے۔ ان احادیث کے ذریعہ یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ دوا علاج توکل کے خلاف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو اسباب و وسائل پیدا کیے ہیں انھیں اپنانا ہے اور اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے ۔ البتہ فائدہ اللہ کی مرضی اور مشیت پر موقوف ہے اور قضاء و قدر کا فیصلہ ہرچیز پر غالب ہے۔اور فقہ و فتاویٰ کی مشہور کتاب ہندیہ میں ہے۔
ضرر کو زائل کرنے کے والے اسباب تین طرح کے ہیں، جن کے ذریعہ ضرر کا ختم ہونا قطعی اور یقینی ہو جیسے روٹی کے ذریعہ بھوک مٹانا اور پانی کے ذریعہ پیاس بجھانا، ایسے اسباب جن سے ضرر کے زائل ہونے کا گمان غالب ہو جیسے فصد کھولنا، پچنا لگانا، دست آور دوا پینا اور اس کے علاوہ علاج و معالجہ کے دیگر طریقے…وہ اسباب جن کے ذریعہ ضرر کا ختم ہونا موہوم ہو جیسے جھاڑپھونک اور داغنا، پہلی قسم کے اسباب کو اختیار نہ کرنے کو توکل نہیں سمجھاجائے گا بلکہ موت کے اندیشے کے وقت اس کو ترک کردینا حرام ہے، دوسری قسم کے اسباب کو اختیار کرنا بھی توکل کے خلاف نہیں ہے۔ البتہ ترک کردینا بھی باعث گناہ نہیں ہے، البتہ تیسری قسم کو اختیار کرنا توکل کے برخلاف ہے۔(الھندیہ355/5)
اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ علاج و معالجہ کے عمومی طریقے جن کے ذریعہ شفایابی یقینی نہیں ہے عام حالات میں مستحب اور بہتر ہیں لیکن اگر شفایابی یقینی ہو یا جان کی حفاظت اس پر موقوف ہوتو ایسی صورت میں علاج سے غفلت اور کوتاہی باعث گناہ ہے، چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کشتی میں سوار ہو اور اس میں آگ لگ جائے اور اسے امید ہوکہ دریا میں کودنے سے اس کی جان بچ سکتی ہے تو ایسی صورت میں اس پر کودنا واجب ہوگا۔[اذا احترقت السفینۃ وغلب علی ظنھم انھم لو القوا انفسھم فی البحر خلصوا بالسباحۃ یجب علیھم ذالک(الھندیہ36/5)
لہٰذا قتل بہ جذبہ رحم کی دوسری شکل بھی ناجائز اور حرام ہوگی جس میں مریض کو قابل علاج مرض کی دوا نہیں دی جاتی ہے تاکہ وہ جلدی مرجائے۔
دوسرے یہ کہ علاج کو جائز اور بہتر اس وقت کہاگیاہے جب کہ اس کا مقصد اللہ پر توکل اور اس کے فیصلہ پر راضی رہنا ہے، برخلاف غیر عملی ایتھنزیا کے کہ اس میں ترک علاج کا مقصد مریض کی جان لینا ہے، اور ظاہرہے کہ مقصد کی تبدیلی سے حکم بھی بدل جائے گا۔
آلۂ تنفس کو ہٹا لینا:
اگر مریض کو آلہ تنفس لگا دیا گیا اور اس مرض سے شفایابی کی امید ہو نیز مریض کے مال سے یا اس کے وارثوں اور کسی اور ذریعہ سے علاج جاری رکھنا ممکن ہو تو ایسی صورت میں آلہ تنفس کو ہٹا لینا جائز نہ ہوگا اور یہ بھی قتل کے دائرہ میں آئے گا لیکن اگر استطاعت نہ ہو پھر اسے ہٹا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لیے کہ انسان وسعت کے مطابق ہی شرعی احکام کا مکلف ہوتاہے۔ لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔
اسی طرح سے اگر شفایابی کی امید نہ ہو اور وہ زندگی کے بالکل آخری مرحلے میں ہو تو اس وقت بھی اس طرح کے آلات کو نکال لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[فی الجراحات المخوفۃ و القروح العظیمۃ…وان قیل لاینجو اصلا لایداوی بل یترک۔(ایضاً،354/5)
تیماردار کا اجر:
خود غرضانہ ذہنیت انسان کو ایک خونخوار حیوان بنادیتی ہے، وہ ہرچیز کو نفع اور نقصان کے ترازو پر تولتا ہے اور جس چیز میں مادی نفع دیکھتا ہے اس کی طرف لپک کر جاتاہے، چاہے اس کی وجہ سے اخلاق و کردار کا جنازہ نکل جائے، شرم و حیا آنسو بہائے اور انسانیت ماتم کرے اور جس چیز میں مادی نقصان ہو وہ قابل ترک ہے، گرچہ وہ اخلاقیات کا خزانہ اور روحانیات کا سرچشمہ کیوں نہ ہو۔
یہی وہ ذہنیت ہے جو مریض اور کمزور کو اپنے لیے بوجھ سمجھتی ہے اور یہ خیال کرتی ہے کہ ناکارہ، اپاہج اور بستر پر پڑے ہوئے انسانوں کو زندہ رہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اپنی اس خودغرضی بلکہ سخت دلی اور بے دردی کو خوبصورت الفاظ کے پردے میں چھپا لیتی ہے کہ ایسے لوگوں کو موت کی نیند سلا دینا اس کے لیے ہمدردی ہے۔ یہ جذبہ رحم ہے جو ہمیں آمادہ کرتاہے کہ کراہتے اور بلکتے ہوئے زندگی کے دن کاٹنے سے بہتر ہے کہ اسے شاندار اور خوشگوار موت سے ہم کنار کردیاجائے۔
یہ سوچ اور فکر اسلامی شریعت بلکہ انسانیت کے برخلاف ہے، اسلام نے ہمیں یہ عقیدہ اور ایمان دیا ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جسم و جان ہمارے پاس امانت ہے، جس کی حفاظت ہم پر فرض ہے ، خوشی اور راحت، غم اور مصیبت، ہر ایک میں ہمارے لیے بھلائی ہے اور شکرو صبر بے شمار اجروثواب کا ذریعہ ہے، اس لیے بندہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہرحال میں اللہ کے فیصلے پر راضی رہے، جواس کے رشتہ داروں اور ڈاکٹروں بلکہ خود اس سے زیادہ رحم دل ہے جو اس کی موت کی صلاح دیتے ہیں، وہ اپنے بندوں پر ماں سے بھی زیادہ شفیق اور مہربان ہے، اس لیے مرض کی شدت اور اذیت میں اس کے لیے کیاکیا نعمتیں اور اجروثواب پوشیدہ ہیں اس کے سوا کون جان سکتاہے۔
نادار، کمزور اور بستر پر پڑے ہوئے لوگ بوجھ نہیں ہیں بلکہ صحت مندوں اور مالداروں کو روزی انھیں کی وجہ سے ملتی ہے ، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے۔
ھل تنصرون و ترزقون الا بضعفاءکم۔(ریاض الصالحین/130)
کمزوروں ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تمہیں روزی دی جاتی ہے۔
اس لیے صحت مندوں اور مالداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کا شکریہ ادا کریں اور شکریہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی مدد اور خدمت کریں۔ مریض کی عیادت اور خدمت اس کا حق ہے، اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
حق المسلم علی المسلم خمس رد السلام و عیادۃ المریض واتباع الجنائز واجابۃ الدعوۃ وتشمیت العاطس(متفق علیہ، ریاض الصالحین/319)
ایک مسلمان کا دوسرے پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازہ میں جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینکنے والے کے الحمدللہ کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا۔
اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ مریض کی خدمت مسلم معاشرہ کی مجموعی ذمہ داری ہے، اگراس کے رشتہ دار موجود ہوں تو سب سے پہلے یہ ذمہ داری انھیں پر عائد ہوتی ہے اور دوسرے لوگوں کے لیے اس کی حیثیت سنت کی ہوتی ہے اور اگر قریبی رشتہ دار موجود نہ ہوں تو پھر درجہ بدرجہ پورے سماج پر یہ فرض عائد ہوتاہے۔(شرح السنۃللبغوی 212/5)
مریض کی عیادت اور خدمت ایک ذمہ داری اور فریضہ ہے لیکن اسی کے ساتھ اس پر بیش بہا اجروثواب کا وعدہ بھی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے۔
ما من مسلم یعود مسلما غدوۃ الا صلی علیہ سبعون الف ملک حتی یمسی وان عادہ عشیۃ صلی علیہ سبعون الف ملک حتی یصبح وکان لہ خریف فی الجنۃ(رواہ الترمذی وقال حسن ریاض الصالحین/320)
جب کوئی مسلمان صبح میں کسی مسلمان کی عیادت کرتاہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور اگر شام میں جاتاہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا میں مشغول رہتے ہیں اور جنت میں اس کے لیے پھل تیار ہوں گے۔
نیزآپﷺ نے فرمایا:
ان المسلم اذا عاد اخاہ المسلم لم یزل فی خرفۃ الجنۃ حتی یرجع(رواہ مسلم، ریاض الصالحین/32)
مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتاہے تو واپسی تک وہ جنت کے باغات میں ہوتاہے۔
لہٰذا مریض کی خدمت سے اکتانا اور گھبرانا نہیں چاہیے اور اس کے سامنے بے زاری کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ عبادت اور بندگی سمجھ کر اس کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہمدردی اور شفقت و محبت کا رویہ اپنانا چاہیے کہ یہی ایمان اور اسلام کا تقاضا ہے اور یہی انسانیت ہے۔